وزیراعظم کا دفتر

من کی بات کے 79 ویں   کڑی میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن ( 25 جولائی ، 2021 ء  )

Posted On: 25 JUL 2021 11:42AM by PIB Delhi

 

نئی دلّی ،25 /

میرے پیارے ہم وطنو ،  نمسکار !

دو دن پہلے کی کچھ خوبصورت تصویریں ، کچھ یاد گار پل ، اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہیں  ۔ اس لئے اِس مرتبہ ’’ من کی بات‘‘ کی شروعات ، انہی لمحوں سے کرتے ہیں ۔ ٹوکیو اولمپکس میں بھارتی کھلاڑیوں کو ترنگا لے کر چلتے دیکھ کر میں ہی نہیں ، پورا ملک جھوم اٹھا ۔  پورے ملک نے جیسے ایک ہوکر اپنے اِن جانبازوں سے کہا –

تمہاری فتح ہو ! تمہاری فتح ہو !

جب یہ کھلاڑی بھارت سے روانہ ہوئے تھے تو مجھے ان کے ساتھ گپ شپ کرنے کا ، ان کے بارے میں جاننے اور ملک کو بتانے کا موقع ملا۔ یہ کھلاڑی زندگی کے بہت سے چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں۔ آج ، ان کے پاس  آپ کی محبت اور حمایت کی قوت  ہے۔ اس لئے آئیے مل کر اپنے تمام کھلاڑیوں کو  اپنی نیک خواہشات پیش کریں، ملک کا حوصلہ بڑھائیں ۔ سوشل میڈیا پر اولمپکس کھلاڑیوں کی حمایت کے لئے ہمارا وِکٹری پنچ کمپین اب شروع ہو چکا ہے ۔ آپ بھی اپنی ٹیم کے ساتھ اپنا وِکٹری پنچ شیئر کریئے۔ بھارت کے لئے چیئر کریئے ۔

ساتھیو ،  جو ملک کے لئے ترنگا اٹھاتا ہے ، اُس کے احترام میں جذباتی ہو جانا فطری بات ہے ۔ حب الوطنی کا یہ جذبہ ہم سب کو جوڑتا ہے ۔ کل یعنی 26 جولائی کو  ’’ کرگل وجے دِوس ‘‘ بھی ہے۔ کرگل کی جنگ بھارتی فوجوں کی بہادری اور تحمل کی ایک ایسی علامت ہے ، جسے پوری دنیا نے دیکھا ہے۔ اس بار یہ شاندار دن ’’ امرت مہوتسو ‘‘ کے دوران منایا جائے گا ۔ اس لئے یہ اور بھی خاص ہوجاتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ کرگل کی سنسنی خیز کہانی ضروری پڑھیں ، ہم سب کرگل کے بہادروں  کو سلام پیش کریں۔

ساتھیو ،  اس مرتبہ  15 اگست کو ، ملک آزادی کے 75 ویں سال میں داخل ہورہا ہے۔ یہ ہماری بہت بڑی خوش قسمتی ہے کہ جس آزادی کے لئے ملک نے صدیوں کا انتظار کیا ، اُس کے 75 سال پورے ہونے کے ہم گواہ بن رہے ہیں ۔  آپ کو یاد ہوگا ، آزادی کے 75 سال منانے کے لئے ، ’’ امرت مہوتسو ‘‘  کا آغاز 12 مارچ کو باپو کے سابرمتی آشرم سے ہوا تھا۔ اس دن باپو کی ڈانڈی یاترا کی بھی تجدید کی گئی تھی ،  تب سے جموں و کشمیر سے پڈوچیری تک ، گجرات سے شمال مشرق تک ، ’’امرت مہوتسو ‘‘  سے متعلق پروگرام پورے ملک میں جاری ہے۔ ایسے بہت سارے واقعات ، ایسے جدو جہد آزادی کے سپاہی، جن کا تعاون تو بہت زیادہ ہے لیکن اُن کا ذکر اتنا نہیں ہو پایا ، آج لوگ ان کے بارے میں بھی جان رہے  ہیں۔ اب ، مثال کے طور پر ، موئیرانگ ڈے کو ہی لے لیجئے ! منی پور کا ایک چھوٹا سا قصبہ ، موئیرانگ ، کسی زمانے میں نیتا جی سبھاش چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی یعنی ( آئی این اے )  کا ایک اہم  ٹھکانہ  تھا۔ یہاں ، آزادی سے قبل ہی ، آئی این اے کے کرنل شوکت ملک نے پرچم لہرایا تھا۔ ’’ امرت مہوتسو ‘‘ کے دوران 14 اپریل کو اسی موئیرانگ میں ایک بار پھر ترنگا لہرایا گیا۔  ایسے بہت سے آزادی کے سپاہی اور عظیم شخصیات ہیں ، جنہیں ’’ امرت مہوتسو ‘‘ میں ملک یاد کر رہا ہے ۔ حکومت اور سماجی اداروں کی طرف سے بھی لگاتار اس طرح کے پروگراموں کا انعقاد کیا جا رہا ہے ۔ ایسا ہی ایک پروگرام اس مرتبہ  15 اگست کو ہونے والا ہے ۔ یہ ایک کوشش ہے – قومی ترانے سے جڑی ہوئی ۔  ثقافت کی وزارت کی کوشش  ہے کہ اس دن ہندوستان کے زیادہ سے زیادہ لوگ قومی ترانہ ایک ساتھ مل کر گائیں ۔ اس کے لئے ایک ویب سائٹ بھی بنائی گئی ہے  Rashtragan.in۔ اس ویب سائٹ کی مدد سے آپ قومی ترانہ گاکر ، اُسے ریکارڈ کر سکیں گے، اس مہم سے جڑ سکیں گے ۔  مجھے امید ہے کہ آپ اس انوکھی پہل سے ضرور جڑیں گے ۔ اسی طرح کی بہت ساری مہم ، بہت ساری کوششیں آپ کو آنے والے دنوں میں دیکھنے کو ملیں گی ۔ ’’  امرت مہوتسو ‘‘ کسی حکومت کا پروگرام نہیں ہے ، کسی سیاسی پارٹی کا پروگرام نہیں ہے ، یہ پوری طرح ہندوستانیوں کا پروگرام ہے ۔ ہر آزاد  اور ممنون ہندوستانی کا اپنے آزادی کے سپاہیوں کو سلام  ہے اور اس مہوتسو کا بنیادی جذبہ تو بہت وسیع ہے ۔ یہ جذبہ ہے ، اپنے جدو جہد آزادی  کے سپاہیوں کے راستے پر چلنا ، اُن کے خوابوں کا ملک بنانا  ، جیسے – ملک کی آزادی کے متوالے ، آزادی کے لئے متحد ہوگئے تھے ، ویسے ہی ہمیں ملک کی ترقی کے لئے متحد ہونا ہے ۔ ہمیں ملک کے لئے جینا ہے ،  ملک کے لئے کام کرنا ہے اور اس میں چھوٹی چھوٹی کوششوں سے بھی بڑے نتائج حاصل ہو جاتے ہیں ۔ روز مرہ کے کام کرتے ہوئے بھی ہم قوم کی تعمیر کر سکتے ہیں ، جیسے ووکل فار لوکل   ۔ ہمارے ملک کے مقامی صنعت کاروں ، فن کاروں ، دست کاروں ، بنکروں کی حمایت کرنا ، ہمارے رویے میں ہونا چاہیئے ۔ 7 اگست کو آنے والا قومی یومِ ہینڈلوم ایک ایسا ہی موقع ہے ، جب ہم کوشش کرکے بھی یہ کام کرسکتے ہیں ۔ قومی یومِ ہینڈ لوم کے ساتھ بہت  تاریخی واقعہ جڑا ہوا ہے ۔ اسی دن 1905 ء میں سودیشی کی شروعات ہوئی تھی ۔

ساتھیو ، ہمارے ملک کے دیہی اور قبائلی علاقوں میں ہینڈ لوم کمائی کا ایک بہت بڑا وسیلہ ہے ۔ یہ  ایسا شعبہ ہے ، جس سے لاکھوں خواتین ، لاکھوں بنکر ، لاکھوں دست کار جڑے ہوئے ہیں ۔ آپ کی  چھوٹی چھوٹی کاوشوں سے بنکروں کو نئی امید ملے گی۔ آپ خود بھی کچھ نہ کچھ خریدیں اور اپنی بات دوسروں کو بھی بتائیں  اور جب ہم آزادی کے 75 سال کا جشن منا رہے ہیں تو  ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ایسا کریں۔ آپ نے دیکھا ہوگا ، سال 2014 ء کے بعد سے ہی  ’’ من کی بات ‘‘ میں ہم اکثر کھادی کے بارے میں بات کرتے ہیں۔  یہ آپ کی ہی کوشش ہے  کہ آج ملک میں کھادی کی فروخت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ ایک کھادی کے کسی اسٹور سے ایک دن میں ایک کروڑ سے زیادہ کی فروخت ہو سکتی  ہے! لیکن ، آپ نے یہ بھی کر دکھایا  ہے۔ جب بھی آپ کہیں بھی کھادی کی کوئی چیز خریدتے ہیں تو اس سے ہمارے غریب بنکر بھائیوں اور بہنوں کا ہی فائدہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ، کھادی خریدنا ایک طرح سے عوامی خدمت ہے ، یہ قوم کی خدمت بھی ہے۔ میں آپ سبھی عزیز بھائیوں اور بہنوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ دیہی علاقوں میں تیار کردہ ہینڈلوم مصنوعات خریدیں اور اسے #MyHandloomMyPride کے ساتھ شیئر کریں۔

ساتھیو  ، جب آزادی کی تحریک اور کھادی کی بات آتی ہے تو پوجیے باپو کو یاد رکھنا فطری بات ہے ۔ جیسے باپو کی قیادت میں ’’ بھارت چھوڑو ‘‘ مہم چلی تھی ، ویسے ہی آج ہر شہری کو  ’’ بھارت جوڑو ‘‘ مہم کی قیادت کرنی ہے ۔  یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے کام اِس طرح  کریں ، جو تنوع والے  ہمارے بھارت کو جوڑنے میں مدد گار ہو سکیں ۔  تو آیئے ہم ’’ امرت مہوتسو  ‘‘ پر  یہ امرت عہد  کریں کہ ملک ہی ہمارا سب سے بڑا عقیدہ  اور سب سے بڑی ترجیح بنا  رہے گا ۔  ’’ نیشن فرسٹ ، آلویز فرسٹ ‘‘ کے نعرے کے ساتھ ہی ہمیں آگے بڑھنا ہے ۔

میرے پیارے ہم وطنو ، آج  میں من کی بات سننے والے اپنے نوجوان ساتھیوں کا  خصوصی طور پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی  MyGov کی طرف سے  ’’ من کی بات ‘‘ کے سامعین کے بارے میں ایک مطالعہ کیا گیا تھا  ۔ اس مطالعے میں یہ دیکھا گیا کہ من کی بات کے لئے پیغامات اور مشورے بھیجنے والوں میں ، خاص طور پر کون لوگ ہیں ۔ مطالعے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ پیغامات اور تجاویز بھیجنے والوں میں تقریباً تقریباً 75 فی صد لوگ 35 سال کی عمر سے کم  ہیں یعنی بھارت کی نوجوان قوت کی تجاویز ’’ من کی بات ‘‘ کو راستہ دکھا رہی ہیں ۔  میں اسے ایک بہت اچھی علامت کے طور پر دیکھ رہا ہوں۔ ’’ من کی بات ‘‘ ایک ایسا ذریعہ ہے ، جہاں مثبت انداز اور حساسیت پائی جاتی ہے ۔ ’’ من کی بات ‘‘ میں ہم مثبت باتیں کرتے ہیں ۔ اس کا کریکٹر  اجتماعی  ہے ۔

مثبت خیالات اور مشوروں کے لئے بھارت کے نو جوانوں کی یہ سرگرمی مجھے خوش کرتی ہے ۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ’’ من کی بات  ‘‘ کے ذریعے مجھے نو جوانوں کے دِل کو بھی جاننے کا موقع ملتا ہے ۔

ساتھیو ، آپ لوگوں سے  ملے مشورے  ہی  ’’ من کی بات  ‘‘  کی اصل طاقت ہیں  ۔ آپ کی تجاویز  ’’ من کی بات  ‘‘ کے ذریعے بھارت کے تنوع کا اظہار کرتی ہیں ،  بھارت میں رہنے والوں کی خدمت اور قربانی کو چاروں طرف پھیلاتی ہیں ۔ ہمارے محنت کش نو جوانوں کے اننوویشن سب کو ترغیب دیتے ہیں ۔  ’’ من کی بات  ‘‘  میں آپ کئی طرح کے آئیڈیاز بھیجتے ہیں ۔ ہم سبھی پر تو تبادلۂ خیال نہیں کر سکتے لیکن اُن میں سے بہت سے آئیڈیا کو میں متعلقہ شعبوں کو ضرور بھیجتا ہوں   تاکہ اُن پر آگے کام کیا جا سکے ۔

ساتھیو ،  میں آپ کو  سائیں پرنیت جی کی کوششوں کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں ۔ سائیں پرنیت جی ، ایک سافٹ ویئر انجینئر ہیں ۔ آندھرا پردیش کے رہنے والے ہیں ۔ پچھلے سال انہوں نے دیکھا کہ اپنی جگہ موسم کی وجہ سے کسانوں کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ کئی سالوں سے محکمہ موسمیات میں دلچسپی لے رہے تھے ۔ لہٰذا انہوں  نے اپنی دلچسپی اور اپنی صلاحیتوں کو کسانوں کی بہتری کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب وہ موسم کے اعداد و شمار کو مختلف اعداد و شمار کے ذرائع سے خریدتے ہیں ، اس کا تجزیہ کرتے ہیں اور مقامی زبان میں مختلف ذرائع کے ذریعہ کاشت کاروں کو ضروری معلومات منتقل کرتے ہیں۔ موسم کی تازہ معلومات  کے علاوہ ، پرنیت جی الگ الگ آب و ہوا کی صورت حال میں لوگوں کو کیا کرنا چاہیئے ،  اس کی بھی رہنمائی کرتے ہیں ، خاص طور پر سیلاب سے بچنے کے لئے یا طوفان یا آسمانی بجلی کی صورت میں کیسے بچا جائے ، اس کے بارے میں بھی وہ لوگوں کو بتاتے ہے۔

ساتھیو  ، ایک طرف اس نوجوان سافٹ ویئر انجینئر کی یہ کوشش دل کو چھو لینے والی ہے ، دوسری طرف ہمارے ایک اور ساتھی کے ذریعہ ٹیکنالوجی کا استعمال بھی آپ کو تعجب کرنے پر مجبور کرے گا ۔ یہ ساتھی ہیں ،  اڈیشہ کے سنبل پور ضلعے کے ایک گاؤں میں رہنے والے جناب اسحاق منڈا جی ، جو کبھی ایک دیہاڑی مزدور کے طور پر کام کرتے تھے لیکن اب وہ ایک انٹرنیٹ سنسیشن بن گئے ہیں ۔ اپنے یو ٹیوب چینل سے وہ کافی رقم کما رہے  ہیں ۔ وہ اپنے ویڈیوز میں مقامی کھانے ، روایتی کھانے بنانے کے طریقے ، اپنے گاؤں ، اپنی طرز زندگی ، خاندان اور کھانے پینے کی عادتوں کو خاص طور سے دکھاتے ہیں ۔ ایک  یو ٹیوبر کی شکل میں ، اُن کا سفر مارچ ، 2020 ء  میں شروع ہوا تھا ، جب انہوں نے اڈیشہ کے مشہور مقامی  کھانے پکھال سے جڑا ایک ویڈیو پوسٹ کیا تھا ۔ تب سے اب تک وہ سینکڑوں ویڈیو پوسٹ کر چکے  ہیں۔  یہ کوشش کئی وجہ سے سب سے الگ ہے ، خاص طور پر اس لئے کہ اس سے شہروں میں رہنے والے لوگوں کو ، وہ طرز زندگی دیکھنے کا موقع ملتاہے ، جس کے بارے میں وہ زیادہ کچھ نہیں جانتے ۔  اسحاق منڈا جی کلچر اور کھانوں دونوں کو برابر ملاکر جشن منا رہے ہیں اور ہم سب کو تحریک بھی  دے رہے ہیں ۔

          ساتھیو ،  جب ہم ٹیکنالوجی کی بات کر رہے ہیں تو میں ایک اور دلچسپ موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ نے حال فی الحال میں پڑھا ہوگا ، دیکھا ہوگا کہ آئی آئی ٹی مدراس کے طالب علم کے ذریعے قائم کی گئی ایک اسٹارٹ اَپ نے ایک 3 ڈی پرنٹڈ ہاؤس بنایا ہے ۔ 3 ڈی پرنٹنگ کرکے گھر کی تعمیر ، آخر یہ ہوا کیسے ؟ دراصل اِس اسٹارٹ اَپ نے سب سے پہلے 3 ڈی پرنٹر میں ایک تین پہلو والے ڈیزائن کو فیڈ کیا اور پھر ایک خاص طرح کی کنکریٹ کے ذریعے پرت  دَر پرت ایک تھری ڈی ڈھانچہ تیار کر دیا ۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ملک بھر میں ، اِس طرح کی کئی کوششیں ہو رہی ہیں ۔  ایک وقت تھا ، جب چھوٹے چھوٹے تعمیری کام میں بھی کئی سال لگ جاتے تھے لیکن آج ٹیکنا لوجی کی وجہ سے بھارت میں صورتِ حال بدل رہی ہے ۔ کچھ وقت پہلے ہم نے  دنیا بھر کی ایسی  اختراعی کمپنیوں کو مدعو کرنے کے لئے ایک عالمی ہاؤسنگ ٹیکنالوجی چیلنج لانچ کیا تھا  ۔ یہ ملک میں اپنی نوعیت کی ایک انوکھی کوشش ہے ۔ لہٰذا ، ہم نے ان کو لائٹ ہاؤس پروجیکٹس کا نام دیا۔ اس وقت ملک میں 6 مختلف مقامات پر لائٹ ہاؤس پروجیکٹس پر تیز رفتاری سے کام جاری ہے۔ ان لائٹ ہاؤس پروجیکٹس میں جدید ٹیکنالوجی اور جدید طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس سے تعمیرات کا وقت کم ہوجاتا ہے نیز جو مکانات تعمیر کئے گئے ہیں ، وہ زیادہ پائیدار ، کفایتی  اور آرام دہ ہوتے ہیں۔ میں نے حال ہی میں ڈرون کے ذریعے  ان منصوبوں کا جائزہ لیا اور کام کی پیشرفت کو براہ راست دیکھا۔

اِندور کے پروجیکٹ میں ، بِرک اور مورٹار وال کی جگہ  پری فیبریکیٹڈ  سینڈویچ پینل سسٹم استعمال کیا جارہا ہے۔ راجکوٹ میں لائٹ ہاؤس فرانسیسی ٹیکنالوجی سے بنائے جا رہے ہیں ، جس میں سرنگوں کے ذریعہ  کنکریٹ کی تعمیراتی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اس ٹیکنالوجی سے بنائے گئے گھر آفات کا سامنا کرنے کے کہیں زیادہ اہل  ہوں گے۔ چنئی میں ، امریکہ اور فن لینڈ کی پری کاسٹ کنکریٹ سسٹم ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کی مدد سے مکانات تیزی سے تعمیر ہوں گے اور لاگت بھی کم آئے گی۔ جرمنی کے تھری ڈی کنسٹرکشن سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے رانچی میں مکانات تعمیر کئے جائیں گے۔ اس میں ، ہر کمرے کو الگ سے بنایا جائے گا ، پھر پورے ڈھانچے کو اسی طرح جوڑا جائے گا ، جیسے  بلاک کھلونوں کو جوڑا جاتا ہے ۔ نیوزی لینڈ کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اسٹیل فریم کے ساتھ اگرتلا میں مکانات تعمیر ہورہے ہیں ، جو بڑے زلزلوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔  وہیں لکھنؤ میں کناڈا کی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے۔  اس میں پلاسٹر اور پینٹ کی ضرورت نہیں ہوگی اور گھر کو تیزی سے بنانے کے لئے پہلے سے تیار دیواریں استعمال کی جائیں گی۔

ساتھیو، آج ملک میں یہ کوشش ہو رہی ہے کہ یہ پروجیکٹ  انکیوبیشن سینٹرز کے طور پر کام کریں ۔ اس سے ہمارے منصوبہ بندی کرنے والوں ،  آرکیٹیکٹس ، انجینئرز اور طلباء نئی ٹیکنالوجی کو جان سکیں گے اور وہ اس کے ساتھ تجربہ بھی کرسکیں گے۔ میں ان چیزوں کو خصوصاً اپنے نوجوانوں کے لئے ساجھا کر رہا ہوں تاکہ ہمارے نوجوانوں کو قوم کے مفاد میں ٹیکنالوجی کے نئے شعبوں کی طرف راغب کیا جاسکے۔

میرے پیارے ہم وطنو ،  آپ نے انگریزی کی کہاوت ضرور سنی ہوگی – ’’ ٹو لرن اِز ٹو گرو ‘‘ یعنی ’’ سیکھنا ہی آگے بڑھنا ہے‘‘ ۔ جب ہم کچھ نیا سیکھتے ہیں تو ہمارے لئے نئے نئے راستے خود بہ خود کھل جاتے ہیں ۔ جب بھی کہیں لیگ سے ہٹ کر کچھ نیا کرنے کی کوشش ہوئی ہے ، انسانیت کے لئے نئے دروازے کھلے ہیں ، ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے  اور آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب کہیں بھی کوئی نیا واقعہ ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ سب کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ اب جیسے اگر میں آپ سے پوچھوں کہ وہ کون سی ریاستیں ہیں ، جن کو آپ سیب کے ساتھ  جوڑیں گے؟ تو ظاہر ہے کہ ہماچل پردیش ، جموں و کشمیر اور اتراکھنڈ کا نام آپ کے ذہن میں سب سے پہلے آئے گا لیکن اگر میں یہ کہتا ہوں کہ آپ منی پور کو بھی اس فہرست میں جوڑ دیجئے  تو شاید آپ کو بہت تعجب ہو گا ۔  کچھ نیا کرنے کے جذبے  سے بھرے نوجوانوں نے منی پور میں یہ کارنامہ کر دکھایا ہے ۔ آج کل منی پور کے ضلع اخرول  میں سیب کی کاشت زور پکڑتی جارہی ہے۔ یہاں کے کاشتکار اپنے باغات میں سیب اُگا رہے ہیں۔ سیب اگانے کے لئے ، ان لوگوں نے ہماچل جاکر باقاعدہ ٹریننگ بھی لی ہے۔ ان میں سے ایک ہیں ، ٹی ایس رِنگپھامی یونگ ۔ یہ پیشے سے ایک ایرو نوٹیکل انجینئر ہیں ۔ انہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ ٹی ایس اینجل کے ساتھ مل کر سیب کی پیداوار کی ہے ۔ اسی طرح آوُنگ شی شمرے اوگسٹینا نے بھی اپنے باغوں میں سیب کی پیداوار کی ۔ آوُنگ شی دلّی میں جاب کرتی تھیں ۔ یہ چھوڑ کر وہ اپنے گاؤں لوٹ گئیں اور سیب کی کھیتی شروع کی ۔ منی پور میں آج ایسے کئی سیب پیدا کرنے والے ہیں ، جنہوں نے کچھ الگ اور نیا کرکے دکھایا ہے ۔

ساتھیو ، ہمارے قبائلی سماج میں بیر بہت مقبول ہوتے ہیں ۔  قبائلی سماج کے لوگ ہمیشہ سے بیر کی کاشت کرتے رہے ہیں لیکن خاص طور پر کووڈ – 19 وبائی بیماری کے بعد اس کی کاشت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بکرم جیت چکما 32 سال کے ایسے ہی نوجوان ساتھی ہیں  ، جو تری پورہ کے اناکوٹی کے رہنے والے ہیں ۔ انہوں نے بیر کی کھیتی کی شروعات کرکے بہت زیادہ منافع بھی حاصل کیا ہے اور اب وہ لوگوں کو بیری کی کاشت کرنے کے لئے بھی تحریک دے رہے ہیں ۔ ریاستی حکومت بھی ایسے لوگوں کی مدد کے لئے آگے آئی ہے۔ اس کے لئے حکومت کی طرف سے بہت ساری خصوصی نرسریاں بنائی گئی ہیں تاکہ بیر کی کاشت سے وابستہ لوگوں کی مانگ  پوری کی جاسکے۔  کھیتی میں جدت طرازی ہو رہی ہے تو کھیتی کی پیداوار میں بھی تخلیقی پہلو دیکھنے کو مل رہا ہے ۔

ساتھیو  ، مجھے اترپردیش کے لکھیم پور کھیری میں کئے گئے ایک تجربے کے بارے میں بھی پتہ چلا ہے ۔ کووڈ کے دوران ہی لکھیم پور کھیری میں ایک انوکھی پہل ہوئی ہے ۔  وہاں ، خواتین کو  کیلے کے بیکار تنوں سے فائبر بنانے کی تربیت دینے کا کام شروع کیا گیا۔  فضلے کو کارآمد بنانے کا طریقہ ۔ کیلے کے تنے کو کاٹ کر مشین کی مدد سے ’ بنانا فائبر ‘ تیار کیا جاتا ہے ، جو جوٹ یا سن کی طرح ہوتا ہے ۔  اس فائبر سے تھیلے ، چٹائی ، دری ، کتنی ہی چیزیں بنائی جاتی ہیں ۔  اس سے ایک تو فصل کے کچرے کا استعمال شروع ہو گیا ، وہیں دوسری طرف گاؤں میں رہنے والی ہماری بہن بیٹیوں کو آمدنی کا ایک ذریعہ مل گیا ۔  ’ بنانا فائبر ‘ کے اِس کام سے ایک مقامی خاتون کو  400 سے 600 روپئے یومیہ کی کمائی ہوجاتی ہے ۔ لکھیم پور کھیری میں سینکڑوں ایکڑ زمین پر کیلے کی کھیتی ہوتی ہے ۔ کیلے کی فصل کے بعد عام طور پر کسانوں کو  ، اِس کے تنے کو پھینکنے کے لئے الگ سے خرچ کرنا پڑتا تھا ۔ اب اُن کا یہ پیسہ بھی بچ جاتا ہے یعنی آم کے آم ، گٹھلیوں کے دام ، یہ کہاوت یہاں بالکل درست بیٹھتی ہے ۔

ساتھیو،ایک طرف بنانا فائبر سے سامان بنایا جارہا ہے ، وہیں دوسری طرف کیلے کے آٹے سے  ڈوسا اور گلاب جامن جیسے مزیدار کھانے بھی بن رہے ہیں ۔  کرناٹک کے شمالی کنڑ اور جنوبی کنڑ ضلعوں میں خواتین یہ نیا کام کررہی ہیں ۔ اس کا آغاز بھی کورونا دور میں ہی ہوا ہے ۔ ان خواتین نے نہ صرف کیلے کے آٹے سے ڈوسا ، گلاب جامن  جیسی چیزیں بنائی ہیں بلکہ ان کی تصویروں کو سوشل میڈیا پر شیئر بھی  کیا ہے ۔ جب زیادہ لوگوں کو کیلے کے آٹے کے بارے میں پتہ چلا تو اُس کی مانگ بھی بڑی اور ان عورتوں کی آمدنی بھی ۔ لکھیم پور کھیری کی طرح یہاں بھی اس اختراعی نظریے کی خواتین ہی قیادت کررہی ہیں ۔

دوستو، اس طرح کی مثالیں زندگی میں کچھ نیا کرنے کے لئے ترغیب فراہم کرتی ہیں۔ آپ کے آس پاس ایسے کئی لوگ ہوں گے۔  جب آپ کے کنبے کے افراد بات چیت میں مصروف ہوتے ہیں تو آپ کو بھی اس گفتگو میں حصہ لینا چاہئے۔ کچھ وقت نکال کر اپنے بچوں کے ساتھ اس طرح کی کوششوں کو دیکھنے جائیں اور اگر آپ کو موقع ملے ، تو خود بھی ایسا ہی کچھ کریں۔ اور ہاں، میں چاہوں گا کہ آپ یہ سب میرے ساتھ نمو ایپ یا مائی گو پر ساجھا کریں۔

 میرے عزیز اہل وطن ، ہماری سنسکرت کی کتابوں میں ایک اشلوک ہے –

آتمن تھرم جیوالوکاسمن، کو نہ جیوتی مانواہ: |

پرم پروپکارتھم، یو جیوتی سا جیوتی ||

اس کا مطلب ہے، اس دنیا میں ہر کوئی اپنے لیے جیتا ہے۔ لیکن درحقیقت جیتا صرف وہی انسان ہے جس کا وجود دوسروں کے لئے ہے۔ ’من کی بات‘ ایک ایسا پروگرام ہے جس میں بھارت ماتا کے بیٹوں اور بیٹیوں کی انسان دوست کوششوں کے بارے میں باتیں کی جاتی ہیں۔ آج بھی، ہم ایسے ہی دوستوں کے بارے میں بات کریں گے۔ ہمارے دوستوں میں سے ایک کاتعلق چنڈی گڑھ شہر سے ہے۔ میں بھی چنڈی گڑھ میں کچھ برس رہا ہوں۔ یہ ایک بہت ہی خوشگوار اور خوبصورت شہر ہے۔ چنڈی گڑھ کے عوام بھی بڑے دل والے ہوتے ہیں، اور ہاں، اگر آپ کھانے کے شوقین ہیں، تو یہاں آپ کو اور لطف آئے گا۔ چنڈی گڑھ کے سیکٹر 29 میں، سنجے رانا جی کا ایک فوڈ اسٹال ہے اور وہ اپنی سائیکل پر چھولے بھٹورے بیچتے ہیں۔ ایک دن ان کی بیٹی ردھیما اور بھانجی ریا ایک سجھاؤ لے کر آئیں۔ دونوں نے ان سے درخواست کی کہ وہ ان لوگوں کو مفت چھولے بھٹورے کھلائیں جنہوں کووِڈ ٹیکہ لگوایا ہے۔ انہوں نے اس سجھاؤ کو بخوشی قبول کیا اور فوری طور پر اس اچھی اور نیک کوشش کا آغاز کیا۔ سنجے رانا جی کے چھولے بھٹورے مفت کھانے کے لئے، آپ کو یہ دکھانا ہوگا کہ آپ نے اس دن ٹیکہ لگوایا ہے۔ جب آپ ٹیکہ لگوانے سے متعلق پیغام دکھائیں گے تو وہ آپ کو لذیذ چھولے پیش کریں گے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ سماج کی فلاح و بہبود کے لئے، پیسے سے زیادہ جذبۂ خدمت اور فرض کا احساس درکار ہوتا ہے۔ ہمارے سنجے بھائی اس قول کو سچ ثابت کر رہے ہیں۔

دوستو، میں آج اس طرح کے کام کی ایک اور مثال پیش کرنا چاہوں گا۔ یہ کوشش تمل ناڈو کے نیل گری علاقے میں کی جا رہی ہے۔ یہاں رادھیکا شاستری جی نے ایمبوآر ایکس (ایمبو ریکس) پروجیکٹ شروع کیا ہے۔ اس پروجیکٹ کا مقصد پہاڑی علاقوں میں مریضوں کے علاج کے لئے آسان نقل و حمل فراہم کرانا ہے۔ انہوں نے ایمبو آر ایکس کے لئے اپنے کیفے کے ساتھیوں سے سرمایہ اکٹھا کیا تھا۔ آج چھ ایمبو آر ایکس نیل گری پہاڑی علاقوں میں اپنی خدمات پیش کر رہی ہیں اور ہنگامی صورتحال کے دوران دور دراز کے علاقوں میں مریضوں کو مدد فراہم کر رہی ہیں۔ ایک ایمبو آرایکس ایک اسٹریچر، ایک آکسیجن سلنڈر، فرسٹ ایڈ باکس اور دیگر سازومان پر مشتمل ہوتی ہے۔

دوستو، خواہ سنجے جی ہوں یا رادھیکا جی، ان کی مثالیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ ہم اپنے روزمرہ کے کام ، اپنا کاروبار اور نوکری کرتے ہوئے بھی خدمت کر سکتے ہیں۔

دوستو، چند روز قبل ایک بڑا ہی دلچسپ اور جذباتی واقعہ پیش آیا، جس نے بھارت۔جارجیا دوستی کو نئی قوت عطا کی۔ اس تقریب کے دوران، بھارت نے حکومت جارجیا اور وہاں کے عوام کو مقدس باقیات یا سینٹ کوئین کیٹیون کا آئیکن سونپا، اس مشن کے لئے ہمارے وزیر خارجہ بذاتِ خود وہاں گئے۔ یہ تقریب، جوکہ انتہائی جذباتی ماحول میں منعقد ہوئی، اس  میں جورجیا کے صدر، وزیر اعظم، متعدد مذہبی قائدین، اور بڑی تعداد میں جارجیا کے عوام نے شرکت کی۔ اس تقریب کے دوران بھارت کی تعریف میں جو کلمات کہے گئے وہ یقیناً یادگار ہیں۔ اس واحد تقریب نے نہ صرف دو ممالک کے درمیان بلکہ گوا اور جارجیا کے مابین تعلقات کو بھی مضبوط کیا ۔ سینٹ کوئین کیٹیون کے مقدس باقیات  2005 میں گوا میں واقع سینٹ اگسٹائن چرچ میں پائے گئے تھے۔

دوستو، آپ کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہوگا ۔۔۔ یہ سب چیزیں کس لیے ہیں اور یہ کیسے ہوا؟ درحقیقت، یہ واقعہ چار سو یا پانچ سو برس پہلے کا ہے۔ کوئین کیٹیون جارجیا کے شاہی خاندان کی بیٹی تھیں۔ دس سال کی قید کے بعد 1624میں انہیں شہید کر دیا گیا۔ قدیم پرتگالی دستاویز کے مطابق، سینٹ کوئین کیٹیون کے باقیات کو پرانے گوا کے سینٹ آگسٹین کانوینٹ میں رکھا گیا تھا۔ لیکن، ایک طویل مدت کے لئے یہ سمجھا گیا کہ گوا میں دفن ان کے باقیات 1930 کے زلزلے میں کہیں گم ہوگئے۔

حکومت ہند اور جارجیا کے مؤرخین ، محققین، ماہرین آثار قدیمہ اور جارجیا کی چرچ کی دہائیوں کی انتھک کوششوں کے بعد  2005 میں باقیات کو کامیابی کے ساتھ ڈھونڈھ لیا گیا۔یہ جارجیا کے عوام کے لئے ایک ازحدجذباتی موضوع ہے ۔ اسی لیے ان کے تاریخی، مذہبی اور روحانی جذبات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، حکومت ہند نے جارجیا کے عوام  کو ان باقیات کے ایک حصے کو بطور تحفہ دینے کا فیصلہ کیا۔ آج، بھارت اور جارجیا کی مشترکہ تاریخ کے اس منفرد حصے کی حفاظت کرنے کے لئے میں گوا کے عوام کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔گوا متعدد روحانی ورثے کی سرزمین کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ سینٹ آگسٹین چرچ یونیسکو کی ورلڈ ہیریٹیج سائٹ ہے جو کہ گوا کے چرچوں اور کانوینٹس کا ایک حصہ ہے۔

میرے عزیز اہل وطن، اب مجھے آپ کو جارجیا سے سنگاپور لے جانے دیجئے، جہاں اس ماہ کے آغاز میں ایک اور شاندار موقع حاصل ہوا۔ سنگاپور کے وزیر اعظم  اور میرے دوست لی شین لونگ نے حال ہی میں تجدید شدہ سیلت روڈ گورودوارے کا افتتاح کیا۔ انہوں نے روایتی سکھ پگڑی بھی پہنی۔ یہ گورودوارہ سو سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا  اور یہاں بھائی مہاراج سنگھ کو وقف کیا گیا ایک میمورئیل بھی ہے۔ بھائی مہاراج جی بھارت کی آزادی کے لئے لڑے تھے اور یہ لمحہ اس وقت مزید متاثرکن ہو گیا ہے جب ہم آزادی کے 75 برسوں کا جشن منا رہے ہیں۔

دونوں ممالک کی عوام  سے عوام کے درمیان طاقت کو اس طرح کی پہل قدمیوں اور کوششوں سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔ ان سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہم آہنگی کے ماحول میں رہنا اور ایک دوسرے کی ثقافت کو سمجھنا کتنا اہم ہے۔

میرے پیارے اہل وطن، آج ’من کی بات‘ میں ہم نے متعدد موضوعات پر بات چیت کی۔ ایک موضوع اور ہے جو میرے دل کے بہت قریب ہے۔ یہ موضوع آبی تحفظ سے متعلق ہے۔ جس جگہ میرا بچپن گزرا، وہاں ہمیشہ پانی کی قلت رہتی تھی۔ ہم بارش کے لئے ترستے تھے اور اسی لیے پانی کی ایک ایک بوند کی حفاظت کرنا ہماری روایات ، ہماری ثقافت کا حصہ رہا ہے۔ اب ’عوامی شراکت داری کے توسط سے آبی تحفظ‘ کے منتر نے وہاں کی تصویر ہی بدل کر رکھ دی ہے۔

دوستو، فطرت اور ماحولیات کی حفاظت بھارت کی ثقافتی زندگی میں پنہاں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، بارشوں  اور مانسون نے ہمارے افکار، ہمارے فلسفے اور ہماری تہذیب کو سنوارا ہے۔ ’رِتو سنہار‘ اور ’میگھ دوت‘ میں، عظیم شاعر کالی داس نے خوبصورت انداز میں بارشوں کے بارے میں بیان کیا ہے۔ یہ نظمیں ادب کے چاہنے والوں میں آج بھی بہت مقبول ہیں۔ بارشوں کی عظمت کو رگوید کی پرجانیا سکتم میں بھی بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح، زمین، سورج اور بارش کے درمیان رشتے پر بھی شریمد بھگوت میں منظوم  انداز میں تفصیلی بیان ملتا ہے۔

اشٹو ماسان نپیت ید، بھومیا: چا، اود۔مایم وسو|

سوبھوگی: موکتم آرے بھے، پرجنیہ: کال آگتے||

اس کا مطلب ہے، سورج نے زمین کی دولت کو پانی کی شکل میں استعمال کیا، اب مانسون کے موسم میں،  سورج یہ جمع کی گئی دولت زمین کو واپس کر رہا ہے۔ یقیناً، مانسون اور بارش کا موسم نہ صرف خوبصورت اور خوشگوار ہے، بلکہ یہ حیات بخش اور نشو و نما کرنے والا بھی ہے۔ ہمیں حاصل ہونے والا بارانی پانی ہماری مستقبل کی پیڑھی کے لئے، ہمیں یہ کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔

آج ایک خیال میرے ذہن میں آیا کہ کیوں نہ میں اپنی بات اس طرح کے دلچسپ حوالوں کے ساتھ پوری کروں۔  آنے والے تیوہاروں کے لئے آپ سبھی کو میری طرف سے نیک خواہشات۔ تیوہاروں اور جشن کے دور میں، آپ کو یہ یاد رکھنا ہے کہ کورونا ہمارے درمیان سے رخصت نہیں ہوا۔ آپ کورونا سے متعلق پروٹوکول کو فراموش نہ کریں۔ خداکرے کہ آپ سب صحت مند اور خوش رہیں۔

بہت بہت شکریہ!

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ش ح  ۔ و ا ۔ ا ب ن ۔ ع ا ) (25-07-2021)

U. No.  6985


(Release ID: 1738824) Visitor Counter : 601