وزارت سیاحت

سیاحت کی وزارت نے ، دیکھو اپنا دیس ویبینار سیریز کے تحت راجپوت کے بھولے بسرے دارالحکومت ‘‘بوندی’’ کی فن تعمیر کی ثقافت کو ویبینار کا انعقاد کیا

Posted On: 26 OCT 2020 4:58PM by PIB Delhi

 

نئی دہلی،  26 اکتوبر، 2020: سیاحت کی وزارت نے 24 اکتوبر 2020 کو دیکھو اپنا دیس  ویبینار سیریز کے تحت  راجستھان کے بوندی پر مرکوز ‘‘بوندی: بھولی بسری راجپوت دارالحکومت کے فن تعمیر کی ثقافت ’’ پر  ویبینار کا انعقاد کیا۔ عہد وسطیٰ کے بھارت میں یہ چھوٹا سا تاریخی شہر اپنے آس پاس کے علاقوں کے علاوہ زیادہ معروف نہیں تھا۔ اس وقت میں دہلی، جئے پور، جیسلمیر ، اودے پور، احمد آباداور لکھنؤ وغیرہ  اہم تاریخی نوابی سلطنتیں تھیں جو زیادہ معروف تھیں اور دور دراز کے بھارت  کے علاقے میں پھیلے چھوٹے شہر اور قصبوں کو سیاحت میں اتنی توجہ نہیں دی جاسکی جتنے کہ یہ حقدار تھے۔

ہڈا راجپوت  کا اس وقت کا دارالحکومت، جو ہدوتی کہلاتا تھا ، جنوب مشرقی راجستھان میں واقع تھا۔ چارو دتہ دیشمکھ، جو ایک فن تعمیر کے ماہر  اور شہری منصوبہ کار ہیں اور جنہیں منصوبہ بندی میں 25 سال سے زیادہ کا تجربہ ہے ، انہوں نے اس ویبینار کو پیش کیا ہے۔ جناب دیشمکھ نے بوندی میں سیاحت  کے فروغ کیلئے  وہاں کے فن تعمیر کی ثقافت کو 21ویں صدی میں استعمال کرنے پر زور دیا ہے۔

بوندی ،  باؤلیوں ، نیل گوں  شہر اور چھوٹی کاشی کے طور پر بھی مشہور ہے، عہد قدیم میں بوندی کے آس پاس کاعلاقے میں مقامی قبائل آباد تھے جن میں پریہار قبائل اور مینا قبائل سب سے اہم ہیں، بعد میں اس خطے کی حکمرانی راؤ دیوا کے پاس آئی جنہوں نے 1242 میں جائیتا مینا سے بوندی کو فتح کیا اور اس کے  آس پاس کے علاقوں کا نام بدل کر ہراوتی یا ہروتی رکھا۔ اگلی دو صدیوں تک بوندی کے ہڈا کا تعلق میواڑ کے سسودیا قبیلے  سے تھا اور یہاں 1569 تک راؤ کے خطاب کے ساتھ حکمرانی کی ۔ مغل بادشاہ اکبر نے راؤ سرجن سنگھ کو راؤ راجا کا خطاب دیا۔ 1632 میں راؤ راجا چھترسال یہاں کے حکمراں بنے اور وہ بوندی کے بادشاہ تھے۔ انہوں نے بوندی میں کیشو راؤ مندر اور چھتر محل کی تعمیر کرائی۔ وہ اپنے دادا راؤ رتن سنگھ  کے بعد بوندی کے بادشاہ بنے۔

مغلیہ سلطنت کے بعد کا عہد

1804 میں راجا راؤ بشن سنگھ نے کرنل مونسن کو ہولکار پرچڑھائی کرنے میں مدد کی ، یہ انہوں نے مراٹھا سلطنت اور پنڈاریوں کے ذریعے اپنی ریاست کو 1817 تک مستقل تباہ وبرباد کرنے کا بدلہ لینے کیلئے کیا تھا۔ اس کے بعد بشن سنگھ نے برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی سے 10 فروری 1818 کو ایک ذیلی معاہدہ کیا اور خود کو اس کے تحفظ میں دے دیا۔ انہوں نے بوندی کے مضافات میں سُکھ نیواس  نامی محل کی تعمیر کی۔

مہاراؤ راجا رام سنگھ ایک زیادہ قابل احترام حکمراں کے طور پر اُبھرا اور اس نے سنسکرت کی تعلیم کیلئے اسکول قائم کئے۔ 68 سال تک حکمرانی کرنے والے اس راجا کو راجپوت کا ایک عظیم حکمراں سمجھا جاتا ہے۔ 1947 میں بھارت کی تقسیم کے وقت برطانیہ نے اس نوابی ریاست کو تنہا چھوڑ دیا اور اس بات کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا کہ وہ آزاد بھارت میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا پاکستان میں۔ بوندی کے حکمراں نے بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا اور بعد میں یہ یونین آف انڈیا میں شامل ہوگیا۔ اس سے بوندی کے تمام اُمور دہلی کے کنٹرول میں آگئے۔ بوندی کے آخری حکمراں نے 7 اپریل 1949 کو بھارتی یونین کے ساتھ الحاق کے پروانے پر دستخط کیے۔

اہم اور منفرد پہلو

ہڈا راجپوت بہت جانباز بہادر اور بے جگر جنگجو تھے جو اپنی خودمختاری کیلئے جان کی بھی پرواہ  نہیں کرتے تھے۔  اس جانبازی کی وجہ سے بوندی کے تخت پر کئی مرتبہ ہڈا بچے کو ہی بٹھایا گیا۔ اسی وجہ سے مہارانی، دیوان اور دائی ماں شاہی انتظامیہ میں بہت اہمیت اختیار کرگئی۔

بوندی کا شہر تارا گڑھ پہاڑی کے مضافات میں پھلا پھولا، شاہی محل پہاڑی کے ڈھلان پر واقع ہے جو آس پاس کے پورے علاقے کا منظر پیش کرتی ہے۔ اگلے دو سو سال میں پورا کلسٹر آباد ہوا۔ بوندی کے زیادہ تر مکانوں میں جھروکے ہوتے ہیں اور زیادہ تر اوپری منزلوں کی کھڑکیاں سڑک کی جانب کھلتی ہیں جس سے ہوا اور روشنی گھروں میں داخل ہوتی ہے۔ بوندی کا شہر چاروں طرف سے دیوار سے گھرا ہوا تھا اور اس کے کئی دروازے تھے۔

بوندی کے دروازے

الف) تارا گڑھ کا داخلی دروازہ ( یہ قدیم ترین دروازہ ہے)

ب) فصیل بند شہر کے چار دروازے

ج) بیرونی شہر کے دروازے

د) فصیل بند شہر کی اہم سڑک کے دروازے

ر) چھوٹے دروازے

کوتوالی دروازہ اور نگر پول فصیل بند شہر میں صدر بازار کی سڑک پر تعمیر کیے گئے۔

آبی فن تعمیر

عہد وسطیٰ کے بھارتی شہر میں پانی کی فراہمی کے طریقہ کار اس وقت کی بہترین فن تعمیر کا نمونہ ہے۔ فصیل بند شہر کے باہر باؤلیوں اور کُنڈ کے ذریعے پانی کی فراہمی کی جاتی تھی ۔

بوندی کی فن تعمیر کی ثقافت کو چھ زمروں میں بانٹا جاسکتا ہے۔

  1. گڑھ (قلعہ)
  • تارا گڑھ
  1. گڑھ محل (شاہی محل)
  • بھج محل
  • چھتر محل
  • اومید محل
  1. باؤلی (سیڑھیوں والا کنواں)
  • کھوج دروازے کی باؤلی
  • بھوالدی باؤلی
  1. کنڈ (سیڑھیوں والا تالاب)
  • دھبائی جی کا کنڈ
  • نگر کنڈ اور ساگر کنڈ
  • رانی کنڈ
  1. ساگر محل (جھیل محل)
  • موتی محل
  • سکھ محل
  • شکار برج
  1. چھتری
  • چوراسی

سیاحوں کیلئے بوندی میں  گھومنے کے بہت سے مقامات ہیں اور یہاں سستے ہوٹل بھی اچھی تعداد میں موجود ہے۔ یہاں کی  چٹنیاں اور دال بھاٹی بہت مشہور ہیں۔

ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل روپندر برار نے ویبینار کا اختتام کرتے ہوئے سیاحت ، مقامات کی سیر ، کھانے ، تہذیب اور ثقافت کی اہمیت پر زور دیا۔ بعد میں انہوں نے اس وبا کے دوران ماسک پہننے، ہاتھ دھونے اور ایک دوسرے سے فاصلہ برقرار رکھنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ضابطوں کا احترام کرنے پر زور دیا۔

دیکھو اپنا دیس  ویبینار سیریز ایک بھارت شریسٹھ بھارت کے تحت  بھارت کے تنوع کو اجاگر کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ سیریز الیکٹرانکس اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی وزارت کے قومی ای۔ حکمرانی کے محکمے کے ساتھ تکنیکی ساجھیداری میں پیش کی گئی ہے۔ ویبینار کے مختلف سیشن حکومت کی وزارت سیاحت کے تمام سوشل میڈیا ہینڈلس پر دستیاب ہیں۔

گنگا میں سفری جہاز رانی کے عنوان سے اگلا ویبینار 31 اکتوبر 2020 کو دن میں گیارہ بجے منعقد کیا جائیگا۔

 

*************

  م ن۔و ا ۔ م ع

U-7119



(Release ID: 1671671) Visitor Counter : 286