سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت

سبھی شعبوں میں سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراعات کو بروئے کار لاتے ہوئے آئندہ چند مہینوں میں بھارتی معیشت دنیا کی چوٹی کی معیشتوں میں ایک ہوگی، کووڈ-19 کے اثرات کے بعد جلد ہی معیشت اپنی رفتار پر واپس لوٹے گی: نائب صدر نیتی آیوگ


سبھی شعبوں میں سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراعات کو بروئے کار لاتے ہوئے مطلوبہ شرح پر بھارتی معیشت کے نمو میں سائنس و ٹیکنالوجی کے محکمہ نے کافی مدد کی ہے، اسٹارٹ اپس کی تعداد بڑھانے میں بھی محکمے کی مدد شامل حال رہی ہے: سکریٹری محکمہ سائنس و ٹیکنالوجی

یونیورسٹیوں کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق تحقیق کو آگے بڑھانے کے لئے کشمیر، سکم اور تیزپور کی مرکزی یونیورسٹیوں میں این ایم ایس ایچ ای کے تحت تین مراکز امتیاز قائم کئے گئے ہیں

ہمالیائی خطے کے 13ویں موسمیاتی تبدیلی سیل کا لداخ میں جلد ہی قیام عمل میں آئے گا

Posted On: 07 DEC 2020 1:49PM by PIB Delhi

نئی دہلی،  7 /دسمبر  2020 ۔ نیتی آیوگ کے نائب صدر ڈاکٹر راجیو کمار نے زور دے کر کہا ہے کہ سبھی شعبوں میں سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراعات کو بروئے کار لاتے ہوئے آئندہ چند برسوں میں بھارتی معیشت دنیا کی چوٹی کی معیشتوں میں ایک ہوگی اور کووڈ-19 کے اثرات کے بعد جلد ہی یہ اپنی سابقہ رفتار پکڑ لے گی۔ انھوں نے یہ بات حال ہی میں محکمہ سائنس و ٹیکنالوجی (ڈی ایس ٹی) کے قیام کے 50 سال مکمل ہونے کے ضمن میں منعقدہ ایک ویبینار کے دوران کہی۔

انھوں نے کہا کہ دنیا کی چوٹی کی تین معیشتوں میں شامل ہونے کے لئے زراعت، جدید ادویات، روایتی ادویات، جدید تعلیمی پالیسی، چھوٹی اور اوسط درجے کی کمپنیوں، شعبہ محنت اور اسی طرح کے دوسرے سبھی شعبوں میں حکومت کے ذریعے اصلاحی اقدامات کئے جارہے ہیں۔ انھوں نے یہ بات نیشنل کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کمیونیکیشن اینڈ وگیان پرسار کے ذریعے ڈی ایس ٹی گولڈن جبلی ڈسکورس سیریز – وبا کا دوسرا پہلو کے موضوع پر منعقدہ ویبینار کے دوران کہی۔

انھوں نے کہا کہ اس وبا نے بہت سی چیزوں کو بدل کر رکھ دیا ہے اور کاموں کی انجام دہی کی نئی راہیں دکھائی ہیں اور ان میں سے بہت سی چیزیں کووڈ کے بعد کی دنیا میں بھی برقرار رہنے والی ہیں، لہٰذا ہمیں کووڈ کے بعد کی دنیا کے لئے ایک اختراعاتی معاشی نظام کی ضرورت  ہے۔

ڈاکٹر کمار نے مزید کہا کہ کووڈ کے بعد کی معیشت پہلی سہ ماہی کے بعد بازیابی کی حالت میں ہے اور امید ہے کہ بھارتی معیشت آئندہ چند سہ ماہیوں میں اپنی سابقہ رفتار پر آجائے گی اور آئندہ 20 سے 30 برسوں کے درمیان اس کی شرح نمو اوسطاً 7 سے 8 فیصد رہے گی اور 2047 تک یہ دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گی۔

ویبینار میں اظہار خیال کرتے ہوئے ڈی ایس ٹی کے سکریٹری پروفیسر آشوتوش شرما نے ڈی ایس ٹی کے ذریعے کئے گئے اقدامات کو اجاگر کیا، تاکہ صاف ستھری توانائی، صحت، تعلیم، نقل و حمل، زراعت، مواصلات، الیکٹرک موبیلٹی، الیکٹرک اسٹوریج، کوانٹم ٹیکنالوجی وغیرہ جیسے سبھی شعبوں میں سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراعات کو بروئے کار لاتے ہوئے مطلوبہ شرح پر بھارتی معیشت کے نمو میں مدد مل سکے۔

پروفیسر شرما نے کہا کہ ڈی ایس ٹی نے گزشتہ 50 برسوں میں سبھی شعبوں میں صلاحیت سازی سے متعلق بہت سارا کام کیا ہے۔ سائنسی اشاعت کے معاملے میں بھارت کا مقام دنیا میں تیسرا ہے اور ڈی ایس ٹی کا اس سلسلے میں اہم رول ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے گزشتہ 50 سال شاندار رہے ہیں، لیکن ہمارے آئندہ 50 برسوں کو سابقہ 50 برسوں کے مقابلے آگے جانا چاہئے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ہمارا بجٹ دوگنا ہوگیا ہے  اور اس سے ہمیں نئی جہات کے تعین میں مدد ملی ہے۔ سبھی بنیادی تحقیق و ترقی کو برقرار رکھتے ہوئے اور اسے آگے بڑھاتے ہوئے ہم نے ریسرچ کے تعلق سے مسائل کا حل نکالنے والا نقطہ نظر متعارف کرایا ہے۔ ہم مستقبل کے لئے تیار ہیں اور اختراعات و اسٹارٹ اپس اور اختراعات کے نئے ماڈلس پر نئے طریقے سے زور دیے جانے کے وسیع امکانات ہیں۔

http://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image002BCOZ.jpg

اس دوران شمال مشرق کی دو ریاستوں سے تعلق رکھنے والی مرکزی یونیورسٹیوں میں نیشنل مشن فار سسٹیننگ دی ہمالین ایکو سسٹم (این ایم ایس ایچ ای) کے تحت قائم کئے گئے 3 مرکز امتیاز (سی او ای) کا افتتاح سائنس و ٹیکنالوجی محکمہ کے سکریٹری پروفیسر آشوتوش شرما کے ذریعے حال ہی میں ویڈیو کانفرنسنگ کے توسط سے کیا گیا ہے۔

پروفیسر شرما نے محکمہ سائنس و ٹیکنالوجی (ڈی ایس ٹی) کے ذریعے یونیورسٹی آف کشمیر، سکم یونیورسٹی اور تیزپور یونیورسٹی میں قائم کئے گئے  مراکز کا افتتاح کرتے ہوئے ان مراکز سے درخواست کی کہ وہ ہمالیائی خطے میں موسمیاتی تبدیلی کے متعلق تحقیق کی قیادت کریں۔

انھوں نے مزید کہا کہ نیشنل ایکشن پلان آن کلائمیٹ چینج میں شامل 8 قومی مشنوں میں سے این ایم ایس ایچ ای واحد سائٹ – اسپیسفک مشن ہے، جس کا مقصد بھارت کے ہمالیائی خطے کے تحفظ کے لئے مناسب اقدامات کرنا ہے۔ این ایم ایس ایچ ای کی اصل توجہ صلاحیت سازی پر مرکوز ہونے کے سبب ہم نے ہمالیائی خطے کی 13 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں سے 12 میں موسمیاتی تبدیلی (سی سی) سیل قائم کئے ہیں اور جلد ہی لداخ میں 13واں سی سی سیل قائم ہوجائے گا۔

موسمیاتی تبدیلی پروگرام کے متعلق ڈی ایس ٹی کی ایکسپرٹ کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر ایس پی سنگھ نے ہمالیہ کے دو حصوں میں ان مراکز کے قیام کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ ڈی ایس ٹی نے اس مشن میں پروجیکٹوں اور سرگرمیوں کے شریک ڈیولپر کی حیثیت سے سرگرم رول ادا کیا ہے اور اپنی تحقیق کو تقویت دینے کے لئے ہمالیائی خطے کی یونیورسٹیوں کو اہمیت دے کر اس نے ایک درستگی لانے والا اقدام کیا ہے۔

ایس پی ایل آئی سی ای – کلائمیٹ چیلنج پروگرام ڈی ایس ٹی کے مشیر اور سربراہ ڈاکٹر اکھلیش گپتا نے واضح کیا کہ بھارتی ہمالیائی خطے میں واقع 145 یونیورسٹیوں میں تحقیقی قیادت کو آگے بڑھانے اور ماحولیاتی تبدیلی کے شعبے میں بالخصوص ناکافی تحقیق و ترقی ڈھانچے کی موجودگی، معیاری افرادی قوت کی کمی جیسے چیلنجوں کے تدارک اور ادارہ جاتی تحقیق کی حوصلہ افزائی کے سلسلے میں ڈی ایس ٹی کے ذریعے صلاحیت سازی کی ضرورت پر مبنی میپنگ کے عمل کو انجام دیا گیا۔ کشمیر، تیزپور اور سکم یونیورسٹیوں میں قائم کئے گئے تین مراکز امتیاز اسی میپنگ ایکسرسائز کا حصہ ہیں۔

کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طلعت احمد نے کہا کہ ہمالیہ میں 13000 سے زیادہ گلیشیر ہیں اور ان کے مطالعے کے لئے اس شعبے کے ماہرین پر مشتمل بڑی افرادی قوت کے فروغ کی ضرورت ہے۔

تیزپور یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر وی کے جین نے شمال مشرق میں ایک مرکز کی ضرورت کو نمایاں کیا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں قابل ذکر تعداد میں قبائلی برادری آباد ہے، ایسے سینٹر کی ضرورت اس لئے ہے کہ ان قبائلی افراد کے روزی روٹی کے حصول کے پائیدار ذرائع سے متعلق مسائل کا حل کیا جاسکے۔

سکم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اویناش کھرے نے کہا کہ اس مرکز امتیاز کے قیام سے سکم یونیورسٹی کو صلاحیت سازی میں مدد ملے گی۔

ایس پی ایل آئی سی ای – کلائمیٹ چینج پروگرام ڈی ایس ٹی کی معاون سربراہ ڈاکٹر نشا مہندی رٹا نے کہا کہ این ایم ایس ایچ ای کا مقصد پالیسی سے متعلق مناسب اقدامات اور پابند وقت کارروائی پروگراموں کی تیاری ہے، تاکہ ماحولیاتی لچیلے پن کو برقرار رکھا جاسکے اور ہمالیائی خطے میں کلیدی ماحولیاتی خدمات سے متعلق التزامات کے تسلسل کو یقینی بنایا جاسکے اور ہمالیائی ماحولیاتی نظام کی برقراری اور تحفظ کے لئے مناسب بندوبست اور پالیسی اقدامات وجود میں لائے جاسکیں۔

CoE - Climate Change.jpg

 

http://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image004Y09M.jpg

 

******

 

م ن۔ م م۔ م ر

U-NO. 7878

07.12.2020


(Release ID: 1678990) Visitor Counter : 278