سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت

محققین نے  دُھند کے ذریعےامیجنگ آئیٹمس کا ایک بہتر طریقہ دریافت کیا

Posted On: 15 JUN 2021 1:10PM by PIB Delhi

نئی دہلی، 15جون 2021،  دُھند کی موسم کی صورتحال میں اشیاء کی امیجنگ  اب اور واضح ہوسکتی ہے۔ محققین نے ایک ایسا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے جس کی مدد سے  ایسے دنوں میں  لی گئی تصاویر کو اور بہتر بنایا جاسکتا ہے۔  اس تکنیک میں  روشنی کے منبع کو  معتدل کرنا اور مبصرین کی طرف سے انھیں غیر معتدل کرنا ہے۔

سائنسدانوں نے طویل عرصے کی کاوشوں کے نتیجے میں ڈیٹا پر کارروائی کرنے اور امیجز کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے امیج کے بکھرنے اور کمپیوٹر الگورتھم کی طبیعیات کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔اگرچہ کچھ معاملات میں بہتری کا تناسب سراسر نہیں ہیں، لیکن کمپیوٹر الگورتھم میں ڈیٹا کی بڑی مقدار کو پروسیس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں کافی اسٹوریج اور پروسیسنگ کا اہم وقت شامل ہوتا ہے۔

ایک ٹیم کی  تحقیق نےبھاری کمپیوٹیشن کیے بغیر تصویر کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ایک حل پیش کیا گیا ہے۔ رمن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آر آر آئی)، بنگلورو کی ٹیم، جو سائنس اور ٹیکنالوجی محکمے کا ایک خود مختار ادارہ ہے، خلائی ایپلی کیشن مرکز، ہندوستانی خلائی تحقیق کی تنظیم، احمدآباد، شیو نادر یونیورسٹی، گوتم بدھ نگر اور فرانس کی یونیورسٹی آف رینس اور یونیورسٹی پیرس سیکلی، سی این آر ایس، نے روشنی منبع کو ماڈیول کیا اور  صاف تصاویر کے حصول کے لیے مشاہدے کے آخر میں ان کو منہدم کردیا۔ یہ تحقیق ’او ایس اے کونٹینیم‘ جریدے میں شائع ہوئی تھی۔

تحقیق کاروں نے اترپردیش کے گوتم بدھ نگر کی شیوناگر یونیورسٹی میں ایک دھند دار سرمائی صبح کے بارے میں عمیق تجربات کرکے اس تکنیک کا مظاہرہ کیا ہے۔ انھوں نے روشنی کے منبع کے طو رپر 10 عدد سرخ ایل ای ڈی لائٹس کا انتخاب کیا جس کے بعد انھوں نے  اس ماخذ کو ایل ای ڈی  کے ذریعے بہنے والے موجودہ کرنٹ میں تقریباً 15 سائیکل فی سیکنڈ کی شرح سے مختلف  کرکے ماڈولیٹ کیا۔

تحقیق کاروں نے ایل ای ڈی لائٹ سے 150 میٹر کے فا صلے پر ایک کیمرہ نصب کیا تھا۔ کیمرے نے تصویر کھینچی اور اسے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرمیں ترسیل کردیا۔ اس کے بعد  کمپیوٹر الگورتھم نے ماخذ کی خصوصیات کو علاحدہ کرنے کے لیے ماڈیولیشن  فری کوینسی کی نولیج کا استعمال کیا۔ اس عمل کو’ ڈی ماڈیولیشن‘ کہا جاتا ہے۔ واضح امیج حاصل کرنے کے لیے اس تصویر کو بھی ماڈیولیٹ کرنے کی ضرورت تھی جو کہ روشنی کے منبع کی شرح سے مساوی ہو۔

ٹیم نے  ماڈیولیشن-ڈی ماڈیولیشن تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے، تصویر کے معیار میں واضح بہتری دیکھی۔ اس عمل کو انجام دینے میں کمپیوٹر جتنا وقت لیتا ہے اس کا انحصار ، تصویر ہجم پر ہوتا ہے۔ آر آر آئی کے پی ایچ ڈی اسکالر  اور اس مطالعے کے شریک مصنف بپن دیب ناتھ نے بتایا ’’2160 × 2106 سائز کی شبیہ کے لیے کمپیوٹر جاتی کارروائی  کا وقت تقریباً 20 ملی سیکنڈ ہے۔‘‘یہ  ایل ای ڈی پر مشتمل  تصویر کا تقریباً ہجم ہے۔ ان کے ہم عصروں نے 2016 میں اس شرح کا اندازہ لگایا تھا۔

ٹیم نے اس تجربےکو کئی مرتبہ دوہرایا اور ہر مرتبہ اس میں بہتری پائی۔ جب  مشاہدے کے دوران دھند کی شدت میں مختلف نوعیت ہوتی تھی تو انھوں نے ایک بار معیار میں واضح بہتری ریکارڈ نہیں کی تھی۔ اس معاملے میں، اُس وقت تیز آندھی چل رہی تھی اور انھوں نے اس پورے منظر نامے میں دھند کے اتار چڑھاؤ کا مشاہدہ کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہوا میں پانی کی بوندوں کی کثافت تبدیل ہوگئی۔ جس کے باعث ماڈیولیشن-ڈی ماڈیولیشن تکنیک کم مؤثر رہی۔

اگلی مرتبہ، محققین نے تجرباتی طریقہ کار کو تبدیل کردیا۔ انھوں نے ایک بیرونی مواد پیدا کیا، جو کہ کیمرے کو روشنی کا عکس دینے کے لیے ایل ای ڈی لائٹ سے  20 سینٹی میٹر کی دوری پر کارڈبورڈ کے ایک ٹکڑے کی شکل میں تھا۔ کارڈ بورڈ اور کیمرے کے درمیان فاصلہ 75 میٹر کا تھا۔  کارڈبورڈ سے نکلنے والی ماڈیولیٹیڈ لائٹ دھند میں سے گزری اور  اس کے بعد  کیمرے نے اسے اپنے اندر محفوظ کرلیا۔ انھوں نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ ان کی تکنیک نے بننے والی امیج کے معیار کو اس صورت میں بھی نمایاں طور پر بہتر کیا ہے۔

دھوپ کی صورتحال میں تجربے کو دوہراتے ہوئے انھوں نے یہ پایا کہ ماخذ کی ڈی ماڈیولیشن کو انجام دینے کے بعد  تصویر کا معیار اتنا اچھا تھا کہ ایل ای ڈی کو تیز جھلکتی سورج کی روشنی سے ممتاز کرسکے۔

اس مطالعے کو، حکومت ہند کی وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کے  سائنس وٹیکنالوجی کے محکمے نے  جزوی طور پر  مالیہ فراہم کیا تھا۔

 اس تکنیک پر آنے وا لی لاگت کم ہے۔ جس میں  چند ایل ای ڈی لائٹ اور ایک ایسے عام ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر کی ضرورت ہوتی ہے جو  ایک سیکنڈ کے اندر اندر اس تکنیک کو انجام دے سکتا ہو۔ یہ طریقہ کار ،پائلیٹ کو رن وے پر بیکنس کا اچھا نظارہ فراہم کرکے، ہوائی جہازوں کی لینڈنگ کی تکنیک کو اور بہتر بنا سکتا ہے جو اس وقت صرف عکاسی ریڈیو لہروں پر انحصار کرنے سے کہیں بہتر ہے۔ اس تکنیک سے مختلف راہ میں حائل رکاوٹوں  کو ظاہر کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو بصورت دیگر ،ریل، سمندری اور سڑک کے ذریعے نقل وحمل کی کارروائیوں میں دھند کے باعث  چھپے ہوں گے نیز یہ لائٹ ہاؤس بیکنس کو نمایاں طو رپر واضح کرنے میں بھی مدد کریں گے۔ اس ٹیم نے مزید تحقیق ایسی حقیقی زندگی کی صورتحال میں  موثریت مظاہرہ کرسکتی ہے۔ ٹیم اس بات کی بھی تحقیق کر رہی ہے کہ آیا اس تکنیک کا استعمال متحرک ذرائع سے کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔

اشاعت کا لنک:https://doi.org/10.1364/OSAC.425499

مزید تفصیلات کے لیے  بپن دیب ناتھ (bapan@rri.res.in)؛(fabien.bretenaker@universite-paris-saclay.fr)  سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001TVW6.jpg

میکسن سسلو بذریعہ ان اسپلش کے ذریعے تصویر

*****

U.No.5497

(ش ح - اع - ر ا)                                      



(Release ID: 1727328) Visitor Counter : 210