وزیراعظم کا دفتر

‘من کی بات2.0 ’کی چوتھی کڑی میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن (29.09.2019)

Posted On: 29 SEP 2019 12:33PM by PIB Delhi

 

نئی دہلی،29 ستمبر            میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار! آج کی ‘من کی بات’ میں، ملک کی اس عظیم شخصیت، میں، ان کی بھی بات کروں گا۔ ہم سبھی ہندوستانیوں کے دل  میں، ان کے تئیں بہت عزت ہے، بہت لگاؤ ہے۔ شاید ہی، ہندوستان کا کوئی  شہری ہوگا، جو ان کے تئیں احترام کا جذبہ نہ رکھتا ہو، عزت نہ کرتا ہو۔ وہ عمر میں ہم سب سے بہت بڑی ہیں اور ملک کے الگ الگ پڑاؤ، الگ الگ دور کی وہ گواہ ہیں۔ ہم انھیں دیدی کہتے ہیں۔ ‘لتا دیدی’۔ وہ، اس 28 ستمبر کو 90 سال کی ہو رہی ہیں۔ غیر ملکی دورے پر جانے سے پہلے، مجھے دی دی سے فون پر بات کرنے کی خوش نصیبی حاصل ہوئی تھی۔ یہ بات چیت ویسے ہی تھی، جیسے بہت دُلار میں، چھوٹا بھائی، اپنی بڑی بہن سے بات کرتا ہے۔ میں اس طرح کے ذاتی  پیغام کے بارے میں کبھی بتاتا نہیں، لیکن آج چاہتا ہوں کہ آپ بھی لتا دیدی کی باتیں سنیں، اس بات چیت کو سنیں۔ سنئے، کہ کیسے عمر کے اس پڑاؤ میں بھی لتا دیدی، ملک سے جڑی تمام باتوں کی مشتاق ہیں،  آمادہ ہیں اور زندگی کا اطمینان بھی، ہندوستان کی ترقی میں ہے، بدلتے ہوئے ہندوستان میں ہے، نئی اونچائیوں کو چھو رہے ہندوستان میں ہے۔

شریمتی لتامنگیشکر کے ساتھ بات چیت

میرے پیارے ہم وطنو، نوراتری کے ساتھ ہی، آج سے تہواروں کا ماحول ایک بار پھر، نئی امنگ، نئی توانائی، نیا جوش، نئے عزم سے بھر جائے گا۔ تہواروں کا موسم ہے نا! آگے کئی ہفتوں تک، ملک بھر میں، تہواروں کی رونق رہے گی۔ ہم سبھی، نوراتری کے تہوار، گربا، درگاپوجا، دسہرا، دیوالی، بھیا دوج، چھٹ پوجا، متعدد تہوار منائیں گے۔ آپ سبھی کو، آنے والے تہواروں کی ڈھیر ساری مبارکباد۔ تہواروں میں خاندان کے سبھی لوگ ساتھ آئیں گے،  گھر خوشیوں سے بھرے ہوں گے، لیکن آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے آس پاس بھی بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو ان تہواروں کی خوشیوں سے محروم رہ جاتے ہیں اور اسی کو تو کہتے ہیں، ‘چراغ تلے اندھیرا’۔ شاید، یہ کہاوت صرف لفظ نہیں ہیں، ہم لوگوں کے لیے ایک حکم ہے، ایک فلسفہ ہے، ایک ترغیب ہے، سوچئے ایک طرف کچھ گھر روشنی سے جگمگاتے ہیں وہیں دوسری طرف اسی کے سامنے آس پاس  کچھ لوگوں کے گھرو ں میں اندھیرا چھایا ہوتا ہے، کچھ گھروں میں مٹھائیاں خراب ہو رہی ہوتی ہیں تو کچھ گھروں میں بچے مٹھائی کو ترستے ہیں، کہیں الماری میں کپڑے رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی تو کہیں  بدن ڈھاکنے کی مشقت چلتی ہے۔ کیا اسے چراغ تلے اندھیرا نہیں کہیں گے۔ یہی تو چراغ تلے اندھیرا ہے۔ ان تہواروں کا اصلی لطف  تبھی ہے جب یہ اندھیرا چھٹے، یہ اندھیرا کم ہو،  روشنی پھیلے۔ ہم وہاں بھی خوشیاں بانٹیں جہاں کمی ہے، اور یہ ہمارا برتاؤ بھی ہو۔ ہمارے گھروں میں، مٹھائیوں کی، کپڑوں کی، تحائف آئے  تو ایک پل میں تحائف دینے کے بارے میں بھی سوچیں۔ کم سے کم ہمارے گھر میں  جو زیادہ ہے، جس کو اب ہم کام میں نہیں لاتے، ایسی چیزوں کو تو ضرور بانٹ دیں۔ کئی شہروں میں، کہیں این جی او، نوجوان ساتھیوں کے اسٹارٹ اپ سے یہ کام کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کے گھروں سے، کپڑے، مٹھائیاں، کھانا سب کو اکٹھا کر، ضرورتمندوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر  ان تک پہنچاتے ہیں۔ اور گمنام سرگرمی کرتے ہیں۔ کیا اس بار، تہواروں کے اس موسم میں، پوری  بیداری اور عزم کے ساتھ، اس چراغ تلے اندھیرے کو مٹا سکتے ہیں؟ کئی غریب خاندانوں کے چہرے پر آئی مسکان، تہواروں پر، آپ کی خوشیاں دوبالا کردے گی۔ آپ کا چہرا اور چمکے گا، آپ کا دیا اور روشن ہوجائے گا، آپ کی دیوالی اور روشن ہوجائے گی۔

میرے پیارے بھائیو اور بہنو، دیوالی میں خوش قسمتی اور خوشحالی کی شکل میں، لکشمی کی گھر گھر  آمد ہوتی ہے۔ روایتی طور پر لکشمی کا استقبال ہوتا ہے۔ کیا اس بار ہم نئے طریقے سے لکشمی کا استقبال کرسکتے ہیں؟ ہماری ثقافت میں، بیٹیوں کو لکشمی مانا گیا ہے، کیوں کہ بیٹی خوش قسمتی اور خوشحالی لاتی ہے۔ کیا اس بار ہم اپنے سماج میں گاؤں میں، شہروں میں، بیٹیوں کی عزت کا پروگرام رکھ سکتے ہیں؟ عوامی پروگرام رکھ سکتے ہیں۔ ہمارے درمیان کئی ایسی بیٹیاں ہوں گی جو  اپنی محنت اور لگن سے، صلاحیت سے خاندان کا، سماج کا، ملک کا نام روشن کر رہی ہوں گی۔ کیا اس دیوالی پر ہندوستان کی اس لکشمی کے اعزاز کا پروگرام،  ہم کر سکتے ہیں؟ ہمارے آس پاس کئی بیٹیاں، کئی بہوئیں ایسی ہوں گی، جو عام کام کر رہی ہوں گی۔ کئی غریب بچوں کی پڑھائی کا کام کر رہی ہوں گی۔ کئی صفائی اور تعلیم کو لے کر بیداری پیدا کرنے میں مصروف ہوں گی تو کئی ڈاکٹر، انجینئر بن کر سماج کی خدمت کر رہی ہوں گی۔ وکیل بن کر کسی کو انصاف دلانے کے لیے کوشش کرتی ہوں گی۔ ہمارا سماج ایسی بیٹیوں کی پہچان کرے، احترام کرے اور ان پر  فخر کرے۔ ان کے اعزاز کے پروگرام ملک بھر میں ہو۔ ایک کام اور کرسکتے ہیں کہ ان بیٹیوں کی کامیابیوں کے بارے میں سوشل میڈیا میں  زیادہ سے زیادہ شیئر کریں اور # (ہیش ٹیگ) کا استعمال کریں۔ # bharatkilaxmi  (ہندوستان کی لکشمی)۔ جیسے ہم سب نے مل کر ایک بڑی مہم چلائی تھی ‘Selfie with daughter’ اور وہ دنیا بھر میں پھیل گئی تھی۔ اسی طرح اس بار ہم مہم چلائیں ‘ہندوستان کی لکشمی’۔ ہندوستان کی لکشمی کوفروغ دینے کا مطلب ہے ملک اور ہم وطنوں کی خوشحالی کے راستے مضبوط کرنا۔

میرے پیارے ہم وطنو، ‘من کی بات’ کا میں نے پہلے بھی کہا تھا بہت بڑا فائدہ ہے کہ مجھے جانے انجانے لوگوں سے بالواسطہ –بلاواسطہ بات چیت کرنے کا موقع مل جاتاہے۔ پچھلے دنوں دور دراز اروناچل سے ایک طالب علم علینا تاینگ نے مجھے بڑا دلچسپ خط بھیجا ہے اور اس میں لکھا ہے، میں خط پڑھ دیتا ہوں آپ کے سامنے۔۔۔

محترم وزیر اعظم صاحب

‘‘میرا نام علینا تاینگ ہے۔ میں روئنگ، اروناچل پردیس سے ہوں۔ اس بار جس میرے امتحان کا رزلٹ آیا تو مجھے کچھ لوگوں نے پوچھا کہ تم نے ایگزام واریئرس کتاب پڑھی کیا؟ میں نے بتایا کہ یہ کتاب تو میں نے نہیں پڑھی ہے لیکن واپس جاکر میں نے یہ کتاب خریدی اور اسے دو تین بار پڑھ گئی۔ اس کے بعد میرا تجربہ کافی اچھا رہا۔ مجھے لگا کہ اگر میں نے یہ کتاب امتحان سے پہلے پڑھی ہوتی تو مجھے کافی فائدہ ہوتا۔ مجھے اس کتاب کے کئی پہلو بہت اچھے لگے، لیکن میں نے یہ بھی چیز دیکھی کہ طالب علموں کے لیے تو بہت سارے منتر ہیں لیکن والدین اور اساتذہ کے لیے اس کتاب میں زیادہ کچھ نہیں ہے۔ میں چاہوں گی کہ اگر آپ کتاب کے نئے ایڈیشن کے بارے میں کچھ سوچ رہے ہیں تو اس میں والدین اور اساتذہ کو لے کر کچھ اور منتر، کچھ اور مواد ضرور شامل کریں’’۔ 

دیکھئے، میرے نوجوانوں ساتھیوں کو بھی بھروسہ ہے کہ ملک کے عظیم خدمتگار کو کام بتائیں گے تو  ہوہی جائے گا۔

میرے ننھے سے طالب علم دوست، پہلے تو خط لکھنے کے لیے آپ کا شکریہ۔ ایگزام واریئرس دو تین بار پڑھنے کے لیے شکریہ۔ اور پڑھتے وقت اس میں  کیا کمی  ہے یہ بھی مجھے بتانے کے لیے بہت بہت شکریہ اور ساتھ ساتھ میرے اس ننھے دوست نے مجھے کام بھی سونپ دیا ہے۔ کچھ کرنے کا حکم دیا ہے۔ میں ضرور آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا۔ آپنے جو کہا ہے کہ اگر میں نئے ایڈیشن کے لئے وقت نکال پاؤں گا تو ضرور اس میں  والدین کے لیے، اساتذہ کے لیے کچھ باتیں لکھنے کی کوشش کروں گا۔ لیکن میں آپ سب سے درخواست کروں گا کہ کیا آپ لوگ میری مدد کرسکتے ہیں؟ روز مرہ کی زندگی میں  آپ کیا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ملک کے سارے طالب علموں سے، اساتدہ سے، والدین سے میری درخواست ہے کہ آپ تناؤ سے آزاد امتحان سے جڑے پہلوؤں کو لے کر اپنے مشاہدے مجھے بتائیں، اپنے مشورے سے آگاہ کریں۔ میں ضرور اس کا مطالعہ کروں گا۔ اس پر میں غور وفکر کروں گا اور اس میں سے جو مجھے درست لگے گا اس کو میں اپنے لفظوں میں اپنے طریقے سے ضرور لکھنے کی کوشش کروں گا۔ اور ہوسکتا ہے اگر آپ کے مشورے زیادہ آئیں گے تو میرے کتاب کے نئے ایڈیشن کی بات بھی پکی ہوجائے گی۔ تو میں انتظار کروں گا آپ کے مشوروں کا۔ اروناچل کے ہمارے ننھے سے دوست، طالب علم علینا تیانگ کو پھر سے ایک بار شکریہ ادا کرتا ہوں۔

میرے پیارے ہم وطنو، آپ اخباروں کے توسط سے ٹی وی کے توسط سے ملک کے وزیر اعظم کے مصروف پروگرام کے بارے میں جانتے بھی ہیں، مصروفیت کا ذکر بھی کرتے ہیں لیکن آپ کو معلوم ہےنا میں بھی آپ ہی کی طرح ایک عام انسان ہوں۔ ایک عام شہری ہوں، اور اس لیے ایک عام زندگی میں جن جن چیزوں کا اثر ہوتا ہے، ویسا اثر میری زندگی میں، میرے من کو بھی ہوتاہے کیوں کہ میں بھی تو آپ ہی کے درمیان سے نکلا ہوں نا۔ دیکھئے اس بار امریکی اوپن میں جیت کے، جتنے چرچے تھے اتنے ہی رنر اپ ڈینیل میدویدیف کی تقریر کے بھی تھے۔ سوشل میڈیا پر کافی چل رہا تھا۔ تو پھر میں نے بھی وہ تقریر سنی اور میچ بھی دیکھا۔ 23 سال کے ڈینیل میدویدیف ان کی سادگی اور ان کی بالغ نظری ہر کسی کو متاثر کرنے والی تھی۔ میں تو ضرور متاثر ہوا۔ اس تقرار سے بس تھوڑی دیر پہلے ہی وہ 19 بار کے گرانڈ سلیم فاتح اور ٹینس کے لیجنٹ رافیل ندال سے فائنل میں ہار گئے تھے۔ اس موقع پر کوئی اور ہوتا تو وہ مایوس اور غمگین ہوگیا ہوتا، لیکن ان کا چہرہ مرجھایا نہیں بلکہ انھوں نے اپنی باتوں سے سب کے چہروں پر مسکان بھر دی۔ ان کی انکساری، سادگی اور صحیح معنوں میں حقیقی جذبے سے معمور کھلاڑیوں کے جذبے کی جو صورت دیکھنے کو ملی، ہر کوئی قائل ہوگیا۔ ان کی باتوں کا وہاں موجود شائقین نے گرم جوشی سے استقبال کیا۔ ڈینیل نے چمپئن ندال کی بھی خوب ستائش کی۔ انھوں نے کہا کہ کس  طرح ندال نے لاکھوں نوجوانوں کو ٹینس کے لیے تحریک دی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ان کے ساتھ کھیلنا کتنا مشکل تھا۔ زبردست ٹکر میں ہار کے باوجود بھی انھوں نے اپنے حریف ندال کی تعریف کر کھیل کے جذبہ کا جیتا جاگتا ثبوت پیش کیا۔ حالاں کہ دوسری طرف چمپئن ندال نے بھی ڈینیل کے کھیل کی جم کر تعریف کی۔ ایک ہی میچ میں ہارنے والے کا جوش اور جیتنے والی کی  شائستگی دونوں دیکھنے کے لایق تھی۔ لیکن آپ نے ڈینیل میدویدیف کی تقریر نہیں سنی ہے۔ تو میں آپ سبھی سے  خاص طور سے نوجوانوں سے کہوں گا کہ ان ے اس ویڈیو کو ضرور دیکھیں۔ اس میں ہر قسم اور ہر عمر کے لوگوں کے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جو ہار جیت سے بہت  دور ہوتا ہے۔ ہار جیت کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔ زندگی جیت جاتی ہے اور ہمارے یہاں تو کتابوں میں بہت اچھے طریقے سے اس بات کو کہا گیا ہے۔ ہمارے آبا واجداد کی سوچ سچ مچ میں قابل تعریف ہے۔ ہمارے یہاں  شاستروں میں کہا گیا ہے:

विद्या विनय उपेता हरति

न चेतांसी कस्य मनुज्स्य |

मणि कांचन संयोग:

जनयति लोकस्य लोचन आनन्दम

یعنی، جب کسی شخص میں صلاحیت اور سادگی ایک ساتھ شامل ہوجائے تو وہ پھر کس کا دل نہیں جیت سکتا ہے۔ حقیقت میں اس نوجوان کھلاڑی نے دنیا بھر کے لوگوں کا دل جیت لیا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو اور خاص کر میرے نوجوان دوستوں میں اب جو بات کرنے جا رہا ہوں وہ سیدھا سیدھا آپ کی بھلائی کے لیے کر رہا ہوں۔ اختلافات ہوتے رہیں گے۔ حمایت اور مخالفت ہوتی رہے گی لیکن کچھ چیزیں بڑھنے سے پہلے ہی اگر روک لیتے ہیں تو بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ جو چیزیں بہت بڑھ جاتی ہیں، بہت پھیل جاتی ہیں اس کو بعد میں روکنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لیکن اگر شروع میں ہی ہم بیدار ہوکر اسے روک لیں تو بہت کچھ بچایا جاسکتا ہے اسی جذبے سے میرا دل کرتا ہے آج خاص کر اپنے نوجوانوں سے میں ضرور کچھ باتیں کروں۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ تمباکو کا نشا صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہوتا ہے اور اس کی عادت چھوڑنا بھی بہت مشکل ہوجاتاہے۔ تمباکو نوشی کرنے والے لوگوں کو کینسر، ذیابیطس، بلڈ پریشر جیسی مہلک بیماریوں کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ ایسا ہر کوئی کہتا ہے تمباکو سے نشہ اس میں موجود نیکوٹن کے باعث ہوتا ہے۔ بچپن میں اس کے استعمال سے دماغ کی ترقی بھی متاثر ہوتی ہی لیکن آج میں آپ سے ایک نئے موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوں آپ کو پتا ہوگا کہ حال ہی میں ہندوستان میں ای-سگریٹ پر پابندی لگائی گئی ہے۔ عام سگریٹ سے الگ ای-سگریٹ ایک طرح کا الیکٹرانک آلہ ہوتا ہے۔ ای-سگریٹ میں نیکوٹن والا رقیق مادہ کو گرم کرنے سے ایک طرح کا کیمیکل دھواں بنتا ہے ۔ اس کے ذریعے سے نیکوٹن کا استعمال کیا جاتاہے۔ عام سگریٹ کے خطروں کو جہاں ہم سب  اچھی طرح سمجھتے ہیں وہیں ای – سگریٹ کے بارے میں ایک غلط تصور پیدا کیا گیا ہے۔ یہ وہم پھیلایا گیا ہے کہ ای-سگریٹ سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ باقی سگریٹ کی طرح اس سے بدبو نہ پھیلے اس کے لیے اس میں خوشبو والے کیمیکل تک ملائے جاتے تھے۔ ہم نے آس پاس دیکھا ہے  کہ اگر گھر میں والد چین اسموکر ہوتے ہیں تو بھی وہ گھر کے باقی لوگوں کو اسموکنگ کرنے سے روکتے ہیں۔ ٹوکتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ، ان کے بچوں کو سگریٹ کی، بیڑی کی عادت نہ لگے۔ ان کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ خاندان کا کوئی بھی فرد تمباکو نوشی نہ کرے۔ اسموکنگ نہ کرے۔ وہ جانتے ہیں کہ اسموکنگ سے، تمباکو سے شریر کو بہت نقصان ہوتا ہے۔ سگریٹ کے خطرے کو لے کر کسی بھی طرح کا وہم نہیں ہے۔ اس سے نقصان ہوتا ہے۔ یہ بیچنے والا بھی جانتا ہے۔ پینے والا بھی جانتا ہے اور دیکھنے والا بھی جانتا ہے لیکن ای-سگریٹ کا معاملہ بہت ہی الگ ہے۔ ای-سگریٹ کو لے کر لوگوں میں اتنی بیداری نہیں ہے۔ وہ اس کے خطرے کو لے کر بھی پوری طرح انجان ہیں اور اسی وجہ سے کبھی کبھی بے حسی میں ای-سگریٹ چپکے سے گھر میں لے آتے ہیں۔ اور کبھی تو جادو دکھا رہا ہوں۔ ایسا کرکے بھی بچے ایک دوسرے کو دکھاتے رہتے ہیں۔ خاندان میں ماں باپ کے سامنے بھی دیکھئے میں آج نیا جادو دکھاتا ہوں۔ دیکھئے میں اپنے منھ میں  سے دھواں نکالتا ہوں۔ دیکھئے بغیر آگ لگائے بغیر دیا سلائی جلائے دیکھئے میں دھواں نکالتا ہوں۔ جیسے کوئپی جادو کا شو دکھا رہا ہے۔ اور خاندان کے لوگ تالی بھی بجادیتے ہیں پتہ ہی نہیں ہے۔ ایک بار جیسے ہی گھر کے بچے اور نوجوان اس کے چنگل میں پھنس گئے تو پھر دھیرے دھیرے وہ اس نشے کے عادی ہوجاتے ہیں اس بری لت کے شکار ہوجاتے ہیں۔ ہمارا نوجوان دولت کی بربادی کے راستے پر چل پڑتا ہے۔ انجانے میں چل پڑتا ہے۔ حقیقت میں ای-سگریٹ میں کئی نقصان دہ کیمیکل ملائے جاتے ہیں، جس کا صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ جب کوئی ہمارے آس پاس تمباکو نوشی کرتاہے تو ہمیں اس کا پتہ اس کے بو  سے ہی چل جاتاہے۔ اس کے جیب میں  سگریٹ کا پیکیٹ ہو تب بھی بو سے پتہ چل جاتا ہے لیکن ای – سگریٹ کے ساتھ ایسی بات نہیں ہے۔ ایسے میں کئی بچے اور نوجوان جانے انجانے اور کبھی فیشن میں بڑے فخر کے ساتھ اپنی کتابوں کے بیچ میں اپنے دفتر میں اپنی جیب میں  کبھی کبھی اپنے ہاتھ میں لے کر گھومتے نظر آرہے ہیں اور وہ اس کے شکار ہوجاتے ہیں۔ نوجوان نسل ملک کا مستقبل ہے۔ ای-سگریٹ پر پابندی لگائی گئی ہے تاکہ  نشہ کا یہ نیا طریقہ ہمارے نوجوان ملک کو تباہ  نہ کردے۔ ہر خاندان کے خوابوں کو روند نہ ڈالے۔ بچوں کی زندگی برباد نہ ہوجائے۔ یہ بیماری، یہ عادت سماج میں جڑیں نہ جمادیں۔

میں آپ سبھی سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ تمباکو کے استعمال کو چھوڑدیں اور ای-سگریٹ کے تعلق سے کوئی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں۔ آیئے ہم سب مل کر ایک صحت مند ہندوستان کی تعمیر کریں۔

ہاں، آپ کو فٹ انڈیا تو یاد ہے نہ؟ فٹ انڈیا کا مطلب یہاں تھوڑا ہے کہ ہاتھ پاؤں صبح شام دو دو گھنٹے ہم جم میں چلے جائیں تو ہو جائے گا، ان سب سے بھی بچنا ہوتا ہے فٹ انڈیا کے لیے۔ مجھے یقین ہے کہ میری بات آپ کو بری نہیں لگے گی، ضرور اچھی لگے گی۔

میرے پیارے بھائیو، بہنوں یہ سب کے لیے خوش قسمتی کی بات ہے کہ ہمارا ملک ہندوستان ایسے غیر معمولی لوگوں کی جنم بھومی ہے اور کرم بھومی رہی ہے جنھوں نے اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کی بھلائی کے لیے ساری زندگی وقف کردی ہے۔

یہ ہماری بھارت ماتا، یہ ہمارا ملک، بہو رتن وسندھرا ہے۔ کئی انسانی رتن اس سرزمین سے نکلے ہیں۔ ہندوستان ایسے غیر معمولی لوگوں کی جائے پیدائش رہی ہے کرم بھومی رہی ہے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا ہے۔  ایسے ہی ایک  عظیم شخصیت کو 13 اکتوبر کو ویٹیکن سٹی میں اعزاز سے نوازا جارہا ہے۔ یہ ہر ہندوستانی کے لیے فخر کی بات ہے کہ پوپ فرانسس آنے والے 13 اکتوبر کو  مریم تھریسا کو سنت بنانے کا اعلان کریں گے۔ سسٹر مریم تھریسا نے 50 سال کے اپنی چھوٹی سی زندگی میں ہی انسانیت کی بھلائی کے لیے جو کام کئے وہ پوری دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔ سماجی خدمت اور تعلیم کے شعبہ سے ان کا غیر معمولی لگاؤ تھا۔ انھوں نے کئی اسکول، ہاسٹل اور یتیم خانے بنوائے۔ اور  زندگی کے بعد اس مشن میں لگی رہیں۔ سسٹر مریم تھریسا نے جو بھی کام کیا اسے صدق دل سے اور لگن کے ساتھ کیا۔ انھوں نے Congregation of the Sisters of the Holy Family کی قائم کی۔ جو آج بھی ان کے زندگی کے فلسفہ اور مشن کو آگے بڑھا رہا ہے۔ میں ایک بار  پھر سے سسٹر مریم تھریسا کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور ہندوستان کے لوگوں کو خاص طور پر ہمارے عیسائی  بھائی بہنوں کو اس کامیابی کے لیے بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہندوستان ہی نہیں آج پوری دنیا کے لیے یہ فخر کا باعث ہے کہ آج جب ہم گاندھی جی کی150ویں یوم پیدائش  منا رہے ہیں تو اس کے ساتھ 130 کروڑ ہم وطنوں نے سنگل یوز پلاسٹک سے نجات پانے کا عزم کیا ہے۔  ماحولیاتی کے تحفظ کی سمت میں ہندوستان نے پوری دنیا میں جس طرح کی قیادت کی ہے اسے دیکھ کر آج سبھی ملکوں کی نظریں ہندوستان کی طرف ٹکی ہوئی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے آپ سب 2 اکتوبر کو سنگلز یوز پلاسٹک سے نجات کے لیے ہونے والی مہم کا حصہ بننے والے ہی ہوں گے۔ جگہ جگہ لوگ اپنے اپنے طریقے سے اس مہم میں اپنی خدمت پیش کر رہے ہوں  گے۔ لیکن ہمارے ہی ملک کے ایک نوجوان نے ایک بڑی انوکھی مہم چلائی ہے۔ ان کے اس کام پر میرا دھیان گیا تو میں نے ان سے فون پر بات کرکے ان کے اس نئے تجربے کو جاننے سمجھنے کی کوشش کی۔ ہوسکتا ہے ان کی یہ باتیں ملک کے اور لوگوں کو بھی کام آئے۔ شریمان ری پدمن بیلوی جی ایک انوکھی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ پلوگن کرتے ہیں۔ جب  پہلی بار میں پلوگن لفظ سنا تو میرے لیے بھی نیا تھا۔ غیرملکوں میں تو شاید یہ لفظ کم استعمال ہوا ہے لیکن ہندوستان میں ری پدمن بیلوی جی نے اس کو بہت ہی مشتہر کیا ہے

میرے پیارے ہم وطنو، 2 اکتوبر کی تیاریاں تو پورے ملک میں اور دنیا میں چل رہی ہیں لیکن ہم ‘گاندھی 150 ’کو ایک  فریضہ کی راہ پر لے جانا چاہتے ہیں۔ اپنی زندگی کو ملک کے مفاد میں بدلنے کے لیے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ایک بار پیشگی میں ذرا یاد کرانے کا دل کہہ رہا ہے۔ ویسے میں اگلی ‘من کی بات’ میں اس کو تفصیل سے ضرور کہوں گا لیکن آج میں ذرا ایڈوانس میں اس لیے کہہ رہا ہوں تاکہ آپ کو تیاری کرنے کا موقع ملے۔ آپ کو یاد ہے کہ  31 اکتوبر، سردار ولبھ بھائی پٹیل کا یوم پیدائش ہے۔ ‘ایک ہندوستان- عظیم ہندوستان’ یہ ہم سب کا خواب ہے اور اسی  مقصد کے لیے ہر سال 31 اکتوبر کو ہم پورے ملک میں ‘رن فار یونیٹی’ ملک کے اتحاد کے لیے دوڑ۔ عمر رسیدہ، سب لوگ، اسکول، کالج ہزاروں کی تعداد میں ، ہندوستان کے لاکھوں گاؤں میں اس دن ملک کے اتحاد کے لیے ہمیں دوڑنا ہے۔ تو آپ ابھی سے تیاری شروع کیجئے۔ تفصیل سے تو بات آگے ضرور کروں گا لیکن ابھی  وقت ہے، کچھ لوگ مشق بھی شروع کرسکتے ہیں، کچھ لوگ منصوبہ بھی بنا سکتے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، آپ کو یاد ہوگا 15 اگست کو میں نے لال قلعہ سے کہا تھا کہ 2022 تک آپ ہندوستان  کے 15 مقامات پر جائیں۔ کم سے کم 15 مقاما اور وہ بھی ہوسکے تو ایک رات، دو رات رکنے والا پروگرام بنائیں۔ آپ ہندوستان کو دیکھیں ، سمجھیں، محسوس کریں۔ ہمارے پاس کتنا تنوع ہے۔ اور جب یہ دیوالی کے تہوار میں چھٹیوں کے دن آتے ہیں لوگ ضرور جاتے ہیں اور اس لیے میں پھر سے درخواست کروں گا کہ آپ ہندوستان کے کسی بھی ایسے 15 مقامات پر گھومنے ضرور جائیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، ابھی پرسوں ہی 27 ستمبر کو ورلڈ ٹورزم ڈے منایا گیا اور دنیا کی کچھ ذمے دار ایجنسیاں ٹورزم کا رینکنگ بھی کرتی ہیں اور آپ کو جان کر خوشی ہوگی کہ ہندوستان نے Travel & Tourism Competitive Index میں بہت  بہتری کی ہے۔ اور یہ سب آپ سب کے تعاون سے ہوا ہے۔ خاص کر ٹورزم کی اہمیت سمجھنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ سوچھتا ابھیان کا بھی اس میں بہت بڑی شراکت داری ہے۔ اور یہ بہتری کتنی ہے میں بتاؤں آپ کو؟ آپ کو ضرور خوشی ہوگی۔ آج ہمارے رینک چونتیس ہے اور پانچ سال پہلے ہمارا رینک65ویں نمبر پر بھا یعنی ایک طرح سے ہم بہت بڑی چھلانگ لگا چکے ہیں اور ہم نے اور کوشش کی تو آزادی کے 75سال آتے آتےہم ٹورزم میں دنیا کے اہم مقاموں میں اپنی جگہ بنالیں گے۔

میرے پیارے ہم وطنو!ٗ آپ سب کو پھر ایک بار تنوع سے بھرپور ہندوستان کے مختلف تہواروں کی بھی بہت بہت مبارکباد! ہاں یہ بھی ضرور دیکھنا کہ دیوالی کے دنوں میں پٹاخے وغیرہ سے کہیں آگ زنی ، کہیں کسی شخص کا نقصان نہ ہوجائے۔ اس کے لیے جو بھی احتیاط کرنی چاہیے آپ لوگ ضرور احتیاط برتیں۔ خوشی بھی ہونی چاہیئے، لطف بھی آنا چاہیے، جوش بھی ہونا چاہیے اور ہمارے تہوار اجتماعیت کی خوشبو بھی لاتے ہیں۔ اجتماعی زندگی ہی ایک نئی طاقت دیتا ہے۔ اس نئی طاقت کی مشق ہوتا ہے تہوار۔ آیئے! مل جل کر امنگ سے،جوش سے، نئے خوابوں سے ، نئے عزم کے ساتھ ہم تہواروں کو بھی منائیں۔ پھر ایک بار  بہت بہت مبارکباد۔ شکریہ

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

( م ن ۔رض۔ را  ۔ 29 - 09 - 2019)

 U. No. 4395

 



(Release ID: 1586626) Visitor Counter : 364