سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت

این سی آر اے- ٹی آئی ایف آر، پونے اور آر آر آئی بنگلور کے ماہر فلکیات نے10-8بلین سال قبل ستاروں کی تشکیل کی شرح میں عروج کے بعد اس میں گراوٹ آنے کے راز کا انکشاف


 نیچر جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں کائنات کےابتدائی دور کی معلومات درج کی گئی ہے جس کے لئے کہکشاؤں کے ایٹمی گیس مواد کی پیمائش کی گئی

Posted On: 23 OCT 2020 6:57PM by PIB Delhi

نئی دہلی /23اکتوبر۔ عرصہ دراز سے سائنسدانوں کو اس بات پر حیرت تھی کہ کہکشاؤں میں تقریباً 10-8 بلین سال قبل  ستاروں کی تشکیل کی شرح میں عروج کے بعد اس کی شرح میں گراوٹ کیوں آئی۔اب انہوں نے کہکشاؤں کے ایٹمی ہائیڈروجن کی پیمائش کے ذریعہ ستاروں کی تشکیل کی سرگرمی میں گراوٹ آنے کے پیچھے جو راز ہے اس کا پتہ لگا لیا ہے۔

کہکشائیں بیشتر گیس اور ستاروں سے تشکیل پاتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ  گیس ستاروں میں تبدیل ہوجاتی ہے۔اس تبدیلی کو سمجھنے کے لئے ابتدائی دور میں کہکشاؤں کی تشکیل کے لئے بنیادی ایندھن کے طور پر کام کرنے والی ایٹمی ہائیڈروجن گیس کی پیمائش کی ضرورت پڑی۔ ماہرین فلکیات بہت مدت سے یہ بات جانتے ہیں کہ کہکشائیں آج کے مقابلے میں اس وقت زیادہ تیز رفتار سے ستاروں کی تشکیل کرتی تھی، جب کائنات  کا ابتدائی دور تھا، لیکن ستاروں کی تشکیل کی شرح میں اس گراوٹ کی وجہ معلوم نہیں تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت ایٹمی ہائیڈروجن گیس کی مقدار کے بارے میں معلومات حاصل نہیں تھی۔

حکومت ہند کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے محکمے( ڈی ایس ٹی) کے ایک خود مختار ادارے  رمن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ( آر آر آئی) اور نیشنل سینٹر فار ریڈیو ایسٹرو فزکس(این سی آر اے- ٹی آئی ایف آر)، پونے کے ماہر فلکیات کی ایک ٹیم نے 8 بلین سال قبل نظر آنے والی کہکشاؤں کے ایٹمی ہائیڈروجن مواد کی پیمائش کےلئے این سی آر اے- ٹی آئی ایف آر کے ذریعہ چلائی جانے والی اپ گریڈ شدہ جوائنٹ میٹر ویو ریڈیو ٹیلی اسکاپ(جی ایم آر ٹی) کو استعمال کیا۔ این سی آر اے- ٹی آئی ایف آر کے آدتیہ چودھری، نیسیم کانیکر اور جے رام چینگا لور اور آر آر آئی کے شیو سیٹھی اور کے ایس دوارکاناتھ کے ذریعہ کی گئی تحقیق نیچر جریدے میں شائع ہوئی جس میں کائنات کے ابتدائی دور کے بارے میں تفصیلات دی گئی ہے جس کے لئے کہکشاؤں کے ایٹمی  گیس مواد  کی پیمائش کی گئی۔

 اس تحقیق کے لئے فنڈ کا انتظام بھارت کے ایٹمی توانائی کے محکمے اور ڈی ایس ٹی نے کیا۔

این سی آر اے- ٹی آئی ایف آر میں  پی ایچ  ڈی کے طالب علم اور اس تحقیق میں   نمایاں رول ادا کرنے والے آدتیہ چودھری نے کہا‘‘ ابتدائی کہکشاؤں میں ستاروں کی تشکیل کی شدت کی وجہ سے محض ایک یا دو بلین برسوں میں ستاروں کی تشکیل میں ان کی ایٹمی گیس استعمال ہوئی ۔ اور اگر کہکشائیں  مزید گیس حاصل نہیں کرتی ہے تو ان کے ستاروں کی تشکیل کی سرگرمی میں سستی آئے گی اور آخر کار وہ بند ہوجائے گی’’۔ انہوں نے کہا کہ‘‘ اس طرح ایٹمی ہایئڈروجن کے ختم ہونے سے ستاروں کی تشکیل کی سرگرمی میں  نظر آنے والی گراوٹ کی وضاحت ہوتی ہے’’۔

 دور دراز کی کہکشاؤں میں ایٹمی ہایئڈروجن کی کیمیت کی پیمائش کے لئے اپ گریڈ شدہ جی ایم آر ٹی استعمال کی گئی۔

آر آر آئی کے  ، کےایس دوارکا ناتھ، جو کہ اس مطالعہ کے معاون مصنف ہے، نے بتایا ‘‘ ہم نے 2016 میں اپ گریڈ کئے جانے سے قبل اسی طرح مطالعہ کے لئے جی ایم آر ٹی  استعمال کی تھی لیکن جی ایم آر ٹی اپ گریڈ کئے جانے سے قبل اس کی کم بینڈ وڈ تھ کی وجہ سے ہم اپنے تجزیے میں تقریباً 850 کہکشاؤں کو شامل کرپائے اور اس لئے اس  راز کا پتہ نہیں لگا پائیں تھے’’۔

 پیپر کے ایک اور معاون این سی آر اے- ٹی آئی ایف آر کے جے رام چینگا لور نے بتایا‘‘ 2017 میں جی  ایم آر ٹی اپ گریڈ کئے جانے کی وجہ سے ہماری معلومات کے ذرائع میں زبردست اضافہ ہوا’’۔ انہوں نے کہا ‘‘ نئے وائڈ بینڈ ریسیورز اور الیکٹرانکس میں اپنے تجزیے میں 10 گنا زیادہ کہکشاؤں کو استعمال کرنے کی سہولت فراہم کرائی جس سے ہم  اوسط21  سی ایم کے کمزور سگنل کا پتہ لگانے کی خاطر خواہ حساسیت حاصل کرسکے’’۔

1980 کی دہائی اور 1990 کی دہائی میں گووند  سروپ کی قیادت والی ٹیم کے ذریعہ ڈیزائن اور   تیار کئے گئے جی  ایم آر ڈی کا اہم سائنسی مقصد کائنات میں سب سے دور  واقع کہکشاؤں سے 21 سی ایم سگنل کاپتہ لگانا تھا۔ ڈی ایس ٹی کے سورن جینتی فیلو اور اس مطالعہ کے ایک معاون این سی آر اے- ٹی آئی ایف آر کے نیسیم کانیکر نے بتایا‘‘ گووند سروپ اس کام میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہے تھے اور اس کی  ایک ا یک چیز پر نظر رکھ رہے تھے۔ لیکن افسوس اس تحقیق کے شائع ہونے سے کچھ  پہلے ان کا انتقال ہوگیا۔یہ کام ان کے ذریعہ تیار کی گئی زبردست ٹیم اور جی ایم آر ٹی  پہلی بار تیار کئے جانے  پھر اس کو اپ گریڈ کئے بغیر ممکن نہ ہوتا۔

جی ایم آر ٹی اپ گریڈیشن کی تکنیکی وضاحت

ستارے آپٹیکل ویولینتھ میں روشنی کااخراج کرتے ہیں ان کے برخلاف ایٹمی ہائیڈروجن سگنل ریڈیو ویولینتھ میں ہوتے ہیں جو کہ 21 سی ایم کی ویولینتھ ہوتی ہے اور اس کو ریڈیو ٹیلی اسکوپ سے  ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ بد قسمتی سے  یہ 21 سی ایم سگنل بہت کمزور ہے اور اپ گریڈ شدہ جی  ایم آر ٹی جیسی طاقت ور  ٹیلی اسکوپ سے بھی دور دراز علیحدہ کہکشاؤں سے اس کو دیکھ پانا مشکل ہے۔ اس کمزوری پر قابو پانے کے لئے ٹیم نے تقریباً 8000 کہکشاؤں کے 21 سی ایم سگنلوں ،جن کو پہلے والی آپیٹکل ٹیلی اسکوپ سے شناخت کیا گیا تھا، کو یکجا کرکے‘‘ اسٹیکنگ’’ کی تکنیک استعمال کی۔ اس طریقے سے ان کہکشاؤں کے اوسط گیس مواد کی پیمائش کی گئی۔

1.jpg

اپ گریڈ شدہ جی ایم آر ٹی کے ذریعہ دیکھے گئے اسٹیکڈ21 سی ایم سگنل کی ایک شبیہ 22 بلین نوری  سال قبل کہکشاؤں میں ایٹمی ہائیڈروجن گیس سے پیدا ہوئے۔

2.jpg

اپ گریڈ شدہ جی ایم آر ٹی کے ذریعہ دیکھے گئے اسٹیکڈ21 سی ایم سگنل کی ایک شعاع ریزی، جو کہ 22 بلین نوری  سال قبل کہکشاؤں میں ایٹمی ہائیڈروجن گیس سے پیدا ہوئے۔ سگنل کی وڈتھ 8 بلین سال قبل کہکشاؤں کی  اوسط گردش ظاہر کرتی ہے۔

3.jpg

رات میں ایک جی ایم آر ٹی اینٹینا تصویر: راکیش راؤ

]پبلی کیشن لنک:

(https://www.nature.com/articles/s41586-020-2794-7)]

]مزید تفصیلات کے رابطہ کریں: آدتیہ چودھری

(chowdhury@ncra.tifr.res.in ; 97651 15719),

 نیسیم کانیکر

 (nkanekar@ncra.tifr.res.in; 99750 77018),

جے رام چینگا لور

 (chengalu@ncra.tifr.res.in ; 94223 22923)

کے ایس دوارکا ناتھ

(dwaraka@rri.res.in),

 

شیو سیٹھی

(sethi@rri.res.in ; 94825 70297)

یشونت گپتا

(ygupta@ncra.tifr.res.in) ; Phone: 020-25719242,

سی ایچ ایشورا- چندرا،

ishwar@ncra.tifr.res.in ; 020 – 2571 9228)

جےکے سولنکی

solanki@ncra.tifr.res.in ; 020 2571 9223),

انل راول  (anil@gmrt.ncra.tifr.res.in); Mobile: 8605525945.]

****

 ( م ن۔ا  گ۔رض)

U- 1208



(Release ID: 1667551) Visitor Counter : 103


Read this release in: Tamil , English , Hindi , Punjabi