سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت
ڈاکٹرہرش وردھن :‘‘آب وہوا کے خطرات کا مستحکم انتظامی فریم ورک ملک بھر میں کثیر جہتی رسائی پر زور دیتا ہے تاکہ آب وہو ا کی تبدیلیوں سے ہونے والے مختلف خطرات کی تشریح کی جاسکے جو کہ ملک پر اثر انداز ہوتے ہے۔ اس کا مقصد ان خطرات کے باعث ہونے والے نقصانات کو وسیع طور پر سمجھنا بھی ہے ’’
‘‘ سائنس اور ٹیکنالوجی آب وہوا سے مطابقت رکھنے والی منصوبہ بندی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے جو تباہ کاری سے بچنے کے اقدامات اور خود کفالت کی جانب ہمارے سفر میں پائیداری پیدا کرنے میں مدد کرے گی’’۔ ڈاکٹر ہرش وردھن
اس کانفرنس کا مقصد تجربات اور سبائق ، خلاء پرتبادلہ خیال اورمذاکرات کے ذریعہ ایک کل جہتی روڈ میپ وضع کرنا اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں اور اختراعات کو استعمال کرنے کے مواقع حاصل کرنا ہے جس میں ان تمام چیزوں کو فروغ دینے کےلئے روایتی اور مقامی سائنس اور اداروں کا رول شامل ہے
‘‘ بھارت کو آب وہوا کی تبدیلی کے مسئلہ کاحصہ نہیں بننا چاہئے بلکہ اسے حل کاایک حصہ ہوناچاہئے’’ پروفیسر آشوتوش شرما
Posted On:
26 AUG 2020 7:27PM by PIB Delhi
سائنس اور ٹیکنالوجی، اراضی سائنس اور صحت و خاندانی بہبود کے وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن نے آج کہا کہ‘‘آب وہوا کے خطرات کا مستحکم انتظامی فریم ورک ملک بھر میں کثیر جہتی رسائی پر زور دیتا ہے (قومی، سب ۔نیشنل، علاقائی اور مقامی) تاکہ آب وہو ا کی تبدیلیوں سے ہونے والے مختلف خطرات کی تشریح کی جاسکے جو کہ ملک پر اثر انداز ہوتے ہے۔ اس کا مقصد ان خطرات کے باعث ہونے والے نقصانات کو وسیع طور پر سمجھنا بھی ہے ’’وہ‘‘ سائنس اور ٹیکنالوجی تحقیق۔ آب وہوا سے متعلق خطرات کے انتظامیہ کے لئے پالیسی۔ پریکٹس انٹر فیس’’ کےموضوع پر ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ نئی دہلی میں منعقدہ ایک تین روزہ کانفرنس میں بہ حیثیت مہمان خصوصی خطاب کررہے تھے۔ اس کاانعقاد تباہی کے انتظامیہ کے قومی انسٹی ٹیوٹ( ایم آئی ڈی ایم) نے کیا تھا۔
اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ‘‘سائنس اور ٹیکنالوجی تباہ کاری سے بچنے کے اقدامات اور آتم نربھر بھارت کے لئے وزیراعظم کی مدبرانہ اپیل کے ایک حصے کے طور پر خود کفالت کی جانب ہمارے سفر کے لئے پائیداری فراہم کرنے میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں’’۔ وزیر موصوف نے کہا کہ‘‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کے محکمے ( ڈی ایس ٹی)نے آب وہوا کی تبدیلی سے متعلق قومی ایکشن پلان ( این اے پی سی سی )کے ایک حصے کے طور پر آب وہوا سے متعلق دو قومی مشنوں کے نفاذ میں کچھ اہم کامیابیاں حاصل کی ہے۔ ان دو مشنوں کے تحت مختلف طرح کے 200 پروجیکٹوں کو حمایت فراہم کی گئی ہے جن میں15 مراکز برائے ایکسی لنس، تحقیق و ترقی کے 30 اہم پروگرام، تقریباً100 پروجیکٹوں پر مبنی14 نیٹ ورک پروگرام،6 ٹاسک فورسیس،25 ریاستی سی سی مراکز وغیرہ شامل ہیں۔گزشتہ چھ برسوں کے دوران وسیع پیمانے پر معروف جرائد میں لگ بھگ 1500 ریسرچ پیپرس شائع کئے گئے۔100 سے زیادہ نئی ٹیکنگ تیار کی گئی ہیں اور ان مشنوں کے ایک حصے کے طور پر تقریباً 50 ہزار افراد کو تقویت دی گئی ہے۔1200 سے زیادہ سائنسداں اور طلباء ان مشنوں پروجیکٹوں میں کام کررہے ہیں’’۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ‘‘ نئی ٹیکنالوجیوں کے ساتھ بدلتے ہوئے وقت میں بلکہ نئے چیلنجوں اور سماجی ۔ برتاؤ جاتی تبدیلیوں میں بھی مثالی سائنس پالیسی پریکٹس کی بہت زیادہ ضرورت ہے’’۔
ڈاکٹر ہرش وردھن نے واضع کیا کہ‘‘ گلوب اسکین اور نیشنل جیو گرافک جیسی آزاد ایجنسیوں کے ذریعہ دنیا کے 18 ملکوں کے لئے کئے گئے ایک سروے کے مطابق ہندوستان ، گرین ڈیکس نامی پیرا میٹر کے زمرے میں اول نمبر پر ہےجو کہ پائیداری اور زندگی کے طور طریقے کا ایک اقدام ہے۔ پائیداری اور ماحولیات میں اس قدر عطیہ دینے کے باوجود ہندوستان، انتہائی حد کے واقعات کے زمروں میں، دنیا میں بدترین طور پر متاثرہ ممالک میں سے ا یک ہے۔ ہندوستان ان چند ممالک میں شامل ہے جسے تقریباً ہر طرح کی تبادہ کاری کا سامنا رہا ہےجس میں زلزلے، علاقائی طوفان، سیلاب، سنامی، گرج چمک کے طوفان، پتھریلے طوفان، بجلی گرنے اور گرمی کی لہر وغیرہ شامل ہیں۔ وارننگ کی بہترین نظاموں نے زندگیوں کے زیاں کو کم کرنے میں بڑی مدد کی ہے لیکن جائیدادی نقصان بڑھتا جارہا ہے کیونکہ تباہ کاری سے زیادہ سے زیادہ بنیادی ڈھانچے متاثر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے براہ راست اقتصادی ترقی متاثر ہوتی ہے۔
ڈاکٹر ہرش وردھن نے کہا کہ ‘‘ موسم کی بدترین صورتحال کے باعث آب وہوا میں تبدیلی کی شدت اور بار بار رونما ہونے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور بڑھتے ہوئے خطرات سے کمزور افراد، برادریوں اور ملکوں کو اپنے جسمانی اور سماجی و اقتصادی اختیاری سطحوں کی جانب دھکیل رہے ہیں’’۔ انہوں نے مزید کہا کہ‘‘ نہ صرف لوگوں کو تباہ کاری سے بچانے کے لئے باقاعدہ حکمت عملیوں کی سخت ضرورت ہے بلکہ تباہ کاریوں کے تئیں ایک لچک دار رویہ اپنانے کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ تباہی کی نوعیت کے بارے میں عوام کو تعلیم دینے اور اس سے بچنے کے طور طریقے کی معلومات فراہم کرانا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے اس طرح کی تباہ کاریوں کا سامنا کرنے کے لئے معاشرے میں بہتر صلاحیت پیدا کرنے کی بھی ضرورت پڑے گی’’۔
اپنے کلیدی خطبے میں ڈی ٹی ایس کے سکریٹری ، پروفیسر آشوتوش شرما نے کہا کہ‘‘ آب وہوا کی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے۔ لیکن ہندوستان نے فی کس موسمیاتی اخراج( آب وہو ا میں تبدیلی کے باعث اوسطاً موسمی اخراج) کم ہے اور ہم اس مسئلے کا حصہ نہیں ہے۔ البتہ ہمیں اس مسئلے کا حل کا حصہ بننے کے لئے ٹیکنالوجی کو موثر طور پر فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات ثابت ہے کہ تباہ کاری آب وہوا سے منسلک ہے اور ہمیں تباہ کاری سے نمٹنے کے لئے تیاری میں آتم نربھر ہونا پڑے گا۔ اسی طرح آب وہوا کی تبدیلی سے نمٹنے ، پائیدار ترقی اور جراثیم کش مزاحمت کے لئے ہمیں خود کفیل ہونے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ‘‘ ایسا کرنے کے لئے ہمارے نظاموں کو منسلک کرنا اور معاشرے کی شراکتداری اہم چیز ہے۔ معلومات وضع کرنے والے اور معلومات کو استعمال کرنے والوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ صنعت اور نجی شعبے اور ٹیکنالوجی کا کردار اہمیت کا حامل ہے’’۔
ڈی ایس ٹی، آب وہوا کی تبدیلی کے پروگرام کے ایڈوائزراور ہیڈ اسپلائس( چیئر) جناب اکھلیش گپتا نے واضح کیا کہ کس طرح ڈی ایس ٹی ملک بھر میں آب وہوا کی تبدیلی کے پروگراموں کی مدد کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ‘‘ ہمیں سیلاب ، طوفان جیسی صورت حال کا سامنا ہے اسی کے ساتھ ساتھ کووڈ۔19 کی وباء سے اس وقت یہ بات اہم ہے کہ ہم تباہ کاری سے نمٹنے کے لئے پوری طور پر تیار ہو۔ ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے حل کے ساتھ تباہ کاری کے انتظامیہ پر کام کرناچاہئے۔
اس کانفرنس کاانعقاد تباہ کاری کے انتظامیہ کے قومی انسٹی ٹیوٹ( این آئی ڈی ایم)، امور داخلہ کی وزارت اور حکومت ہند کے سائنس اورٹیکنالوجی کے محکمے نے (جی آئی زیڈ)، جی ایم بی ایچ کے ساتھ شراکت داری میں کیا تھا۔
اس کاانعقاد اس تناظر میں کیا گیا کہ بھارت کو پہلے ہی مختلف طرح کے تباہ کاریوں کا سامنا ہے جو کہ اس کی وسیع تر ماحولیاتی ،جیو لوجیکل اور ترقیاتی تغیرات کی وجہ سے اور آب وہوا اور اس سے منسلک ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ لوگوں کو تباہ کاریوں کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس کانفرنس کا مقصد تجربات اور سبائق ، خلاء پرتبادلہ خیال اورمذاکرات کے ذریعہ ایک کل جہتی روڈ میپ وضع کرنا اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں اور اختراعات کو استعمال کرنے کے مواقع حاصل کرنا ہے جس میں ان تمام چیزوں کو فروغ دینے کےلئے روایتی اور مقامی سائنس اور اداروں کا رول شامل ہے۔
کانفرنس میں دیگر سرکردہ مقررین میں این آئی ڈی ایم کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ، میجر جنرل منوج کے بندل، این ڈی ایم اے ممبر سکریٹری جی وی وی شرما، جی آئی زیڈ انڈیا کےسینئر پورٹ فولیو مینجر فرہاد وانیاں اور این ڈی ایم اے کے ممبر کمال کشور، این آئی ڈی ایم کے ہیڈ۔ ای سی ڈی آر ایم اور پی ڈی کیپریس ڈی ایس ٹی پروجیکٹ ( کنوینر )پروفیسر انل کے گپتا، این آئی ڈی ایم کے سکریٹری مسٹر آشیش کے پانڈا شامل ہیں۔ ماہرین محققین ،پروفیشنلز، حکام اور متعلقہ سرکاری تنظیموں ، محکموں، وزارتوں، اداروں، غیر سرکاری تنظیموں اور فیلڈ پروفیشنل میں بھی اس کانفرنس میں شرکت کی۔
****
( م ن ۔ا ع ۔رض)
U- 4822
(Release ID: 1648942)
Visitor Counter : 167