وزارت اطلاعات ونشریات
وہ اصلی ہیں، اس لیے وہ وہی ہیں جو وہ نظر آتے ہیں: ایمی بروا، دیماسا زبان میں پہلی آئی ایف ایف آئی انڈین پینورما فلم کی ڈائریکٹر اور اداکارہ
دنیا میں رہتے ہوئے دنیا سے الگ: سیمخور، سمسا برادری کی کہانی جو دنیاوی آسائشوں سے ‘اچھوت’ رہنا چاہتی ہے
پنجی، 21 نومبر 2021
‘‘نہ تو ان کے پاس ہے اور نہ ہی وہ دنیاوی ضروریات اور آسائشیں نہ تو ان کے پاس ہے اور نہ وہ ان تک رسائی چاہتے ہیں۔ وہ اپنی موجودہ حالت پر مطمئن ہیں۔ سیمخور کے لوگ ۔وہ اصلی ہیں، اس لیے وہ وہی ہیں جو وہ نظر آتے ہیں۔’’
معروف آسامی اداکار ایمی بروا کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم سیمخور کو گوا میں منعقد ہونے والے 52ویں آئی ایف ایف آئی کے انڈین پینورما 2021 کی افتتاحی فلم کے طور پر منتخب کیا گیا ہے اور یہ الفاظ تھے ڈائریکٹر کے، جنہوں نے سمسا کمیونٹی کی زندگی کو کیمرے میں قید کرنے کی جرأت مندانہ کوشش کی۔ رسم و رواج، رسومات اور قدیم عقائد کی وجہ سے وہ لوگ بیرونی دنیا سے الگ تھلگ زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ‘سیمخور’ آئی ایف ایف آئی میں ایسا اعزاز حاصل کرنے والی دیماسا زبان کی پہلی فلم بن گئی ہے۔
اداکارہ۔ ہدایت کار ۔ اسکرین رائٹر، جو خود مرکزی کردار کا کردار ادا کرتی ہیں، نے آج گوا میں آئی ایف ایف آئی کے موقع پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی۔
فلم سیمخور کے لوگوں کے طریقوں، رسوم و رواج اورعوامی تصورات کی نمائندگی کرتی ہے جو بیرونی دنیا سے ‘اچھوت’رہنا چاہتے ہیں۔ اسے دیماسا زبان میں بنایا گیا ہے جو کہ نسلی لسانی برادری کی بولی ہے جس کے نام پر آسام اور ناگالینڈ کے کچھ حصوں میں اس کا نام رکھا گیا ہے۔
کس طرح اخبار کے ایک ٹکڑے نے انہیں اس فلم میں اپنی پہلی فلم بنانے کی طرف راغب کیا، اس بارے میں بتاتے ہوئے ایمی نے کہا، ‘‘ایک دن جب میں کھانا کھا رہی تھی ساتھ ہی ساتھ میں اخبار کی کٹنگ پڑھ رہی تھی کہ اچانک سیمخور پر ایک چھوٹی سی خبر نے مجھے چونکا دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ خبر میرے دل میں اتنی گہرائیوں تک اتر گئی کہ میں نے اس کمیونٹی کے بارے میں مزید سوچنا شروع کر دیا،’’ ۔
جستجو سے بے چین، ایمی نے ان لوگوں پر مزید تحقیقات شروع کردی اور وہ ایسے حقائق تک جا پہنچیں کہ جو عوام کی اکثریت کے لئے ناقابل قبول ہی نہیں، ناقابل تصور بھی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم لوگ 21 ویں صدی میں جی رہے ہیں اور تمام قسم کی آسائشیں میسر ہونے کے باوجود بھی ہم لوگ خوش نہیں ہیں۔سیمخور ایک اس قسم کا علاقہ ہے جہاں لوگ خوش رہتے ہیں، اس کے باوجود کہ انہیں وہ بنیادی آسائشیں بھی حاصل نہیں ہیں جو عام درجے کے لوگوں کو بھی میسر ہوتی ہیں۔
ایم ایس بروا نے بتایا کہ کس طرح اسے اپنے قریبی عزیزوں کے خیالات کے خلاف جانا پڑا، جنہوں نے ان سے کہا کہ وہ سامسا برادری سے جڑنے کا کوئی خیال بھی دل میں نہ لائیں۔ لیکن یہ ان کا عزم ہے جس نے انہیں ثابت قدم رکھا ۔ انہوں نے بتایا کہ ‘‘میرا عزم اتنا مضبوط تھا کہ میں نے 2017 میں سیمخور کا دورہ کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں میں سمجھ گئیں کہ یہ سفر اس سے زیادہ مشکل ہوگا ،جتنا مشکل اسے میں نے سمجھا تھا کیونکہ میں جانتی تھی کہ وہ باہر کے لوگوں سے قطعاً بات چیت کرنا پسند نہیں کریں گے۔’’
سیمخور کی دنیا میں اپنے قیام کے بارے میں کچھ دلچسپ کہانیاں سناتے ہوئے، ایمی نے کہا کہ انہیں ڈیماسا زبان کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں تھا اور پہلے قدم کے طور پر وہ ایک ٹیوٹر کی مدد سے ایک سال تک اس زبان کو سیکھتی رہیں۔ ایمی نے کہا، ‘‘جب مجھے یقین ہوگیا کہ میں دیماسا بولی میں اعتماد کے ساتھ بات کر سکتی ہوں، تو میں 2018 میں دوبارہ وہاں گئی،’’ ایمی نے مزید کہا کہ انہوں نے اپنے دوستوں کی مدد سے ان کے ساتھ رابطے میں رہنے کے لیے سست رفتار لیکن استقلال کے ساتھ قدم اٹھائے اور آخر کار اپنی اس کوشش میں وہ کامیاب ہو گئیں۔
وہاں جو کچھ ان کے سامنے آنے والا تھا، وہ کسی افسانے سے زیادہ حیران کن تھا۔ انہوں نے ان کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا ‘‘وہ بیرونی دنیا کا کوئی سامان استعمال نہیں کرنا چاہتے ۔ان کا بنیادی ذریعہ معاش زراعت ہے۔ وہ کھانا پکانے کے لیے تیل کا استعمال نہیں کرتے ،’’ انہوں نے مزید کہا کہ کوئی شخص یہ سوچ کر حیران ہوسکتا ہے کہ حکومت ان لوگوں کے لئے کچھ کیوں نہیں کر رہی ہے۔ ایمی کے مطابق یہ خیال بے بنیاد ہے کیونکہ حکومت پہلے ہی وہاں سکول اور ہسپتال بنا چکی ہے۔ انہوں نے پر مذاق انداز میں کہا کہ ‘‘ انہوں نے ان عمارتوں کو گرا دیا اور اب ان جگہوں پر پرندے پال رہے ہیں،’’۔
صرف یہی نہیں، محترمہ بروا کے مطابق، وہ بیرونی دنیا سے کچھ لینا دینا نہیں چاہتے اور نہ ہی کسی کو اپنے علاقے میں داخل ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔ یہاں یہ سوچ کر کوئی حیران ہو سکتا ہے کہ باہری دنیا کی چیزوں یا انسانوں کا تجربہ کیے بغیر وہ اس معاملے میں اس قدر سخت رویہ کیسے اپنا سکتے ہیں۔ یہاں ایمی ایک بات کی وضاحت کرتی ہیں ۔ ڈائریکٹر کے مطابق ان لوگوں نے ان سے پوچھا کہ ہمارے پاس کس چیز کی کمی ہے، کہ جس کی تلاش میں انہیں کہیں اور جانا پڑے۔ایمی نے بتایا کہ ان کا کہنا ہے کہ ‘‘ہمارے پاس یہاں سب کچھ ہے اور ہم خوش ہیں، بس ہم سے دور رہو،’’ ۔
فلم میں، وہ خود مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں اور اپنے آپ کو اس کردار میں پوری طرح ڈھال دینے کے لیے گاؤں کے سربراہ کی اجازت سے سیمخور جاتی تھیں اور وہاں ایک خاتون کی نقل کرنے کی کوشش کرتی تھیں جو 14 بچوں کی ماں ہےبہت سی قربانیوں سے جڑے اپنے غیر معمولی سفر کو شیئر کرتے ہوئے، ایمی نے کہا ۔‘‘میں ہر جگہ اس کا پیچھا کرتی تھی۔’’ اس نے مہینوں تک اپنے بالوں کو دھونا بند کر رکھا تھا تاکہ اس کے بال سِرے پر سے دو لخت ہوجائیں اور جوتے پہننا چھوڑ دیا تاکہ اس کے تلووں میں دراڑیں پڑ جائیں۔ ‘‘ اس کا کردار ادا کرنے کے لئے میں نے بھی ایک سال کے لیے بیوٹی پارلر جانا چھوڑ دیا’’۔
65 افراد پر مشتمل فلم کے عملے کو اس گاؤں میں رہنے کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں ایک پہاڑی کے قریب ڈیرے ڈالنے پڑ مجبور ہوناپڑا۔ عملے کے افراد کو روزانہ گاؤں پہنچنے کے لئے 45 منٹ پیدل چلنا پڑتا تھا۔ اپنی فلم بنانے کے دوران پیش آنے والے ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ایمی نے کہا کہ وہاں کے لوگ کالے جادو پر یقین رکھتے ہیں اور ایک دن جب انہوں نے شوٹنگ کے لیے ڈرون کا استعمال کیا تو ان لوگوں نے ہنگامہ آرائی کی۔‘‘لوگ ہم پر حملہ کرنے کے لیے آگ اور پتھر لے کر ہماری طرف دوڑ رہے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم ان پر کالا جادو کر رہے ہیں۔’’
اس واقعے کے ان کی فلم بنانے پر پڑنے والے اثرات کی وضاحت کرتے ہوئے، ایمی نے کہا، ‘‘اس رات انہوں نے اس کیمپ کو تباہ کر دیا جہاں ہم ٹھہرے ہوئے تھے۔’’
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کمیونٹی کے بارے میں ایسی فلم بنانے کے پیچھے ان کا کیا ارادہ ہے جس نے ’ ڈسٹرب نہ کریں’ کا نشان لگایا ہوا ہے، ایمی نے کہا کہ وہ دہائیوں پرانی رسومات کے پابند ہیں، اس لئے اس طرح کے فرسودہ ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنی فلم کے ذریعے انہوں نے دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ ایسے لوگ اس دنیا میں موجود ہیں اور اگر ممکن ہو تو باہر کی دنیا کو کچھ ایسے اقدامات کرنے کے لئے بھی راغب کریں جن سے وہاں کے لوگوں کو صحت کی بہتر دیکھ بھال اور بچوں کو بہتر تعلیم کی فراہمی کے ذریعہ سے ان کی زندگی کو بہتر بنایا جا سکے۔ ‘‘ لیکن، اس سب سے ان کے امن وسکون میں خلل نہیں پڑنا چاہئے ، جو اس وقت انہیں میسر ہے۔ دراصل وہ خوشی ،جس کی تلاش میں دنیا سب کچھ میسر ہونے کے باوجود بھی لگی ہوئی ہے ، ان لوگوں کو میسر ہے’’۔
شمال مشرق کی ایک فلم کو ایسا موقع دینے کے لیے آئی ایف ایف آئی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایمی نے کہا کہ پہلی بار ڈائریکٹر بننا ان کے لیے بہت بڑا کارنامہ ہے۔
فلم نے پہلے ہی بین الاقوامی میدان میں اپنی شاندار کہانی اور دلچسپی والی سنیماٹوگرافی بشمول ٹورنٹو انٹرنیشنل ویمن فلم فیسٹیول ( ٹی آئی ڈبلیو ایف ایف) کے لیے بڑا اعزاز حاصل کر لیا ہے۔ ہدایت کار اور اداکار ایمی بروا نے 25 آسامی فیچر فلموں میں کام کیا ہے اور کئی نیشنل ایوارڈ یافتہ فلموں میں مرکزی کردار ادا کیے ہیں۔
خلاصہ: دیرو کا تعلق سیمخور میں سمسا برادری سے ہے۔ جب دیرو کی موت ہو جاتی ہے، تو اس کی بیوی، جو اسسٹنٹ مڈ وائف کے طور پر کام کرتی تھی، اپنے تین بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ اس نے اپنی اکلوتی بیٹی موری، جس کی عمر صرف گیارہ سال ہے، کی شادی دینار کے ساتھ کردی۔ بدقسمتی سے، موری ایک بچی کو جنم دینے کے بعد مر جاتی ہے۔ سیمخور کے رواج کے مطابق اگر کوئی عورت بچے کی پیدائش کے دوران مر جائے تو بچے کو ماں کے ساتھ زندہ دفن کر دیا جاتا ہے۔ لیکن دیرو کی بیوی موری کے شیر خوار بچے کی حفاظت کرتی ہے، جو سیمخور میں ایک نئی صبح کا اشارہ دیتی ہے۔
****************
(ش ح۔ش ر ۔ ف ر)
U NO. 14020
(Release ID: 1773902)
Visitor Counter : 321