وزارت اطلاعات ونشریات
’’اکاسا – مائی ہوم ایک ایسے کنبے کے سفر کی عکاسی کرتی ہے جسے شہری زندگی جینے کے لئے مجبور کیا گیا‘‘: ڈائریکٹر راڈو سیورنیسیک
’’یہ فلم ہمارے شہر سے باہر نکلنے اور فطرت کے مزید قریب ہونے کی سمت میں بہت رہنمائی کرتی ہے‘‘
نئی دہلی، 21/جنوری 2021 ۔
پناجی، جنوری 21، 2021
’’بیس برسوں وہ یعنی کنبہ 9 بچوں کے ساتھ فطرت کے درمیان پرسکون ماحول میں ایک ایسی جگہ پر رہ رہا تھا جو شہر سے قریب ہونے کے باوجود بھولی بسری ہوگئی تھی۔ لیکن مقدر کا منصوبہ کچھ دوسرا تھا جب رومانیائی انتظامیہ نے اس علاقے کو تحفظاتی ماحول فراہم کرنے کے لئے اقدامات کئے۔ میری دستاویزی فلم ’اکاسا – مائی ہوم‘ ایک ایسے کنبہ کے سفر کی عکاسی کرتی ہے جسے بیابان میں واقع کویا (کوکون) سے نکل کر شہری زندگی اپنانے کے لئے مجبور کیا گیا تھا۔ ایک صحافی ہونے کے ناطے میں صرف ان سے متعلق ایک رپورٹ تیار کرسکتا تھا لیکن اس کے بجائے ہم نے چار برسوں تک ان کے ڈرامائی سفر کا تتبع کیا اور یہ دستاویزی فلم بنائی۔‘‘ افّی 51 فلم اکاسا – مائی ہوم کیسے وجود میں آئی، اس سے متعلق یہ الفاظ رومانیائی ڈائریکٹر راڈو سیورنیسیک کے تھے۔ راڈو آج یعنی 21 جنوری 2021 کو گوا کے پناجی میں جاری بھارت کے 51ویں بین الاقوامی فلمی میلے سے خطاب کررہے تھے۔ اس فلم کی عکس بندی فن لینڈ، جرمنی اور رومانیہ میں ہوئی، جسے اس میلے میں خصوصی اسکریننگ سیکشن میں جگہ ملی ہے۔
راڈو نے واقعات کے اس سلسلے کا انکشاف کیا جو اس دستاویزی فلم کی تیاری پر جاکر منتج ہوئی۔ ’’رومانیائی حکومت ایک ایسے شہر میں جو کہ راجدھانی بخاریسٹ کے قریب ہے، میں واقع ایک ایسے علاقہ کو جسے لینڈفل (کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ) خیال کیا جاتا تھا، کو تحفظاتی مرتبہ دینے والی تھی۔ یہ اقدام اس لئے کیا گیا تھا، کیونکہ سائنس دانوں کو یہ پتہ لگا تھا کہ اس سرسبز و شاداب جگہ کے وسط میں نازک ماحولیاتی کیفیت ہے اور یوروپ کے کچھ نایاب پرندے، جانور اور پودے وہاں پائے گئے تھے۔ ‘‘
اس کنبے کا وہاں پتہ کیسے چلا؟ راڈو کے مطابق ایک مرتبہ انھوں نے اور اسکرین رائٹر لینا وڈووی ای نے حکومت کے اس فیصلے پر ایک رپورٹ تیار کرنے کا فیصلہ کیا، انھوں نےصورت حال کو براہ راست سمجھنے کے لئے اس جگہ کا دورہ کیا۔ وہاں ایک حیرت ان کی منتظر تھی۔ ’’9 بچوں والا ایک کنبہ وہاں گزشتہ 20 برسوں سے باہر کی دنیا سے الگ تھلگ رہ رہا تھا۔ وہاں ہم فطرت کے ساتھ بچوں کے ہم آہنگ تعلق سے مسحور ہوگئے اور ہم نے مزید تحقیق کرنے اور اپنے پروجیکٹ کو نیوز رپورٹ تک ہی محدود نہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔‘‘
اس کے بعد نشیب و فراز سے پُر جس سفر کا آغاز ہوا اس کا بیان کرتے ہوئے راڈو نے مزید کہا کہ ’’ہم نے اگلے چار برسوں تک اس کنبے اور بیابانی ماحول میں رہنے کے ان کے ڈرامائی سفر سے لے کر ملک کی راجدھانی جیسے بڑے شہر کی زندگی اختیار کرنے تک کے سفر کا تتبع کیا۔‘‘
راڈو نے مزید کہا کہ ’’ہم اس سے ایک انجانی ٹبلائڈ کہانی بناسکتے تھے لیکن اس کنبہ کو نقصان پہنچ سکتا تھا، لیکن اس سے، بجائے اس کے کہ انھیں جن مسائل کا سامنا تھا، اس کی طرف توجہ مبذول ہونے کے، اس کنبہ کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔‘‘
راڈو نے کہا کہ وہ اس فلم کو گیکا انیش کے نام منسوب کرنا چاہیں گے، جن کا حال ہی میں انتقال ہوگیا ہے اور جو وہ حقیقی کردار ہیں جن کے اوپر یہ دستاویزی فلم مبنی ہے۔
اسکرین رائٹر لینا وڈووی ای، جو کہ خود بھی ایک صحافی ہیں، کہا کہ ’’ہم نے محسوس کیا کہ یہ کہانی کسی بھی ٹی وی رپوتاژ یا ہماری ماضی میں لکھے گئے کسی بھی طویل مضمون سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب ہم نے اس کنبے پر توجہ مرکوز کرنے اور ان کے سفر کا تتبع کرنے کا فیصلہ کیا۔ دستاویزی فلموں میں تحریری عمل مختلف ہوسکتا ہے، لیکن اس فلم سے متعلق کام سے میں دہشت میں ہوں۔‘‘
’’ہمیں انیش کنبہ، ان کی سادگی، رجائیت پسندی اور معصومیت سے محبت ہوگئی۔ انھوں نے ہمیں اپنے بچپن کی یاد دلادی کہ کیسے ہم فطرت سے محصور ماحول میں پروان چڑھے اور ہمارا اپنے آس پاس سے قدرتی ماحول سے کیسا گہرا تعلق تھا۔‘‘
راڈو نے مزید کہا کہ ’’یہ فلم بنانے کے بعد ہم نے بھی شہر سے باہر جانے کا فیصلہ کیا اور اس طرح سے اس فلم میں ہماری اپنی زندگی پر بھی اثر ڈالا۔‘‘
صحافت اور فلم سازی کے درمیان توازن قائم کرنے سے متعلق ایک سوال پر راڈو نے کہا کہ ’’یہ پیشہ کافی حد تک تکملاتی ہے۔ کچھ وقت پہلے مجھے محسوس ہوا کہ سچائی کی الگ الگ شکلیں ہوسکتی ہیں۔ یہ صحافت کا سچ ہے اور ایک زیادہ ڈرامائی سچ ہے، جس کے بارے میں لگتا ہے کہ ہم نے اپنی دستاویزی فلم کے توسط سے کافی کچھ حاصل کرلیا ہے۔ فلم سازی نے زندگی، سچائی کے بارے میں بتانے کے لئے امکانات کی نئی دنیا وا کردی ہے، جو شاندار ہے۔ ہم نے اس ڈامنٹری کو جہاں تک ممکن ہوسکا حقیقی رکھنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ راڈو کے مطابق یہ پروجیکٹ صحافت کے پیشے کی پیچیدگیوں سے بچ گیا تھا، جس کے لئے ہم برسوں سے ترس رہے تھے۔
جب ایسے سفر پر ایک دستاویزی فلم بنائی جاتی ہے، تو حقیقی دور کے چیلنجز سامنے آنا کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ ہمارے سامنے یہ چیلنج تھا کہ ہمیں کنبے تک پہنچنے اور ان سے رابطہ اور گہرا تعلق قائم کرنے کے لئے عملہ کی تعداد کو محدود رکھنا ہے۔‘‘
ڈاکومنٹری میں زیورخ فلم فیسٹول، سنڈانس فلم فیسٹول اور سڈنی فلم فیسٹول سمیت دنیا کے متعدد معروف فلم میلوں میں اپنا باقاعدہ اندراج کراچکی ہے۔
ڈائریکٹر راڈو نے 2012 میں رومانیہ میں پہلے آزاد میڈیا تنظیم کی مشترکہ طور پر بنیاد رکھی تھی جو گہرائی کے ساتھ لانگ فارم اور ملٹی میڈیا رپورٹنگ میں اختصاص یافتہ صحافیوں کی ایک کمیونٹی ہے۔ وہ طویل عرصہ سے رائٹر اور روپوش تفتیشی رپورٹر کے طور پر کام کررہے ہیں۔ ان کی تحقیقات دنیا بھر میں حقوق انسانی، مویشیوں کی فلاح و بہبود اور ماحولیات سے متعلق مسائل پر مرکوز ہوتی ہیں۔ ان کے کام دی گارجین، الجزیرہ، چینل 4 نیوز جیسے دنیا کے اہم بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ذریعے شائع کئے جاتے رہے ہیں۔ انھیں کئی قومی اور بین الاقوامی ایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔
اکاسا – مائی ہوم کے بارے میں
گزشتہ دو دہائی سے، انیش کنبہ ایک بڑے سرسبز و شاداب علاقہ بخاریسٹ ڈیلٹا میں رہتا تھا، جس میں جنگلی حیوانات کا نایاب شہری ماحولیاتی نظام بن گیا ہے۔ موسموں کی بنیاد پر، وہ سماج سے الگ تھلگ رہ کر معمول کی زندگی گزارتے تھے۔ لیکن ان کا سکون جلد ہی چھن گیا، وہ سماجی خدمات سے زیادہ وقت تک بچ نہیں سکے اور میونسپلٹی کا دباؤ بڑھ گیا۔ انھیں شہر کا رخ کرنا پڑا اور سماج کے ضابطوں کے مطابق خود کو ڈھالنا پڑا۔
******
ش ح۔ م م۔ م ر
U-NO. 666
21.01.2021
(Release ID: 1691083)
Visitor Counter : 220