قانون اور انصاف کی وزارت
اختتام سال جائزہ 2020 : قانون سازی کا محکمہ
محکمہ نے یکم جنوری 2020سے نومبر 2020 تک قانون سازی سے متعلق 41 تجاویز کی جانچ پڑتال کی : پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے کے لئے 40 بل بھیجے
سبھی شہریوں کو قانونی اعتبار سے بااختیار بنانے کے لئے 857 مرکزی قوانین کی تازہ کاری کی گئی اور انہیں انڈیا کوڈ انفارمیشن سسٹم ( آئی سی آئی ایس) پر اپ لوڈ کیا گیا
Posted On:
12 JAN 2021 3:54PM by PIB Delhi
جہاں تک مرکزی حکومت کے قانون سازی سے متعلق کام کاج کا تعلق ہے ، قانون سازی کا محکمہ خاص طورپر ایک سہولت کار کے طورپر کام کرتا ہے۔ یہ متعدد وزارتوں / محکموں کی قانون سازی سے متعلق تجاویز کی بروقت پروسیسنگ کو یقینی بناتا ہے۔ اس تناظر میں قانون سازی کا محکمہ حکومت کی وزارتوں / محکموں کی مدد میں ایک اہم رول ادا کرتاہے تاکہ قانون سازی کے ذریعہ پالیسی سے متعلق مقاصد کا حصول کیا جاسکے ۔
قانون سازی کے محکمے کے زیر کنٹرول کوئی قانون یا خود مختار ادارہ نہیں ہے۔ اصل سیکریٹریٹ کے علاوہ قانون سازی کے محکمے کے دو بازو ہیں،جن کے نام آفیشیل لینگویج ونگ اور ویدھی ساہتیہ پرکاشن ہیں جوقانون سازی کے محکمے کےتعلق سے بلوں ، آرڈی ننسز ، رولز ، ریگولیشنز کے ہندی میں ترجمے ، اور ہندی اور دیگر سرکاری زبانوں میں ان کی تشہیر کے لئے ذمہ دار ہیں اور جو آئین کے آٹھویں شیڈیول میں درج زبانوں میں مرکزی قوانین کا ترجمہ کرنے میں ریاستی حکومتوں کی مدد کرتے ہیں۔
اس اختتام سال جائزے میں جنوری 2020سے لے کر اکتوبر / نومبر 2020 کی مدت کے دوران قانون سازی کے محکمے کے متعدد اقدامات ، پروگراموں ، اسکیموں اور حصولیابیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
محکمے کے ذریعہ کئے گئے اہم کام
یکم جنوری 2020سے نومبر 2020 کے دوران اس محکمے نے قانون سازی سے متعلق 41 تجاویزکا جائزہ لیا۔ ا س مدت کے دوران پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے کے لئے 40 بل بھیجے گئے ۔
پہلےسے ہی پارلیمنٹ میں زیر التوا اور یکم جنوری 2020 سے یکم نومبر 2020 کے دوران متعارف کرائے گئے بلوں میں سے ، ایک ایک آئینی ترمیمی بل 2020 سمیت 40 بل قانون کی شکل لے چکے ہیں۔ آئین کی دفعہ 123 کے تحت صدر کے ذریعہ 14 آرڈی نینس جاری کئے گئے ہیں۔
انتخابی قوانین اور انتخابی اصلاحات
پارلیمنٹ ، ریاستی قانون سازاداروں اور صدر و نائب صدر کے انتخابات سے متعلق قوانین حسب ذیل ہیں:(1) عوامی نمائندگی قانون ، 1950 (2) عوامی نمائندگی قانون ،1951 (3) صدر اور نائب صدر انتخابات قانون 1952 (4) حد بندی قانون 2002 (5) آندھرا پردیش قانون سازکونسل قانون 2005 اور (6) تمل ناڈو قانون سازکونسل قانون 2010۔آئین ہند کا دسواں شیڈیول ( دل بدل قانون کے طورپر معروف ) اور پارلیمنٹ ( انسداد نااہلی ) قانون 1959 بھی پارلیمنٹ اور ریاستی قانون ساز اداروں کے منتخب نمائندوں سے متعلقہ امور سے تعلق رکھتے ہیں ۔ان کا انتظام وانصرام قانون وانصاف کی وزارت کے محکمۂ قانون سازی کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔
حلقوں کی حد بندی
بھارت میں پہلا حد بندی کمیشن 1952 ، دوسرا 1962 ، تیسرا 1973 اور چوتھا 2002 میں قائم کیا گیا تھا۔ 1971 کی مردم شماری پر مبنی حد بندی کے تیسرے مرحلے کا کام 1975 میں پورا ہوا تھا۔ موجودہ حد بندی جو کہ چوتھی حدبندی ہے، 2001 کی مردم شماری پر مبنی ہے۔
مرکزکے زیر انتظام علاقہ جموں وکشمیر اور شمال مشرقی بھارت کی چند ریاستوں میں حلقوں کی حدبندی
جموں وکشمیر (تشکیل نو ) قانون 2019 کے بنائے جانے کے بعد سابقہ ریاست ِ جموں وکشمیر کو د و مرکزکے زیر انتظام علاقوںمیں تقسیم کردیا گیا ۔ یہ مرکز کے زیر انتظام علاقے جموں وکشمیر اور لداخ ہیں ، جن میں سے جموں وکشمیر کی قانون ساز اسمبلی ہے جبکہ لداخ کی کوئی قانون ساز اسمبلی نہیں ہے۔2019 کے مذکورہ قانون کی دفعہ 62 میں کئے گئے خصوصی التزامات کے مطابق مرکز کے زیرانتظام علاقے جموں وکشمیر کی اسمبلی کے تعلق سے انتخابی حلقوں کی تشکیل نو 2011 کی مردم شماری کی بنیاد پر ایک حد بندی کمیشن کے ذریعہ کی جائے گی، جو 2019 کے قانون میں ترمیم کرکے بنائےگئے حدبندی قانون 2002 کے التزامات کےتحت تشکیل دیا جائے گا۔
لہٰذا مذکورہ 2019 کے قانون اور حد بندی قانون 2002 کی دفعہ 3کے التزامات کے تحت حاصل اختیارات کو بروئے کا ر لاتے ہوئے مرکزی حکومت نے مرکزکے زیر انتظام علاقہ جموںوکشمیر اور آسام ، اروناچل پردیش ، منی پور اور ناگالینڈ ریاستوں کے اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کی ازسرنو حدبندی کے لئے 6 مارچ 2020 کو گزٹ آف انڈیا میں شائع نوٹیفکیشن کے مطابق ایک حدبندی کمیشن قائم کیا ہے۔
خواتین کے لئے سیٹوں کا ریزرویشن
پارلیمنٹ اور ریاستی قانون سازاداروں میں خواتین کو خاطر خواہ نمائندگی دینے کا مسلسل مطالبہ ہوتا رہا ہے ۔ صنفی انصاف اور اس سے متعلق امور حکومت کی ایک اہم عہد بستگی ہے ،تاہم مناسب التزامات کرنے کے لئے آئین میں ترمیم کے لئے کئے جانے والےکسی بھی قانونی اقدام سے قبل سبھی سیاسی جماعتوں کےدرمیان اتفاق رائے کی بنیاد پر غوروفکر کی ضرورت ہے۔
انتخابی اصلاحات –الیکٹرانک شکل میں منتقل کئے گئے پوسٹل بیلٹ کا نظام ( ای ٹی پی بی ایس)
کنڈکٹ آف الیکشن رولز ،1961 میں 21 اکتوبر 2016 کو جاری کئے گئے نوٹیفکیشن کے ذریعہ مزید ترامیم کی گئیں تاکہ مسلح افواج کے عملہ سمیت سروس ووٹر س کو سادہ پوسٹل بیلٹ الیکٹرانک طریقے سے منتقل کیا جاسکے ۔ اس کا مقصد نشان زد پوسٹل بیلٹ پیپرز کی موصولگی کے لئے دستیاب وقت میں کمی لانا ہے۔
مخصوص طبقات کے رائےدہندگان کے لئے پوسٹل بیلٹ کی سہولت
موجودہ ووٹنگ نظام میں خصوصی نظم کیاگیاہے تاکہ عمردراز لوگوں ، معذورافراد اور و ہ لوگ ، جو پولنگ کے دن اپنی مخصوص قسم کی ذمہ داریوں کے سبب اپنے پولنگ اسٹیشن پر حاضر ہونے کی حالت میں نہیں ہیں، انہیں ایک خصوصی فارم بھر کر پوسٹل بیلٹ کے ذریعہ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنے کا موقع مل سکے گا۔ایسے لوگوں میں شہری ہوابازی کےشعبے ، ریل گاڑیوں، جہازرانی کےشعبے ، طویل مسافت والی سرکاری / کارپوریشن بسوں میں کام کرنے والے ، فائر سروسز ، میڈیکل سروسز ، الیکشن کے کوریج کے لئے مجاز طبی عملہ شامل ہے۔اس سلسلے میں 22 اکتوبر 2019 کو گزٹ آف انڈیا میں ایک نوٹی فکیشن جاری کیا گیا ہے ،جس کے ذریعہ کنڈکٹ آف الیکشن رولز 1961 میں ترمیم کرکے رائےدہندگان کے اہل زمروں سے تعلق رکھنے والوں کو ایسی سہولت کی اجازت دی گئی ہے۔اس تناظر میں 80سال سے زیادہ عمروالے اور معذور رائے دہندگان پوسٹل بیلٹ کے ذریعہ اپنا ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ وہ لوگ جو پولنگ کے رو ز کسی عارضی ڈیوٹی کے سبب اپنے انتخابی حلقے سے باہر ہیں ، وہ بھی اس سہولت کا فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے لئے سیٹوں کا ریزرویشن
ہمارے معمار ان آئین اس حقیقت سے پوری طرح واقف تھے کہ درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد ہمارے معاشرے میں صدیوں سے دبے کچلے اور حقوق سے محروم رہےہیں اور وہ خصوصی برتاؤ کے مستحق ہیں تاکہ بڑے پیمانے پر ان کی حالت بہتر بنائی جاسکے ۔اس مقصد کے لئے ہمارے آئین میں متعدد خصوصی التزامات کئے گئےہیں۔ایسے ہی التزامات میں سے ایک کا تعلق لوک سبھا اور ریاستی قانون ساز اسمبلیوں میں ان برادریوں کے لئے سیٹوں کا ریزرویشن ہے۔ یہ التزامات آئین کی دفعہ 330 اور 332 میں کئے گئے ہیں۔
ابتداءََ یہ التزامات آئین کے نفاذ سےلے کر دس سال کی مدت تک کے لئے ہی کئے گئے تھے۔وقتاََفوقتاََدرج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کی سماجی ،اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لئے حکومت نے متعدد اقدامات کئے تاہم اب بھی دیگر برادریوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہیں۔ سیاسی میدان میں بھی ابھی وہ اس لائق نہیں ہیں کہ وہ سامنے آئیں اور خاطر خواہ تعداد میں اپنے دم پر قانون ساز اداروں کے لئے منتخب ہوسکیں ۔اگرچہ گزشتہ 70 برسوں میں درج فہرست ذاتوں اوردرج فہرست قبائل نے قابل ذکر پیش رفت کی ہے تاہم آئین ساز اسمبلی نے سیٹوں کے ریزرویشن کا مذکورہ التزام جن اسباب کی وجہ سے کیا تھا ، وہ اسباب ابھی تک ختم نہیں ہوئے ہیں، لہٰذا جو التزام شروع شروع میں دس سال کےلئے کیا گیا تھا ،اسے وقتاََ فوقتاََ بڑھایا جاتا رہا ہے۔ لہٰذا آئین کے معماروں کے ذریعہ دیکھے گئے شمولیت پر مبنی کردار کو برقرار رکھنے کے مقصد سے حکومت کے ذریعہ یہ ضروری خیال کیا گیا کہ مزید دس برسوں یعنی 25 جنوری 2030 تک در ج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے لئے سیٹوں کے ریزرویشن کا سلسلہ جاری رکھا جائے ۔حکومت نے آئین ( 126 واں ترمیمی ) بل 2019 پارلیمنٹ میں پیش کیا تاکہ اس مدت کو مزید دس سال تک بڑھانے کا التزام کیا جاسکے اور اس بل کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے منظوری دے دی اور جنوری 2020 میں اسے صدر کی منظوری بھی حاصل ہوگئی ۔مذکورہ بل کوآئینی (104 واں ) قانون 2020 کے طورپر قانونی حیثیت دی گئی ۔
ماہانہ پتریکا ؤں کی اشاعت
قانون سازی کے محکمے کے ویدھی ساہتیہ پرکاشن کے ذریعہ اچتم نیایالیہ نرنے پتریکا ، اُچ نیا یالیہ سول نرنے پتریکا اور اُچ نیایالیہ ڈانڈک نرنے پتریکا شائع کی جاتی ہے ، جو بالترتیب سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے فیصلوں کے ہندی ترجمے پر مشتمل ہوتی ہے ۔
سیمینار ، نمائش اور کتابو ں اور پتریکاؤں کی فروخت
دنیا بھر میں کووڈ -19 کی وبا کے سبب سال 2020 کے دوران نمائشوں /سیمیناروں / کانفرنسوں کا انعقاد نہیں ہوسکا۔ ہندی میں قانونی معلومات کے فروغ ،تشہیر اور اشاعت کی اسکیم کے تحت وی ایس پی نے انڈیا کوڈ کی لاء یونیورسٹیوں / کالج لائبریریوں ، ججوں کی لائبریوں اور قانون کے طلبا ء کے مابین مفت تقسیم کی ۔ یکم جنوری 2020 سے 30نومبر 2020 تک کُل 1397764 روپے کے ویدھی ساہتیہ پرکاشن کی فروخت ہوئی ۔
انڈیا کوڈ انفارمیشن سسٹم ( آئی سی آئی ایس )
ہرسال متعدد قوانین ( اصل قوانین اور ترمیم شدہ قوانین )قانون سازاداروں کے ذریعہ منظور کئےجاتے ہیں اور یہ عدلیہ ، وکلاء اور شہریوں کے لئے مشکل ہے کہ وہ جب ضرورت ہو متعلقہ تازہ ترین قوانین تک رسائی حاصل کرسکیں ۔اس مسئلے کا حل ایک ایسا جامع مخزن بناکر کیا جاسکتا ہے ، جہاں سبھی قوانین اور ترامیم ایک جگہ دستیاب ہوں اور جہاں تک سب کی رسائی ممکن ہو۔یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ ایک ایسا مرکزی مخزن بنایا جائے ،جس میں سبھی قوانین اور وقتاََ فوقتاََ بنائے گئے ذیلی قوانین ایک جگہ پر دستیاب ہوں اور جہاں تک جب بھی عوام ، وکلاء ، ججوں وغیرہ کو ایسے قوانین تازہ ترین صورتحال سے واقف ہونے کی ضرورت ہو تو وہ ان تک رسائی حاصل کرسکیں ۔اس کا مقصد عام لوگوں کو نجی پبلشروں کے استحصال سے بچانا بھی ہے۔ دراصل یہ سب سے قوی وجہ ہےکہ انڈیا کوڈ کو انٹرنیٹ پر کیوں دستیاب کرایا جائے ۔ان سبھی پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے انڈیا کوڈ انفارمیشن سسٹم ( آئی سی آئی ایس ) نے قانون وانصاف ( قانون سازی کے محکمے ) کی رہنمائی میں این آئی سی کی مدد سے متعلقہ ذیلی قوانین سمیت سبھی مرکزی اور ریاستی قوانین کے لئے ایک ون اسٹاپ ڈجیٹل ریپوزیٹری تیار کیا ہے۔سبھی شہریوں کو قانونی نقطہ نظر سے بااختیار بنانے اور ایک قوم – ایک پلیٹ فارم کے مقصدکے حصول کو یقینی بنانے کی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔اس سسٹم کا اصل مقصد عوام ،وکلا ء، ججوں اور سبھی دیگر دلچسپی رکھنے والے فریقوں کو جب کبھی ضرورت ہو توبھارت کے سبھی قوانین کی تازہ ترین شکل پر مشتمل ایک ون اسٹاپ ریپوزیٹری کی سہولت دستیاب کرانا ہے۔ اب تک 1838 سے لے کر 2020 تک کے مجموعی طورپر 857 مرکزی قوانین کو عوام کے لئے اپ ڈیٹ کیا گیاہے اور انہیں آئی سی آئی ایس پر اپ لوڈ کیا گیا ہے۔
*************
ش ح۔م م ۔رم
2021)-01-13)
U- 338
(Release ID: 1688216)
Visitor Counter : 400