سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت
پونے کے اگہارکرتحقیقی انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدانوں نے مہاراشٹر اورکرناٹک کے مغربی گھاٹوں سے نرکل (پائپ وارٹ)کی نئی نسلیں دریافت کی ہیں
یہ نئی نسلیں پودوں کے ایک ایسے گروپ سے تعلق رکھتی ہیں جو اپنےوسیع طبی خصوصیات کے لئے معروف ہیں
Posted On:
04 OCT 2020 6:15PM by PIB Delhi
نئی دہلی، 05 اکتوبر 2020: ایک پودے کی دو نئی نسلیں مغربی گھاٹو ں سے دریافت کی گئی ہیں جو کہ اپنی وسیع طبی خصوصیات کے لئے معروف ہیں۔یہ گھاٹ دنیا میں حیاتیاتی تنوع کے 35 ہاٹ اسپاٹس میں سے ایک ہے۔
پودوں کا یہ گروپ نرکل (پائپ وارٹ ) کے طور پر جانا جاتا ہےجوکہ مانسون کے دوران بہت کم مدت میں ہی اپنی زندگی کا دائرہ مکمل کرلیتا ہےنیز شمالی گھاٹوںمیں وسیع تر تنوع کا مظہرہوتاہے۔
ان میں سے اکثر کے بارے میں خبر ،مغربی گھاٹوں اور مشرقی ہمالیہ سے ملتی ہیں اور ان میں سے تقریباََ 70 فیصد ہندوستان میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔ان نسلوں میں سے ایریوکولن سنیریم نامی پودہ اپنی کینسر مخالف ،درد سے راحت اورسوزش سے آرام پہنچانے کی خصوصیات کے لئے بہت معروف ہےاور ممسک ادویہ سے بھرپور ہے۔ای -کوئن کوانگلُیرنامی پودہ معدے کی بیماریوںکو ٹھیک کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ای- مدا یاپی رینسی ، کیرالہ کا ایک جراثیم کش پودہ ہے۔نئی دریافت شد ہ نسلوں کی خصوصیات کو اجاگر کرنا ابھی باقی ہے۔
حکومت ہند کے سائنس اور ٹکنالوجی کے محکمے کے ایک خودمختار ادارے ،اگہارکرتحقیقی انسٹی ٹیوٹ(اے آر آئی )پونے ، کے سائنسدانوں نے حال ہی میں مہاراشٹر اور کرناٹک میں نرکل (پائپ وار ٹ ) کی دو نئی نسلیں دریافت کی ہیں۔
انہیں یہ نسلیں اس وقت ملیں جب وہ مغربی گھاٹوں کی حیاتیاتی تنوع کے مطالعے میں مصروف تھے۔وہ ایریوکولن نسل کی انقلابی تاریخ کے بارے میں پتہ لگاناچاہتے تھے اور انہوں نے ہندوستان ، خاص طور پر مغربی گھاٹوں سے زیادہ سے زیادہ پودوں کی نسلیں حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔
اس مطالعے کے سرکردہ مصنف ڈاکٹر رتیش کمار چودھری نے کہا ’’جس وقت ہم اپنے ذخیرے کا مطالعہ کررہے تھے ، ہمیں دو نئے اضافے نظر آئے جوکہ پہلےسےمعروف نسلوں کے مقابلے میں مختلف خصوصیا ت کا اظہار کررہے تھے ۔ لہٰذا ہم نے اس کی خصوصیات جاننے کے لئے اس کی شکلیات کا مطالعہ کیا اور اس کے ڈی این اے کی جانچ کی ۔‘‘
ڈاکٹر چودھری نے واضح کیا ’’ ایریوکولن سے تعلق رکھنے والی نسلوں کی شناخت کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ وہ سب ایک جیسی ہی نظر آتی ہیں لہٰذا یہی وجہ ہے کہ اس حیاتیاتی پودے کو اکثر ’ٹیکسونامسٹ نائٹ مئر‘ کہا جاتا ہے۔اس کے چھوٹے چھوٹے پول اور بیجوں کی وجہ سے اسے مختلف نسلوں کے درمیان علیحدہ کرکے شناخت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔‘‘ ان کا یہ مطالعہ ’’ فائٹو ٹیکسا اور انالیس بوٹانیسی فنّیسی‘‘ نامی جریدوں میں شائع ہوئی ہیں۔
تصویر: ایریوکولن پروی سیفا لم
مہاراشٹر کے سندھودرگ ضلع سے پائے جانے والی نسل کو ایریوکولن پروی سیفا لم کا نام دیا گیا۔(اپنی بہت چھوٹی ڈنڈی کے باعث )جبکہ کرناٹک کے کمٹا سے ملنے والی کو ایریوکولن کراولنسی کا نام دیا گیا(اس کا نام ساحلی کرناٹک خطے کراولی کے نام پر رکھا گیا ہے۔
تصویر: ایریوکولن کراولینسی
ڈاکٹر چودھری کے پی ایچ ڈی کے ایک طالب علم اشونی درشیتکر نے کہا ’’مستقبل کے مطالعات ہندوستان میں ہمہ خصوصیتی پیڑ پودوں کی انقلابی تاریخ کو اجاگر کرنے پر توجہ مرکوز کرے گی۔تمام ہندوستانی نسلوں کے درمیان حیاتیاتی جینیاتی کی ایک تفصیلی تحقیق ، ہندوستان میں خطرے میں پڑی نسلوں کے تحفظ کے لئے بہتر راہ ہموار کرنے میں بھی مدد دے گی۔ ہم ڈی این اے کے بارکوڈ بھی وضع کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس سے کسی بھی پیڑ پودے کی صرف ایک پتی سے ہی ہمیں نسل کی شناخت کرنے میں مدد ملے گی۔
[اشاعتی رابطہ::https://doi.org/10.5735/085.056.0417
https://doi.org/10.11646/phytotaxa.303.3.3
سے رابطہ کیا جاسکتا ہے (rkchoudhary@aripune.org) مزید تفصیلات کے لئے،ڈاکٹر رتیش کمار چودھری
********
م ن۔اع ۔رم
U- 6054
(Release ID: 1661712)
Visitor Counter : 160