وزیراعظم کا دفتر

وارانسی میں جگد گرو وشو ارادھیہ گروکل کی صد سالہ تقریبات سے  وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 16 FEB 2020 3:08PM by PIB Delhi

میں کاشی کا عوامی نمائندہ ہوں اور کاشی کی سرزمین پر اتنی بڑی تعداد میں  قابل پرستش سنتوں کا آشیرواد حاصل کرنے کا موقع ملا۔ یہ میری خوش نصیبی ہے  اور کاشی کا نمائندہ ہونے کے ناطے میں آپ سب کا دل سے بہت بہت استقبال کرتا ہوں۔ سنسکرت اور سنسکرتی کے سنگم میں آپ سبھی کے درمیان آنا میرے لیے خوش بختی کا باعث ہے۔ بابا وشو ناتھ   کے زیر سایہ ماں گنگا کے آنچل میں  سنت وانی کا گواہ بننے کا موقع بار بار نہیں آتا ہے۔

اس پروگرام میں آنے کے لیے مجھےقابل پرستش جگد گرو جی نے دعوت نامہ لکھا تھا۔ لیکن اس خط میں امید اور اصرار  سے بھی زیادہ میرے اور قوم کے وقت کی فکر زیادہ تھی۔ لیکن سنتوں کا حکم ہو، رشیوں کے پیغام کا جشن ہو، نوجوان بھارت کے لیے  قدیم بھارت کے فخر کا موقع ہو، تو وقت اور دوری حائل نہیں ہوسکتی۔

آخر سنتوں کے ست سنگ کا، علم کے حصول کا یہ موقع جب بھی ملے چھوڑنا نہیں چاہئے۔ آپ بھی میرے پورے ملک سے، گوشے گوشے سے، اتنی بڑی تعداد میں یہاں آئے ہیں۔ بہت سے لوگ کرناٹک سے ہیں، بہت سے مہاراشٹر سے ہیں اور بابا بھولے کی نگری کی نمائندگی تو یہاں ہے ہی۔

میں آپ سبھی کا خیر مقدم بھی کرتا ہوں اور شکریہ بھی ادا کرتا ہوں۔

ساتھیوں، تلسی داس جی کہا کرتے تھے۔ ‘سنت سماگم ہری کتھا تلسی درلبھ دوؤ’۔ اس سرزمین کی یہاں خصوصیت ہے۔ ایسے میں ویرشیو جیسی سنتوں کی روایت کو نوجوان نسل تک پہنچا رہے جگد گرو وشو ارادھیہ کروکل کی سو سال کا اختتام ایک قابل فخر لمحہ ہے۔ اس لمحہ کے گواہ، ویر شیو روایت سے جڑے آپ سبھی ساتھیوں کے ساتھ جڑنا میرے لیے بہت خوشی کا باعث ہے۔ ویسے تو ویر لفظ کو زیادہ تر لوگ بہادری سے جوڑے ہیں لیکن  ویرشیو روایت، وہ روایت ہے جس میں ویر لفظ کو روحانیت سے تعبیر کیا گیا ہے۔

ورودھ رہیتاں شیوں ویر شیوں ویدربدھا:۔

یعنی، جو مخالفت کے، اختلاف کے جذبہ سے اُوپر اٹھ گیا ہے وہ ویرشیو ہے۔ انسانیت کا اتنا عظیم پیغام اس کے نام سے جڑا ہوا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سماج کو اختلاف، مخالفت اور  انتشارسے باہر نکالنے کے لیے ویرشیو روایت کا ہمیشہ سے اصرار  اور  متحرک قیادت رہی ہے۔

ساتھیو، ہندوستان میں قوم کا یہ مطلب کبھی نہیں رہا کہ کس نے کہاں فتح حاصل کی۔ کس کی کہاں شکست ہوئی۔ ہمارے یہاں قوم اقتدار سے نہیں، ثقافت اور  رسومات  سے بنا ہوا ہے۔ یہاں رہنے والوں کی صلاحیت سے بنا ہے۔ ایسے میں ہندوستان کی درست شناخت کوآنے والی نسلوں تک پہنچانے کا فریضہ ہم سبھی پر ہے۔ گروؤں، سنتوں اور دانشوروں پر ہے۔

ہمارے یہ مندر ہوں، بابا وشوناتھ سمیت ملک کے 12 جیوترلنگ ہوں، چار دھام ہوں یا ویرشیو طبقہ کے 5 مہاپیٹھ ہوں، شکتی پیٹھ ہوں، یہ شاندار انتظامات ہیں۔ یہ سارے دھام عقیدہ اور روحانیت کے ہی مرکز نہیں ہیں بلکہ ایک بھارت، سریشٹھ بھارت کے بھی  رہنما ہیں۔ یہ ہم سبھی کو ملک کے عوام کو، ملک کے تنوع کو باہم جوڑتے ہیں۔

ساتھیو، یہ اتفاق ہی ہے گروکل کی یہ صد سالہ تقریب  نئی دہائی کی شروعات میں ہوئی ہے۔ یہ  دہائی 21ویں صدی کے علم اور سائنس میں ہندوستان کے کردار کو عالمی سطح پر پھراعزاز بخشنے والا ہے۔ ایسے میں، ہندوستان کے قدیم علوم اور فلسفہ کے سمندر، شری سدھانت شکھامنی کو 21ویں صدی کی شکل دینے کے لیے میں آپ کا خیر مقدم کرتا ہوں۔

بھکتی سے مکتی کا راستہ دکھانے والے اس فلسفہ کو آنے والی نسلوں تک پہنچنا چاہئے۔ ایک ایپ کے توسط سے اس مقدس گیان گرنتھ کی ڈیجیٹل کاری نوجوان نسل کی وابستگی کو اور مستحکم کرے گی، ان کی زندگی  کے لیے تحریک کا باعث بنے گی۔ میں چاہوں گا آگے چل کر اس ایپ کے ذریعہ اسی گرنتھ کےتعلق سے ہر سال کوئز کمپٹیشن کرنا چاہئے اور ہر ریاست سے پہلے تین جو آئیں ان کو انعام دینے چاہئے۔ سب کچھ آن لائن ہوسکتا ہے۔

ملک اور دنیا کے گوشے گوشے تک شری جگد گرو رینوکاچاریہ جی کے مقدس پیغام کو پہنچانے کے لیے شری سدھانت شکھامنی گرنتھ کا 19 زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ آج اس کا بھی افتتاح یہاں کیا گیا ہے۔ سنتوں کے اس علم کو عوام تک پہنےچانا انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہے۔ اس کے لیے سبھی سبھی سے جو کچھ بھی ہوسکے ہمیں اسی طرح کرتے رہنا چاہئے۔

ساتھیو، ویر شیو سے جڑے، لنگایت برادری سے جڑے سنتوں نے یا پھر دوسرے ساتھیوں نے تعلیم اور ثقافت کو عوام تک پہنچانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ کرناٹک سمیت  ملک کے مختلف حصوں میں مٹھوں کے توسط سے جہالت کی تاریکی کو دور کیا جارہا ہے۔ انسانی وقار کو نئی شکل دی جارہی ہے۔ وہ قابل ستائش ہے۔ جنگم باڑی مٹھ تو جذباتی اور نفسیاتی طور پر محروم ساتھیوں کے لیے ترغیب کا، روزگار کا ذریعہ بھی ہے۔ آپ کی  یہ کوشش قابل ستائش ہیں۔ اتنا ہی نہیں، سنسکرت زبان اور دوسری ہندوستانی زبانوں کو علم ذریعہ بناتے ہوئے، ٹیکنالوجی کی شمولیت آپ کر رہے ہیں، وہ بھی حیرت انگیز ہیں۔ حکومت کی بھی یہی کوشش ہے کہ سنسکرت سمیت سبھی ہندوستانی زبانوں کی توسیع ہو، نوجوان نسل کو اس کا فائدہ ہو۔

یہاں میں شری کاشی جگد گرو شری چندرشیکھر شیوچاریہ مہاسوامی جی کی بھی خاص طور پر تعریف کروں گا جنھوں نے ‘بھارتیہ درشن کوش’ کی تخلیق میں بڑا رول ادا کیا۔ شری سدھانت شیکھامنی پر تو انھوں نے پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ ان کے ذریعہ تحریر کی گئیں سیکڑوں کتابیں، نوجوان نسل کی رہنمائی کر رہی ہیں۔ ان میں قوم کی تعمیر  کا جذبہ پیدا کر رہی ہیں۔

ساتھیو، ملک صرف سرکار سے نہیں بنتا بلکہ ایک ایک شہری کے جذبے سے بنتا ہے۔ شہری کے جذبے کو اس کے فرض کا جذبہ عظیم بناتا ہے۔ ایک شہری کے طور پر ہمارا برتاؤ   ہی ہندوستان کے مستقبل کو طے کرے گا۔ نئے ہندوستان کا رخ متعین کرے گا۔ ہماری اولاد روایات میں تو ‘‘دھرم’’ لفظ ہی فرض کا مترادف رہا ہے۔ اور ویرشیو سنتوں نے تو صدیوں سے دھرم کی تعلیم فرائض کے ساتھ دی ہے۔۔ جنگم باڑی مٹھ ہمیشہ سے انہیں اقدار کے تخلیق میں مصروف ہے۔ کتنے ہی تعلیمی اداروں کے لیے مٹھ نے زمینیں مہیا کرائی ہیں۔ وسائل فراہم کرائے ہیں۔ مٹھوں کے ذریعہ  دکھائے گئے  راستوں پر چلتے ہوئے، سنتوں کے ذریعہ دکھائے گئے راستوں پر چلتے ہوئے، ہمیں اپنی زندگی کے عزم کو پورا کرنا ہے اور قوم کی تعمیر میں بھی اپنا پورا تعاون دیتے چلتا ہے۔ بھگوان بسویشور جس کرم کے جذبے کے ساتھ دوسروں کی خدمت کے لیے کہتے تھے، ہمیں اس کرم کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں ملک کے عزم کے ساتھ خود کو جوڑنا ہے۔

جیسے پچھلے پانچ سالوں میں ہندوستان میں صفائی کے تئیں بیداری پیدا کرنے میں سنتوں کا، مٹھوں کا، گورکلوں کا، اسکولوں کا، کالجوں کا ایک زبردست کردار رہا ہے۔ جس طرح کاشی اور ملک کے نوجوانوں نے سوچھ بھارت ابھیان کو ملک کے گوشے گوشے میں پہنچایا ہے، ویسے ہی اور عزائم کو بھی ہمیں آگے بڑھانا ہے۔ایسا ہی ایک بڑا عزم ہے، ہندوستان میں بنی اشیا کو، اپنے بنکروں، اپنے دستکاروں کے ذریعہ بنائی گئی اشیا کو اعزاز بخشنا۔ میں نے تو لال قلعے سے کہا تھا کہ ہم سب کا اس پر اصرار ہو کہ مقامی جو ہے اسے ہی خریدیں۔ ہمیں خود بھی اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو ہندوستان میں بنی اشیا کے استعمال پر زور دینا ہوگا۔ آج ہندوستان میں عالمی سطح کی پیداوار بن رہی ہیں۔ ہمیں اس ذہنیت کو بدلنا ہے جس کے مطابق بس درآمداشیا ہی شاندار سمجھی  جاتی ہے۔

اسی طرح، ملک میں جل جیون مشن کو لے کر بھی آپ سبھی کا رول، ملک کا رول اہم رہنے والا ہے۔ گھر کو، کھیت ہ یا دوسرے مقامات، ہمیں پانی کی بچت پر ری سائکلنگ پر دھیان دینا ہے۔ ہندوستان کو قحط سے آزاد  اور پانی سے بھرپور کرنے کے لیے ایک ایک ہندوستانی کا تعاون کام آئے گا۔

ساتھیو، ملک میں اتنی بڑی تحریکوں کو صرف حکومتوں کے ذریعہ نہیں چلائی جاسکتیں۔ کامیابی کے لیے بہت ضروری ہے عوامی شراکت داری۔ گذشتہ پانچ چھ سالوں میں اگر گنگا کے پانی میں غیر معمولی بہتری دیکھنے کو مل رہی ہے تو اس کے پیچھے بھی عوامی شراکت داری کی بھی بہت اہمیت ہے۔  ماں گنگا کے تئیں عقیدہ اور فرض کا جذبہ آج غیر معمولی سطح پر ہے۔ آج گنگا جی کے ارد گرد بسے گاؤوں، قصبوں اور شہروں میں ماں گنگا کے تئیں فرض کا احساس غیر معمولی سطح پر ہے۔ اس فرض کے احساس نے، ماں گنگا کی صفائی  میں نمامی گنگے مشن میں بہت معاون کی ہے۔ نمامی گنگے مہم کے تحت 7 ہزار کروڑ روپئے کے پروجیکٹ پر کام پورا ہوچکا ہے۔21 ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ کے پروجیکٹوں پر کام چل رہا ہے۔ جن پروجیکٹوں پر کام چل رہا ہے ان کو بھی ہم تیز رفتاری سے پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان کوششوں کو مدد ملے گی، زیادہ سے زیادہ عوامی شراکت داری سے، آپ سبھی کے تعاون سے۔ آپ نے خود دیکھا ہے کہ پچھلے سال پریاگ میں کنبھ میلے کے دوران، گنگا کے پانی کی صفائی کو لے کر ہر ایک سادھو سنت اور ہرایک عقیدت مند نے اطمینان کا اظہار کیا تھا اور  آشیرواد دیا تھا۔ ملک اور بیرون ملک میں اگر اس کو لے کر ستائش کا جذبہ دیکھا گیا ہےتو اس کے پیچھے عوامی شراکت داری کا ہی جذبہ کار فرما ہے۔

ساتھیوں،

ویرشیو سنتوں نے انسانیت کے جن اقدار کا پیغام دیا ہے وہ ہم سبھی کو ہماری حکومت کو بھی مسلسل ترغیب دیتے ہیں۔ اسی ترغیب کے باعث آج ملک میں ایسے فیصلے ہو رہے ہیں ، ایسے پرانے مسائل کو حل کیا جارہا ہے جن کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ رام مندر کی تعمیر کا موضوع بھی کئی دہائی سے عدالتوں میں الجھا ہوا تھا۔ اب ایودھیا میں شاندار رام مندر کی تعمیر کا راستہ پوری طرح صاف ہوچکا ہے۔ کچھ دن پہلے ہی حکومت نے رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک خود مختار ٹرسٹ ‘شری رام جنم بھومی تیرتھ شیتر’ کی تشکیل کابھی اعلان کیا ہے۔ یہ ٹرسٹ ایودھیا میں بھگوان شری رام کی جائے پیدائش پر، شاندار اور عظیم الشان شری رام مندر کی تعمیر کے کام کی نگرانی کرے گا۔  کرناٹک سمیت متعدد مقامات کے سنت اس ٹرسٹ کا حصہ ہیں۔ یہ کام قابل پرستش سنتوں کے آشیرواد سے شروع ہوا اور سنتوں کے آشیرواد سے ہی مکمل ہوگا۔

ساتھیوں، ایودھیا میں رام مندر سے جڑا ایک اور بڑا فیصلہ حکومت نے کیا ہے۔ ایودھیا قانون کے تحت جو 67 ایکڑ زمین حاصل کی گئی تھی وہ بھی  پوری کی پوری، نئی تشکیل شدہ شری رام جنم بھومی تیرتھ شیتر کو منتقل کردی جائے گی۔ جب اتنی بڑی زمین رہے گی تو مندر کی  شان وشوکت اور عظمت اور بڑھے گی۔

سوچئے، ایک طرف ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر اور دوسری طرف یہاں وارانسی میں کاشی وشوناتھ دھام، ہندوستان ک تاریخ میں یہ عہد تاریخی ہے۔

ساتھیو، آپ سبھی لوگوں کے، آپ سبھی سنتوں کے آشیرواد سے ہی آج ملک میں اور کاشی میں متعدد نئے کام ہو رہے ہیں۔ ابھی یہاں اس پروگرام کے  بعد، وارانسی میں ہی میں میرے دو اور پروگرام ہیں جن میں ہزاروں کروڑ روپئے کی یوجناؤں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا جائے گا۔ یہ سبھی پروگرام، کاشی کو مضبوط کریں گے، نئے ہندوستان کو مضبوط کریں گے۔

آیئے، گروکل کے سو سال کے اس آخری دن ہم یہ عہد کرلیں کہ نئے ہندوستان کی تعمیر میں اپنا ہر ممکن تعاون دیں گے۔ قوم کے خاطر ایک بہتر اور فرض شناس شہری بن کر پورے سماج کو آگے بڑھائیں گے۔ مجھے اس موقع کا حصہ بنانے کے لیے آپ کا پھر سے شکریہ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 ( م ن ۔اض۔ را  ۔ 16 - 02 - 2020)

 U. No. 783

 



(Release ID: 1603367) Visitor Counter : 117