سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت
دیواستھل آپٹیکل ٹیلی اسکوپ پرلگائے گئے ملک میں ڈیزائن اورتیارکئے گئے اسپیکٹروگراف سے دورآسمانی پراسرار چیزوں سے نکلنے والی ہلکی روشنی کا پتہ لگایاجاسکتاہے
Posted On:
03 MAR 2021 11:33AM by PIB Delhi
نئی دہلی ،3؍مارچ :بھارتی سائنسدانوں نے ملک میں ہی ایک کفایتی آپٹیکل اسپیکٹروگراف ڈیزائن اورتیارہے جو ایک بہت نئی کائنات ، ستاروں کے جھرمٹ کے آس پاس موجود بلیک ہولز سے سے لگے علاقوں اور کائنات میں ہونے والے دھماکوں میں دورواقع ستاروں اورکہکشاؤں سے نکلنے والی ہلکی روشنی کے وسیلوں کا پتہ لگاسکتاہے ۔
ابھی تک ایسے اسپیکٹرواسکوپ بیرون ملکوں سے درآمدکئے جاتے تھے جن پرخاصی لاگت آتی تھی ۔ایریز-ڈیواستھل فینٹ آبجیکٹ اسپیکٹروگراف اینڈکیمرہ ( اے ڈی ایف اوایس سی ) نام کے میک ان انڈیا آپٹیکل اسپیکٹروگراف کو نینی تال کے آریہ بھٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف آبزرویشنل سائنسز نے ڈیزائن اورتیارکیاہے ۔ یہ بھارت سرکارکے سائنس وٹکنالوجی کے محکمے کا ایک خود مختارادارہ ہے اور یہ درآمدشدہ آپٹیکل اسپیکٹروگراف کے مقابلے میں 2.5گناسستا ہے اور یہ لگ بھگ ایک فوٹون فی سیکنڈ کی فوٹون شرح کے ساتھ روشنی کے وسیلوں کا پتہ لگاسکتاہے ۔
ملک میں موجود ایسٹرنومیکل اسپیکٹروگراف میں اپنی نوعیت کے سب سے بڑے اسپیکٹرواسکوپ کو 3.6ایم دیواستھل ٹیلی اسکوپ (ڈی اوٹی ) پرنینی اتراکھنڈکے پاس کامیاب طریقے قائم کردیاگیاہے جو ملک اورایشیامیں سب سے بڑاہے ۔
یہ انسٹرومنٹ انتہائی دھندلے آسمانی وسیلوں کے مشاہدات کے لئے 3.6ایم ڈی اوٹی کے لئے کافی اہم ہے جو خصوصی طورپرکانچ سے بنے کئی لینسیز کا ایک مشکل اورپیچیدہ بندوبست ہے ۔ساتھ ہی آسمان سے متعلق چمکدار امیجیز (سایوں ) کی نینو میٹراسموتھ نیس (یکسانیت ) سے بہترپالش کی گئی ہے ۔ ٹیلی اسکوپ کے ذریعہ جمع کئے گئے دورآسمانی پراسرار وسیلوں سے آنے والے فوٹونس کو اسپیکٹروگراف کے ذریعہ مختلف رنگوں میں ترتیب دیاجاتاہے اور گھریلوسطح پر تیارکئے گئے انتہائی کم مائس 120ڈگری سینٹی گریٹ پرٹھنڈے کئے جانے والے چارج –کپلڈڈیوائس (سی سی ڈی) کیمرے کے اوپرسے الیکٹرونک ریکارڈ کے اہل وسیلوں میں تبدیل کیاگیاہے ۔اس انسٹرومنٹ پر تقریبا 4کروڑروپے کی لاگت آتی ہے ۔
ایک تکنیکی اورسائنسی ٹیم کے ساتھ اس پروجیکٹ کی سربراہی آریہ بھٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل سائنسیز کے سائنسداں ڈاکٹرامیتیش اومارنے کی ۔اس ٹیم نے اسپیکٹروگراف اورکیمرے کے کئی آپٹیکل ، میکینیکل اورالیکٹرونکس سب سسٹمس پرتحقیق کی انھیں تیارکیا۔ فی الحال ہندوستان اور بینرون ملکوں کے علم نجوم کے ذریعہ اس اسپیکٹروگراف کا استعمال کیاجارہاہے تاکہ بیحد نئی کائنات ستاروں کے جھرمٹ کے آس پاس موجود بلیک ہولز سے لگے علاقوں اور کائنات میں ہونے والے دھماکوں میں دورستاروں اورآسمان سے نکلنے والی ریڈیائی لہروں کا مطالعہ کیاجاسکے ۔
مشاہداتی سائنسیز کے آریہ بھٹ تحقیقاتی انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹرپروفیسردیپانکر بنرجی نے بتایاکہ ہندوستان میں اے ڈی ایف اوایس سی جیسے پیچیدہ انسٹرومنٹس ( آلات ) بنانے کے سلسلے میں ملک کی سطح پر کوششیں فلک شناسی اورایسٹروفزکس کے شعبے میں آتم نربھربننے کی جانب اہم قدم ہے ۔
******
(ش ح ۔ ح ا ۔ع آ ،04.03.2021)
U-2118
(Release ID: 1702394)
Visitor Counter : 205