بہت چھوٹی، چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کی وزارت
کھادی اینڈ ولیج انڈسٹریز کمیشن اور بارڈر سکیورٹی فورس نے جیسلمیر میں ریگستان بننے کے عمل کو روکنے اور دیہی معیشت کو فروغ دینے کے لئے ’پروجیکٹ بولڈ‘ کا آغاز کیا
Posted On:
28 JUL 2021 12:48PM by PIB Delhi
نئی دہلی،28؍ جولائی : راجستھان کے ریگستانی علاقوں میں ہر ے بھرے رقبے کو فروغ دینے کے لئے اپنی نوعیت کی پہلی کوششوں میں کھادی اینڈ ولیج انڈسٹریز کمیشن (کے وی آئی سی) نے منگل کے روز سرحدی سلامتی فورس (بی ایس ایف) کے تعاون سے جیسلمیر کے تنوٹ گاؤں میں بانس کے ایک ہزار پودے لگائے۔ کے وی آئی سی کے چیئر میں جناب ونے کمار سکسنیہ نے بی ایس ایف کے اسپیشل ڈی جی (مغربی کمان) جناب سریندر پنوار کی موجودگی میں اس اہم شجر کاری کے پروگرام کا افتتاح کیا۔ کے وی آئی سی کے پروجیکٹ بولڈ (خشک علاقوں والی زمین پر بانس پر مبنی نخلستان ) کے حصے کے طور پر بانس لگانے کا مقصد ریگستان کو کم کرنے اور مقامی آبادی کو ذریعہ معاش فراہم کرانے اور ملٹی ڈسپلینری دیہی صنعتی مدد فراہم کرنے کے مشترکہ قومی اہداف کو پورا کرنا ہے۔
بھارت – پاکستان سرحد پر لونگے والا پوسٹ کے پاس واقع معروف تنوٹ ماتا مندر کے پاس 2.50 لاکھ مربع فٹ سے زیادہ گاؤں پنچایت کی زمین میں بانس کے پودے لگائے گئے ہیں۔ جیسلمیر شہر سے تقریبا 120 کلو میٹر دور واقع ، تنوٹ راجستھان میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے سیاحتی مقامات میں سے ایک بن چکا ہے۔ کے وی آئی سی نے سیاحوں کو راغب کرنے کے لئے تنوٹ میں بانس پر مبنی گرین علاقے کو فروغ دینے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ان بانس کے درختوں کے رکھ رکھاؤ کی ذمہ داری بی ایس ایف کی ہوگی۔
پروجیکٹ بولڈ، 4 جولائی کو راجستھان کے اودھے پور ضلع کے ایک قبائلی گاؤں نچلا منڈوا سے شروع کیا گیا تھا، جس کے تحت 25 بیگھہ خشک زمین پر بانس کی مخصوص اقسام کے پانچ ہزار پودے لگائے گئے تھے۔ یہ پہل زمین کی زرخیزی کو برقرار رکھنے اور ملک میں زمین کے بنجر ہونے سے روکنے کے لئے وزیراعظم جناب نریندر مودی کے زور دیئے جانے کے عین مطابق ہے۔ ملک کی آزادے کے 75 سال مکمل ہونے کے موقع پر ’’آزادی کا امرت مہوتسو‘‘ منانے کے لئے کے وی آئی سی کے ’’کھادی بانس مہوتسو‘‘ کے حصے کے طور پر یہ پہل شروع کی گئی ہے۔
کھادی اور ولیج انڈسٹریز کمیشن کے چیئر مین نے کہا کہ ، جیسلمیر کے ریگستان میں بانس کے پودوں کی روپائی کئی مقاصد کی تکمیل کرے گی، جن میں زمین کو بنجر ہونے سے روکنا ، آب وہوا میں تحفظ اور دیہی اور بانس پر مبنی صنعتوں کو فروغ دے کر ترقی کا مستقل ماڈل قائم کرنا شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ تین برسوں میں یہ بانس کٹائی کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ جناب سکسینہ نے کہا کہ اس پہل سے ایک طرف جہاں مقامی دیہی لوگوں کے لئے بار بار ہونے والی آمدنی کے مواقع پیدا ہو ں گے وہیں، لونگے والا پوسٹ اور تنوٹ ماتا مندر جیسے ایک مقبول ومعروف سیاحتی مقام پر آنے والے سیاحوں کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے کے وی آئی سی اس مقام پر بانس پر مبنی گرین علاقے کو فروغ دے گا۔ انہوں نے بہت ہی کم وقت میں پروجیکٹ کو نافذ کرنے میں بی ایس ایف کی مدد کو سراہا۔
آئندہ تین برسوں میں یہ ایک ہزار بانس کے پودے کئی گنا بڑھ جائیں گے اور تقریبا 100 میٹرک ٹن بانس کے وزن والے کم سے کم 4 ہزار بانس کے لٹھوں کو پیدا کریں گے۔ موجودہ پانچ ہزار روپے فی ٹن کی بازار شرح پر یہ بانس تین سال بعد اور اس کے بعد ہر سال تقریبا 5 لاکھ روپے کا ذریعہ معاش پیدا کریں گے، اس طرح سے مقامی معیشت کو اس سے کافی فروغ ملے گا۔
بانس کا استعمال اگربتی کی اسٹک بنانے، فرنیچر، دستکاری،موسیقی آلات اور کاغذ کی لگدی بنانے کے لئے کیا جاسکتا ہے، جب کہ بانس کے کچرے کا عام طور پر لکڑی کا کوئلہ اور ایندھن بر یکیٹ بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بانس ،پانی کے تحفظ کے لئے بھی جانے جاتے ہیں، اسی لئے یہ بنجر اور زیادہ خشکی والے علاقوں میں کافی فائدے مند ہوتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ش ح- ف ا- ق ر)
U-7174
(Release ID: 1740265)
Visitor Counter : 236