صدر جمہوریہ کا سکریٹریٹ

عدالتی نظام کا مقصد نہ صرف تنازعات کو حل کرنا ہے ، بلکہ انصاف کو برقرار رکھنا اور انصاف کو برقرار رکھنا ہے جسد کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انصاف میں تاخیر جیسی رکاوٹوں کو دور کیا جائے: صدر کووند


صدر جمہوریہ ہند نے آل انڈیا اسٹیٹ جوڈیشل اکیڈمیز کے ڈائریکٹرز کی ریٹریٹ کا افتتاح کیا

Posted On: 06 MAR 2021 2:49PM by PIB Delhi

نئی دہلی 6 مارچ 2021:عدالتی نظام کا مقصد صرف تنازعات کو حل کرنا ہی نہیں ہے بلکہ انصاف کو برقرار رکھنا ہے۔ صدر جمہوریہ ہند جناب رام ناتھ کووند نے کہا کہ انصاف کرنے میں تاخیر جیسی رکاوٹوں کو دور کرکے اس پر عمل در آمد کیا جاسکتا ہے۔ وہ آج (6 مارچ 2021) مدھیہ پردیش کے جبل پور میں آل انڈیا اسٹیٹ جوڈیشل اکیڈمیز ڈائریکٹرزریٹریٹ  کے افتتاح کے موقع پر خطاب کر رہے تھے۔

صدر کیلئےیہ احساس موجب مسرت رہا کہ عدالتی نظام میں ٹکنالوجی کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں 18000 سے زیادہ عدالتیں کمپیوٹرائزڈ ہوچکی ہیں۔ لاک ڈاؤن مدت سمیت جنوری 2021 تک  ملک بھر میں غیر روایتی عدالتوں میں تقریبا 76 لاکھ مقدمات کی سماعت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل جوڈیشل ڈیٹا گرڈ ، یونک آئیڈینٹی فیکیشن کوڈ اور کیو آر کوڈ جیسے اقدامات کی عالمی سطح پر تعریف کی جارہی ہے۔ ای۔عدالتوں، ویڈیو۔کانفرنسنگ، ای۔کارروائی، ای۔فائلنگ اور ای۔خدمات مراکز کی مدد سے عدالتی انتظامیہ کے لئے انصاف کی فراہمی آسان ہوئی ہے۔ اس تکنیکی مداخلت کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ان اقدامات کی وجہ سے، کاغذات کا استعمال کم ہوا ہے جو قدرتی وسائل کے تحفظ میں معاون ہے۔

 

صدر نے کہا کہ زیریں عدلیہ ملک کے عدالتی نظام کی بنیاد ہے اور ہماری جوڈیشل اکیڈمیاں قانون کے طالب علموں کو قابل ججز کی تربیت دے کر اہم کام انجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری عدالتوں خصوصا ضلعی عدالتوں میں التوا میں پڑے مقدمات کو جلد از جلد فیصل کرنے کے لئے ججوں کے ساتھ  ساتھ دیگر عدالتی اور نیم جوڈیشل افسران کی تربیت کا دائرہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔

صدر نے کہا کہ انصاف کی تیز تر فراہمی کے لئے  یہ ضروری ہے کہ وسیع عدالتی تربیت کے علاوہ ضروری ہے کہ  ہمارے عدالتی عمل میں ٹکنالوجی کے استعمال کو متعارف کرایا جائے۔ مقدمات کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے  معاملات کو درست تناظر میں سمجھنا اور تھوڑے ہی عرصے میں درست فیصلے کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نئے قوانین کا تعارف ، قانونی چارہ جوئی کی نوعیت میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں اور مقدمات کو مقررہ وقت کے ساتھ طے کرنے کی ضرورت نے بھی ججوں کے لئے قانون اور طریقہ کار سے متعلق تازہ ترین معلومات کا حصول ضروری بنادیا ہے۔

صدر نے کہا کہ ہمیں  ہندوستان کے عوام عدلیہ سے بہت زیادہ توقعات رکھتے ہیں۔معاشرے  توقع کرتا ہے کہ جج باشعور ، سمجھدار ، جذبہ حب سے سرشار ، باوقار اور غیر جانبدار ہوں گے۔ عدالتی نظام میں مقدار کی نسبت معیار کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اور ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے تربیت کے طریقہ کار ، علم ، ٹکنالوجی اور عدالتی مہارت کو اپ ڈیٹ کرتے رہنا بہت ضروری ہے۔ اس طرح  آغاز کی سطح اور خدمات کی تربیت کے مرحلے میں بھی  توقع کے مطابق ججوں کو تعلیم دینے میں ریاستی جوڈیشل اکیڈمیوں کا کردار بہت اہم ہوجاتا ہے۔

صدر جمہوریہ کو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں کے نو ہندوستانی زبانوں میں تراجم دستیاب کرائے ہیں۔ کچھ اعلی عدالتیں اپنے فیصلوں کے ترجمے کو مقامی زبانوں میں بھی فراہم کررہی ہیں۔ انہوں نے اس کوشش میں شامل تمام افراد کو مبارکباد پیش کی اور ہائی کورٹوں سے اپیل کی کہ وہ بیک وقت سپریم کورٹ کی طرح ریاست کی سرکاری زبانوں میں عوامی زندگی کے اہم پہلوؤں سے متعلق اپنے فیصلوں کے مصدقہ ترجمہ فراہم کریں۔

صدر نے نشاندہی کی کہ ہر شخص کے لئے آخری سہارا عدلیہ ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ عدلیہ کے نظام میں لوگوں کو اعتماد ہے۔ اس اعتماد کو برقرار رکھنے کے لئے  ہم سب کو حکومتی اعضاء کی حیثیت سے درج ذیل نکات پر غور کرنا چاہئے:

  • تیز رفتار ، قابل رسا اور کم اختاجات والے انصاف کی فراہمی کے مقصد کیساتھ  لوگوں کو ان کی زبان میں عمل کو آسان بنانے کے لئے ٹکنالوجی کے استعمال کے لئے ہم کیا کرسکتے ہیں؟
  • اسی طرح  ثالثی، مصالحت، لوک عدالتوں جیسے متبادل نظامِ عدل کے دائرہ کار کو ہم کیسے بڑھا سکتے ہیں؟
  • اعلی عدالتوں اور ضلعی عدالتوں کی کارروائی میں ریاست کی سرکاری زبان کے استعمال کی مزید حوصلہ افزائی کیسے کی جاسکتی ہے؟
  • اور  سرکاری قانونی چارہ جوئی کی تعداد کو کم کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں؟

صدر مملکت نے کہا کہ عدالتی نظام کا مقصد صرف تنازعات کو حل کرنا نہیں ہے بلکہ انصاف کو برقرار رکھنا ہے اور انصاف کو برقرار رکھنے کا ایک طریقہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر جیسی رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔ صرف عدالت کے کام یا نظام کی کمی کی وجہ سے انصاف میں تاخیر نہیں ہوتی۔ بہت سے مواقع پر  مدعی اور مدعا علیہ اس کو حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ مسلسل مقدمات کی کاروائیوں کو ملتوی کرانے کا سہارا لے کر قوانین اور طریقہ کار وغیرہ میں موجود کمیوں کی بنیاد پر مقدمے کی طوالت جاری رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ عدالتی کارروائی اور طریقہ کار میں موجود ان کمیوں کو دور کرنے میں چوکس رہتے ہوئے فعال کردار ادا کرے۔ یہ مقصد قومی اور بین اقوامی سطح پر کی جانے والی جدت طرازیوں کو اپنا کر اور بہترین طریقوں کے اشتراک سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اعتماد ظاہر کیا کہ اس دو روزہ کانفرنس میں عدالتی انتظامیہ کے ان تمام پہلوؤں پر گہرائی سے تبادلہ خیال کیا جائے گا اور عملی نکات طے کئے جائیں گے۔

Please Click here to see the President Speech

****

U.No. 2216

م ن۔ ر ف ۔س ا

 

 



(Release ID: 1702967) Visitor Counter : 1601