وزیراعظم کا دفتر

شکشک پرو کے افتتاحی کنکلیو سے وزیراعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 07 SEP 2021 1:07PM by PIB Delhi

 

نئی دہلی:07؍ستمبر2021:

نمسکار!

شکشک پرو کے اس اہم پروگرام میں ہمارے ساتھ جڑ رہے ہیں کابینہ کے میرے ساتھی جناب دھرمیندر پردھان جی، محترمہ ان پورنا دیوی جی، ڈاکٹر سبھاس سرکار جی،ڈاکٹر راج کمار رنجن سنگھ جی، ملک کے الگ الگ ریاستوں کے عزت مآب وزرائے تعلیم ، قومی تعلیمی پالیسی کا خاکہ تیار کرنے والی کمیٹی کے صدر ڈاکٹر کستوری رنگن جی ، ان کی ٹیم کے سبھی معزز ارکان ، پورے ملک سے ہمارے ساتھ موجود سبھی دانشور ، اساتذہ اور پیارے طلباء

میں سب سے پہلے ، قومی ایوارڈ پانے والے ہمارے اساتذہ کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں ۔ آپ سبھی نے مشکل وقت میں ملک میں تعلیم کے لیے ، طلباء کے مستقبل کے لیے جو ایک اہم کوشش کی ہے، تعاون دیا ہے، وہ بیش قیمت ہے، قابل ستائش ہے۔ اس پروگرام میں ہمارے جو طلباء موجود ہیں ، میں ان کے بھی چہرے اسکرین پر دیکھ رہا ہوں ۔ ڈیڑ ھ ۔دو برسوں میں پہلی مرتبہ ایک الگ سی چمک آ پ کے چہروں پر نظر آ رہی ہے۔ یہ چمک ممکنہ طور پر اسکول کھلنے کی لگتی ہے۔ طویل عرصے بعد اسکول جانا ، دوستوں سے ملنا، کلاس میں پڑھائی کرنا ، اس کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ لیکن جوش کے ساتھ ساتھ کورونا کے اصولوں پر بھی عمل درآمد ہم سب کو، آپ کو بھی پوری سختی کے ساتھ کرنا ہے۔

ساتھیو!

آج شکشک پرو کے موقع پر کئی نئی اسکیموں کا آغاز ہوا ہے۔ اور بھی ہم نے ایک چھوٹی سی فلم کے ذریعہ ان سبھی اسکیموں کے بارے میں جانکاری حاصل کی ہے۔ یہ پہل اس لیے بھی اہم ہے کیوں کہ ملک ابھی آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ آزادی کے 100 سال پورے ہونے پر بھارت کیسا ہوگا ، اس کے لیے آج بھارت نئے عہد کر رہا ہے۔ آج جو اسکیمیں شروع ہوئی ہیں وہ مستقبل کے بھارت کو ایک نئی شکل دینے میں ایک اہم کردار ادا کرے گی۔ آج ودیانجلی-2.0 ، نشٹھا -3.0، ٹاکنگ بکس اور یو ڈی ایل پر مبنی آئی ایس ایل ڈکشنری جیسے نئے پروگرام اور سہولیات لانچ کی گئی ہے۔ اسکول میں معیاری تجزیے اور یقین دہانی کے فریم ورک یعنی ایس کیو اے اے ایف جیسی جدید شروعات ہوئی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ یہ نہ صرف ہمارے تعلیمی نظا م کو عالمی طور پر مسابقتی بنائیں گی بلکہ ہمارے نوجوانوں کو بھی مستقبل کے لیے تیار بنانے میں بہت مدد کریں گی۔

ساتھیو!

اس کورونا کے دور میں آپ سبھی دکھا چکے ہیں کہ ہماری تعلیمی نظام کی صلاحیت کتنی زیادہ ہے۔ چیلنج بہت زیادہ تھے لیکن آپ سبھی نے ان چیلنجوں کا تیزی سے حل بھی نکالا۔ آن لائن کلاسز ، گروپ ویڈیو کال ، آن لائن پروجکٹس ، آن لائن اکزام ، پہلے ایسے الفاظ بھی بہت سے لوگوں نے سنے ہی نہیں تھے۔ لیکن ہمارے اساتذہ نے ، والدین نے، ہمارے  نوجوانوں نے انہیں آسانی کے ساتھ روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنا دیا۔

ساتھیو!

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی ان صلاحیتوں کو آگے بڑھائیں ۔ ہم نے اس مشکل وقت میں جو کچھ سیکھا ہے اسے ایک نئی سمت دیں۔ خوش قسمتی سے آج ایک طرف ملک کے پاس بدلاؤ کا ماحول ہے تو ساتھ ہی نئی قومی تعلیمی پالیسی جیسی جدید اور مستقبل پر مبنی پالیسی بھی ہے اس لیے پچھلے کچھ عرصے سے ملک لگاتار تعلیم کے شعبے میں ایک کے بعد ایک فیصلے کر رہا ہے۔ ایک تبدیلی ہوتے دیکھ رہا ہے۔ اور اس کے پیچھے جو سب سے بڑی قوت ہے ، اس سمت میں آپ سبھی دانشوروں کا دھیان دلانا چاہتا ہوں ۔ یہ مہم صرف پالیسی پر مبنی نہیں ہے بلکہ شرکت پر بھی مبنی ہے۔ این ای پی کی تیاری سے لے کر نفاذ تک ، ہر سطح پر ماہرین تعلیم کا ، ماہرین کا ، اساتذہ کا ، سب کا تعاون رہا ہے۔ آپ سبھی اس کے لیے قابل ستائش ہیں۔ اب ہمیں اس ساجھیداری کو ایک نئی سطح تک لے کر جانا ہے، ہمیں اس میں سماج کو بھی جوڑنا ہے۔

ساتھیو!

ہمارے یہاں کہاوت ہے

واییہ کرتے وردھتے ایوم نتیم ، ودیادھنم سرو دھن پردھانم ۔

یعنی ، تعلیم سبھی اثاثوں میں ، سبھی دولتوں میں سب سے بڑی دولت ہے۔ کیوں کہ تعلیم ہی ایسی دولت ہے جو دوسروں کو دینے سے ، دان کرنے سے بڑھتی ہے، تعلیم کا دان ، تعلیم دینے والے کی زندگی میں بھی بہت بڑی تبدیلی لاتا ہے۔ اس پروگرام میں جڑے آپ سبھی اساتذہ نے بھی دل سے یہ محسوس کیا ہوگا۔ کسی کو کچھ نیا سکھا دینے کا جو سکھ اور اطمینان ہوتا ہے وہ الگ ہی ہوتا ہے۔ ودیانجلی 2.0 اسی قدیم روایت کو اب ایک  نئے کلیور میں مضبوط کرے گی۔ ملک نے سب کا ساتھ ، سب کا وکاس ، سب کا وشواس کے ساتھ سب کا پریاس کا جو عہد کیا ہے، ودیانجلی2.0اس کے لیے ایک بہت ہی اہم  پلیٹ فارم کی طرح ہے۔وائبرینٹ پلیٹ فارم کی طرح۔ اس میں ہمارے سماج کو ، ہمارے پرائیویٹ سیکٹر کو آگے آنا ہے اور سرکاری اسکولوں میں تعلیم کی افادیت بڑھانے میں  اپنا تعاون دینا ہے۔

ساتھیو!

یہ عہد قدیم سے بھارت میں سماج کی مشترکہ قوت پر بھروسہ کیا گیا ہے۔ یہ عرصے تک ہماری سماجی روایتوں کا حصہ رہا ہے۔ جب سماج مل کر کچھ کرتا ہے ، تو خواہش کے مطابق نتائج ضرور ملتے ہیں اور آپ نے یہ دیکھا ہوگا ، اور دیکھا ہے کہ گزرے کچھ برسوں میں عوامی حصہ داری اب پھر بھارت کا قومی کردار بنتا جا رہا ہے۔ پچھلے 6-7 برسوں میں عوامی حصہ داری کی طاقت سے بھارت میں ایسے ایسے کام ہوئے ہیں جن کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ چاہے سوچھتا آندولن ہو، سہولت کو چھوڑنے کے جذبے سے ہر غریب کے گھر میں گیس کا کنکشن پہنچانا ہو ، غریبوں کو ڈیجیٹل لین دین سکھانا ہو، ہر شعبے میں بھارت کی ترقی میں عوامی ساجھیداری سے قوت حاصل کی ہے۔ اب ودیانجلی بھی اسی سلسلے میں ایک سنہرا باب بننے جا رہی ہے۔ ودیانجلی ملک کے ہر شہری کے لیے اپیل ہے کہ وہ اس میں ساجھیدار بنے ، ملک کے مستقبل کو تیار کرنے میں اپنا سرگرم کردار ادا کریں، دو قدم آگے آئیں۔ آپ ایک انجینیئر ہو سکتے ہیں، ایک ڈاکٹر ہوسکتے ہیں، ایک ریسرچ سائنٹسٹ ہو سکتے ہیں، آ پ کہیں آئی اے ایس افسر بن کر ، کہیں کے کلکٹر کے طور پر کام کرتے ہیں پھر بھی آپ کسی اسکول میں جاکر بچوں کو کتنا کچھ سکھا سکتے ہیں۔ آپ کے ذریعہ ان بچوں کو جو سیکھنے کو ملے گا اس سے ان کے خوابوں کو نئی سمت مل سکتی ہے۔ آپ اور ہم ایسے کتنے ہی لوگوں کے بارے میں جانتے ہیں جو ایسا کر بھی رہے ہیں۔ کوئی بنیک کا ریٹائرڈ مینیجر ہے لیکن اتراکھنڈ میں  ریٹائرمنٹ کے بعد دور دراز پہاڑی علاقے کے اسکول میں بچوں کو پڑھا رہا ہے۔ کوئی میڈیکل فیلڈ سے جڑا ہے لیکن غریب بچوں کو آن لائن کلاسز دے رہا ہے، ان کے لیے وسائل دستیاب کرا رہا ہے۔ یعنی آپ چاہے سماج میں کسی بھی کردار میں ہوں، کامیابی کی کسی بھی سیڑھی پر ہوں، نوجوانوں کے مستقبل کی تعمیر میں آپ کا کردار بھی ہے، آپ کی ساجھیداری بھی ہے۔ ابھی حال ہی میں ختم ہوئے ٹوکیو اولمپکس اور پیرا اولمپکس میں ہمارے کھلاڑیوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔ ہمارے نوجوان ان سے کتنے متاثر ہوئے ہیں ۔ میں نے اپنے کھلاڑیوں سے درخواست کی ہےکہ آزادی کے امرت مہوتسو کے موقع پر ہر کھلاڑی کم از کم 75 اسکولوں میں جائے ۔ مجھے خوشی ہے کہ ان کھلاڑیوں نے میری بات کو مان لیا ہے۔ اور میں سبھی معزز اساتذہ سے کہوں گا، پروفیسر صاحبان سے کہوں گا کہ آپ اپنے علاقے میں ان کھلاڑیوں سے رابطہ کیجیے ، ان کو اپنے اسکول میں بلائیے ۔ بچوں کے ساتھ ان کی بات چیت کروائیے ، دیکھئیے اس سے ہمارے طلباء کو کتنی تحریک ملے گی ۔ کتنے باصلاحیت طلباء کو کھیلوں میں آگے جانے کا حوصلہ ملے گا۔

ساتھیو!

آج ایک اور اہم شروعات اسکولوں میں معیاری تجزیے اور یقین دہانی کا فریم ورک یعنی ایس کیو اے اے ایف کے ذریعہ سے بھی ہورہی ہے۔ ابھی تک ملک میں ہمارے اسکولوں کے لیے ، تعلیم کے لیےکوئی ایک مشترکہ سائنسی خاکہ ہی نہیں تھا۔ مشترکہ فریم ورک کے بغیر تعلیم کے سبھی پہلوؤں جیسے کہ درسیات ، تدریسیات ، تجزیہ ، بنیادی ڈھانچہ ، شمولیت والی سرگرمی اور حکمرانی کا عمل ، ان سبھی کے لیے معیار قائم کرنا مشکل ہوتا تھا۔ اس سے ملک کے الگ الگ حصوں میں ، الگ الگ اسکولوں میں طلباء کو تعلیم میں عدم یکسانیت کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ لیکن ایس کیو اے اے ایف اب اس خلیج کو پر کرنے کا کام کرے گا۔ اس کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ اس فریم ورک میں اپنی ضرورت کے مطابق تبدیلی کرنے کی لچک بھی ریاستوں کے پاس ہوگی۔ اسکول بھی اس کی بنیاد پر اپنا تجزیہ خود ہی کر سکیں گے۔ اس کی بنیاد پر اسکولوں کو ایک یکسر تبدیلی کے لیے ہمت افزائی بھی کی جا سکے گی۔

ساتھیو!

تعلیم میں عدم یکسانیت کو ختم کرکے اسے جدید بنانے میں قومی ڈیجیٹل تعلیمی آرکیٹیکچر یعنی این –ڈیئر کا بھی بڑا کردار ہونے والا ہے۔ جیسے یو پی آئی انٹر فیس نے بیکنگ سیکٹر میں انقلاب بپا کیا ہے، ویسے ہی این-ڈیئر سبھی تعلیمی سرگرمیوں کے درمیان ایک سپر رابطے کا کام کرے گا۔ ایک اسکول سے دوسرے اسکول میں جانا ہو، یا ہائر ایجوکیشن میں ایڈمیشن ، ملٹیپل انٹری-ایکژٹ کا نظام ہو یا اکیڈمک کریڈٹ بینک اور طلباء کی صلاحیت کا ریکارڈ ، سب کچھ این –ڈیئر کے ذریعہ آسانی سے دستیاب ہوگا۔ یہ سبھی تبدیلیاں ہمارے نئے دور کی تعلیم کا چہرا بھی بنیں گی اور معیاری تعلیم میں تفریق کو بھی ختم کریں گی۔

ساتھیو!

آپ سبھی اس بات سے واقف ہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے تعلیم نہ صرف شمولیت والی ہونی چاہیے بلکہ برابری پر بھی مبنی ہونی چاہیے۔ اسی لیے آج ملک ٹاکنگ بکس اور آڈیو بکس جیسی تکنیک کو تعلیم کا حصہ بنا رہا ہے۔ آموزش کے ہمہ گیر ڈیزائن یعنی یو ڈی ایل پر مبنی 10 ہزار الفاظ پر مشتمل انڈین سائن لینگویج ڈکشنری کو بھی تیار کیا گیا ہے۔ آسام کے بیہو سے لیکر بھرت ناٹیم تک اشاروں کی زبان ہمارے یہاں صدیوں سے فن اور تہذیب کا حصہ رہی ہے۔ اب ملک پہلی بار اشاروں کی زبان کو ایک مضمون کے طور پر درسیات کا حصہ بنا رہا ہے تاکہ جن معصوم بچوں کو اس کی خاص ضرورت ہے وہ پیچھے نہ رہ جائیں۔ یہ تکنیک دویانگ نوجوانوں کے لیے بھی ایک نئی دنیا کی تعمیر کرے گی۔ اسی طرح نپن بھارت ابھیان میں تین سال سے آٹھ سال تک کے بچوں کے لیے بنیادی خواندگی اور عددی مشن لانچ کیا گیا ہے۔ تین سال کی عمر سے ہی سبھی بچے لازمی طور پر پری اسکول تعلیم حاصل کریں ۔ اس سلسلے میں ضروری قدم اٹھائے جائیں گے۔ ان سبھی کوششوں کو ہمیں کافی آگے تک لے کر جانا ہے۔ اور اس میں آپ سبھی کی ، خاص طور سے ہمارے اساتذہ دوستوں کا رول بہت ہی اہم ہے۔

ساتھیو!

ہمارے شاشتروں میں کہا گیا ہے: درشٹانتو نیو درشٹی: تری بھوون جٹھرے، سد گرو: گیان داتو''

یعنی پوری کائنات میں گرو جیسا کوئی نہیں ہوتا، کوئی برابری نہیں ہوتی ، جو کام گرو(استاد) کر سکتا ہے۔ اس لیے آج ملک اپنے نوجوانوں کے لیے تعلیم سے جڑی جو بھی کوششیں کر رہا ہے  اس کی باگ ڈور ہمارے ان اساتذہ بھائی بہنوں کے ہی ہاتھوں میں ہے۔ لیکن تیزی سے بدلتے اس دور میں ہمارے اساتذہ کو بھی نئے نظام اور تکنیک کے بارے میں تیزی سے سیکھنا ہوتا ہے۔ نشٹھا ٹریننگ پروگرام سے ، اس ٹریننگ پروگرام کا ایک اچھا سا نشٹھا آپ کے سامنے بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس نشٹھا ٹریننگ پروگرام کے ذریعہ ملک اپنے اساتذہ کو ان ہی تبدیلیوں کے لیے تیار کر رہا ہے۔ نشٹھا3.0 اب اس سمت میں ایک اور اگلا قدم ہے اور میں اسے بہت اہم قدم تصور کرتا ہوں ۔ ہمارے اساتذہ اب صلاحیت پر مبنی تدریس ، فنون کے ارتباط ، اعلی سوچ اور تخلیقی اور تنقیدی سوچ جیسے نئے طور طریقوں سے متعارف ہوں گے تو وہ مستقبل کے لیے نوجوانوں کو اور زیادہ آسانی سے تیار کر سکیں گے۔

ساتھیو!

بھارت کے اساتذہ میں کسی بھی عالمی معیار پر کھرا اترنے کی صلاحیت ہوتی ہے، ساتھ ہی ان کے پاس اپنی مخصوص پونجی بھی ہے۔ ان کی یہ مخصوص پونجی، یہ مخصوص قوت، ان کے باطن میں ہندوستانی تہذیب کی ہے۔ اور میں آپ کو ، اپنے دو تجربات بتانا چاہتا ہوں ۔ میں وزیراعظم بن کر جب پہلی بار بھوٹان گیا تو وہاں کا شاہی خاندان ہو، وہاں کے حکمرانی سے جڑے لوگ ہوں، بڑے فخر سے کہتے تھے کہ پہلے ہمارے یہاں تقریباً سبھی اساتذہ بھارت سے آتے تھے اور یہاں کے دور دراز علاقوں میں پیدل جا کر پڑھاتے تھے۔ اور جب یہ اساتذہ کی بات کرتے تھے، بھوٹان کا شاہی خاندان ہو یا وہاں کے حکمراں ، بڑا فخر محسوس کرتے تھے ۔ ان کی آنکھوں میں چمک نظر آتی تھی  ویسے ہی جب میں سعودی عرب گیا اور شاید سعودی عرب کے شاہ سے جب بات کر رہا تھا تو وہ اتنے فخر کے ساتھ مجھے اس کی وضاحت کر رہے تھے کہ مجھے بھارت کے ایک استاد نے پڑھایا ہے۔ میرا استاد بھارت کا تھا۔ اب دیکھیے استاد کے تئیں کوئی بھی شخص کہیں بھی پہنچے اس کے دل میں کیا جذبہ ہوتا ہے۔

ساتھیو!

ہمارے اساتذہ اپنے کام کو صرف ایک پیشہ نہیں سمجھتے ان کے لیے پڑھانا ایک انسانی خدمت ہے، ایک مقدس اور اخلاقی فریضہ ہے۔ اس لیے ہمارے یہاں اساتذہ اور بچوں کے درمیان پیشہ ورانہ رشتہ نہیں ہوتا بلکہ خاندانی رشتہ ہوتا ہے۔ اور یہ رشتہ ، یہ تعلق پوری زندگی کا ہوتا ہے۔ اس لیے بھارت کے اساتذہ دنیا میں جہاں کہیں بھی جاتے ہیں اپنی ایک الگ چھاپ چھوڑتے ہیں۔ اس وجہ سے آج بھارت کے نوجوانوں کے لیے دنیا میں بے شمار امکانات بھی ہیں۔ ہمیں جدید تعلیم کے ماحولیاتی نظام کے حساب سے خود کو تیار کرنا ہے اور ان امکانات کو مواقع میں بدلنا بھی ہے۔ اس کے لیے ہمیں لگاتار اختراعات کرتے رہنا ہے۔ ہمیں تدریس –آموزش کے عمل کو لگا تار ری-ڈیفائن اور ری-ڈیزائن کرتے رہنا ہوگا۔ جو جذبہ آپ نے ابھی تک دکھا یا ہے اسے ہمیں اب اور اونچا اٹھانا ہے، اور حوصلہ دینا ہے۔مجھے بتایا گیا ہے کہ شکشک پرو کے اس موقع پر آپ آج سے 17 ستمبر تک ، 17 ستمبر ہمارے ملک میں وشوکرما جینتی کے طور پر منایا جا تا ہے۔ یہ وشوکرما اپنے آپ میں تعمیر کرنے والے ہیں، کام کو تکمیل تک پہنچانے والے ہیں، جو 07 تاریخ سے 17 تاریخ تک الگ الگ موضوعات پر ورک شاپ ، سیمینار منعقد کر رہے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں ایک قابل ستائش کوشش ہے۔ ملک بھر کے اتنے اساتذہ ، ماہرین اور پالیسی ساز جب ایک ساتھ غورو فکر کریں گے تو اس سے آزادی کے امرت مہوتسو میں اس امرت کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جائے گی۔ آپ کے اس اجتماعی غوروفکر سے قومی تعلیمی پالیسی کو کامیابی کے ساتھ نافذ کرنے میں بھی کافی مدد ملے گی۔ میں چاہوں گا کہ اسی طرح آپ لوگ اپنے شہروں میں ، گاؤں میں بھی مقامی سطح پر کوشش کریں۔ مجھے یقین اس سمت میں سب کی کوششوں سے دیش کے عہد کو نئی رفتار ملے گی ۔ امرت مہوتسو میں ملک نے جو ہدف طے کیے ہیں انہیں ہم سب مل کر حاصل کریں گے۔ ان ہی نیک تمناؤں کے ساتھ آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ اور میری نیک خواہشات۔

**************

 

ش ح -   و ا۔ س ک

U. NO. 8741



(Release ID: 1752801) Visitor Counter : 283