ایٹمی توانائی کا محکمہ
ٹاٹا میموریل سینٹر نے ہندوستان میں منھ کے کینسر کی بیماری اورعلاج کے خرچ سے متعلق اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق شائع کی
ہندوستان نے منھ کے کینسر کے علاج پر 2020 میں تقریبا 2،386 کروڑ روپے خرچ کیے
Posted On:
20 JUN 2021 11:33AM by PIB Delhi
نئی دہلی۔ 20 جون عالمی صحت کے ادارے (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ، کینسر عالمی سطح پر موت کی دوسری بڑی وجہ ہے ، جہاں تقریبا 70 فیصد معاملات کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں کینسر کا منظر نامہ مردوں میں سب سے عام منھ کا کینسر ہے۔ در حقیقت ، 2020 میں ہندوستان میں عالمی واقعات کا تقریبا ایک تہائی حصہ تھا۔
ٹاٹا میموریل سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر آر اے بڈوے نے کہا کہ "گلوبوکین کے اعدادوشمار کے مطابق ، پچھلے دو دہائیوں میں تشخیص ہونے والے نئے معاملوں کی شرح میں حیرت انگیز 68 فیصد اضافہ ہوا ہے ، جس سے یہ صحت عامہ کاایک حقیقی بحران بن گیا ہے۔نیز لوگوں کی صحت کی خدمات تک رسائ بہت کم ہے ، ساتھ اس کے بارے میں بہت زیادہ معلومات کی کمی سے زیادہ تر اس مرض کے بارے میں مریضوں کو اس وقت پتہ چلتا ہے جب کینسر بڑھ کر اگلے مرحلے میں پہنچ جاتا ہے اور تب تک اس کا علاج اکثر مشکل ہوجاتا ہے۔" تقریبا 10فیصد مریض ایسے ہوتے ہیں جن میں یہ مرض اگلے مرحلہ میں پھیل چکا ہوتا ہے اور ایسے میں وہ علاج کے قابل نہیں رہ جاتے ہیں ۔ ایسی حالت میں صرف ان کی علامتوں کے لیے صرف زندہ رہنے تک ممکنہ حد تک نگہداشت کی صلاح دی جا سکتی ہے۔
جو لوگ اس کے لیے کسی نہ کسی نوعیت کا علاج کراتے ہیں ان میں سے اکثر بے روزگار ہوجاتے ہیں اور اپنے احباب اور اہل خانہ پر معاشی بوجھ بن جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ صحت بیمہ اور / یا سرکاری امداد حاصل کرنے والے مریضوں، جنہیں عام طور پر صحت کی دیکھ بھال کا خرچ ان اسکیموں کے باعث کچھ راحت مل جاتی ہے، وہ بھی سنگین چیلنجوں کا سامنا کرتے ہیں کیونکہ زیادہ تر اسکیمیں علاج کے لئے درکار اصل رقم فراہم نہیں کرتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان کے اضافی خرچ بڑھ جاتے ہیں اور مریضوں کی ایک بڑی تعداد خود اور ان کے اہل خانہ قرض کے کبھی نہ ختم ہونے والی گردش میں پھنس جاتے ہیں۔
ان مسائل سے نمٹنے کے لئے ، ڈاکٹر پنکج چترویدی کی سربراہی میں ، ٹاٹا میموریل سینٹر کی ایک ٹیم نے اس بیماری کے علاج پر آنے والی لاگت کا تجزیہ شروع کیا ہے۔ اس سے ان پالیسی سازوں کو ایسی انمول معلومات حاصل ہوگی جو کینسر کے لئے وسائل کی مناسب تخصیص کرتی ہیں۔ یہ ہندوستان میں اور عالمی سطح پر مٹھی بھرلوگوں کے مابین اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق ہے ، جس کے تخمینے کا اندازہ بوٹم اپ اپروچ کا استعمال کرتے ہوئے کیا گیا تھا،جہاں ہر سروس کے استعمال کی لاگت کے لیے ممکنہ اور حقائق پر مبنی اعداد و شمار کو جمع کیا گیا ۔ اس ضخیم ڈیٹا کو اکٹھا کرنے کے نتیجے میںمنھ کے کینسر کے علاج کے براہ راست حفظان صحت کے اخراجات کا تعین کیا گیا ہے ، یعنی ، حفظان صحت فراہم کرنے والوں کے ذریعہ ہر مریض کے لیےبرداشت کی جانے والی لاگت جو براہ راست طور پر منھ کے کینسر کے علاج کے لیے منسوب ہے۔
ٹاٹا میموریل اسپتال کے ریسرچ فیلو اور اس تحقیق کے مرکزی مصنف ڈاکٹر ارجن سنگھ نے بتایا کہ ایڈوانسڈ مراحل کے علاج کی یونٹ لاگت (2،02،892 / - روپے) ابتدائی مراحل کی (1,17,135/- روپے) لاگت کے مقابلے میں 42 فیصد سے زیادہ ہے۔ ساتھ ہی سماجی و اقتصادی سطح پر اضافے کے باعث یونٹ لاگت میں اوسطا 11فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ علاج میں طبی ساز و سامان کی لاگت ، سرمایہ کا 97.8 فیصد ہے ، جس میں سب سے زیادہ شراکت ریڈیولوجی خدمات کی ہے۔ اس میں سی ٹی، ایم آر آئی اور پی ای ٹی اسکین شامل ہیں۔ حتمی مرحلے میں سرجری کے لیے استعمال کی جانے والی اشیاء سمیت متغیر اخراجات ابتدائی مراحل سے 1.4 گنا زیادہ تھیں۔ سرجری میں اضافی کیمو اور ریڈیو تھراپی کو شامل کرنے سے علاج کی اوسط لاگت میں 44.6فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
منھ کے کینسر کے تقریبا 60-80 فیصد معاملات اس مرض کی بڑھی ہوئی حالت میں اپنے ماہر آنکولوجسٹ کے پاس جاتے ہیں۔ اس تحقیق کے نتائج کے مطابق ابتدائی اور ایڈوانسڈ کینسر کی فی یونٹ لاگت میں ضرب کرنے پر ، ہندوستان نے 2020میں تقریبا 2،386 کروڑ روپئے منھ کے کینسر کے علاج پر خرچ کیے۔ یہ انشورنس اسکیموں کے ذریعہ ادائیگی ، سرکاری اور نجی شعبے کے اخراجات ، جیب سے ادائیگی اور عطیات یا ان سب کو ملا کر کیا گیا خرچ ہے جو اس ایک بیماری کے لیے 2019-20 میں حکومت کے ذریعہ کیے گئے حفظان صحت بجٹ تخصیص کا اہم حصہ ہے۔ اخراجات میں کسی بھی مہنگائی کے بغیر ، اگلے دس سالوں میں 23،724 کروڑ روپے کا ملک پر معاشی بوجھ کا باعث ہوگا۔
منھ کے کینسر کے علاج معالجے کا یہ تشویشناک معاشی اثریہ مشورہ دیتا ہے کہ اس کی روک تھام کی صلاحیت ہی اس مرض کے علاج کے لیے اہم حکمت عملیوں میں سے ایک ہونا چاہیے۔ تقریبا سبھی منھ کے کینسر کسی نہ کسی شکل میں تمباکو اور سپاری کے استعمال کے باعث ہوتے ہیں، یا تو براہ راست یا ثانوی حیثیت استعمال کرنے سے۔ ہمارے ملک کے لیے اس خطرے کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات اور تمباکو کے کے استعمال سے ہونے والی سینکڑوں بیماریوں میں سے صرف ایک کی وجہ سے سے ہونے والی اقتصادی بوجھ کو کم کرنا بہت ضروری ہے۔ ایڈوانسڈ مرحلے کی بیماری میں صرف 20 فیصد کی کمی کے باعث ابتدائی تشخیص کی حکمت عملیوں سے سالانہ تقریبا 250 کروڑ روپے کی بچت ہوسکتی ہے۔ معالج ، دانتوں کے معالج اور صحت کے تمام کارکنان اس مرض کی تشخیص کی پہلی صف ہیں جو بروقت تمباکو اور سپاری کا استعمال کرنے والے جیسے زیادہ خطرے والے افراد کی جانچ کر سکتے ہیں۔ ادارے اسکرین کیے گئے مریضوں کی دیکھ بھال کرکے ، تمباکو کی عادت سے بچنے کی حکمت عملی پر عمل درآمد کرنے اور بروقت دیکھ بھال اور مدد فراہم کرکے بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ انتظامیہ اور حکومت کی سطح پر ، مضبوط اصلاحات کینسر پیدا کرنے والے مادوں کی ممانعت جیسی موجودہ پالیسیوں کو مزید مستحکم کرنے کے ساتھ ان سب کے لیے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور مریضوں کی ان سہولیات تک رسائی نیز ضرورت مندوں کے لیے ثبوتوں پر مبنی انشورنس اور معاوضہ فراہم کرنے کے لیےضروری اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
مزید معلومات کے لئے:
ecancer.org/en/journal/article/1252-a-prospective-study-to-determine-the-cost-of-illness-for-oral-cancer-in-india/abstract
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ش ح ۔ رض ۔ ج ا (
U-5675
(Release ID: 1728825)
Visitor Counter : 401