وزیراعظم کا دفتر

انڈیا انٹرنیشنل سائنس فیسٹول سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ وزیراعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 05 NOV 2019 5:42PM by PIB Delhi

         

کابینہ میں میرے ساتھی ڈاکٹر ہرش وردھن جی، دنیا بھر کی سائنٹیفک برادری سے جڑےساتھی، وگیان بھارتی کے  نمائندے ، ملک کے مختلف حصوں سے  تعلق رکھنے والے طلبا، خواتین و حضرات!

آج آمی اپنادیر شاتھے ٹیكنولاجير مادھيومے ملتو هوہوچھی ٹھیک ای، کنتو اپنادیر اتشاہو، اپنادیر ادّپنا، آمی  ایكھان تھیكئی انوبھوب كورتے پارچھی۔

ساتھیوں،

انڈیان انٹرنیشنل سائنس فیسٹول کا  5 واں ایڈیشن ایسے مقام پر ہو رہا ہے، جس نے علمِ۔ سائنس کے ہرشعبے میں انسانیت کی خدمت کرنے والی عظیم شخصیوتوں کو پیدا کیا ہے۔ یہ فیسٹول ایسے وقت پر ہو رہا ہے، جب 7 نومبر کو سی وی رمن اور 30 نومبر کو جگدیش چندر بوس کے یوم پیدائش منائے جائیں گے۔

سائنس کے ان گریٹ ماسٹرس کی لگیسی کو سلیبریٹ کرنے اور 21 ویں صدی میں ان سے فیضان حاصل کرنے کے لئے اس سے بہتر وقت نہیں ہو سکتا اور اس وجہ لئے، اس فیسٹول کا تھیم کا موضوع، رائزین: ریسرچ، انوویشن اینڈ سائنس امپاورنگ دی نیشن  طے کرنے کے لئے منتظمین کو میری جانب سے بہت بہت مبارکباد۔ یہ تھیم 21 ویں صدی کے بھارت کے مطابق ہے اور اسی میں ہمارے مستقبل کا نچوڑ ہے۔

ساتھیو،

دنیا میں ایسا کوئی ملک نہیں ہے جس نے سائنس  اور ٹکنالوجی کے بغیر ترقی کی ہو۔ بھارت کا بھی اس میں  درخشاں تاریخ رہی ہے، ہم نے دنیا کو بہت بڑے بڑے سائنس داں دیئے ہیں۔ ہمارا ماضی قابل فخر ہے۔ ہمارا حال سائنس اور ٹیکنالوجی کے اثرات سے پُر ہے۔ ان سب کے درمیان مستقبل کے تئیں ہماری ذمہ داریاں کئی  گنا بڑھ جاتی ہیں۔  یہ ذمہ داریاں انسانی بھی ہیں اور ان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت بھی ہے۔ اس ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے حکومت انونشن اور انوویشن ، دونوں کے لئے انسٹی ٹیوشنل سپورٹ دے رہی ہے۔

ساتھیو، ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا اكوسسٹم بہت مضبوط ہونا چاہئے۔ ایک ایسا اكوسسٹم جو مؤثر بھی ہو اور نسل در نسل باعث ترغیب بھی ہو۔ ہم اسی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

ہماری کوشش ہے کہ چھٹی کلاس سے ہی طالب علم اٹل ٹنكرنگ لیب میں جائیں اور پھر کالج سے نکلتے ہی ان کو انکیوبیشن کا، اسٹارٹ اپ کا ایک اكوسسٹم تیار ملے۔ اسی سوچ کے ساتھ بہت ہی کم وقت میں ملک میں 5 ہزار سے زائد اٹل ٹنكرنگ لیب بنائئ گئی ہیں۔  ان کے علاوہ 200 سے زائد اٹل اكيوبیشن سینٹرز بھی تیار کئے گئے ہیں۔ ہمارے طالب علم، ملک کے چیلنجوں کو اپنے طریقے سے حل  کریں، اس کے لئے  لاکھوں طلباء و طالبات کو مختلف ہیکاتھونس میں شامل ہونے کا موقع دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پالیسیوں کے ذریعے، اقتصادی مدد کے ذریعے ہزاروں اسٹارٹ اپ  کو سپورٹ کیا گیا ہے۔

ساتھیو،

ہمارے ایسی ہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ 3 سال میں گلوبل انوویشن انڈیکس میں ہم  81 ویں درجے سے 52 درجے پر  پہنچ گئے ہیں۔  آج بھارت دنیا کا تیسرا سب سے بڑا سکسیس فل اسٹارٹ اپ  اکو سسٹم  بن چکا ہے۔  اتنا ہی نہیں ہائر ایجوکیشن اور ریسرچ  کے لئے بھی بے مثال کام کئے جا رہے ہیں۔  ہم نے ہائر ایجوکیشن سے جڑے نئے ادارے بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی  فنکشنل اٹونومی  کو بھی بڑھا وا دیا ہے۔

ساتھیو، آج ہم تاریخ کے ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں۔  اس سال ہمارے آئین کو 70 سال ہو رہے ہیں۔  ہمارے آئین نے ٹائنٹفک ٹیمپر  تیار کئے جانے کو، ملک کے ہر شہری کے فرض سے جوڑا ہے۔

یعنی یہ ہماری  فنڈا مینٹل ڈیوٹی کا حصہ ہے۔  اس ڈیوٹی کو نبھانے کی، مسلسل یاد کرنے کی، آپ کی آنے والی نسلوں کو اس کے لئے بیدار کرنے کی، ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

جس معاشرے میں سائنٹفک ٹیمپر کی طاقت بڑھتی ہے، اس کا ترقی بھی اتنی ہی تیزی ہوتی ہے۔ سائنٹفک ٹیمپربد عقیدہ پن  کو مٹاتا ہے، توہم پرستی کو کم کرتا ہے۔  سائنٹفک ٹیمپر معاشرے میں اچھی کارکردگی کو بڑھاتا ہے۔ سائنٹفک ٹیمپر تجربات حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

ہر چیز کی وجہ تلاش کرتا ہے، منطق اور حقائق کی بنیاد پر اپنی رائے بنانے کی سمجھ پیدا کرتا ہے اور سب سے بڑی بات، یہ فیئر آف انّون کو چیلنج کرنے کی طاقت دیتا ہے۔  زمانہ قدیم سے اس فیئر آف انون کو  چیلنج کرنے کی طاقت نے ہی کئی نئے حقائق کو سامنے لانے میں مدد کی ہے۔

ساتھیو، مجھے خوشی ہے کہ ملک میں آج سائنٹفک ٹیمپر ایک الگ سطح پر ہے۔  میں آپ کو حال ہی کی ایک مثال دیتا ہوں۔  ہمارے سائنسدانوں نے چندریان 2 پر بہت محنت کی تھی اور اس سے بہت امیدیں پیدا ہوئی تھیں۔  سب کچھ منصوبے کے مطابق نہیں ہوا، پھر بھی یہ مشن کامیاب تھا۔

ساتھیو،

مشن سے بھی بڑھ کر یہ بھارت کی سائنسی تاریخ میں ایک اہم موڑ ہو سکتا ہے۔  کس طرح؟ میں آپ کو بتاتا ہوں۔  میں نے سوشل میڈیا پر کئی اسٹوڈنٹس کے والدین کے بہت سے ٹویٹ دیکھے۔  وہ بتا رہے تھے کہ انہوں نے اپنے بہت کم عمر کے بچوں کو بھی چندریان سے متعلق واقعات پر بحث کرتے ہوئے پایا۔  کوئی لونر ٹوپوگرافی کے بارے میں بات کر رہا تھا، تو کچھ سیٹلائٹ ٹریجیکٹری پر  بحث کر رہے ہیں۔  کوئی چاند  کے ساؤتھ پول میں پانی کے امکانات پر سوال پوچھ رہا تھا، تو کوئی لونر مدار کی بات کر رہا تھا۔  والدین بھی حیران تھے کہ اتنی کم عمر میں ان بچوں میں یہ موٹی ویشن  آیا کہاں سے۔  ملک کے ان تمام والدین کو لگتا ہے کہ، ان کے بچوں میں آ رہی یہ کیوروسٹی  بھی چندریان -2 کی کامیابی ہی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ سائنس کو لے کر ہمارے  ینگ اسٹوڈنٹس  میں دلچسپی کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی ہے۔

اس طاقت کو، اس انرجی کو 21 ویں صدی کے سائنٹفک انوائرنمنٹ میں صحیح سمت میں لے جانا، صحیح پلیٹ فارم دینا، ہم سب کا فرض ہے۔

ساتھیو،

ایک زمانہ تھا، جب کہا جاتا تھا کی ضرورت ہی ایجاد کی ماں ہے۔  یہ کچھ معنوں میں صحیح بھی ہے۔  لیکن وقت کے ساتھ انسانی نے، ضرورت کے لئے ایجاد سے آگے بڑھ کر، علم سائنس کو طاقت کے طور پر، وسائل کے طور پر کس طرح استعمال میں لائیں، اس سمت میں بہت جرات مندانہ کام کئے ہیں۔  ایجاد نے اب گویا ضروریات کو وسعت دے دی ہے۔  جیسے انٹرنیٹ کی آمد کے بعد، ایک نئی قسم کی ضروریات کا جنم ہوا۔  اور آج دیکھئے۔  ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کا ایک بہت بڑا حصہ انٹرنیٹ کی آمد کے بعد وجود میں آئی ضروریات پر صرف ہو رہا ہے۔  مختلف شعبوں جیسے ہیلتھ کیئر ہو، ہوسپیٹیلیٹی سیکٹر ہو یا انسان کی ایز آف لیونگ سے  جڑی تمام ضروریات، اب انٹرنیٹ ان کی  بنیاد بن رہا ہے۔  آپ  بغیر انٹرنیٹ کے اپنے موبائل کا تصور کرکے دیکھیں گے، آپ کو اندازہ لگا پائیں گے کہ کس طرح ایک ایجاد نے اب ضروریات کا دائرہ بڑھا دیا ہے۔  اسی طرح آرٹی فيشيل انٹیلی جنس نے بھی ضروریات کے نئے دروازے کھول دیئے ہیں، نئی ڈائمنشنس کو وسعت دی ہے۔

ساتھیو،

ہمارے یہاں کہا گیا ہے

تت روپ يتو گنا:

سائنس فار سوسائٹی کا کیا مطلب ہے، یہ جاننے کے لئے ہمیں کچھ سوالات کے جواب دینے ہوں گے۔  ہر کوئی جانتا ہے کہ پلاسٹک سے آلودگی کی صورتحال کیا ہے۔

کیا ہمارے سائنس داں  ایسے اکیبیبل  اور  کوسٹ افیکٹیو میٹیریل بنانے کی چیلنج قبول کرسکتے ہیں جو پلاسٹک کی جگہ لے سکے؟ کیا توانائی کو، الیکٹرسٹی کو ذخیرہ کرنے کا بہتر طریقہ تلاش کرنے کا چیلنج ہم لے سکتے ہیں؟ کوئی ایسا حل جس سے سولر پاور کے استعمال میں اضافہ ہو سکے؟ الیکٹرک موبیلیٹی کو عام انسانوں تک پہنچانے کے لئے بیٹری اور دوسرے انفراسٹرکچر سے جڑے انوویشن  ہم کر سکتے ہیں کیا؟

ساتھیو،

ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم اپنی لیبس میں ایسا کیا کریں جس سے کروڑوں ہندوستانیوں کی زندگی آسان ہو۔  ہم مقامی سطح پر پانی کے مسئلہ کا کیا کوئی حل نکال سکتے ہیں؟ ہم کس طرح لوگوں تک پینے کا صاف پانی پہنچا سکتے ہیں؟

کیا ہم کوئی ایسی ایجاد کر سکتے ہیں جس سے صحت کی دیکھ بھال پر ہونے والا خرچ کم ہو سکے؟ کیا ہماری کوئی ایجاد کسانوں کو فائدہ پہنچا سکتی ہے، ان کی آمدنی بڑھا سکتی ہے، ان کی محنت میں مدد کر سکتی ہے؟

ساتھیو،

ہمیں سوچنا ہوگا کہ سائنس کا استعمال کس طرح لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں کیا جا سکتا ہے۔  اور اس وجہ سے سائنس فار سوسائٹی کی بہت اہمیت ہے۔

جب سبھی سائنس داں، تمام ہم وطن اس سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں گے، تو ملک کا بھی فائدہ ہو گا، انسانیت کا بھی فائدہ ہو گا۔

ساتھیو،

ایک اور اہم بات آپ کو یاد رکھنی ہے۔  آج ہم تیز رفتار دور میں جی  رہے ہیں۔  ہم دو منٹ میں نوڈلس اور 30 منٹ میں پزّا چاہتے ہیں۔  لیکن سائنسدانوں اور سائنسی  عمل کے ساتھ  ہم  فٹا فٹ ثقافت والی سوچ نہیں رکھ سکتے ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ کسی تلاش کا اثر فوری طور پر نہ ہو لیکن آنے والی کئی صدیوں کو اس کا فائدہ ملے۔ ایٹم کی تلاش سے لے کر سائنس کی موجودہ شکل اور دائرہ کار تک ہمارا تجربہ یہی بتاتا ہے۔  لہذا میری آپ سے درخواست یہ بھی ہوگی کہ  لونگ ٹرم بینیفٹ ، لونگ ٹرم سولوشنس کے بارے میں بھی سائنٹفک ٹیمپر کے ساتھ سوچنا بہت ضروری ہے۔  اور ان ساری کوششوں کے درمیان آپ کو بین الاقوامی قوانین، اس کے ضابطو  کا بھی ہمیشہ خیال رکھنا ہوگا۔  آپ کو اپنے انوینشنس، اپنے انوویشنس سے جڑے حقوق، ان کے  پیٹنٹ کو لے کر اپنی بیداری بھی بڑھانی ہوگی اور سرگرمی بھی۔  اسی طرح، آپ کی ریسرچ زیادہ سے زیادہ انٹرنیشنل سائنس میگزینس میں، بڑے پلیٹ فارم پر جگہ پائیں، اس کے لئے بھی آپ کو مسلسل تیار رہنا چاہئے، مسلسل کوشش کرنی چاہئے۔  آپ کا مطالعہ اور کامیابی کا بین الاقوامی دنیا کو پتہ چلنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔

ساتھیو، ہم سب اچھی طرح  جانتے ہیں کہ سائنس، دو چیزوں کے  بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔  یہ دو چیزیں ہیں مسئلہ اور پیہم استعمال۔  اگر کوئی مسئلہ ہی نہ ہو، اگر سب کچھ پرفیکٹ  ہو تو کوئی بے چینی نہیں ہوگی۔  بیتابی کے بغیر کسی نئی تلاش کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوگی۔

وہیں، کوئی بھی کام اگر پہلی بار کیا جائے تو اس کے پرفیکٹ ہونے کا  امکان بہت کم ہوتا ہے۔  کئی بار  من پسند نتائج حاصل نہیں ہوتے۔  واقعی میں یہ ناکامی نہیں، کامیابی کے سفر کا ایک اہم پڑاؤ ہوتا ہے۔  لہذا سائنس میں فیلیور نہیں ہوتے، صرف  ایفرٹس  ہوتے ہیں،ایکسپریمنٹ ہوتے ہیں، اور آخر میں سکسیس ہوتی ہے۔  ان باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے آپ آگے بڑھیں گے تو سائنس میں بھی آپ کو دقت نہیں آئے گی اور زندگی میں بھی کبھی رکاوٹ نہیں آئے گی۔  مستقبل کے لئے آپ کو بہت بہت  نیک خواہشات کے ساتھ، اور یہ تقریب کامیابی کے ساتھ آگے بڑھے، میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔

بہت بہت شکریہ !!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  م ن۔ج۔ن ا۔

U- 4943



(Release ID: 1590525) Visitor Counter : 136