وزیراعظم کا دفتر

ٹائمز ناؤ سمٹ میں وزیر اعظم کی تقریر کا متن

Posted On: 12 FEB 2020 8:10PM by PIB Delhi

 

نئی دلّی، 12 جنوری / وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ٹائمز ناؤ سمٹ میں کلیدی خطبہ دیا۔ اس خطبے کا متن حسب ذیل ہے:۔

            میں ٹائمز ناؤ گروپ کے سبھی ناظرین کو، ملازمین، فیلڈ اور ڈیسک کے سبھی صحافیوں، کیمرہ اور ساز و سامان سے منسلک ہر ساتھی کو اس سمٹ کے لئے مبارک باد دیتا ہوں۔

            یہ ٹائمز ناؤ کی پہلی سمٹ ہے۔ آپ سبھی کو بہت بہت مبارک باد۔

            ساتھیو، اس بات کا موضوع آپ نے انڈیا ایکشن پلان 2020 طے کیا ہے۔ لیکن آج کا بھارت تو پوری دہائی کے ایکشن پلان پر کام کر رہا ہے۔ ہاں، طریقہ 20-20 والا ہے اور ارادہ، پوری سیریز میں اچھی کار کردگی کا، نئے ریکارڈ بنانے کا اور اس سیریز کو بھارت کی سیریز بنانے کا ہے۔ دنیا کا سب سے نو جوان ملک، اب تیزی سے کھیلنے کے موڈ میں ہے۔ صرف آٹھ مہینے کی حکومت نے فیصلوں کی جو سنچری بنائی ہے، وہ غیر معمولی ہے۔ آپ کو اچھا لگے گا، آپ کو فخر ہو گا کہ بھارت نے اتنے تیز فیصلے لئے ہیں، اتنی تیزی سے کام ہوا ہے۔

            *   ملک کے ہر کسان کو پردھان منتری کسان یوجنا کے دائرے میں لانے کا فیصلہ۔ کیا، *کسان، مزدور، دوکانداروں کو پنشن دینے کی اسکیم۔ فیصلہ کیا، پانی جیسے اہم مسئلے سے نمٹنے کے لئے جل شکتی وزارت کا قیام۔ فیصلہ کیا، *متوسط طبقے کے ادھورے گھروں کو پورا کرنے کے لئے 25 ہزار کروڑ روپئے کا خصوصی فنڈ۔فیصلہ کیا ، *دلّی کے 40 لاکھ لوگوں کو گھروں پر حقوق دینے والا قانون ۔فیصلہ کیا ، *تین طلاق سے وابستہ قانون ۔فیصلہ کیا ، * بچوں کے استحصال کے خلاف سخت سزا کا قانون ۔فیصلہ کیا ، *تیسری جنس کے افراد کو حقوق دینے والا قانون ۔فیصلہ کیا ، * چٹ فنڈ اسکیم کے دھوکے سے بچانے والا قانون ۔فیصلہ کیا ، * نیشنل میڈیکل کمیشن ایکٹ ۔فیصلہ کیا ، * کارپوریٹ ٹیکس میں تاریخی کمی ۔فیصلہ کیا ، * سڑک حادثات کی روک تھام کے لئے سخت قانون ۔فیصلہ کیا ، * چیف آف ڈیفنس اسٹاف کا قیام ۔فیصلہ کیا ، * ملک کو نیکسٹ جنریشن فائٹر پلین کی ڈیلیوری ۔فیصلہ کیا ، * بوڈو امن معاہدہ ۔فیصلہ کیا ، * برو۔ ریانگ پرماننٹ سیٹلمنٹ ۔فیصلہ کیا ، * رام مندر کی تعمیر کے لئے ٹرسٹ بنانے کا کام ۔فیصلہ کیا ، * آرٹیکل 370 کو ہٹانے کا فیصلہ ۔فیصلہ کیا ، * جموں، کشمیر اور لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے کا فیصلہ ۔فیصلہ کیا ، * اور سٹی زن امینڈمنٹ ایکٹ یعنی شہریت ترمیمی ایکٹ بھی ۔فیصلہ کیا ، *

            میں کبھی کبھا ٹائمز ناؤپر دیکھتا ہوں، نیوز 30، اتنے منٹ میں اتنی خبریں۔ یہ کچھ ویسا ہی ہو گیا۔

            اور یہ بھی سیمپل ہی ہے۔ اس سیمپل سے ہی آپ کو لگ گیا ہوگا کہ actual action begins here!!! ۔ حقیقی ایکشن یہاں سے شروع ہو رہا ہے۔ میں بعیر رکے ایسے متعدد فیصلے اور بھی گنا سکتا ہوں۔ صرف سنچری نہیں، ڈبل سنچری لگ سکتی ہے۔ لیکن یہ فیصلے گنا کر، میں جس پوائنٹ پر آپ کو لے جانا چاہتا ہوں، اسے سمجھنا بھی ضروری ہے۔

            ساتھیو، آج ملک دہائیوں پرانے مسائل کو حل کرتے ہوئے، اکیسویں صدی میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے نو جوان ملک کو جس رفتار سے کام کرنا چاہئیے، ہم ویسے ہی کر رہے ہیں، اب بھارت وقت نہیں گنوائے گا۔ اب بھارت تیزی سے چلے گا بھی اور خود اعتمادی کے ساتھ آگے بھی بڑھے گا۔ ملک میں ہو رہی ان تبدیلیوں نے، سماج کے ہر سطح پر نۂی اونچائی قائم کی ہے، اسے خود اعتمادی سے بھر دیا ہے۔

            *آج ملک کے غریب میں یہ خود اعتمادی آ رہی ہے کہ وہ اپنی زندگی کا معیار بہتر بنا سکتا ہے، اپنی غریبی دور کر سکتا ہے، *آج ملک کے نو جوان میں یہ خود اعتمادی آ رہی ہے کہ وہ روز گار پیدا کرنے والا بن سکتا ہے، اپنے دم پر نئے چیلنج کو عبور کر سکتا ہے، *آج ملک کی خواتین میں یہ خود اعتمادی آ رہی ہے کہ وہ ہر شعبے میں اپنا دم خم دکھا سکتی ہیں، نئے ریکارڈ بنا سکتی ہیں، * آج ملک کے کسان میں یہ خود اعتمادی آ رہی ہے کہ وہ کھیتی کے ساتھ ہی اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے کھیتی سے وابستہ دیگر متبادلات پر کام کر سکتا ہے، آج ملک کے صنعت کاروں میں، تاجروں میں یہ خود اعتمادی آ رہی ہے کہ وہ ایک اچھے بزنس ماحول میں اپنا بزنس کر سکتے ہیں۔ اپنا بزنس بڑھا سکتے ہیں۔

            آج کے بھارت نے،آج کے نیو انڈیا کے اپنے بہت سے مسائل کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آزادی کے 70 سال بعد بھی ہمارے ملک کے کروڑوں لوگ بینکنگ سسٹم سے نہیں جڑے تھے، کروڑوں لوگوں کے پاس گیس کنکشن نہیں تھا، گھروں میں بیت الخلاء نہیں تھے۔ ایسی متعدد دقتیں تھیں جن میں ملک اور ملک کے لوگ الجھے ہوئے تھے۔ اب ایسی متعدد پریشانیاں دور ہو چکی ہیں۔ اب بھارت کا مقصد آئندہ پانچ برسوں میں اپنی معیشت کو پانچ ٹریلین ڈالر تک توسیع دینا ہے۔ یہ نشانہ آسان نہیں ہے، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ جسے حاصل نہیں کیا جا سکے۔

ساتھیو، آج بھارت کی معیشت تقریباً تین ٹریلین ڈالر کی ہے۔ یہاں اتنے با خبر لوگ ہیں۔ میں آپ سے ایک اور سوال پوچھتا ہوں۔ کیا آپ نے کبھی سنا تھا کہ ملک میں کبھی تین ٹریلین ڈالر کی معیشت تک پہنچے کا نشانہ مقرر کیا گیا تھا۔ نہیں نہ۔ ہم 70 سال میں تین ٹریلین تک پہنچے ہیں۔ پہلے نہ کسی نے سوال پوچھا کہ اتنا وقت کیوں لگا اور نہ کسی نے جواب دیا۔ اب ہم نے نشانہ طے کیا ہے، سوالوں کا بھی سامنا کر رہے ہیں اور اس نشانے کو حاصل کر نے کے بھی جی جان سے لگے بھی ہیں۔ یہ بھی پہلے کی حکومتوں اور ہماری حکومت کے کام کرنے کے طریقے کا فرق ہے۔ بے سمت آگے بڑھنے سے اچھا ہے کہ مشکل نشانہ طے کر کے اسے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ ابھی حال ہی میں جو بجٹ آیا ہے، وہ ملک کو اس نشانے کے حصول میں، پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانے میں مزید مدد کرے گا۔

            ساتھیو، اس نشانے کے حصول کے لئے بہت ضروری ہے کہ بھارت میں مینو فیکچرنگ بڑھے، بر آمدات بڑھے۔ اس کے لئے حکومت نے متعددفیصلے کئے ہیں۔ ملک بھر میں الیکٹرانکس، میڈیکل ڈیوائس اور ٹیکنالوجی کلسٹر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیشنل ٹیکنیکل ٹیکسٹائل مشن سے بھی اسے مدد ملے گی۔ ہم جو بر آمد کریں گے، اس کی کوالٹی بنے رہے، اس کے لئے پالیسی فیصلے لئے گئے ہیں۔

            ساتھیو، میک ان انڈیا، بھارت کی اقتصادیات کو، ملک کے چھوٹے چھوٹے صنعت کاروں کے لئے بڑی مدد کر رہا ہے۔ خاص طور پر الیکٹرانکس سامان کی تیاری میں تو بھارت نے غیر معمولی تیزی دکھائی ہے۔ سال 2014 میں بھارت میں ایک لاکھ 90 ہزار کروڑ روپئے کا الیکٹرانک ساز و سامان تیار ہوا تھا۔ گزشتہ سال یہ بڑھ کر 4 لاکھ 60 ہزار کروڑ روپئے تک پہنچ گیا ہے۔ سوچئے۔ 2014 میں بھارت میں موبائل بنانے والی صرف دو کمپنیاں تھیں۔ آج بھارت دنیا کا دوسرا سب  سے بڑا موبائل تیار کرنے والا ملک بن گیا ہے۔

            ساتھیو، پانچ ٹریلین کے نشانے کے حصول میں انفراسٹرکچر پر 100 لاکھ کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری سے بھی بڑی مدد ملے گی۔ ملک بھر میں 6500 سے زیادہ پروجیکٹوں پر ہونے والا کام، اپنے آس پاس کے علاقوں میں اقتصادیات کو رفتار دے گا۔ ان کوششوں کے درمیان، یہ بھی صحیح ہے کہ بھارت جیسی ابھرتی ہوئی معیشت والے ملک کے سامنے چیلنج بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اتار چڑھاؤ بھی آتے ہیں اور عالمی صورت حال کو بھی زیادہ جھیلنا پڑتا ہے۔ بھارت ایسی صورت حال کو ہمیشہ عبور کرتا رہا ہے اور آگے بھی کرتا رہے گا۔ ہم حالات کو سدھار رہے ہیں، لگا تار فیصلے لے رہے ہیں۔ بجٹ کے بعد بھی وزیر خزانہ محترمہ نرملا جی، لگا تار الگ الگ شہروں میں شراکت داروں سے مل رہی ہیں۔ یہ اس لئے، کیونکہ ہم سبھی کے مشوروں کو مانتے ہوئے، سبھی کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔

            دوستو، معیشت کو مضبوطی دینے کی کوششوں کے ساتھ ہی، اسے سے وابستہ ایک اور اہم موضوع ہے، ملک میں اقتصادی سرگرمی کے ابھرتے ہوئے نئے سینٹر۔ یہ نئے سینٹر کیا ہیں؟ یہ سینٹر ہیں ہمارے چھوٹے شہر، 2 ٹئیر، 3 ٹیئر شہر۔ سب سے زیادہ غریب ان ہی شہروں میں ہیں، سے سے بڑا متوسط طبقہ ان ہی شہروں میں ہے۔آج ملک کے آدھے سے زیادہ ڈیجیٹل لین دین ان چھوٹے شہروں میں ہو رہے ہیں۔  آج ملک میں جتنے اسٹارٹ اپ رجسٹر ہو رہے ہیں، ان میں سے آگے ٹو ٹیئر، تھری ٹیئر شہروں میں ہی ہیں۔ اور اس لئے، پہلی بار کسی حکومت نے چھوٹے شہروں کی بھی اقتصادی ترقی پر دھیان دیا ہے۔ پہلی بار کسی حکومت نے، ان چھوٹے شہروں کے بڑے خوابوں کو عزت دی ہے۔ آج، چھوٹے شہروں کے بڑ سپنوں کو، نئے نیشنل ہائی ویز اور ایکسپریس ویز بلندی دے رہے ہیں۔ اڑان کے تحت بن رہے نئے ہوائی اڈے، نئے ایئر روٹس انہیں ایئر کنکٹی ویٹی سے جوڑ رہے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں ان شہروں میں پاسپورٹ سیوا کیندر کھلوائے گئے ہیں۔

            ساتھیو،پانچ لاکھ تک کی آمدنی پر زیرو ٹیکس کا فائدہ بھی چھوٹے شہروں کو سب سے زیادہ ہوا ہے۔ ایم ایس ایم ای، کو بڑھاوا دینے کے لئے، جو فیصلے ہم نے لئے، اس کا فائدہ بھی ان ہی شہروں کے صنعت کاروں کو سب سے زیادہ ہوا ہے۔ ابھی بجٹ میں حکومت نے جو میڈیکل انفراسٹرکچر سے منسلک اعلان کیا ہے، اس سے بھی سب سے زیادہ فائدہ چھوٹے شہروں کو ہو گا۔

            ساتھیو، ہمارے ملک میں ایک اور شعبہ رہا ہے، جس پر ہاتھ لگانے میں سرکاریں بہت ہچکچاتی رہی ہیں۔ یہ ہے ٹیکس سسٹم۔ برسوں سے اس میں کوئی بدلاؤ نہیں ہوا تھا۔ اب تک ہمارے یہاں عمل پر مبنی ٹیکس سسٹم ہی حاوی رہا ہے۔ اب اسے عوام محوری بنایا جا رہا ہے۔ ہماری کوشش ٹیکس / جی ڈی پی تناسب میں اضافے کے ساتھ ہی لوگوں پر ٹیکس کے بوجھ کو کم کرنا بھی ہے۔ جی ایس ٹی، انکم ٹیکس اور کارپوریٹ ٹیکس، ہر سمت میں ہماری حکومت نے ٹیکس میں کٹوتی کی ہے۔ پہلے گڈس اینڈ سروسیز ٹیکس پر اوسط ٹیکس 14.4 فیصد تھا، جو کہ آج کم ہو کر 11.8 فیصد ہو گیا ہے۔ اس بجٹ میں ہی انکم ٹیکس سلیب کو لے کر ایک بڑا اعلان کیا گیا ہے۔ پہلے ٹیکس میں چھوٹ کے لئے کچھ طے سرمایہ کاری ضروری تھی۔ اب یہ آپ کو ایک متبادل دیا گیا ہے۔

            ساتھیو، کبھی کبھی ملک کے شہریوں کو ٹیکس دینے میں اتنی مشکل نہیں ہوتی جتنی اس عمل سے اور عمل آوری کرنے والے لوگوں سے۔ ہم نے اس کا بھی راستہ تلاش کیا ہے۔ فیس لیس اسسمنٹ کے بعد اس بجٹ میں فیس لیس اپیل کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ یعنی ٹیکس اسیس کرنے والے کو اب یہ پتہ نہیں چلے گا کہ وہ کس کا ٹیکس اسیس کر رہا ہے، وہ کس شہر کاہے۔ اتنا ہی نہیں، جس کا ٹیکس اسسمنٹ ہونا ہے، اسے بھی پتہ نہیں چلے گا کہ افسر کون ہے؟ یعنی کھیل کی ساری گنجائش ہی ختم۔

            ساتھیو، اکثر حکومت کی یہ کوششیں ہیڈ لائن نہیں بن پاتیں لیکن آج ہم  دنیا کے ان گنے چنے ملکوں میں شامل ہو گئے ہیں، جہاں ٹیکس دہندگان کے حقوق کو واضح کرنے والا ٹیکس دہندگان چارٹر بھی لاگو ہو گا۔ آہ بھارت میں ٹیکس ہراسانی، گزرے دنوں کی باتیں ہونے جا رہی ہیں۔ جدید تکنالوجی کی مدد سے اب ملک ٹیکس حوصلہ افزائی کی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔

            ساتھیو، حکومت کے ذریعہ ملک کو ٹیکس کمپلائنٹ سوسائٹی بنانے کے لئے لگاتار کوششیں کی جا رہی ہیں۔ گزرے چار پانچ برسوں میں ملک میں اس ضمن میں کافی ترقی ہوئی ہے لیکن ابھی بھی لمبا سفر باقی ہے۔ میں آپ کے سامنے کچھ اعداد و شمار کے ساتھ اپنی بات رکھنا چاہتا ہوں۔ 

            ساتھیو، گزشتہ پانچ برسوں میں ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ کاروں کی فروخت ہوئی ہے۔ تین کروڑ سے زیادہ بھارتیہ، بزنس کے کام سے یا گھومنے کے لئے غیر ملک گئے ہیں۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ 130 کروڑ سے زیادہ سے آبادی والے ہمارے ملک میں صرف ڈیڑھ کروڑ لوگ ہی انکم ٹیکس دیتے ہیں۔ اس میں سے بھی سالانہ 50 لاکھ روپئے سے زیادہ آمدنی کا اعلان کرنے والوں کی تعداد تقریباً تین لاکھ ہے۔ آپ کو مزید اعداد و شمار دیتا ہوں۔ ہمارے ملک میں  بڑے بڑے ڈاکٹر ہیں، قانون داں ہیں، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں، متعدد پیشہ ورانہ ماہر ہیں جو اپنے اپنے شعبوں میں چھائے ہوئے ہیں، ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ملک میں تقریباً صرف 2200 پیشہ ورانہ ماہر ہی ہیں جو اپنی سالانہ آمدنی کو ایک کروڑ روپئے سے زیادہ بتاتے ہیں۔ پورے ملک میں صرف 2200 پیشہ ورانہ ماہر !!!

            ساتھیو، جب ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ گھومنے جا رہے ہیں، اپنی پسند کی گاڑیاں خرید رہے ہیں تو خوشی ہوتی ہے۔ لیکن جب ٹیکس بھرنے والوں کی تعداد دیکھتے ہیں تو فکر بھی ہوتی ہے۔ یہ تضاد بھی ملک کی ایک سچائی ہے۔ جب بہت سارے لوگ ٹیکس نہیں دیتے، ٹیکس نہیں دینے کے طریقے تلاش کر لیتے ہیں، تو اس کا سارا بوجھ ان لوگوں پر پڑتا ہے جو ایمان داری سے ٹیکس چکاتے ہیں۔ اس لئے، میں آج ہر ایک بھارتیہ سے اس موضوع پر خود احتسابی کرنے کی درخواست کروں گا۔ کیا انہیں یہ صورت حال قبول ہے؟  آج پرسنل انکم ٹیکس ہو یا پھر کارپوریٹ انکم ٹیکس، بھارت دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے، جہاں سب سے کم ٹیکس لگتا ہے۔ کیا پھر جو عدم توازن میں نے آپ کو بتایا ہے، وہ ختم نہیں ہونا چاہئیے؟

            ساتھیو، حکومت کو جو ٹیکس ملتا ہے، وہ ملک کے فلاح و بہبود کی اسکیموں میں کام آتا ہے، انفراسٹرکچر سدھار میں کام آتا ہے۔ ٹیکس کے اسی پیسے سے ملک میں نئے ہوائی اڈے بنتے ہیں، نئے ہائی ویز بنتے ہیں، میٹرو کا کام ہوتا ہے۔ غریبوں کو مفت گیس کنکشن، مفت بجلی کنکشن، سستا راشن، گیس سبسڈی، پیٹرول، ڈیزل سبسڈی، اسکالر شپ، اتنا سب کچھ سرکار اس لئے کر پاتی ہے، کیونکہ ملک کے کچھ ذمہ دار شہری پوری ایمان داری سے ٹیکس دے رہے ہیں۔ اور اس لئے، بہت ضروری ہے کہ ملک کا ہر وہ شخص، جسے ملک نے، سماج نے اتنا کچھ دیا ہے وہ اپنا فرض نبھائے۔ جن کی وجہ سے اس کی آمدنی اتنی ہے کہ وہ ٹیکس دینے کے قابل بنا ہے، اسے ایمان داری سے ٹیکس دینا بھی چاہئیے۔

            میں آج ٹائمز ناؤ کے اسٹیج سے سبھی  اہل وطن سے یہ درخواست کروں گا کہ وہ ملک کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے والوں کو یاد کرتے ہوئے ایک عہد لیں۔ ان لوگوں کو یاد کریں جنہوں نے ملک کو آزاد کرانے کے لئے اپنی جانوں کی قربانی دے دی تھی۔ ملک کے ان عظیم بہادر بیٹے بیٹیوں کو یاد کرتے ہوئے، یہ عہد لیں کہ وہ ایمان داری سے جو ٹیکس بنتا ہے، اسے دیں گے۔ سال 2022 میں آزادی کے 75 سال ہونے جا رہے ہیں۔ اپنے عہد کو اس عظیم موقع سے جوڑئیے۔ میری  میڈیا سے بھی یہ درخواست ہے۔ آزاد بھارت کی تعمیر میں میڈیا کا بھی بڑا اہم کردار رہا ہے۔ اب خوش حال بھارت کی تعمیر میں میڈیا کو اپنے کردار کو توسیع دینی چاہئیے۔ جس طرح میڈیا نے سوئچھ بھارت، سنگل یوز پلاسٹک پر بیداری مہم چلائی، ویسے ہی اسے ملک کی چیلنجوں، ضروریات کے بارے میں لگا تار مہم چلاتے رہنا چاہئیے۔ آپ کو سرکار کی تنقید کرنی ہو، ہماری اسکیموں کی غلطیاں نکالنی ہوں، تو کھل کر کیجئے۔ وہ میرے لئے ذاتی طور پر بھی اہم فیڈ بیک ہوتا ہے، لیکن ملک کے لوگوں کو مسلسل بیدار بھی کرتے رہئیے۔ بیدار صرف خبروں سے ہی نہیں بلکہ دیش کو سمت دینے والے موضوعات سے بھی۔

            ساتھیو، اکیسویں صدی کو بھارت کی صدی بنانے میں بہت بڑا رول ہے، اپنے اپنے فرائض کی انجام دہی کا۔ ایک شہری کے طور پر ملک ہم سے جن فرائض کو نبھانے کی امید کرتا ہے، وہ جب پورے ہوتے ہیں تو ملک کو بھی نئی طاقت ملتی ہے، نئی توانائی ملتی ہے۔ یہی نۂی توانائی، نئی طاقت، بھارت کو اس دہائی میں بھی نئی اونچائیوں پر لے جائے گی۔ یہ دہائی بھارت کے اسٹارٹ اپ کی دہائی ہونے والی ہے، یہ دہائی بھارت کے عالمی قائد کی دہائی ہونے والی ہے، یہ دہائی بھارت میں انڈسٹری 4.0 کے مضبوط نیٹ ورک کی دہائی ہونے والی ہے۔ یہ دہائی قابل تجدید توانائی سے چلنے والے بھارت کی دہائی ہونے والی ہے۔ یہ دہائی بھارت کے واٹر ایفیشنٹ اور واٹر سفیشنٹ کی دہائی ہونے والی ہے۔ یہ دہائی بھارت کے چھوٹے شہروں کی دہائی ہونے والی ہے، ہمارے گاؤوں کی دہائی ہونے والی ہے۔ یہ دہائی 130 کروڑ سپنوں کی دہائی ہے، آرزوؤں، امنگوں کی دہائی ہے۔

            مجھے یقین ہے کہ اس دہائی کو بھارت کی دہائی بنانے کے لئے متعدد تجاویز، مشورے ٹائمز ناؤ کی پہلی سمٹ سے نکلیں گے۔ اور تنقید کے ساتھ، مشوروں کے ساتھ، کچھبات فرائض کی ادائیگی پر بھی ہو گی۔ آ پ سب کو پھر سے بہت بہت مبارک باد۔ بہت بہت شکریہ۔

۔۔۔۔۔۔

U.740ٰ

 



(Release ID: 1603066) Visitor Counter : 131