وزیراعظم کا دفتر

پریزائیڈنگ آفیسروں کی 80ویں کُل ہند کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے وزیراعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 26 NOV 2020 5:38PM by PIB Delhi

 

نئی دہلی:26 نومبر، 2020:

نمسکار،

گجرات کے گورنر جناب آچاریہ دیوبرت جی ، لوک سبھا کے اسپیکر جناب اوم برلا جی، پارلیمانی اُمور کے وزیر جناب پرہلاد جوشی جی، راجیہ سبھا کے نائب چیئرمین جناب ہری ونش جی، پارلیمانی اُمور کے وزیر مملکت جناب  ارجن میگھوال جی، گجرات اسمبلی کے اسپیکر جناب راجندر ترویدی جی، ملک کے مختلف قانون سازیہ پرزائڈنگ افسران، دیگر مہمانان گرامی، خواتین وحضرات۔

آج ماں نرمدا کے کنارے، سردار پٹیل جی کے سائے میں دو بہت ہی اہم مواقع کا سنگم ہورہا ہے۔ یوم آئین پر تمام برادران وطن کو مبارکباد اور نیک خواہشات۔ ہم ان تمام عظیم نفوس اور خواتین کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جو ہمارے آئین کو بنانے میں شامل تھے۔ آج یوم آئین بھی ہے اور آئین کا تحفظ کرنے میں اہم کردار ادا کرنے والے آپ پریزائیڈنگ آفیسروں کا کانفرنس بھی ہے۔  یہ برس پریزائیڈنگ آفیسروں کی کانفرنس کا صدی سال بھی ہے۔ اس اہم  حصولیابی کیلئے آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد۔

ساتھیو،

آج ڈاکٹر راجندر پرساد اور بابا صاحب  امبیڈکر سے لیکر آئین کمیٹی کے اُن سبھی اشخاص کو سلام کرنے کا  دن ہے، جن کی بے پناہ کوششوں سے ہم سب ہم وطنوں کو آئین ملا۔ آج کا دن قابل احترام باپو کی تحریک کو، سردار ولبھ بھائی پٹیل کے عہد کو سلام کرنے کا دن ہے۔ ایسے ہی متعدد بصیرت کےحامل نمائندوں نے آزاد ہندوستان کی تعمیرنو کا راستہ طے کیا تھا۔ ملک ان کوششوں کو یاد رکھے۔ اسی مقصد سے پانچ سال پہلے 26 نومبر کو یوم آئین کے طور پر منانے کافیصلہ کیا گیا تھا۔ میں پورے ملک کو اپنی جمہوریت کے اس  اہم تیوہار کیلئے مبارکباد دیتا ہوں۔

ساتھیو،

آج کی تاریخ ملک پر سب سے بڑے دہشت گردانہ حملے کے ساتھ بھی جڑی ہوئی ہے۔ 2008 میں پاکستان سےآئے، پاکستان سے بھیجے گئے دہشت گردوں نے ممبئی پر دھاوا بول دیا تھا۔ اس معاملے میں متعدد لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ متعدد ملکوں کے لوگ مارے گئے تھے، میں ممبئی میں مارے گئے سبھی لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ اس حملے میں ہمارے پولیس فورس کے کئی جانباز بھی شہید ہوئے تھے۔ میں انہیں بھی سلام کرتا ہوں۔ ممبئی حملے کا زخم بھارت بھول نہیں سکتا۔ اب آج کا بھارت نئی پالیسی، نئے طریقے کے ساتھ دہشت گردی کا مقابلہ کررہا ہے۔ ممبئی حملے جیسی سازشوں کو ناکام کررہے دہشت گردی کو منہ توڑ جواب دینے والے بھارت کے تحفظ میں ہر پل مصروف حفاظتی دستوں کو بھی آج میں سلام کرتا ہوں۔

ساتھیو،

پریزائیڈنگ آفیسروں کے طور پر ہماری جمہوریت میں آپ کا کلیدی رول ہے، آپ سبھی پریزائیڈنگ افسران قانون ساز کے طور پر آئین اور ملک کے عام انسان کو جوڑنے والی ایک بہت اہم کڑی ہے۔ رکن اسمبلی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ایوان کے اسپیکر بھی ہیں۔ ایسے میں ہمارے آئین کے تینوں اہم ستون مقننہ، عاملہ اور عدلیہ کے درمیان بہتر تال میل قائم کرنے میں آپ بہت بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ آپ نے اپنی کانفرنس میں اس پر کافی بحث بھی کی ہے۔ آئین کےتحفظ میں عدلیہ کا اپنا کردار ہوتا ہے۔ لیکن اسپیکر قانون ساز ادارے کا چہرہ ہوتا ہے۔ اس لئے اسپیکر، ایک طرح سے آئین کے سرکشا کووچ کا پہلا محافظ بھی ہے۔

ساتھیو،

آئین کے تینوں ستون کے کردار سے لیکر شائستگی تک سب کچھ آئین میں مذکور ہے۔ 70 کے دہائی میں ہم نے دیکھا تھا کہ کیسے سپریشن آف پاورکی شائستگی کو معطل کرنے کی کوشش ہوئی تھی، لیکن اس کا جواب بھی ملک کو آئین سے ہی ملا۔ بلکہ ایمرجنسی کے اس دور کے بعد چیکس اینڈ بیلنس کا نظام مضبوط سے مضبوط ہوتا گیا۔ مقننہ، عاملہ اور عدلیہ تینوں ہی اس دور سے کافی کچھ سیکھ کر آگے بڑھ گئے۔ آج بھی وہ سیکھ اتنی ہی معنویت کی حامل ہے۔ پچھلے چھ سات برسوں میں مقننہ، عاملہ اور عدلیہ میں تال میل کو اور بہتر کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔

ساتھیو،

اس طرح کی کوششوں کا سب سے بڑا اثر پڑتا ہے عوام کے اعتماد پر۔ مشکل سے مشکل وقت میں بھی عوام کی آستھا ان تین ستون پر بنی رہتی ہے۔ یہ ہم نے کئی دنوں اس عالمی وبا کے وقت بھی بخوبی دیکھا ہے۔ ہندوستان کے 130 کروڑ سے زیادہ عوام نے جس پختگی کا ثبوت دیا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ، سبھی ہندوستانیوں کا آئین کے تینوں ستون پر مکمل اعتماد ہے۔ اس اعتماد کو بڑھانے کیلئے مسلسل کام بھی ہوا ہے۔

وبا کے اس وقت میں ملک کے پارلیمنٹ نے قومی مفاد سے جڑے قوانین کیلئے، آتم نربھر بھارت کیلئے، اہم قوانین کیلئے جوتیاری اور عزم دکھایا ہے وہ غیرمعمولی ہے، اس دوران پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں طے وقت سے زیادہ کام ہوا ہے۔ اراکین پارلیمنٹ نے اپنی تنخواہ میں بھی کٹوتی کرکے اپنے عزم کامظاہرہ کیا ہے۔ متعدد ریاستوں کے اراکین اسمبلی نے بھی اپنی تنخواہ کا کچھ حصہ دیکر کورونا کے خلاف لڑائی میں اپنا تعاون دیا ہے۔ میں ان تمام کوششوں کی تعریف کرنا چاہتا ہوں۔ کووڈ کے اس وقت میں یہ اقدامات عوام کا اعتماد بڑھانے میں کلیدی رول ادا کریں گے۔

ساتھیو،

کورونا کے اس وقت میں ہمارے انتخابی نظام کی مضبوطی بھی دنیا نے دیکھی ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر چناؤ ہونا، وقت پر نتیجہ آنا، آسانی سے نئی سرکار کی تشکیل، یہ اتنا بھی آسان نہیں ہے۔ ہمیں ہمارے آئین سے جو طاقت ملی ہے وہ ایسے ہر مشکل کاموں کو آسان  بناتی ہے۔ ہمارا آئین اکیسویں صدی میں بدلتے وقت کی ہر چنوتی سے نمٹنے کیلئے ہماری رہنمائی کرتا رہے، نئی نسل کے ساتھ اس کا جڑاؤ بڑھے، یہ فرض ہم سبھی پر ہے۔

آنے والے وقت میں آئین 75 سال کی جانب تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح سے آزاد ہندوستان بھی 75 برس کا ہونے والا ہے۔ ایسے میں انتظامات کو  وقت کے موافق بنانے کیلئے بڑے قدم اٹھانے کیلئے ہمیں عہدبند جذبے کے  ساتھ کام کرنا ہوگا۔ ملک کے لئے لیے گئے ہر عہد کو ثابت کرنے کیلئے مقننہ، عاملہ اور عدلیہ اس کو بہتر تال میل کے ساتھ کام کرتے رہنا ہے۔ ہمارے ہر فیصلے کی بنیاد  ایک ہی ترازو سے تولنا چاہئے۔ ایک ہی معیار ہونا چاہئے اور وہ معیار ہے قومی مفاد، قومی مفاد، یہی ہمارا ترازو ہونا چاہئے۔

ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ جب نظریات میں ملک کا مفاد، عوامی مفاد نہیں اس کے بجائے سیاست حاوی ہوتی ہے تو اس کا نقصان ملک کو اٹھانا پڑتا ہے۔ جب ہر کوئی الگ الگ سوچتا ہے، تو کیا نتائج ہوتے ہیں، اس کا گواہ۔۔ آپ دو دن سے یہاں تشریف فرماں ہیں، وہ سردار سروس ڈیم بھی اس کی ایک بہت بڑی مثال ہے۔

ساتھیو،

کیواڈیا میں ٹھہرنے کے دوران  آپ سبھی نے  سردار سروور ڈیم کی عظمت دیکھی ہے۔ پُرشکوہ دیکھی ہے، اس کی طاقت دیکھی ہے۔ لیکن اس ڈیم کا کام برسوں تک اٹکا رہا ہے، پھنسا رہا۔ آزادی کے کچھ بعد شروع ہوا تھا اور آزادی کے 75 برس جب سامنے آئے ہیں، ابھی کچھ سال پہلے وہ پورا ہوا ہے۔ کیسی کیسی رکاوٹیں ، کیسے کیسے لوگوں کے ذریعے روکاوٹیں، کس طرح سے آئین کا غلط استعمال کرنے کی کوشش ہوئی اور اتنا بڑا پروجیکٹ عوامی مفادکا پروجیکٹ اتنے سالوں تک لٹکا رہا۔

آج اس ڈیم کا فائدہ گجرات کے ساتھ ہی مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور راجستھان کے لوگوں کو ہورہا ہے۔ اس باندھ سے گجرات کی 10 لاکھ ہیکٹیئر آراضی کو، راجستھان کی ڈھائی لاکھ ہیکٹیئر آراضی کو سینچائی کی سہولت یقینی ہوئی ہے۔ گجرات کے 9 ہزار سے زیادہ گاؤں، راجستھان اور گجرات کے متعدد چھوٹے بڑے شہروں کو گھریلو پانی کی سپلائی اسی سردار سروور ڈیم کی وجہ سے ہوپارہی ہے۔

اور جب پانی کی بات آتی ہے تو مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ جب نرمدا کا پانی متعدد جھگڑوں میں رہا، متعدد بحران سے گزرے، حقیقت کچھ راستے نکلے، لیکن جب راجستھان کو پانی پہنچایا گیا تو بھیروسنگھ شیخاوت جی اور جسونت سنگھ جی، دونوں گاندھی نگر خصوصی طور پر ملنے آئے۔ میں نے پوچھا کیا کام ہے، بولے آکرکے بتائیں گے۔ وہ آئے اور مجھے اتنا انہوں نے عزت دی، اتنے آشیرواد دیے۔ میں نے کہا اتنا پیار، اتنے جذبات کیوں۔ ارے بولے بھائی، تاریخ گواہ ہے کہ پانی کی بوند کے لیے بھی جنگ ہوئے ہیں، لڑائیاں ہوئی ہیں،  دو دو خاندانوں کے درمیان بٹوارا ہوگیا ہے۔ بنا کوئی جدوجہد، بنا کوئی جھگڑے گجرات کے نرمدا کا پانی راجستھان پہونچ گیا، راجستھان کی سوکھی دھرتی کو آپ نے پانی پہونچایا، یہ ہمارے لئے اتنے فخر اور خوشی کا موضوع ہے اور اس لئے ہم تمہیں ملنے  آئے ہیں۔ آپ دیکھئے، یہ کام اگر پہلے ہوا ہوتا، اسی باندھ سے جو بجلی پیدا ہورہی ہے، اس کازیادہ فائدہ مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش کو ہورہا ہے۔

ساتھیو،

یہ سب برسوں پہلے بھی ہوسکتا تھا۔عوامی بہبود کی سوچ کے ساتھ، ترقی کو اولین ترجیح کے ایپروچ کے ساتھ، یہ فائدے پہلے بھی مل سکتے تھے لیکن برسوں تک عوام ان سے محروم رہی۔ اور آپ دیکھئے جن لوگوں نے ایسا کیا، انہیں کوئی پچھتاوا بھی نہیں ہے۔ اتنا بڑا قومی نقصان ہوا، باندھ کی لاگت کہاں سے کہاں پہنچ گئی، لیکن جو اس  کے ذمہ دار تھے، ان کے چہرے پر کوئی شکن نہیں ہے۔ ہمیں ملک کو اس صورتحال سے باہر نکالنا ہے۔

ساتھیو،

سردار پٹیل جی کے اتنے عظیم مجسمے کے سامنے جاکر، درشن کرکے، آپ لوگوں نے بھی نئی توانائی محسوس کی ہوگی۔ آپ کو بھی ایک نئی تحریک ملی ہوگی۔ دنیا کی سب سے اونچے مجسمے، اسٹیچوآف یونیٹی، یہ ہر ہندوستانی کاافتخار بڑھاتا ہے۔ اور جب سردار پٹیل اسٹیچو بنا ہے وہ جن سنگھ کے ممبر نہیں تھے، بھاجپا کے ممبر نہیں تھے، کوئی سیاسی چھوا چھوت نہیں۔ جیسے ایوان میں ایک جذبے کی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی ملک میں بھی ایک جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سردار صاحب کا مجسمہ اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ یہاں کوئی سیاسی چھوا چھوت نہیں ہے۔  ملک سے بڑا کچھ نہیں ہوتا، ملک کے افتخار سے بڑا کچھ نہیں ہوتا ہے۔

آپ تصور کرسکتے ہیں، 2018 میں اسٹیچو آف یونٹی کی نقاب کشائی کے بعد سے قریب قریب 46 لاکھ لوگ یہاں اس سردار صاحب اسٹیچو کو اپنا سلام کرنے کے لئے آئے تھے۔ کورونا کی وجہ سے سات مہینے تک اسٹیچو درشن بند نہیں ہوئے ہوتے تو یہ تعداد اور زیادہ ہوتی۔ ماں نرمردا کے آشیرواد سے، اسٹیچو آف یونٹی ، یہ پورا کیواڈیا شہر، ہندوستان کے پُررونق شہروں میں شامل ہونے کیلئے تیزی سے کھڑا ہورہا ہے۔ کچھ ہی برسوں میں اور اب گورنر جناب آچاریہ جی نے بڑی تفصیل سے اس کی وضاحت کی ہے۔ کچھ ہی برسوں میں اس جگہ کی کایا پلٹ ہوگئی ہے۔ جب ترقی کو سب سے اعلیٰ رکھ کر، فرائض کے جذبے کو سب سے اوپر رکھ کر کام ہوتا ہے، تو نتائج بھی ملتے ہیں۔

آپ نے دیکھا ہوگا، ان دو دنوں کے دوران آپ کو کئی گائیڈس سے ملنے ہوا ہوگا، کئی انتظام میں جڑے لوگوں سے ملنا ہوا ہوگا۔ یہ سارے نوجوان بیٹے بیٹیاں اسی علاقے ہیں، آدیواسی خاندان کی بچیاں ہیں اور آپ کو جب بتاتی ہوگی  بہت ایگزیکٹ الفاظ کا استعمال کرتی ہیں، آپ نے دیکھا ہوگا۔ یہ طاقت ہمارے ملک میں  پڑی ہے۔ ہمارے گاؤں کے ا ندر بھی یہ طاقت پڑی ہے۔ صرف تھوڑاراکھ ہٹانے کی ضرورت ہے، وہ ایک دم سے چمک جاتی ہے، آپ نے دیکھا ہوگا دوستو، ترقی کے ان کاموں نے یہاں کے آدی واسی بھائی بہنوں کو بھی ایک نئی خود اعتمادی دی ہے۔

ساتھیو،

ہر شہری کا آتم سماّن اور آتم وشواس بڑھے، یہ آئین کے بھی مطابق ہے اور ہماری بھی یہ مسلسل کوشش ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ہم سبھی اپنے فرائض کو، اپنے حقوق کا ذریعہ مانیں گے، اپنے فرائض کو  اعلیٰ ترجیح دیں گے، فرائض پر آئین پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ لیکن پہلے کے دور میں اسے ہی بھلا دیا گیا، چاہے عام شہری ہوں، ملازم ہوں، عوامی نمائندہ ہوں، عدلیہ نظام سے جڑے لوگ ہوں، ہر فرد ہر ادارے کیلئے فرائض کی بجا آوری بہت ضروری ہے۔ آئین میں تو ہر شہری کیلئے یہ فرض تحریری شکل میں بھی ہے۔ اور ابھی ہمارے اسپیکر قابل احترام برلاجی نےفرائض کے موضوع پر تفصیل سے باتیں رکھی ہیں۔

دوستو،

ہمارے آئین کی متعدد خصوصیات ہیں، لیکن ایک بیحد اہم خصوصیت فرائض کو دی گئی اہمیت ہے۔  مہاتما گاندھی خود اس کے بارے میں بیحد دلچسپی رکھتے تھے۔ انہوں نے حقوق اور فرائض کے درمیان ایک قریبی رشتہ دیکھا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ جب ہم اپنے فرائض کو ادا کریں گے حقوق کا تحفظ ہوگا۔

ساتھیو،

اب ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ آئین کے تئیں عام شہری کی سمجھ اور زیادہ وسیع ہو۔ اس کے لئے آئین کو جاننا اور سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔ آج کل ہم سب لوگ سنتے ہیں کے وائی سی۔۔ یہ بہت عام لفظ ہے ہر کوئی جانتا ہے۔ کے وائی سی کا مطلب  ہے نو یور کسٹمر ۔ یہ ڈیجیٹل تحفظ کاایک بہت بڑا اہم پہلو بناہوا ہے۔ اسی طرح کے وائی سی ایک نئے روپ میں، کے وائی سی  یعنی نو یور کانسٹی ٹیوشن ہمارے آئینی سرکشا کووچ کو بھی مضبوط کرسکتا ہے۔ اس لئے میں آئین کے بیداری کیلئے مسلسل مہم چلاتے رہنا، یہ ملک کی آنے والی نسلوں کیلئے ضروری مانتا ہوں۔ بالخصوص اسکولوں میں، کالجوں میں، ہماری نئی نسل کو اس سے  بہت قریب سے متعارف کرانا ہوگا۔

میں آپ سبھی سے زور دیکر کہوں گا کہ آپ سبھی ایسے اقدامات کریں جس سے ہمارے آئین کے پہلو نوجوانوں کے درمیان زیادہ مقبول ہوں۔ وہ بھی اختراعی طریقہ کار کے ذریعے۔

ساتھیو،

ہمارے یہاں بڑا مسئلہ یہ بھی رہا ہے کہ آئینی اور قانونی زبان، اس شخص کو سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے جس کے لئے وہ قانون بنا ہے۔ مشکل الفاظ، لمبی لمبی لائنیں، بڑے بڑے پیراگراف، کلاؤز۔ سب کلاؤز۔ یعنی جانے انجانے ایک مشکل جال بن جاتا ہے۔ ہمارے قانون کی زبان اتنی آسان ہونی چاہئے کہ عام سے عام آدمی بھی اس کو سمجھ سکے۔ ہم بھارت کے لوگوں نے یہ آئین خود کو دیا ہے۔ اس لئے اس کے تحت لئے گئے ہر فیصلے ہر قانون سے عام شہری سیدھا کنیکٹ محسوس کرے، یہ یقینی بنانا ہوگا۔

اس میں آپ جیسے پریزائڈنگ آفیسروں کی بہت بڑی مدد مل سکت یہے۔ اسی طرح وقت کے ساتھ جو قانون اپنی اہمیت کھو چکے ہیں، ان کو ہٹانے کا عمل بھی آسان ہونا چاہئے۔ ابھی ہمارے قابل قدر ہری ونش جی نے اس سلسلے میں اچھے مثال دیے۔ ایسے قانون زندگی کو آسان بنانے کے بجائے روکاوٹیں زیادہ بناتے ہیں۔ پچھلے برسوں میں ایسے سینکڑوں قوانین ہٹائے جاچکے ہیں۔ لیکن کیا ہم ایسا نظام نہیں بناسکتے جس سے پرانے قوانین میں آئین کی طرح ہی، پرانے قوانین کو منسوخ کرنے کا عمل خود بخود چلتا رہے؟۔

ابھی کچھ قوانین میں سنسیٹ کلاؤز کا ا نتظام شروع کیا گیا ہے۔ اب خصوصی قوانین اور کچھ دوسرے قوانین میں بھی اس کا دائرہ بڑھانے پر تبادلہ خیال چل رہا ہے۔ میری تجویز ہے کہ ریاست کے قانون ساز اسمبلیوں میں بھی اس طرح کے نظام کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے تاکہ پرانے غیرمستعمل قوانین کو قانون  کی کتاب سے ہٹانے کیلئے طریقہ کار کی ضرورتوں سے بچاجاسکے۔ اس طرح کے نظام سے قانونی کنفیوزن بہت کم ہوگا اور عام شہریوں کو بھی آسانی ہوگی۔

ساتھیو،

ایک اور موضوع ہے اور وہ بھی اتنا ہی اہم ہے اور وہ ہے انتخابات کا۔ ایک ملک ایک انتخاب صرف ایک بحث کا موضوع نہیں ہے بلکہ یہ ہندوستان کی ضرورت ہے۔ ہر کچھ مہینے میں بھارت میں کہیں نہ کہیں بڑے چناؤ ہورہے ہوتے ہیں۔ اس سے ترقی کے کاموں پر جو اثر پڑتا ہے اسے آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ایسے میں ون نیشن ون الیکشن پرگہرے غوروخوض کی ضرورت ہے اور اس میں پریزائڈنگ افسران کافی رہنمائی کرسکتے ہیں۔ گائیڈ کرسکتے ہیں، لیڈ کرسکتے ہیں،اس کے ساتھ ہی لوک سبھا ہو ، ودھان سبھا ہو یا پھر پنچایت چناؤ ہو ان کے لئے ایک ہی ووٹر لسٹ کام میں آئے۔

اس کے لئے ہمیں سب سے پہلے راستہ بنانا ہوگا۔ آج ہر ایک کے لئے الگ الگ ووٹر لسٹ ہے، ہم کیوں خرچ کررہے ہیں، وقت کیوں برباد کررہے ہیں۔ اب ہر ایک کے لئے 18 سال سے اوپر تک طے ہے۔ پہلے تو عمر میں فرق تھا، اس لئے تھوڑا الگ رہا، اب کوئی ضرورت نہیں ہے۔

ساتھیو، ڈیجیٹائزیشن کو لیکر پارلیمنٹ میں اور کچھ اسمبلیوں میں کچھ کوششیں ہوئی ہیں، لیکن اب مکمل ڈیجیٹلائزیشن کرنے کا وقت آچکا ہے۔ اگر آپ پریزائڈنگ آفیسرس اس سے جڑے اقدامات کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ ہمارے اراکین اسمبلی اراکین پارلیمنٹ بھی تیزی سے ٹیکنالوجی کو اپ ڈیٹ کرلیں گے۔ کیا آزادی کے 75 برس کو دیکھتے ہوئے آپ  اس سے جڑے ہدف طے کرسکتے ہیں؟ کوئی ٹارگیٹ طے کرکے یہاں سے جاسکتے ہیں؟

ساتھیو،

آج ملک کے سبھی قانون ساز ایوانوں کو ڈیٹا شیئر کرنے کی سمت میں آگے بڑھنا ضروری ہے، تاکہ ملک میں ایک سینٹرل ڈیٹا بیس ہو۔ سبھی ایوانوں کے کام کاج کا ایک ریئل ٹائم بیورہ عام شہری کو بھی دستیاب ہو اور ملک کے سبھی ایوانوں کو بھی یہ دستیاب ہو۔ اس کے لئے ‘نیشنل ای۔ ودھان ایپلی کیشن’ کی شکل میں ایک جدید ڈیجیٹل پلیٹ فارم پہلے سے ہی تیار کیا جاچکا ہے۔ میرا آپ سبھی سے گزارش ہوگی کہ اس پروجیکٹ کو جلد سے جلد اپ ڈیٹ کریں۔ اب ہمیں اپنے کام کے طریقہ کار میں زیادہ سے زیادہ ٹیکنالوجی کے استعمال، کم کاغذ والے طور طریقوں پر زور دینا چاہئے۔

ساتھیو،

ملک کو آئین سونپتے وقت ، آئین کمیٹی اس بات کو لیکر متحد تھی کہ آنے والے بھارت میں بہت سی باتیں روایتوں سے بھی قائم ہوں گی۔ آئین کمیٹی چاہتی تھی کہ آنے والی پیڑھیاں یہ طاقت دکھائیں اور نئے روایات کو اپنے ساتھ جوڑتی چلیں۔ ہمیں اپنے آئین کے معماروں کے اس جذبے کا بھی دھیان رکھنا ہے۔ پریزائڈنگ آفیسران ہونے کے ناطے آپ سبھی کا کیا نیا کرسکتے ہیں، کون سی نئی پالیسی جوڑ سکتے ہیں، اس سمت میں بھی کچھ نہ کچھ تعاون کریں گے تو ملک کی جمہوریت کو ایک نئی طاقت ملے گی۔

ودھان سبھا کی بحث کے دوران عوامی شراکت داری کیسے بڑھے، آج کی نوجوان نسل کیسے جڑے، اس بارے میں بھی سوچا جاسکتا ہے۔ ابھی مشاہدین آتے ہیں ، بحث بھی دیکھتے ہیں لیکن اس عمل کو بہت منظم طریقے سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ جس مسئلے پر بحث ہو، اس موضوع کے اگر متعلق لوگ وہاں رہیں اس دن تو زیادہ فائدہ ہوگا۔ جیسے مانو تعلیم سے جڑا کوئی مسئلہ ہوتو طالب علموں کو، اساتذہ کو، یونیورسٹی کے لوگوں کو بلایا جاسکتا ہے، سماجی پہلو سے جڑا کوئی دیگر موضوع ہوتو اس سے متعلق گروپ کو بلایا جاسکتا ہے۔ خواتین سے متعلق کوئی معاملہ کی بحث ہو تو ان کو بلایا جاسکتا ہے۔

اسی طرح کالجوں میں بھی ماک پارلیمنٹ کو بڑھاوا دیکر ہم بہت بڑی تعداد میں اس کو متعارف کرسکتے ہیں اور ہم خود بھی اس سے جڑ سکتے ہیں۔ تصور کیجئے یونیورسٹی کے طلباء کی  پارلیمنٹ ہو اور آپ خود اسے چلائیں۔ اس سے طلبا کو کتنی تحریک ملے گی، کتنا کچھ نیا سیکھنے کو ملے گا۔ یہ میرے تجویز  ہے، آپ کے پاس تجربہ بھی ہے، مجھے یقین ہے کہ ایسی متعدد کوششوں سے ہمارے قانونی نظام پر عوام کا اعتماد اور مضبوط ہوگا۔

ایک بار پھر اس پروگرام میں مجھے مدعو کرنے کیلئے میں محترم اسپیکر کا بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں نے ایسے ہی تجویز دی تھی لیکن اسپیکر صاحب نے کیواڈیا میں اس پروگرام کو کیا۔ گجرات کے لوگوں کی مہمان نوازی تو بہت اچھی ہوتی ہی  ہوتی ہے، ویسے ہمارے ملک کے ہر کونے میں یہ مزاج ہے تو اس میں تو کوئی کمی نہیں آئی ہوگی، ایسا مجھے پورا یقین ہے۔ لیکن اس کو دیکھنے کے بعد ہوسکتا ہے آپ کے من میں کئی اچھے نئے خیالات آئے ہوں۔ اگر  وہاں وہ خیالات اگر پہنچا دیں گے  تو ضرور اس کا فائدہ ہوگا اس کی ترقی میں۔ کیوں کہ ایک پورے ملک کے لئے ایک قابل  فخر جگہ بنی ہے، اس میں ہم سب کا تعاون ہے۔ کیوں کہ اس کی بنیاد میں آپ کو یاد ہوگا ہندوستان کے ہر گاؤں سے کسانوں نے کھیت میں جو اوزار استعمال کیے تھے ویسا پرانا اوزار اکٹھا کیے تھے ہندوستان کے چھ لاکھ گاؤں سے۔ اور اس کو یہاں پر میلٹ کرکےاس اسٹیچو کو بنانے میں کسانوں کے کھیت میں استعمال کیے گئے اوزار میں سے لوہکا نکال کر اس میں استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی اس کے ساتھ ایک طرح سے ہندوستان کا ہر گاؤں، ہر کسان جڑا ہوا ہے۔

ساتھیو،

نرمدا جی اور سردار صاحب کے سائے میں یہ قیام آپ کو تحریک دیتا رہے، اسی تمنا کے ساتھ آپ سب کو میری جانب سے بہت بہت شکریہ۔

بہت بہت شکریہ!!

بہت نیک خواہشات۔

 

 

-----------------------

م ن۔م ع۔ ع ن

U NO:7624


(Release ID: 1676545) Visitor Counter : 214