سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت

موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے درکار مستقبل کی مقامی کارروائی پر ماہرین کا تبادلہ خیال

Posted On: 03 SEP 2021 4:18PM by PIB Delhi

نئی دہلی،3 ستمبر2021:ہندوستان میں مطالعہ شدہ تمام 612 اضلاع آب و ہوا کی تبدیلی کے خطرے سے دوچار ہیں ، لیکن 100 اضلاع زیادہ تر ملک کے مشرقی حصوں میں ہیں جو کہ آئی آئی ایس سی بنگلور کے ساتھ ساتھ آئی آئی ٹی منڈی اور آئی آئی ٹی گوہاٹی کے تعاون اور محکمہ سائنس و ٹیکنالوجی کی مددسے کیے گئے خطرے کے جائزے کے مطالعے کے مطابق، سب سے زیادہ کمزور ہیں۔ مشرقی ہندوستان میں ملک کی تمام آٹھ ریاستیں یعنی جھارکھنڈ،میزورم، اڈیشہ، چھتیس گڑھ، آسام، بہار، اروناچل پردیش اور مغربی بنگال میں زیادہ خطرہ سے دوچار ہیں۔ پالیسی کوآرڈینیشن اور پروگرام مینجمنٹ (پی سی پی ایم) ڈویژن ، سینئر مشیر اور سربراہ ڈاکٹر اکھلیش گپتا اور محکمہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (ڈی ایس ٹی) میں موسمیاتی تبدیلی کے ایک ماہر نے ایک پالیسی مکالمے پر روشنی ڈالی۔

سی اے پی آر ای ایس ڈی ایس ٹی جی او وی پروجیکٹ کے تحت 'آب و ہوا کی لچک کا ایجنڈاکو مقامی بنانا: وژن 2050 اور 2100' سے متعلق پالیسی مذاکرات کے افتتاحی اجلاس پر ڈاکٹر گپتا نے کہا کہ ’’ملک کے 100 انتہائی کمزور اضلاع میں سے 70 فیصد مشرقی ہندوستان کی پانچ ریاستوں آسام، بہار ، جھارکھنڈ،اتر پردیش اور اڑیسہ میں ہیں‘‘۔

ڈاکٹر گپتا نے قدرتی آفات کے قومی ادارے (این آئی ڈی ایم) ، وزارت داخلہ اور ڈی ایس ٹی نے ڈوئچے گیسلشافٹ فر انٹرنیشنل زسمیناربیٹ (جی آئی زیڈ) جی ایم بی ایچ کے اشتراک سے منعقدہ پروگرام میں واضح کیا۔

’’آئی پی سی سی کی حالیہ ورکنگ گروپ- I کی رپورٹ کے مطابق ، عالمی درجہ حرارت جو قبل صنعتی دور سے 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ چکا ہے، توقع کی جا رہی ہے کہ اگلی دو دہائیوں میں مزید 1.5 ڈگری تک بڑھنے کا امکان ہے۔ہندوستان بھی آنے والے وقت میں گلوبل وارمنگ کے زیادہ اثرات کا تجربہ کرے گا۔ گرمی کی لہر کی تعدد، شدت اور مدت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مانسون زیادہ غیر منظم ہو سکتا ہے۔ زیادہ بار خشک سالی اور سیلاب آسکتا ہے۔ ہندوستانی سمندر کی سطح میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں سمندر کی سطح میں پہلے ہی اضافہ ہوا ہے۔ سمندری طوفان کی تعداد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ سمندروں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافے کے ساتھ، سمندر کا پانی زیادہ کھارے پن کا شکار ہو سکتا ہے‘‘۔

 انہوں نے مزید کہا ’’آئندہ دو دہائیاں بہت اہم ہوں گی۔ آئی پی سی سی کے ورکنگ گروپ کی رپورٹ عالمی آب و ہوا کے اثرات کے لیے انتہائی انتباہات دیتی ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں دو ڈگری اضافہ توقع سے پہلے آ سکتا ہے۔ اس کا ہندوستان پر خاص طور پر زراعت ، صحت اور پانی کے تحفظ پر بہت زیادہاثر پڑ سکتا ہے۔ بھارت کو اس طرح کے اثرات سے نمٹنے کے چیلنج کا سامنا ہے‘‘۔

انہوں نے واضح کیا’’سائنس اور ٹیکنالوجی موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے لڑنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ خطرات تنہا واقع نہیں ہو رہے ہیں بلکہ دو یا اس سےزیادہ کے مجمعہ کےساتھ مل کر پیش آرہے ہیں۔ بین ایجنسی ، بین وزارتی اور مرکز ریاستی سطح پر بہتر کوآرڈینیشن کے ساتھ ملٹی ہیزارڈ وارننگ سسٹم لگانے کی فوری ضرورت ہے۔ ہندوستان نے موافقت اور تخفیف دونوں شعبوں میں آب و ہوا کی کارروائی میں کچھ شاندار پیش رفت کی ہے۔ ڈی ایس ٹی کے موسمیاتی تبدیلی کے پروگرام نے کچھ بہترین پیش رفت کی جس نے ملک میں آب و ہوا کی تحقیق کو وسعت دینے میں مدد کی ہے‘‘۔

این آئی ڈی ایم ، ایم ایچ اے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، میجر جنرل ایم کے بندال نے خبردار کیا کہ خطرے سر پرپہنچ گیا ہے ، جانوں اور معاش کی حفاظت کے لیے معلومات تک تیزی سے رسائی کی ضرورت ہے اور ایس ٹی آئی کا استعمال موسمیاتی تبدیلی کے مسائل سے لڑنے کی کلید ہے۔

جرمنی کی وفاقی ری پبلک کے سفارتخانے کیاقتصادی تعاون اور فروغ کی سربراہ کرسٹین ہرونیمس نے کہا ’’آئی پی سی سی کی چھٹی رپورٹ نے اب کم کرنے کے لئےبٹن دبادیا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ مقامی طور پر کام کیا جائے۔ اچھی پالیسیوں کو عملی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ ہم ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر ایکشن پلان کو مقامی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں‘‘۔

سکم ایس ڈی ایم اے کے وائس چیئرمین پروفیسر وی کے شرما نے کہا ’’ہمیں مقامی سطح پر ، بلدیاتی سطح پر علاقائی اور مقامی نقطہ نظر کے ساتھ اور پنچایت کی سطح پر بھی کچھ کرنا پڑے گا‘‘۔

این ڈی ایم اے کے ممبر کمل کشور نے بہت وسیع النظر وژن ، خطرات کو متنوع بنانے اور پالیسی میں مسلسل نظر ثانی کے ساتھ کارروائی کی اپیل کی جبکہ این آئی ڈی ایم کی ای سی ڈی آر ایم ڈویژن کے سربراہ پروفیسر انیل کے گپتا نے خدشات کو مقامی کارروائی میں تبدیل کرنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔

یہ اعلیٰ سطحی مکالمہ مستقبل کے آب و ہوا کے منظر نامے اور چیلنجوں، سائنس،ٹیکنالوجی اور پالیسی کے انضمام اور لوکلائزیشن کے لیے طویل مدتی وژن کی نشاندہی کرے گا۔ یہ موسمیاتی لچک کے لیے مالیاتی میکانزم اور گورننگ ٹولز کو بھی سمجھے گا اور مؤثر ٹولز کے لیے خلل ڈالنے والی ٹیکنالوجی کے اثرات کا تصور کرے گا۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image00138F6.jpg

*****

U.No.8725

(ش ح - اع - ر ا)   



(Release ID: 1752971) Visitor Counter : 147


Read this release in: English , Hindi , Bengali , Tamil