وزیراعظم کا دفتر

70ویں یوم آئین کے موقع پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے وزیراعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 26 NOV 2019 5:00PM by PIB Delhi

 

نئی دہلی،26؍نومبر:

عزت مآب صدرجمہوریہ جی ، قابل احترام نائب صدرجی ، قابل احترام اسپیکر صاحب ، جناب پرہلاد جی اورسبھی قابل احترام عوامی نمائندگان۔

کچھ دن اور کچھ مواقع ایسے ہوتے ہیں جو ماضی کے ساتھ ہمارے رشتوں کو مضبوطی دیتے ہیں ۔ ہمیں بہترمستقبل میں اور اس سمت میں کام کرنے کے لئے تحریک دیتے ہیں ۔ آج یہ 26نومبر کا دن تاریخی دن ہے ۔70سال پہلے ہم نے باقاعدہ طورپر ایک نئی شکل کے ساتھ آئین کو اپنایاتھا لیکن ساتھ ساتھ 26نومبر درد بھی پہنچاتاہے جب بھارت کی عظیم روایات ، ہزاروں سال کی ثقافتی وراثت ، وسودھیوکٹمبکم کے خیال کو لے کر جینے والی اس عظیم روایت کو آج ہی کے دن 26نومبر کو ممبئی میں دہشت گردانہ منصوبوں نے چھلنی کرنے کی کوشش کی تھی ۔ میں آج ان سبھی روحوں کو سلام کرتاہوں ۔ سات دہائی قبل اسی سینٹرل ہال اتنی ہی پاکیزہ آوازیں گونجی تھیں ۔ آئین کی ایک ایک دفعہ پر باریکی سے گہری بحث ہوئی ، دلائل آئے ، حقائق آئے ، خیالات  آئے ، عقیدت کی بحث ہوئی ، یقین کی بحث ہوئی ، خوابوں کی بحث ہوئی ، عزائم کی بحث ہوئی ، ایک طرح سے یہ ایوان یہ جگہ علم کا مہاکنمبھ اورجہاں پر ہندوستان کے ہرکونے کے خوابوں کو الفاظ میں مڑھنے کی ایک بھرپورکوشش ہوئی تھی ۔ ڈاکٹرراجیندرپرسا، ڈاکٹربھیم راؤ صاحب  امبیڈکر ، سردارولبھ بھائی پٹیل ، پنڈت نہرو ، آچاریہ سکرانی جی ، مولاناآزاد ، پروشوتم داس ٹنڈن ، سچیتاکرپلانی ، ہنسامہتہ ، ایل ڈی کرشنا سوامی ایّر، این گوپالاسوامی اینگر، جان متھائل جیسے بے شمار ایسی عظیم شخصیتیں ہیں ، جنھوں نے بلاراستہ اور بالواستہ تعاون دیکر ہمیں  یہ  عظیم وراثت سپرد کی ۔ آج کے اس موقع پر میں ان سبھی عظیم شخصیتوں کو یاد کرتاہوں اور احترام کے ساتھ انھیں سلام کرتاہوں ۔

آج اپنی بات کی شروعات میں آپ سبھی کو باباصاحب امبیڈکرنے 25نومبر ، 1949کو آئین کو قبول کرنے سے ایک دن قبل اپنی آخری تقریرمیں جو باتیں کہیں تھیں ، اس کا ضرورذکرکرناچاہوں گا۔ باباصاحب نے ملک کو یاد دلایاتھا کہ ہندوستان پہلی بار 1947میں آزاد ہواہے ، یا پھر 26جنوری ، 1950کو جمہوریہ بنا، ایسا نہیں ہے ۔ ہندوستان پہلے بھی آزاد تھا اورہمارے یہاں متعدد جمہوریتیں بھی تھیں اور انھوں نے آگے اس درد کا اظہارکیاتھا کہ اپنی غلطیوں سے ہم نے ماضی میں آزادی کھوئی ہے اور جمہوری کردار بھی گنوایاہے ۔ ایسے میں باباصاحب نے ملک کو متنبہ کرتے ہوئے پوچھاتھاکہ ہمیں آزادی بھی مل گئی ، جمہوریہ بھی ہوگئے ، لیکن کیاہم اس کو بنائے رکھ سکتے ہیں ۔ کیاماضی سے ہم سبق لے سکتے ہیں ۔ آج اگرباباصاحب ہوتے تو ان سے زیادہ خوشی شاید ہی کسی کوہوتی ۔ کیونکہ ہندوستان نے اتنے برسوں میں نہ صرف ان کے سوالوں کا جواب دیاہے بلکہ اپنی آزادی کو ، جمہوریت کو مزید خوشحال اور طاقتور بنایاہے اوراس لئے آج کے اس موقع پر میں آپ سبھی کو گذشتہ سات دہائیوں میں آئین کی روح کو برقراررکھنے والی قانون سازیہ ، عاملہ اور ادویہ کے سبھی ساتھیوں کو وقارکے ساتھ یاد کرتاہوں ، سلام کرتاہوں ۔ میں خاص طور پر130کروڑہندوستانیوں کے سامنے سرجھکاتاہوں جنھوں نے ہندوستان کی جمہوریت کے تئیں  اپنے بھروسے کو کبھی کم نہیں ہونے دیا۔ ہمارے آئین کو ہمیشہ ایک مقدس کتاب مانا ، رہنما روشنی مانا۔

آئین کے 70سال ہمارے لئے خوشی ، عروج اور نتائج کا ملا جلا تاثرلے کر آئے ہیں ۔ خوشی یہ ہے کہ آئین کی روح اٹل اور غیرمتزلزل رہی ہے ۔ اگرکبھی کچھ اس طرح کی کوششیں بھی ہوئی ہیں تو اہل وطن نے مل کر ان کو ناکام بنایاہے ۔ آئین پرآنچ نہیں آنے دی ۔ عرو ج اس بات کو ہم ضرور درج کرتے ہیں کہ ہمارے آئین کی مضبوطی کے سبب ہی ایک بھارت ، سریشٹھ بھارت کی طرف ہم بڑھ پائے ہیں ۔ ہماری تمام اصلاحات مل جل کر آئین کے دائرے میں رہ کر کی گئی ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ یہ عظیم اور رنگارنگی سے پرہندوستان ترقی کے لئے ، سنہرے مستقبل کے لئے ، نئے ہندوستان کے لئے بھی ہمارے سامنے صر ف اور صرف آئین ، آئین کی مریادائیں ، آئین کی روح یہی واحد طریقہ ہے ۔ ہمارا آئین ہمارے لئے سب سے بڑی اور مقدس کتاب ہے ۔ ایک ایسی کتاب جس میں ہماری زندگی کی ، ہمارے سماج کی ، ہماری روایات ، ہمارے عقائد ، ہمارے سلوک ، ہمارے اخلاق ان سب کو اس میں سمویاگیاہے ۔ ساتھ ہی ساتھ مختلف چیلنجوں کا حل بھی ہے ۔ ہمارا آئین اتنا وسیع اس لئے ہے کیونکہ اس میں ہم نے باہری روشنی کے لئے اپنی کھڑکیاں کھول رکھی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اندرکی جوروشنی ہے اس کو بھی اورزیادہ روشن کرنے کا موقع بھی دیاہے ۔

آج اس موقع پر جب ہم کہیں گے تو ایک بات جو میں نے 2014میں لال قلعہ کی فصیل سے کہی تھی آج اسی کو دوہراوں گا۔ آئین کے بارے میں اگرآسان لفظوں میں کچھ کہناہوتا میں ،‘‘ڈگنٹی  فارانڈین اینڈ یونٹی فارانڈیا ’’ کہوں گا۔ ان ہیں دوالفاظ میں ہمارے آئین میں پیش کیاگیاہے ۔ شہری کی ڈگنٹی کو اوپررکھاگیاہے اورپورے ہندوستان  کے اتحاد اورسالمیت کو برقراررکھاگیاہے ۔ ہماراآئین ، دنیا کی جمہوریت کی سب سے بڑی حصولیابی ہے ۔ یہ نہ صر ف حقوق کے تئیں مستعد ہے بلکہ ہماری ذمہ داریوں کے تئیں ہمیں بیداربھی کرتاہے ۔ ایک نقطہ نظرسے ہماراآئین دنیا میں سب سے زیادہ سیکولر ہے ۔ہمیں کیاکرنا ہے ، کتنے بڑے خواب دیکھنے ہیں اورکہاں تک پہنچاہے ، اس کے لئے کسی بھی قسم کی بندش نہیں ہے ۔ آئین میں ہی اختیارات کی بات کہی گئی ہے ۔ آئین میں ہی  ذمہ داریوں کی امید بھی مضمر ہے ۔ کیاہمیں بطورایک فرد کے ، ایک کنبے کے طورپر ،ایک سماج کے طورپر، اپنی ذمہ داریوں کے تئیں اتنے ہی سنجیدہ ہیں جتنا کہ ہمارا آئین ، ہمارا ملک ، ہمارے شہریوں کے خواب ہم سے امید رکھتے ہیں ۔ راجندربابونے کہاتھا جسے کانسٹی ٹیوشن میں تحریرنہیں کیاگیاہے اس کو ہمیں کنوینشن کے ذریعہ قائم کرنا ہوگااوریہی ہندوستان کی خصوصیت بھی ہے ۔ گذشتہ دہائیوں کے دوران ہم نے اپنے اختیارات پرزوردیاہے ۔ اس کی ضرورت بھی تھی اور درست بھی تھاکیونکہ سماج میں ایسا نظام بن گیاہے جس کی وجہ سماج کے بڑے طبقے اختیارات سے محروم رکھاگیاہے ۔اختیارات سے روشناس کرائے بغیر اس بڑے طبقے کو مساوات ، برابری اور انصاف کا احساس دلاپانا ممکن نہیں تھا۔ آج وقت کا مطالبہ ہے کہ جب ہمیں اختیارات کے ساتھ ہی ایک شہری کے طورپراپنے  کاموں ، اپنی ذمہ داریوں کا جائزہ لینا ہوگا کیونکہ ذمہ داریوں کی ادائے گی کے بغیر ہم اپنے اختیارات محفوظ نہیں رکھ سکتے ۔

اختیارات اورذمہ داریوں کا ایک اٹوٹ رشتہ ہے اوراس رشتے کو مہاتماگاندھی جی نے خاص طورسے بہت ہی اچھے سے سمجھایاتھا ۔آج جب ملک باپوکی 150ویں جینتی منارہاہے تو ان کی باتیں موضوع ترین سمجھی جاتی ہیں ۔ وہ کہتے تھے right is duty  well performed انھوں نے ایک جگہ لکھابھی تھاکہ میں نے اپنی ان پڑھ لیکن سمجھدارماں سے سیکھاہے کہ سبھی اختیارات آپ کے ذریعہ پوری سچائی اور سنجیدگی سے نبھائے گئے ، اپنی ذمہ داریوں سے ہی آتے ہیں ۔ گذشتہ صدی کی ابتدائی دہائیوں میں جب پوری دنیا اختیارات کے بارے میں باتیں کررہی تھی تب گاندھی جی ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کہاتھا کہ آیئے ہم لوگ شہریوں کی ذمہ داریوں یعنی duties of  citizensکے بارے میں باتیں کرتے ہیں ۔ 1947میں یونیسکوکے ڈائرکٹرجنرل ، ڈاکٹرجولین ہسکلے نے دنیا کے 60بڑی شخصیتوں ، بڑی ہستیوں کو ایک مراسلہ ارسال کیاتھا اوران سے رہنمائی کا مطالبہ کیاتھا۔ اس مراسلے میں انھوں نے دریافت کیاتھا کہ حقوق انسانی کا عالمی چارٹربناناہے تو اس کی بنیاد کیاہوگی ۔ اس سلسلے میں انھوں نے دنیاکی ان عظیم ہستیوں سے آرأ طلب کی تھیں ۔ مہاتماگاندھی سے بھی ان کی رائے پوچھی گئی تھی ۔ لیکن کے ہرکسی نے جو باتیں کہیں مہاتماگاندھی کا نظریہ ان سے کچھ مختلف تھا۔ مہاتماگاندھی نے  اپنے جواب میں کہاتھا کہ ہم اپنی زندگی کا حق اسی وقت حاصل کرسکتے ہیں جب بطورایک شہری اپنی ذمہ داریاں پوری طرح نبھائیں یعنی ایک طرح سے ذمہ داریوں میں ہی اختیارات کا تحفظ ہے اس کی وکالت مہاتماگاندھی نے اس وقت بھی کی تھی جب ہم ذمہ داریوں کی بات کرتے ہیں ۔ کاموں کی بات بھی  کرتے ہیں تویہ بہت ہی معمولی ذمہ داریاں ہیں جن کی ادائے گی سے ایک ملک کے طورپر ہمارا عزم ظاہرہوتاہے ۔ ہمیں یہ بھی واضح طورپر اس بات پر توجہ دینی ہوگی کہ ذمہ داریوں اور خدمت میں ہم کبھی کبھی خدمت کو ہی ذمہ داری سمجھ لیتے ہیں ۔ خدمت کا جذبہ ، سنسکار ہرسماج کے لئے بہت ہی اہمیت رکھتاہے لیکن خدمت کے جذبے سے بھی کارروائی کچھ اورہے اور اس پرکبھی کبھی ہماری نظرنہیں جاتی ۔ آپ سڑک پرچل رہے ہیں ، کسی شخص کو کسی کی مدد کی ضرورت ہے ، آپ  اس کی مددکرتے ہیں ، تو وہ ایک طرح خدمت کا جذبہ ہے ۔ خدمت کا یہ جذبہ کسی بھی سماج کو ، انسانیت کو بہت مستحکم کرتاہے لیکن ذمہ داری کا جذبہ اس سے تھوڑا مختلف ہے ۔ سڑک پرکسی کو تکلیف ہوئی ، آپ نے مدد کی اچھی بات ہے ،اگرمیں نے  ٹریفک کے ضابطوں پرعمل ہے اورکبھی کسی کو تکلیف نہ ہو ایسے نظام کا میں حصہ بنارہاتو یہ میری ذمہ داری ہے ۔ آپ جو کچھ بھی کررہے ہیں اس کے ساتھ ایک سوال جوڑ کر ہم دیکھتے ہیں کہ میں جو کچھ بھی کررہاہوں ، اس سے میراملک مضبوط ہوتاہے یا نہیں۔ کنبے کے افراد کے ناطے ہم ہروہ چیزکرتے ہیں جس سے ہمارے خاندان کی طاقت بڑھے اسی طرح شہری کے ناطے ہم وہ کام کریں جس سے ہمارے ملک کی طاقت بڑھے اور ہمارا ملک طاقتورہو۔

ایک شہری جب اپنے بچے کو اسکول بھیجتا ہے، تو ماں باپ اپنا فرض نبھاتے ہیں، لیکن وہ ماں باپ پوری بیداری سے اپنے بچے  سے مادری زبان سیکھنے کی توقع رکھتے ہیں تو وہ ایک شہری کا فرض نبھاتے ہیں۔ ملک کی خدمت کا فرض نبھاتے ہیں اور اس لئے ایک شخص چھوٹی چھوٹی چیزیں ہوتی ہیں، اگر بوند بوند پانی بچاتا ہے تو وہ اپنا شہری فرض بھی نبھاتاہے۔ اگر ٹیکہ کار سامنے سے جاکر ٹیکہ کاری کا کام پور کرلیتا ہے، کسی کو گھر آکر یاد نہیں کرانا پڑتا ہے، تو وہ اپنا فرض نبھاتا ہے۔ووٹ دینے کے لئے سمجھانا نہ پڑے، ووٹ دینے کے لئے جاتا ہے وہ اپنا فرض نبھاتاہے۔ وقت پر ٹیکس دینا ہے، دیتا ہے وہ اپنا فرض نبھاتا ہے۔ ایسے کئی فرائض ہوتے ہیں جو ایک شہری کے طورپر آسان انتظام کے طورپر اسے ہم فروغ دیں، ثقافت کے طورپر ہم اسے فروغ دیں تو ہمیں ملک کو آگے لے جانے میں بہت بڑی آسانی ہوتی ہے۔ یہ سوال جب تک ملک کے ہر ایک شہری کے ذہن میں نہیں ہوں گے، ہمارے شہری فرائض کہیں نہ کہیں کمزور ہوتے چلے جائیں گے اور وہ کسی نہ کسی طورپر کسی دوسرے کے حق کو نقصان کو پہنچاتے ہیں، اس لئے دوسرے کے حقوق کی فکر کے لئے بھی اپنے فرائض پر زور دینا ہم لوگوں کا فرض بنتا ہے اور عوامی نمائندے کے ناطے ہماری ذمہ داری کچھ اور زیادہ ہوتی ہے، دوہری ہوتی ہے۔ ہمارے سامنے آئینی اقدار کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ خود کو بھی ایک نمونے کے طورپر پیش کرنا ہے۔ ہمارا یہ فرض بن جاتا ہے اور ہمیں سماج میں تبدیلی لانے کےلئے اس فرض کوبھی نبھانا ہی ہوگا۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ اپنے ہر پروگرام میں، اپنی ہر بات چیت میں ہم فرائض پر دھیان دیں۔ عوام کے ساتھ بات چیت کرتے وقت فرائض کی بات کرنا نہ بھولیں۔ ہمارا آئین ہم ہندوستان کے لوگوں سے شروع ہوتا ہے۔ ہم ہندوستان کے لوگ ہی اس کی طاقت ہیں۔ ہم ہی اس کی ترغیب ہیں اور ہم ہی اس کا مقصد ہیں۔

میں جو کچھ ہوں وہ سماج کے لئے ہوں، ملک کے لئے ہوں۔فریضے کا یہی احساس ترغیب کا ذریعہ ہے۔ میں آپ سبھی سے اپیل کرتا ہوں کہ ہم سب اس قوت ارادی کے ساتھ مل کر ہندوستان کے ایک ذمہ دار شہری کے طورپر اپنے فرائض پر عمل کریں۔ آئیے ہم اپنی جمہوریت کو اپنی فرائض سے  نئی ثقافت کی طرف لے کر کے جائیں۔ آئیے ہم سب ملک کے شہری بنیں، نیک شہری بنیں۔ میری خواہش ہے کہ یہ یوم دستور ہمارے آئین کے اصولوں کو برقرار رکھے اور ملک کی تعمیر میں تعاون دینے کی ہماری عہد بستگی کو زور دیں۔ ہمارے آئین سازوں نے جو خواب دیکھا تھا اسے پورا کرنے کی ہمیں طاقت دے اور یہ مقدس زمین ہے، جہاں یہ غورو خوض ہوا تھا۔ یہاں پر اس کی گونج ہے۔ یہ گونج ہمیں ضرور آشیرواد دے گی، یہ گونج ہمیں ضرور ترغیب دے گی، یہ گونج ہمیں ضرور طاقت دے گی، یہ گونج ہمیں ضرور سمت دے گی۔ اسی ایک احساس کے ساتھ میں ایک بار پھر آج یوم دستور کے مقدس موقع پر بابا صاحب امبیڈکر کو سلام کرتا ہوں، آئین سازوں کو سلام کرتا ہوں اور ملک کے باشندوں کے تئیں اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔

********

 

م ن۔ ش س۔ ن ا۔ع آ ۔ن ع

 

U: 5380



(Release ID: 1593637) Visitor Counter : 160