وزارت خزانہ

21-2020 کے مرکزی بجٹ کا خلاصہ


حصہ۔اے

اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کا اولین مرکزی بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیرخزانہ محترمہ نرملا سیتا رمن نے آج متعدد دور رس اصلاحات متعارف کرائیں ، جن کا مقصد  مختصر مدتی، وسط مدتی اور طویل المدت اقدامات کے توسط سے بھارتی معیشت کو تقویت بہم پہنچانا ہے۔

اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کا اولین مرکزی بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیرخزانہ محترمہ نرملا سیتا رمن نے آج متعدد دور رس اصلاحات متعارف کرائیں، جن کا مقصد  مختصر مدتی، وسط مدتی اور طویل المدت اقدامات کے توسط سے بھارتی معیشت کو تقویت بہم پہنچانا ہے۔





Posted On: 01 FEB 2020 2:52PM by PIB Delhi

          مرکزی بجٹ ‘‘ایز آف لیونگ ’’کے مرکزی موضوع کو بنیادبناکر تشکیل دیا گیا ہے ۔اسے کسان دوست اقدمات مثلاً 21-2020 کیلئے زراعت سے متعلق 15 لاکھ کروڑ روپے کے قرض کی فراہمی کے ہدف کی تکمیل، ‘‘کسان ریل’’ اور ‘‘کرشی اڑان’’ کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے تاکہ  20 لاکھ کاشت کاروں کو اپنے انفرادی شمشی پمپ لگانے  کی سہولت فراہم کرنےکے لئے پی ایم- کے یو ایس یو ایم کو توسیع دی جاسکے اور قومی پیمانے پر جلد خراب ہوجانے والی خوردنی اشیا کے لئے ہر طرح کے سقم سے مبرا کولڈ سپلائی چین جیسی سہولتیں بھی فراہم ہوسکیں۔

صحت کے شعبے میں ، بجٹ کے تحت پی ایم جن آروگیہ یوجنا کے تحت نادار افراد کے لئے 20 ہزار سے زائد  پینل میں شامل اسپتالوں کو، نیز جن اوشدھی کیندر اسکیم کی تمام اضلاع تک توسیع بھی شامل ہے تاکہ 2024 تک 2000 ادویہ اور 300 سرجیکل سازو سامان  کی فراہمی ممکن بنائی جاسکے۔

بنیادی ڈھانچے کو 2024 تک 100 سے زائد مزید ہوائی اڈے قائم کرکے تقویت بہم پہنچائی جائے گی تاکہ ‘‘اڑان اسکیم’’ کو تقویت حاصل ہوسکے اور پی پی پی کے توسط سے 150 ریل گاڑیوں کو چلانا ممکن ہوسکے۔

مارچ 2021 تک اعلی تعلیم کے 150 اداروں کے توسط اپرینٹس شپ  سے آراستہ کورس شروع کرنے اور ہیریٹیج اینڈ کنزرویشن کے انڈین انسٹی ٹیوٹ کے قیام کی تجویز چند دیگر نمایاں جھلکیاں ہیں۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ مرکزی بجٹ کا مقصد:

  • ڈیجیٹل حکمرانی کے توسط سے سقم سے مبرا خدمات کی فراہمی
  • قومی بنیادی ڈھانچہ پائپ لائن کے توسط سے زندگی کے طبیعاتی معیار کو بہتر بنانا
  • آفات ارض و سماں جھیل سکنے والے بنیادی ڈھانچے کی فراہمی کے ذریعے خطرات کو کم سے کم کرنا
  • پنشن اور بیمہ توسیع کے توسط سے سماجی تحفظ کی فراہمی ہے

بجٹ تین معروف موضوعات پر مرکوز ہے:

  • توقعاتی بھارت جس کے تحت معاشرے کے تماتر طبقات بہتر معیار زندگی چاہتے ہیں، جہاں صحت ، تعلیم اور بہتر روزگار تک رسائی حاصل ہو۔
  • سب کے لیے اقتصادی ترقی جس  کا اشارہ وزیراعظم کے نعرے سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس میں کیا گیا ہے۔
  • ایسا نگہداشت پر مبنی معاشرہ جو انسانی ہمدردی کا حامل اور جذبہ ترحم سے آراستہ ہو، جہاں انتیودیہ عقیدے کا اصول ہو۔

تین وسیع تر موضوعات درج ذیل طریقے سے مربوط ہیں:

  • بدعنوانی سے مبرا – پالیسی  کے تابع اچھی حکمرانی
  • صاف شفاف مکمل مالی شعبہ

توقعاتی بھارت کے تین عناصر ہیں (a زراعت، آبپاشی اور دیہی ترقیات (b  صحت، پانی اور صفائی ستھرائی اور (c  تعلیم اور ہنرمندیاں

زراعت، آبپاشی اور ترقیات

وزیرخزانہ  نے  کہا کہ زراعت، دیہی ترقیات اور آبپاشی  و دیگر معاون سرگرمیوں میں  2.83 لاکھ کروڑ روپے کی رقم صرف کی جائے گی کیونکہ کاشتکار اور دیہی نادار افراد حکومت کے لیے کلیدی توجہ کے باعث عناصر ہیں۔  2022 تک کاشتکاروں کی آمدنی دوگنا کرنے کے عہد کا اعادہ کرتے ہوئے موصوفہ نے کہا کہ حکومت پہلے ہی وزیراعظم فصل بیمہ یوجنا کے تحت بیمے کے دائرے میں لائے گئے کاشتکاروں کو 6.11 کروڑ روپے کی رعایت فراہم کرچکی ہے۔ 21-2020 کے لئے زرعی قرض کا نشانہ 15 لاکھ کروڑ کے بقدر  کا مقرر کیا گیا ہے۔ پی ایم – کسان کے تمام مستحق استفادہ کنندگان پر کے سی سی اسکیم کے تحت احاطہ کیا جائے گا۔ مزید برآں ، پانی کی قلت کے شکار 100 اضلاع کے لئے ،جامع اقدامات کئے جائیں گے،  اپنے انفرادی شمسی پمپ لگانے کے لئے، 20 لاکھ کاشتکاروں سے متعلق پی ایم – کے یو ایس یو ایم کی  توسیع کی جائے گی اور دیگر 15 لاکھ کاشتکاروں کو اپنے گرڈ سے مربوط پمپوں کو شمسی پمپ میں بدلنے میں مدد دی جائے گی۔ بلاک / تعلقہ کی سطح پر مؤثر وئیر ہاؤس یا گودام قائم کئے جائیں گے اور بہتر مارکیٹنگ اور برآمدات کے مقصد سے  باغبانی کے شعبے میں ‘ایک ضلع میں ایک پروڈکٹ’ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اقدمات کئے جائیں گے۔ یہ تمام تر عناصر اس سمت میں اٹھائے جانے والے چند قدم ہیں۔ چوپایوں میں کھر پکا اور منھ پکا مرض، مویشیوں میں بروسیلوسس بیماری اور کیڑے مکوڑوں کی وجہ سے لاحق ہونے والی بھیڑوں کی بیماری نیز بکریوں کے امراض کو 2025 تک ختم کیا جائے گا۔ مصنوعی تخم کاری کے احاطے کا دائرہ موجودہ 30 فیصد سے بڑھاکر 70 فیصد تک کیا جائے گا، ایم این آر ای جی ایس کو چارہ فارموں کی ترقی کے لئے از سر نو ترتیب دیا جائے گا، 2025 تک دودھ پروسس کرنے کی صلاحیت کو 53.5 ملین ایم ٹی سے بڑھاکر 108 ،لین ایم ٹی تک پہنچایا جائے گا۔ اسی طریقے سے نیلگو ںمعیشت کے سلسلے میں 23-2022 تک مچھلی کی پیداوار بڑھاکر 200 لاکھ ٹن تک کرنے کی تجویز ہے۔ نوجوانوں کو 3477 ساگر متروں اور 500 مچھلی پالنے والے کاشتکاروں کی پروڈیوسر تنظیموں  کے توسط سے ماہی پروری توسیع کے کام میں شامل کیا جائے گا۔ توقع کی جاتی ہے کہ 25-2024 تک مچھلیوں کی برآمدات ایک لاکھ کروڑ تک پہنچا دی جائے گی۔ دین دیال انتیودیہ یوجنا – جس کا مقصد ناداری کا خاتمہ ہے، نصف کروڑ کنبوں کو 58 لاکھ ایس ایچ جی کے توسط سے مربوط کیا گیا ہے اور اسے مزید وسعت دی جائے گی۔

صحت، پانی اور صفائی ستھرائی

صحت  کو بنیاد بناکر پانی اور صفائی ستھرائی کے موضوع کا ذکر کرتے ہوئے محترمہ نرملا سیتا رمن نے کہا کہ  وزیراعظم کی جن آروگیہ یوجنا (پی ایم جے اے وائی) کے لئے فراہم کرائی 6400 کروڑ روپے کی رقم سمیت حفظان صحت کے لئے 69000 کروڑ روپے کی  رقم فراہم کرائی جارہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وزیراعظم جن آروگیہ یوجنا(پی ایم جے اے وائی) کے تحت زمرہ 2 اور زمرہ 3 کے شہروں میں 20000 سے زائد شامل پینل ہسپتال ایسے ہیں، جہاں نادار افراد معالجاتی سہولتیں حاصل کرسکتے ہیں۔ آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت مشین لرننگ اوراے آئی کا استعمال کرکے توقعاتی اضلاع میں پی پی پی کے طرز پر اسپتالوں کا قیام، 2025 تک تپ دق کے خاتمے کے لئے ‘‘ ٹی بی ہارے گا، دیش جیتے گا’’ مہم ، 2000 ادویہ اور 300 سرجیکل سازو سامانوں کی 2024 تک جن اوشدھی کیندر اسکیم کے تحت تمام اضلاع کو فراہمی، بجٹ میں شامل چند دیگر صحتی اقدامات ہیں۔

صفائی ستھرائی کے محاذپر، حکومت نے عہد کررکھا ہے کہ کھلے میں رفع حاجت سے مبرا طرز عمل کو برقرار رکھنے کے لئے او ڈی ایف  پلس پر کام جاری رکھا جائے گا اور 21-2020 میں سوچھ بھارت مشن کے لئے 12،300 کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے، اسی طریقے سے 21-2020 میں جل جیون مشن کے لئے 3.60 لاکھ روپے اور 11،500 کروڑ روپے منظور کئے گئے ہیں۔

تعلیم اور ہنرمندیاں

تعلیم اور ہنرمندی کے محاذ پر، وزیرخزانہ نے کہا کہ 21-2020 میں 99، 300 کروڑ روپے اور ہنر مندی ترقیات کے لئے 3000 کروڑ روپے مختص  کئے جارہے ہیں۔ نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان جلد ہی کیا جائے گا۔ تقریباً 150 اعلیٰ تعلیمی ادارے مارچ 2021 تک اپرینٹس شپ سے آراستہ ڈگری/ ڈپلومہ کورسز شروع کریں گے۔  ڈگری سطح کے کلی طور پر آن لائن تعلیمی پروگرام کی شروعات بھی کی جائے گی۔ ‘‘اسٹڈی ان انڈیا’’ پروگرام کے تحت، ایشیائی اور افریقی ممالک میں ایک آئی این ڈی – ایس اے ٹی کا آغاز کرنے کی تجویز ہے۔  پولیسنگ سائنس، فورینسک سائنس، سائبر فورینسکس وغیرہ کے شعبے میں ایک قومی پولیس یونیورسٹی اور ایک قومی فورینسک سائنس یونیورسٹی قائم کرنے کی بھی تجویز ہے۔ یہ بھی تجویز رکھی گئی ہے کہ صحت، ہنرمندی ترقیات کی وزارتوں کے ذریعے خصوصی برج کورس وضع کئے جائیں۔

اقتصادی ترقیات

صنعت، تجارت اور سرمایہ کاری

اقتصادی ترقی کا حوالہ دیتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہا کہ 21-2020 کے لئے صنعت و تجارت کی ترقی  اور فروغ کے مقصد سے 27،300 کروڑ روپے مختص کئے جائیں گے۔  اس سلسلے میں تمام تر آسانیاں فراہم کرنے کی غرض سے ایک سرمایہ کاری منظوری سیل فراہم  کرانے کی تجویز ہے۔ یہ تجویز بھی شامل ہے کہ پی پی پی طرز پر ریاستوں کے اشتراک سے پانچ نئے اسمارٹ شہر بنائے جائیں۔ موبائل فونوں کی مینوفیکچرنگ، الیکٹرک سازو سامان کی تیاری اور سیمی کنڈکٹر پیکجنگ  کی حوصلہ افزائی کی ایک اسکیم بھی نافذ کرنے کی تجویز ہے۔ 2021 سے 24-2023 کے دوران  چار برسوں کی مدت میں زیر نفاذ آنے والے ایک قومی تکنیکی ٹیکسٹائل مشن کو بھی عملی شکل دی جائے گی، جس کی تخمینہ لاگت 1480 کروڑ روپے کے بقدر ہے تاکہ بھارت تکنیکی ٹیکسٹائل کے شعبے میں عالمی قائدکا مقام حاصل کرسکے۔  اعلیٰ برآمداتی قرض تقسیم حاصل کرنے کے لئے این آئی آر وی آئی کے نام کی ایک نئی اسکیم نافذ کی جارہی ہے تاکہ اس اسکیم کے تحت بطور خاص چھوٹے برآمد کاروں کو امداد بہم پہنچائی جاسکے۔  ملک میں ایک متحدہ حصولیابی نظام قائم کرنے کی غرض سے حکومت کی ای – مارکیٹ پلیس ( جی ای ایم) آگے بڑھ رہی ہے تاکہ سازو سامان خدمات اور دیگر کام کاج کے سلسلے میں واحد پلیٹ فارم حاصل ہوسکے۔  جی ای ایم کے ٹرن اوور کو 3 لاکھ کروڑ روپے کے بقدر تک پہنچانے کی تجویز ہے۔  3.24 لاکھ فروخت کار پہلے ہی اس پلیٹ فارم پر موجود ہیں۔

بنیادی ڈھانچہ

وزیراعظم کے  بتانے کےمطابق بنیادی ڈھانچہ کے شعبے میں آئندہ 5 برسوں کے دوران 100لاکھ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔31دسمبر 2019 کو 103 لاکھ کروڑ روپےمالیت کا نیشنل انفراسٹرکچر پائپ لائن  شروع کیا گیا تھا۔ ان میں مختلف شعبوں سے متعلق 6500سےزائد پروجیکٹ شامل ہیں اور اِن کی، ان کے سائز  اور پیش رفت کے مرحلے کے مطابق درجہ بندی کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان انفراسٹرکچر پائپ لائن کی مدد کے لئے تقریباً 22،000کروڑ روپے قبل ہی مہیا کرائے جا چکے ہیں۔ شاہراہوں کی تیز رفتار ترقی کی جائے گی۔ اس میں 2500کلو میٹر رسائی کنٹرول شاہراہ، 9000کلومیٹر اقتصادی راہداری، 2000 کلو میٹرساحلی اور زمینی بندرگاہ کی سڑکیں اور 2000کلو میٹر دفاعی شاہراہیں شامل ہوں گی۔ دہلی- ممبئی ایکسپریس وے اور 2 دوسرے پیکیج 2023 تک مکمل ہوں گے۔ چنئی-بنگلورو  ایکسپریس ویز کا کام بھی شروع ہوگا۔ اس میں 2024 سے قبل 6000سے زائد کلو میٹر کے شاہراہوں کے کم از کم 12لاٹس کیلئے سرمایہ کاری کی بھی تجویز ہے۔ انڈین ریلویز کا ارادہ 27000 کلو میٹر ٹریکس کی برق کاری کا بھی ارادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے 100دنوں کے اندر اس میں متعدد ریلوے اسٹیشنوں اور 550 وائی فائی کی سہولتیں شروع کی ہیں۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ (پی پی پی)موڈ کے ذریعہ 4 ریلوے اسٹیشنوں  کے دوبارہ تعمیر کے پروجیکٹوں اور 150 مسافر ریل گاڑیوں کو چلانے کا کام کیا جائے گا۔ پرائیویٹ پارٹنر شپ کو مدعو کرنے کا کام جاری ہے۔ تیجس قسم کے مزید ریل گاڑیاں اہم سیاحتی مقامات کو جوڑیں گی۔ ممبئی سے احمد آباد کے درمیان تیز رفتار ریل گاڑیوں کو سرگرمی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے گا۔ اسی طرح اُڑان اسکیم کے تحت 2024 تک مزید 100 ہوائی اڈے بنائے جائیں گے۔اس مدت کے دوران طیاروں کے بیڑے کی تعداد موجودہ 600 سے 1200 تک بڑھنے کی امید ہے۔ سال 21-2020 کے دوران ٹرانسپورٹ بنیادی ڈھانچے کے لئے 1.70 لاکھ کروڑ روپے کی تخصیص کی تجویز ہے۔ اسی طرح 21-2020 کے دوران بجلی اور قابل احیا توانائی کے شعبے کے لئے 22000کروڑروپے کی تخصیص کی تجویز ہے۔ قومی گیس گِرڈ کی موجودہ 16،200کلومیٹر سے بڑھا کر 27000کلو میٹر تک توسیع کی تجویز ہے۔

نئی معیشت

نئی معیشت کے شعبے کے تعلق سے محترمہ سیتا رمن نے کہا کہ جلد ہی پورے ملک میں پرائیویٹ سیکٹر ڈاٹا سینٹر پارک قائم کرنے کے قابل بنانے سے متعلق ایک پالیسی لائی جائے گی۔اس سال بھارت نیٹ کے ذریعہ 100،000گرام پنچایتوں کو فائبر ٹو دی ہوم (ایف ٹی ٹی ایچ) کنکشنوں سے جوڑا جائے گا۔ سال 21-2020کےدوران بھارت نیٹ پروگرام کے لئے  6000کروڑ روپے مہیا کرانے کی تجویز ہے۔ حقوق املاک دانشوراں (آئی پی آر)کے آسانی سے استعمال اور اپنانے کے لئے ڈیجیٹل  پلیٹ فارم سمیت     اسٹارٹ اَپ کے فائدے کے لئے اقدامات کی تجویز ہے۔ اس کےلئے نئے اور نئے ابھرتے شعبوں سمیت مختلف ٹیکنالوجی شعبوں میں ٹرانسلیشن  کلسٹرقائم کئے جائیں گے۔ اس نظریہ کی ڈیزائننگ، فیبری کیشن اور ویلیڈیشن نیز ٹیکنالوجی کلسٹروں کو مزید بڑھانے، ٹیسٹ بیلٹ قائم کرنے نیز  چھوٹئے پیمانے کے مینوفیکچرنگ ادارے قائم کئے جائیں گے۔ نیشنل مشن آن کوائنٹم ٹیکنالوجیز  اینڈ اپلیکیشنز کے لئے 5 سال کی مدت میں 8000کروڑروپے خرچ کر نے کی تجویز ہے۔

سماج کی دیکھ بھال

خواتین اور بچے، سماجی فلاح و بہبود

سماج کی دیکھ بھال کے مرکزی خیال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال 21-2020 کے ددوران تغذیہ سے متعلق پروگراموں کے لئے 35,600کروڑ روپے  کی تجویز ہے۔ ان پروگراموں کے لئےجو خصوصی طور پر  خواتین کےلئے ہیں 28،600کروڑ روپے کی تجویز ہے۔ سال 21-2020 کے لئے درج فہرست ذاتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود کے لئے کم و بیش 85 ہزار کروڑ روپے مختص کئے جائیں گے۔ اسی طرح درج فہرست قبائل کی مزید ترقی اور فلاح و بہبود کی غرض  سے سال 21-2020 کے لئے 53،700کروڑ روپے کی تجویکز ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو معمر شہریوں اور دویانگ جنوں کی بھی فکر ہے۔ اس کے مطابق 21-2020 کے لئے 9500کروڑ روپے کی بڑھی ہو ئی رقم تخصیص کی گئی ہے۔

تہذیب و ثقافت اور سیاحت

تہذیب و ثقافت اور سیاحت کے شعبے میں تہذیب و ثقافت کی وزارت کے تحت ایک انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ہیریٹیج اینڈ کنزرویشن کی قیام کی تجویز ہے، جسے ممکنہ یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوگا۔ آن سائٹ میوزیم –راکھی گڑھی (ہریانہ) ، ہستِناپور (اترپردیش)، شیوساگر (آسام)، دھولہ ویرا (گجرات) اور اَدی چنالور (تمل ناڈو)، میں نادر مقامات کے طور پر 5 آرکیالوجیکل سائٹ بنائے جائیں گے۔ کولکاتہ میں انڈین میوزیم کی  ازسرنو ترتیب کی جائے گی، جس کا اعلان جنوری 2020 میں وزیراعظم کے ذریعہ کیا گیا ہے۔  کولکاتہ  کی پُرانی تاریخی ٹیکسال کی عمارت میں  ٹیکسال او ر تجارت سے متعلق میوزیم بنائے جائیں گے۔ پورے ملک میں مزید 4 میوزیم کی تزئین اور ازسرنو ترتیب کی جائے گی۔ رانچی(جھارکھنڈ ) میں قبائلی میوزیم کے قیام میں مدد ملتی  جائے گی۔ وزارت جہاز رانی کے ذریعہ احمد آباد کے قریب ہڑپا عہد کے سمندری مقام لوتھل میں  ایک سمندری میوزیم بنے گا۔

 

ماحول اور آب و ہوا کی تبدیلی

 

ماحولیات کے شعبے میں ان ریاستوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی، جو 10لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل شہروں میں صاف ستھری ہوا کو یقینی بنانے کے لئے منصوبے وضع کر رہی ہیں اور ان پر عمل درآمد کر رہی ہیں۔ ماحولیات، جنگلات اورآب و ہوا کی تبدیلی کی وزارت کے ذریعہ ترغیابات کے لئے پیمانوں  کو نوٹیفائی کیا جائے گا اور اس مقصد سے سال 21-2020 کے لئے 4400کروڑ روپےکی تخصیص کریں گی۔

 

حکمرانی

 

صاف ستھری، بدعنوانی سے پاک، پالیسی پر مبنی، نیک نیتی پر مبنی اور سب سے اہم معتبر حکمرانی کے موضوع کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے نن گزیٹیڈ اسامیوں پر تقرری کے لئے کمپیوٹر پر مبنی آن لائن مشترکہ اہلیت جانچ کے لئے ایک آزاد، پیشہ   ور اور ماہر ادارے کے طور پر نیشنل ریکروٹمنٹ  ایجنسی (این آر اے) کا اعلان کیا۔ جانچ سینٹر ہر ایک ضلع میں خصوصاً متوقع اضلاع میں قائم کئے جائیں گئے۔ بہتر صلاحیتوں اور پیشہ ور ماہرین کو متوجہ کرنے کی غرض سےمتعدد ٹرائبیونل اور ماہرین کے اداروں میں براہ راست تقرری سمیت تقرری کے لئے ایک فعال میکانزم وضع کرنے کی بھی تجویز ہے۔ کنٹریکٹ ایکٹ کو مستحکم کرنے پر غوروخوض بھی جاری ہے۔

 

مالی شعبہ

 

وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران حکومت ہند نے ضابطہ بندی اور نمو کے مقاصد سے سرکاری دائرۂ کار کے بینکوں میں حکومت نے  تقریباً 3،50،000کروڑ روپے خرچ کئے ہیں۔ ان بینکوں میں کی حکمرانی میں اصلاحات کی جائیں گی تاکہ وہ زیادہ مسابقتی بن سکیں۔ حکومت نے قبل ہی 10 بینکوں کو 4 بینکوں میں ضم کرنے کو منظوری دے دی ہے۔ مزید براں ڈِپوزٹ انشورنس اینڈ کریڈٹ گارنٹی کارپوریشن (ڈی آئی سی جی سی) کو رقم جمع کنندگان کےلئے ڈِپوزٹ انشورنس کوریج میں اضافے کی اجازت دی گئی ہے، جو کہ اب فی جمع کنندہ ایک لاکھ سے 5 لاکھ روپے تک ہے۔ مالی اثاثوں کی جانچ اور تشکیل نو نیز سکیورٹی انٹریسٹ کا نفاذ ( ایس اے آر ایف اے ای ایس آئی) ایکٹ  2002 کے تحت قرضوں کی وصولی کے لئے این بی ایف سی کی حد کو جائز بنانے کے لئے اس کی حد کو اثاثے کی سائز  کے مطابق 500کروڑ روپے سے کم کرکے100کروڑ روپے یا قرض کی مقدار کے مطابق موجودہ ایک کروڑ روپے سے گھٹا کر 50 لاکھ روپے تک کرنے کی تجویز ہے۔ وسیع نجی سرمائے کی ضرورت کی تکمیل کے لئے  سرکاری آئی ڈی بی آئی بینک حصص کو اسٹاک ایکسچینج کی وساطت سے پرائیویٹ، خردہ اور ادارہ جاتی سرمایہ کاروں کو فروخت کرنے کی تجویز ہے۔ اس سے روزگار میں آسانی سے نقل و حمل میں مدد ملے گی، وہیں ہم خودکار اندراج کے ساتھ ملک گیر پنشن کوریج میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ  سال آر بی آئی کے ذریعے دیئے گئے قرضوں کی تشکیل نو کی اجازت  سے 5 لاکھ سے زائد بہت چھوٹے، چھوٹے اور درمیانی صنعتوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ تشکیل نو کی یہ سہولت 31 مارچ 2021 تک ہے۔ منتخب شعبے، جیسے فارماسیوٹیکلز، آٹوآلات اور دیگر کے لئے  ٹیکنالوجی اپگریڈیشن ، تحقیق و ترقی (آر اینڈ ڈی)، کاروباری حکمت عملی کے لئے ہولڈنگ سپورٹ میں توسیع کی تجویز ہے۔ ایگزم بینک ، سِڈبی (ایس آئی ڈی بی آئی)کے ساتھ مل کر 1000ہزارکروڑ روپے کی ایک اسکیم شروع کرےگا۔

مالی مارکٹ

مالی مارکٹ  کے تعلق سے بونڈ مارکٹ، بعض مخصوص زمروں کی سرکاری تمسکات گھریلو سرمایہ کاروں کے علاوہ غیر مقیم سرمایہ کاروں کے لئے کھولی جائے گی۔ حکومت نے نئی ڈیبٹ- ای ٹی ایف اسکیم میں توسیع کی تجویز پیش کی ہے، جس میں ابتدائی طور پر سرکاری تمسکات شامل ہیں۔ اس سے خردہ شعبے کے سرمایہ کاروں  کو سرکاری تمسکات تک رسائی حاصل ہوگی۔ اس کے علاوہ پنشن فنڈ  میں سرمایہ کاری اور طویل مدتی سرمایہ کار بھی متوجہ ہوں گے۔این بی ایف سی / ایچ ایف سی کے تحلیل ہونے کے مسئلےسے نمٹنے کےلئے عام بجٹ 20-2019 کے بعد حکومت نے این بی ایف سی کےلئے جزوی قرض گارنٹی اسکیم بنائی تھی۔ حکومت اور ریزروبینک آف انڈیا (آر بی آئی) نے جی آئی ایف ٹی سِٹی گجرات کے انٹر نیشنل فائننشیئل سروسیز سنٹر میں کاروبار کےلئے روپےکے متبادل  کے استعمال کی اجازت دینے کے لئے متعدد اقدامات کئے ہیں۔

شیئرس کی فروخت

شیئرس کی فروخت کے بارے میں  وزیر خزانہ نے کہا کہ اسٹاک ایکسچنجوں میں کمپنیوں کی فہرست تیار کرنے سے کمپنی میں ڈسپلن آتا ہے، اس سے مالی منڈیوں تک رسائی فراہم ہوتی ہے اور  اس کی قدر واضح ہوتی ہے۔ اس سے خردہ سرمایہ کاروں کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے حاصل کردہ سرمائے میں شرکت کرسکیں۔ حکومت اب ابتدائی سرکاری پیش کش (آئی پی او) کا طریقہ اپناکر ایل آئی سی میں اپنے حصے کو فروخت کرنے کی تجویز پیش کرتی ہے۔

مالی بندوبست

مالی بندوبست کے بارے میں وزیر خزانہ نے کہا کہ 15 ویں مالی کمیشن نے  مالی سال 21۔2020 سے متعلق اپنی پہلی رپورٹ پیش کردی ہے۔ معاون وفاقیت  کی روح کو برقرار رکھتے ہوئے حکومت نے اپنے ٹھوس اقدامات میں کمیشن کی سفارشات کو تسلیم کیا ہے۔کمیشن 22۔2021  سے شروع ہونے ولای پانچ سالہ مدت کے لئے  سال کے آخر میں صدر جمہوریہ کو اپنی قطعی رپورٹ پیش کرے گا۔ انہوں نے سال 17۔2016 اور 18۔2017 کی  وصولی میں سےجی ایس ٹی معاوضہ فنڈ  کی رقوم کو  دو قسطوں میں منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد ان رقوم میں منتقلی جی ایس ٹی معاوضہ محصول کے ذریعہ وصولی تک محدود ہوجائے گی۔ 20۔2019 کے مالی سال کے لئے مطالبات زر 26.99 لاکھ کروڑ روپے کی سطح پر ہیں۔ جن میں سے تخمیناً 19.32 لاکھ کروڑ روپے  موصول ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے سال 21۔2020 کے لئے جی ڈی پی کی کم از کم شرح ترقی کا اندازہ دستیاب 10 فیصد  رجحانات کی بنیاد پر  کیا ہے۔ اسی کے مطابق 21۔2020 کی وصولی  اندازاً 22.46 لاکھ کروڑ روپے ہے اور مختلف اسکیموں اور زندگی کے معیار میں بہری لانے کی ضرورت کے تئیں حکومت کے عزم کو ذہن میں رکھتے ہوئے ، اخراجات کی سطح 30.42 لاکھ کروڑ رکھی گی ہے۔

مالی سال 21۔2020 کے لئے  قرضوں کا ایک بڑا حصہ حکومت کے اثاثوں کے اخراجات کی طرف جائے گا۔جس میں 21 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان اقدامات سے معیشت کی شرح ترقی میں تیزی آئے گی۔

 

حصہ بی

وزیر خزانہ محترمہ نرملا سیتا رمن نے کہا کہ مرکزی بجٹ نے اس بات کو یقینی بنانے کے لئے  بنیادی مالی اقدامات کی قیادت کی گئی ہے کہ بھارت کی معیشت  اعلی شرح ترقی کے راستے پر لگاتار گامزن رہے۔ انہوں  نے کہا کہ  اس بات کو یقینی بنانے کےلئے  بھارت عالمی سطح پر مقابلہ جاتی سطح پر رہے اور سرمایہ کاری کا ایک پسندیدہ ملک  بنا رہے،اس کی غرض سے  مینوفیچکرنگ کے لئے کارپوریٹ ٹیکس شرح میں کمی کرنے کا ایک بیباک فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ مینوفیکچرنگ شعبے میں  نئی کمپنیوں کے لئے 15 فیصد کی سطح تک کیا گیا ہے، جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ موجودہ کمپنیوں کے لئے یہ شرح 22 فیصد تک کردی گئی ہے۔ جس کے نیتجے میں ہماری کارپوریٹ شرحیں دنیا میں  کم ترین شرحوں میں شامل ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اب تک جو اصلاحی قدم اٹھائے گئےہیں ان کو جاری رکھتے ہوئے ا س بجٹ میں  ٹیکس تجاویز سے مزید اصلاحات ہوں گی جس سے ترقی میں اضافہ ہوگا، ٹیکس ڈھانچے میں آسانی پیدا ہوگی۔تعمیل کرنے میں آسانی پیدا ہوگی اور مقدمے بازی میں کمی آئے گی۔

پرسنل انکم ٹیکس اور ٹیکس نظام کو آسان بنایا جانا

انفرادی ٹیکس دہندگان کو خاطر خواہ راحت فراہم کرانے کی غرض سے  اور انکم ٹیکس قانون کو آسان بنانے کی غرض سے وزیر خزانہ نے ایک نیا اور آسان ذاتی انکم ٹیکس نظام لانے کی تجویز پیش کی ہے۔ جس میں  انکم ٹیکس کی شرحوں میں انفرادی ٹیکس دہندگان کے لئے خاص طور پر ان  ٹیکس دہندگان کو   کٹوتی  کی سہولت دی جائے گی جو  کچھ خاص رعایتوں اور استثنیٰ سے فائدہ نہیں اٹھاتے؛

ٹیکس کی سطحوں میں تبدیلیاں مندرجہ ذیل جدول میں دی گئی ہیں:

ٹیکس کے قابل آمدنی کی سطح(روپے میں)

موجودہ ٹیکس شرحیں

نئی ٹیکس شرحیں

0۔5 لاکھ

استثنیٰ

استثنیٰ

2.5۔5 لاکھ

5 فیصد

5 فیصد

5۔7.5 لاکھ

20 فیصد

10 فیصد

7.5۔10 لاکھ

20 فیصد

15 فیصد

10۔12.5 لاکھ

30 فیصد

20 فیصد

12.5۔15 لاکھ

30 فیصد

25 فیصد

15 لاکھ سے زیادہ

30 فیصد

30 فیصد

سرچارج اور محصول موجودہ شرحوں پر لاگو رہے گا۔

نئے ٹیکس نظام میں ٹیکس دہندگان کو جو  خاطر خواہ ٹیکس فائدے دیئے  جائیں گے ان کا انحصار ان ٹیکس دہندگان کی طرف سے حاصل کی جانے والی رعایات اور کٹوتیوں پر ہوگا۔ مثال کے طور پر کوئی شخص جو ایک سال میں 15 لاکھ روپے کما رہا ہے اور وہ کسی کٹوتی سے استفادہ نہیں کررہا ہے، وہ پرانے نظام کے 273000 روپے کے مقابلے محض 195000 روپے ادا کرے گا۔ اس طرح اس کے ٹیکس کا بوجھ، نئے نظام کے تحت 78000 روپے تک کم ہوجائے گا۔ اس طرح اسے نئے نظام میں بھی فائدہ ہوگا۔  چاہے وہ پرانے نظام کے تحت انکم ٹیکس قانون کے باب ۔vi اے کی مختلف دفعات کے تحت 1.5 لاکھ روپے کی کٹوتی ہی کیوں نہ حاصل کررہا ہو۔

اگر ایک فرد جو ا فی الحال انکم ٹیکس قانون کے تحت مزید کٹوتیوں اور رعایات سے فائدہ حاصل کررہا ہے، اسے ان سے  استفادہ  کرنے  اور پرانے نظام کے تحت ٹیکس  کی ادائیگی جاری رکھنے کا اختیار حاصل ہوگا۔

نئے ذاتی انکم ٹیکس کی  شرحیں  ایسی ہیں جن میں سالانہ 40 ہزار کروڑ روپے کا تخمینہ مالیہ کم کیا گیا ہے۔ انکم ٹیکس رٹرن، پہلے سے داخل کرنے کے اقدامات بھی شروع کئے ہیں تاکہ کوئی فرد ، جو نیا نظام اختیار کرتا ہے، اسے  اپنا رٹرن داخل کرنے اور انکم ٹیکس ادا کرنے کے لئے کسی ماہر سے مدد لینے کی ضرورت ن ہیں ہوگی۔

 وزیر خزانہ نے کہاکہ انکم ٹیکس نظام کو  سہل بنانے کے  لئے انہوں نے پچھلی کئی دہائیوں  میں شامل کی گئیں سبھی رعایات اورکٹوتیوں  کا جائزہ لیا ہے۔

بجٹ میں مختلف نوعیت کی تقریباً 70 موجودہ رعایات اور کٹوتیاں ہٹانے کی تجویز رکھی گئی ہے۔بقیہ رعایات اور کٹوتیوں کا  اس نظریئے کے ساتھ آئندہ برسوں میں  جائزہ لیا جائے گا اور انہیں معقول بنایا جائے گا کہ  ٹیکس نظام کو مزید آسان بنایا جائے اور ٹیکس کی شرحوں میں کمی کی جائے۔

ڈویڈنٹ کی تقسیم پر ٹیکس

فی الحال کمپنیوں کواپنے متعلقہ فریقوں کو 15 فیصد ی شرح سے ادا کئے گئے ڈویڈنٹ پر، ڈویڈنٹ کی تقسیم کا ٹیکس (ڈی ڈی ٹی) اور ان پر لاگو سرچارج اور محصول  ادا کرنا ہوتا ہے۔اس کے علاوہ انہیں کمپنی کو اپنے منافع  پر لاگو ٹیکس بھی ادا کرنا ہوتا ہے۔بھارت کی شیئر مارکٹ کو اور زیادہ دلچسپ بنانے اور سرمایہ کاروں کے ایک بڑے طبقے کو راحت فراہم کرنے کے لئے وزیر خزانہ نے ڈی ڈی ٹی ختم کرنے اور ڈویڈنٹ پر ٹیکس لگائے جانے کے پرانے طریقے کو اپنانے  کی تجویز رکھی ہے جس کے تحت کمپنیوں کو ڈی ڈی ٹی ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ڈویڈنٹ پر ٹیکس اسے حاصل کرنے والوں پر ہی ان کی لاگو شرحوں پر عائد کیا جائے گا۔

ٹیکس کی بار بار ادائیگی کو ختم کرنے کے لئے وزیر خزانہ نے  کمپنی کو موصولہ ڈویڈنٹ پر کٹوتی کی تجویز رکھی ہے جو کہ وہ اپنی ذیلی کمپنی سے وصول کرے گی۔ ڈی ڈی ٹی کے ہٹائے جانے سے  اندازاً سالانہ مالیہ  25 ہزار کروڑ روپے کی بچت ہوگی جس سے بھارت سرمایہ کاروں کے لئے  اور زیادہ  دلچسپی کا ملک  بنے گا۔

بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے لئے رعایتی ٹیکس شرح

ستمبر 2019 میں  نئی سہولتیں شروع کی گئی تھیں، جن کے تحت مینوفیکچرنگ شعبے میں نئی شامل کی گئی  ان گھریلو کمپنیوں کو 15 فیصد کی رعایتی کارپوریٹ ٹیکس شرح کی پیش کش کی گئی تھی جو 31 مارچ 2023 سے  کام شروع کریں گی۔

بجلی کے شعبے میں سرمایہ کاری کو راغب کرنے کےلئے یہ تجویز رکھی گئی ہے کہ   15 فیصد کی رعایتی کارپوریٹ ٹیکس شرح ان  نئی گھریلو کمپنیوں کو ہی دی جائے جو  بجلی کی پیداوار میں مصروف ہیں۔

غیر ملکی سرمایوں کے لئے ٹیکس کی رعاعت

غیر ملکی حکومتوں کے خود مختار دولت فنڈ کی طرف سے کی گئی سرمایہ کاری کو ترغیب دینے کے لئے وزیرخزانہ نے ان کے سود، ڈویڈنٹ اور اثاثوں کی آمدنی  پر 100  فیصد ٹیکس رعایت دینے کی تجویز پیش کی ہے۔یہ رعایت  بنیادی ڈھانچے اور دیگر مذکورہ شعبوں میں اس سرمایہ کاری پر  دی گئی ہے جو  31 مارچ 2024 سے پہلی کی جائے گی اور جس کی آخری مدت تین سال ہے۔

اسٹارٹ اپس

وزیر خزانہ نے  کہا ہے کہ  اسٹارٹ اپس اپنے ابتدائی دنوں میں انتہائی باصلاحیت ملازمین کو راغب کرنے کے لئے عام طور پر ایمپلائی اسٹاک آپشن پلان (ای ایس او پی) کا ستعمال کرتے ہیں۔ فی الحال اسٹارٹ اپس   کو  ای ایس او پی  پر ، پہلے سے ٹیکس دینا ہوتا ہے۔اسٹارٹ اپس کے ایکو نظام  کو فروغ دینے کے لئے وزیر خزانہ نے ملازمین پر ٹیکس کے بوجھ کو کم کرنے کی تجویز رکھی ہے۔ یہ بوجھ ٹیکس کی ادائیگی  پانچ سال تک یا ان کے کمپنی سے رخصت ہونے تک یا ان  کی طر ف سےاپنے  شیئرس فروخت  کئے جانے تک، ان میں سے جو پہلے واقع ہوجائے ملتوی کرکے کیا جائے گا۔

کسی  اہل اسٹارٹ اپ کو،  جس کا ٹرن اوور 25 کروڑ روپے تک ہو، اگر اس کا مجموعی ٹرن اوور 25 کروڑ روپے سے تجاوز کرتا ہے تو  اس کے منافع پر ، سات سال میں سے لگاتار تین سال تک کے لئے سو فیصد کٹوتی کی اجازت ہوگی۔ وزیر خزانہ نے اس حد کو 100 کروڑ روپے تک کرنے کی تجویز رکھی ہے۔ انہوں نے کٹوتی کی اہلیت کی مدت کو موجودہ سات سال سے بڑھاکر 10 سال کرنے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔

امداد باہمی کے اداروں کے لیے ٹیکس کی رعایتی شرح

امداد باہمی کی سوسائٹیوں کو فی الحال سر چارج اور سیس کے ساتھ 30 فیصد کی شرح سے ٹیکس ادا کرنے ہوتے ہیں۔  بڑی رعایت دیتے ہوئے اور امداد باہمی کی سوسائٹیوں اور کارپوریٹس کے درمیان تفریق پیدا کرنے کے لیے وزیر خزانہ نے امداد باہمی کی سوسائٹیوں کے لیے بغیر کسی چھوٹ / کٹوتی کے 22 فیصد کے ساتھ 10 فیصد سر چارج اور چار فیصد سیس کی شرح سے ٹیکس دینے کا اختیار فراہم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔  محترمہ نر ملا سیتا رمن نے اِ ن سوسائٹیوں کو متبادل کم از کم ٹیکس (اے ایم ٹی) سے باہر رکھنے کی تجویز پیش کی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح سے نئے نظام کے تحت ان کمپنیوں کو کم از کم متبادل ٹیکس (ایم اے ٹی) سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔

اوسط ، چھوٹی اور بہت چھوٹی صنعتیں

چھوٹے خردہ فروشوں، تاجروں اور دکانداروں  پر مشتمل  ایم ایس ایم ای پر ٹیکس کا بوجھ کم کرنے کے لیے وزیر خزانہ نے اِسے پانچ گنا بڑھا نے کی تجویز پیش کی ہے ۔ آڈٹ کے لیے ان کے سالانہ لین دلین  کی حد کو ایک کروڑ روپئے سے بڑھا کر پانچ کروڑ روپئے کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ کم نقدی والی معیشت کو فروغ دینے کے لیے انھوں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ اضافہ شدہ یہ حد ان کاروباریوں کے لیے صرف قابل اطلاق ہوگی جو کہ  پانچ فیصد سے کم اپنا تجارتی لین دین نقدی میں کرتے ہیں۔

سستےمکانات

گذشتہ بجٹ میں وزیر خزانہ نے اسی سستے گھر کو خریدنے کے لیے لئے جانے والے قرضوں پر ادا کی جانے والی سودکے لیے ایک لاکھ پچاس ہزار روپئے تک کی اضافی کٹوتی کا اعلان کیا ہے۔ اس اضافی کٹوتی کا فائدہ حاصل کرنےکے لیے منظور شدہ لون کی تاریخ ایک سال تک 31 مارچ 2020 کے بعد بڑھنے کی تجویز ہے۔

رفاہی ادارے

رفاہی اداروں کی آمدنی مکمل طور پر ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔ ان اداروں کو  دیئے جانے والے عطیات کی بھی اجازت ہے کیوں کہ یہ چھوٹ عطیہ دہندگان کی ٹیکس والی آمدنی میں شمار کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی عطیہ دہندگان کے ذریعے  دی گئی عطیات کی اطلاعات کی بنیاد پر ٹیکس دہندہ کے ریٹرن  میں پہلے سے ہی  عطیہ لینے والی کی معلومات پُر کرنے کی تجویز ہے۔

ٹیکس میں چھوٹ کے دعوے کے لیے رفاہی اداروں کو محکمہ انکم ٹیکس کے ساتھ اندراج کرانا  لازمی ہے۔ تمام نئے اور موجودہ رفاہی اداروں کو منفرد اندراج نمبر (یو آراین) کے تحت رجسٹریشن کے عمل کو پوری طرح  سے الیکٹرانک بنانے کی تجویزہے۔

بالمشافہ ملاقات کے بغیر اپیل

اسسمنٹ کے طریقہ کار کو مزید  مفید، شفاف اور جوابدہ بنانے کے لیے ایک بغیر چہرے والی اسسمنٹ اسکیم پہلے ہی متعارف کرائی جاچکی ہے۔انکم ٹیکس ایکٹ میں ترمیم کرنے کی تجویز ہے تاکہ اسے بالمشافہ ملاقات کے بغیر اپیل کو بالمشافہ  اسسمنٹ کے طرز پر  دیکھا جاسکے۔

‘وِواد سے وشواس’ اسکیم

مجوزہ ‘وِواد سے وشواس’ اسکیم کے تحت ایک ٹیکس دہندہ کو صرف  متنازع ٹیکس کی رقم ہی  ادا کرنے کی ضرورت ہوگی اور اسے سود اور جرمانے سے مکمل  چھوٹ مل جائے گی اگر وہ 31 مارچ 2020 تک ٹیکسوں کو جمع  کردیتا ہے۔ وہ افراد جو 31 مارچ 2020 تک اس اسکیم سے فائدہ حاصل کریں گے انھیں کچھ اضافی رقم ادا کرنی ہوگی۔ یہ اسکیم 30 جون 2020 تک  بدستور کھلی  رہے گی۔

آدھار کے ذریعے فوری پین نمبر

پرماننٹ اکاؤنٹ نمبر (پی اے این) کی فراہمی کے مرحلے کو مزید آسان بنانے کے لیے ایک اسکیم لانچ کی جائے گی۔ اس اسکیم کے تحت آدھار کی بنیاد پر  فوراً ہی پین نمبر آن لائن طریقے سے الاٹ کردیا جائے گا۔ اس کے لیے کوئی تفصیلی فارم پُر کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

بالواسطہ ٹیکس

جی ایس ٹی

ایک آسان جی ایس ٹی ریٹرن یکم اپریل 2020 سے  نافذ کی جائے گی۔ یہ ریٹرن داخل کرنا درج ذیل طریقوں مثلاً صفر ریٹرن کے لیے ایس ایم ایس پر مبنی فائلنگ، ریٹرن ماقبل فائلنگ، اضافہ شدہ ان پٹ ٹیکس کریڈٹ کی آمد اور مجموعی طور پر آسان طریقے سے ہوسکے گا۔ صارفین کے انوائسیز کے لیے ڈائنمک کیو آر کوڈ کی تجویز ہے۔ جی ایس ٹی کے نمونوں کی اس وقت  تصویر کھینچی جائے گی جب خریداری کی ادائیگی کیو آر کوڈ کے ذریعے کی جاتی ہے۔

کسٹمز

کسٹمز کی جانب اگر توجہ کریں تو ہندوستان نے عالمی بینک کے ذریعے تجارت کرنے کی آسانی کی عالمی درجہ بندی میں  زبردست چھلانگ لگائی ہے۔ہندوستان نے اس سلسلے میں‘‘سرحد پار کی تجارت’’کے پیمانے میں  لمبی چھلانگ لگائی ہے۔تجارت کرنے کی آسانی کی عالمی درجہ بندی میں  ہندوستان کا مقام پہلے 146 تھا جو بہتر ہوکر اب 68 ہوگیا ہے۔

کھلی تجارت کے معاہدوں کے تحت درآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایف پی اے کے فوائد اور دعوؤں نے گھریلو صنعت کو نقصان پہنچایا ہے۔ آنے والے مہینوں میں اصلی ضروریات سے متعلق قواعد وضوابط کا جائزہ لیا جائے گا۔ بالخصوص کچھ حساس اشیا کے لیے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے تاکہ ایف ٹی ایز ہماری پالیسی کے  صحیح سمت سے بہرہ ور ہوسکے۔

روزگار پیدا کرنے کے لیے ایم ایس ایم ای میں محنت والے سیکٹرس کافی اہمیت رکھتے ہیں۔ سستے اور کمتر درجے کی درآمدات اس کی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ اس سیکٹر کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے کسٹمز ڈیوٹی فوٹ ویئر اور فرنیچر جیسی اشیا سے وصولی جارہی ہے۔ فوٹ ویئر کے لیے ڈیوٹی کی شرح 25 فیصد سے بڑھا کر 35 فیصد کردی گئی ہے جبکہ فوٹ ویئر کے اجزا کے لیے ڈیوٹی کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کردی گئی ہے۔ مخصوص فرنیچر اشیا کے لیے ڈیوٹی کی شرح 20 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کی جارہی ہے۔

گھریلو صنعت کو بڑھاوا دینے اورحفظان صحت کے لیے وسائل پیدا کرنے کے لیے مخصوص طبی آلات کی درآمدات پر معمولی صحت سیس 5 فیصد عائد کرنے کی تجویز ہے۔ نیوز پرنٹ اور ہلکے وزن والے کوٹیڈ پیپر کی درآمدات پر بنیادی کسٹم ڈیوٹی 10 فیصد سے گھٹا کر 5 فیصد کی جارہی ہے۔

سگریٹ اور تمباکو مصنوعات پر نیشنل کلیمٹی کنٹنجینٹ ڈیوٹی (این سی سی ڈی)میں اضافے کی تجویز ہے جبکہ بیڑی پر این سی سی ڈی میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔

********

 

(م ن۔ ن ر۔ ش س ۔ا س۔ م ع ۔ ن ا ۔ م ت ح۔را۔ ک  ا )

 

U-479



(Release ID: 1601517) Visitor Counter : 333