سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت

جینیات ہندوستانیوں میں ٹائپ -1 ذیابیطس کی تشخیص میں مدد کرسکتی ہے:ایک مطالعے میں انکشاف

Posted On: 04 JUL 2020 2:58PM by PIB Delhi

نئی دہلی ،04 جولائی: پونے میں کے ای ایم اسپتال اینڈ ریسرچ سینٹر، حیدر آباد میں سی ایس آئی آر – سینٹر فارس سیلولر اینڈ مالی کیولر بائیو لوجی (سی سی ایم بی) اور  برطانیہ میں یونیورسٹی ایگزیٹر نے دریافت کیا ہے کہ جینیاتی خدشات کے پوائنٹ ہندوستانیوں میں ٹائپ – 1 کی  ذیابیطس کی تشخیص میں مؤثر ہے۔ ان کی تحقیق کے نتائج سائنٹفک رپورٹس میں شائع کئے گئے ہیں۔

جینیاتی خدشات کے پوائنٹ کیا ہوتے ہیں؟ یونیورسٹی ایگزیٹر کے ذریعے تیار کردہ جینیاتی خدشات کے پوائنٹس میں جینیات سے متعلق اُن تفصیلی معلومات کا احاطہ کرنا ہے جو  ٹائپ – کی ذیابیطس پیدا کرنے کے امکانات میں اضافہ کرتی ہیں۔ ان پوائنٹس کو ذیابیطس کی تشخیص کے وقت یہ فیصلہ کرنے  میں  استعمال کیا جاسکتا ہے کہ آیا   اس شخص میں ٹائپ – 1  کی  ذیابیطس ہے۔

 کیا یورپی باشندوں میں جینیاتی خدشات کے پوائنٹس ہندوستانیوں میں ٹائپ -1 کی  ذیابیطس کی تشخیص کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جو اس شعبے میں یورپی آبادی میں کی گئی  بڑی تعداد میں تحقیق کے دوران  سامنے آیا ہے۔ اس سوال کا جواب دینے کے لئے تحقیقی ٹیم نے بھارت کے پونے میں ذیابیطس سے متاثر افراد  کی جینیاتی خطرات  کے پوائنٹس کو استعمال کرتے ہوئے مطالعہ کیا گیا۔ ٹیم نے  ٹائپ -1 کی  ذیابیطس سے متاثرہ 262 افراد، ٹائپ -2 کی ذیابیطس سے متاثرہ 352 افراد اور ذیابیطس کی بیماری سے پاک 334 افراد کا  تجزیہ کیا ۔ ان  سب  کے آباؤ اجداد ہندوستانی تھے۔ اس تحقیق کے نتائج کا یورپی باشندوں کے ساتھ موازنہ کیا گیا اور ان کا  یورپی افراد  کے موازنہ کیا گیا۔ یہ بات ویکلم ٹرسٹ کیس کنٹرول کنسورشیم مطالعے میں کہی گئی ہے۔

عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بچوں اور نابالغ افراد کو ہی ٹائپ – 1 کی ذیابیطس ہوتی ہے اور موٹے اور بزرگ (عام طور پر 45 سال سے زیادہ عمر والے)  افراد کو ٹائپ -2 کی ذیابیطس ہوتی ہے۔ البتہ حالیہ دریافت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹائپ – 1  کی ذیابیطس زندگی میں بعد میں بھی ہوسکتی ہے جبکہ  ٹائپ – 2 کی ذیابیطس نوجوانوں اور  دپلے پتلے ہندوستانیوں میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دونوں اقسام کی ذیابیطس  کی الگ الگ نشان دہی ایک پیچیدہ مرحلہ ہے۔ اس لئے دونوں اقسام کی ذیابیطس کی الگ الگ نشان دہی کرنا زیادہ مشکل ہ وگیا ہے۔ دونوں طرح کی اقسام میں طریقہ علاج مختلف ہوتا ہے اور  ٹائپ – 1 کی ذیابیطس میں پوری زندگی  انسولین کے انجیکشن لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن  ٹائپ -2 کی ذیابیطس کو عام طور پر کھانے اور گولی کے ذریعے علاج کیا جاسکتا ہے۔ ذیابیطس کی قسم کے غلط تعین سے ذیابیطس کے غیر معیاری علاج کو فروغ ملتا ہے۔ اس ضمن میں خاص طور پر اس مطالعے  میں  ٹائپ – 1  اور  ٹائپ – 2  کی تشخیص میں  اس خاص مطالعے کی بہت اہمیت ہے۔

یونیورسٹی آف ایگزیٹر میڈکل اسکول کے ڈاکٹر رچرڈ اورام نے کہا ہے کہ کلینک کرنے والوں کے لئے ذیابیطس کی درست قسم کی صحیح تشخیص ایک مشکل چیلنج ثابت ہو رہا ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ٹائپ -1  کی ذیابیطس کسی بھی مدت میں ہوسکتی ہے۔ یہ کام بھارت میں اور زیادہ مشکل ہے کیونکل کم بی ایم آئی کے افراد پر ٹائپ -2 کی ذیابیطس  زیادہ اثر انداز ہوتی ہے ۔ ہم جانتے ہیں  کہ ہمار اجینیاتی خدشات کا اسکور ہندوستانیوں کے لئے ایک مؤثر ٹول ثابت ہوا ہے اور انہیں زندگی کے لئے خطرہ پیدا کرنے والی بیماریوں کے علاج میں مدد  کرسکتی ہیں۔

پونے کے کے ای ایم ہوسپٹل اینڈ ریسرچ  سینٹر کے ڈاکٹر چترنجن یاجنک نے ڈاکٹر اورم سے اتفاق کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ نوجوان ہندوستانی شہریوں میں ذیابیطس  کی بڑھتی ہوئی وبا سے یہ بات ناگزیر ہوگئی ہے کہ ہم غلط علاج سے بچنے کے لئے ذیابیطس کی درست تشخیص کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ نیا جینیاتی ٹول اس سلسلے میں بہت مدد گار ثابت ہوگا۔  انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کے مختلف حصوں کے ذیابیطس کے مریضوں میں اس ٹیسٹ کا استعمال کرنے کی امید کرتے ہیں، جہاں ذیابیطس کے مریضوں کی جسمانی خصوصیات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

مصنفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس مطالعے کو ہندوستانیوں میں ٹائپ – 1  کی ذیابیطس  سے متاثر ہونے کی پیش گوئی کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

بھارتی آبادی میں جینیاتی تنوع  کے پیش نظر اس مطالعے کے نتائج کو ملک میں دیگر نسلی گروپوں میں بھی جانچ کرنے کی ضرورت ہے۔ سی ایس آئی آر – سینٹر فار  سیلولر اینڈ مالی کیولر بائیولوجی ( سی سی ایم بی)  کے ڈائریکٹر ڈاکٹر آر کے مشرا نے کہا ہے کہ ایسے میں جبکہ ٹائپ -1  کی ذیابیطس سے متاثرہ 20 فیصد سے زیادہ افراد  15 سال سے کم عمر کے ہیں، ملک میں ٹائپ -2  کی ذیابیطس والے افراد نے ٹائپ – 1 کی ذیابیطس  کا درستگی کے ساتھ پتہ لگانے کے جینیاتی ٹیسٹ کٹس تیار کرنا ملک کے لئے بہت اہم ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image003STP9.jpg

(سی ایس آئی آر – سی سی ایم بی میں تحقیق کاروں کی ٹیم – ڈاکٹر سیما بھاسکر ، ڈاکٹر جی آر چانڈک (درمیان) اور جناب اندر دیو مالی)

************

 (م ن ۔   وا- ق ر )

U-3745



(Release ID: 1636955) Visitor Counter : 168


Read this release in: English , Hindi , Manipuri , Tamil