امور داخلہ کی وزارت
حکومت نے آئین کی دفعہ 370 منسوخی کی قرارداد پیش کی
امت شاہ نے جموں و کشمیر (تشکیل نو) بل 2019 پیش کیا
صدر جمہوریہ نے آئین (جموں و کشمیر اپلی کیشن) آرڈر 2019 جاری کیا
جموں و کشمیر (دوسری ترمیمی) بل 2019 راجیہ سبھا میں پیش
مذکورہ بالا تمام بل اور قرارداد اتفاق رائے سے راجیہ سبھا میں منظور
Posted On:
05 AUG 2019 7:20PM by PIB Delhi
نئی دہلی، 5 اگست 2019، وزیر داخلہ جناب امت شاہ نے آج جموں کشمیر سے متعلق دو بل اور دو قرار داد پیش کیں جو حسب ذیل ہیں۔
1۔ آئین کی دفعہ 370 سے متعلق 1954 کے حکم کی منسوخی کے لئے صدر جمہوریہ ہند کے ذریعہ( آئین ہند کی دفعہ 370(1) کے حوالے سے ) آئین (جموں کشمیر پر اطلاق) آرڈر 2019۔
2۔ آئین ہند کی دفعہ 370 کی منسوخی کے لئے قرارداد (آرٹیکل 370(3) کے حوالے سے)۔
3۔ جموں کشمیر تشکیل نو بل2019 (آئین ہند کی دفعہ 3 کے حوالے سے)۔
4۔ جموں کشمیر ریزرویشن (دوسری ترمیمی) بل 2019۔
حکومت کے تاریخی فیصلہ کا اعلان کرتے ہوئے جناب شاہ نے کہا کہ حکومت ایک قرار داد پیش کررہی ہے جن سے آئین ہند کی دفعہ 370 کے تحت التزامات منسوخ ہوجائیں گے، جنہوں نے ریاست جموں کشمیر کو خصوصی درجہ دیا تھا۔دفعہ 370 کے التزامات اس سلسلے میں پارلیمنٹ کی سفارشات کے بعد صدر جمہوریہ ہند کے ذریعہ جاری کردہ اعلان کی تاریخ سے ختم ہوجائیں گے۔ وزیر موصوف نے کہا کہ اس کے بعد آئین ہند کا اطلاق جموں کشمیر پر ملک کی دوسری ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی طرح ہی ہوگا۔
قرارداد اور ریاست جموں کشمیر کے مستقبل سے متعلق شکوک و شبہات کا جواب دیتے ہوئے جناب شاہ نے کہا کہ ‘‘میں صرف یہی کہوں گا کہ حکومت جو بل لائی ہے وہ تاریخی ہے۔ آرٹیکل 370 نے جموں کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ انضمام کی بنیاد کے مقابلے میں اس کے پورے انضمام سے روکا ہے۔ ووٹ بینک کی پالیسیوں نے 70 برسوں سے ریاست کے نوجوانوں کو لوٹا ہے۔ میں اپوزیشن کے اراکین سے ترقی کے فوائد اب تک ریاست جموں کشمیر کے عام عوام تک کیوں نہیں پہنچے، اس پر تبادلہ خیال کرنے اور غور کرنے کی اپیل کروں گا ۔ مذہب کی سیاست سے ہر قیمت پر بچنا ہوگا۔ آرٹیکل 370 یکساں طور پر تمام مذاہب کے عوام کے لئے مضر ہے’’۔
وزیر موصوف نے آرٹیکل 370 کے التزامات کو جنس، طبقہ، ذات برادری اور جائے پیدائش کی بنیاد پر جانب دارانہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی طور پر بڑے لوگوں کے ذریعہ نوجوانوں کو یونہی لیا جاتا ہے۔ یہ التزام پہلے مرحلے میں عارضی تھا اور اسے جموں کشمیر کے عوام کے وسیع مفادات میں ختم ہونا تھا۔
آرٹیکل 370 (3) کے تحت یہ التزام ہے کہ صدر جمہوریہ کوپارلیمنٹ کی سفارش پر عوامی اعلانیہ کے ذریعہ آرٹیکل 370 میں ترمیم کرنے اور اس کے عمل درآمد کو آسان کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ ایسا ماضی میں کئی بار ہوچکا ہے۔ وزیر داخلہ نے اپوزیشن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر شخص جانتا ہے کہ آرٹیکل 370 ریاست کے عوام کی ترقی کو نقصان پہنچارہا ہے۔
جناب شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد جموں کشمیر میں پرائیویٹ سرمایہ کاری کے دروازے کھل جائیں گے جس سے وہاں ترقی کے امکانات میں اضافہ ہوگا۔ سرمایہ کاری بڑھے گی جس کے نتیجے میں روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور ریاست میں سماجی۔ معاشی بنیادی ڈھانچے کو مزید فائدہ پہنچے گا۔ زمینوں کی خریداری کا راستہ کھُلنے کے بعد انفرادی طور پر اور کثیر قومی کمپنیوں کے ذریعہ سرمایہ آئے گا جس سے مقامی معیشت کو فروغ حاصل ہوگا۔اسی لئے لوگ اس تاریخی قدم کی مخالفت اور شکوک و شبہات ظاہر کررہے ہیں۔
وزیر داخلہ نے ان شہریوں اور فوجیوں کی شہادت کو یاد کیا جنہوں نے 2018۔1989 کے دوران اپنی زندگیاں قربان کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اگر آرٹیکل 370 نہیں ہوتا تو ان لوگوں کی جانیں ضائع نہیں ہوتیں۔ مہاجر جو تقسیم کے بعد پاکستان سے یہاں آئے انہیں آج تک وہاں کی شہریت نہیں مل سکی۔ وہ ریاست میں کونسلر بھی نہیں بن سکتے۔ یہ ان لوگوں کے ساتھ تاریخی ناانصافی رہی ہے۔کیا اس کی ملک کے باقی حصے میں اس کی مخالفت کی گئی کہ ہندوستان کے دووزرائے اعظم کا انتخاب ان مہاجروں سے ہوا تھا۔
جناب شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 370 کی وجہ سے جمہوریت کی جڑیں جموں و کشمیر میں کبھی مضبوط نہیں ہو سکیں ، بد عنوانی کو فروغ حاصل ہوا ، دور دور تک غریبی کا دور دورہ ہوتا گیا اور کسی طرح کا سماجی – اقتصادی ڈھانچہ قائم نہیں ہو سکا ۔ یہی دہشت گردی کی بنیادی وجہ تھی ۔ اس کے علاوہ ، آئین میں رو نما ہونے والی 73 ویں اور 74 ویں ترامیم کا اطلاق اسی آرٹیکل 370 کی وجہ سے جموں و کشمیر میں نہیں ہو سکا ۔ پنچایت اور نگر پالیکا انتخابات بھی منعقد نہیں ہو سکے ۔ جموں و کشمیر کے عوام کو جمہوری حقوق ، اُن کے دیگر ہندوستانی شہریوں کی طرح کیوں حاصل نہیں ہو سکے اور اس کے لئے کون ذمہ دار ہے ؟ یہ آرٹیکل 370 تھا ۔ پنچایتی انتخابات حال ہی میں کامیابی کے ساتھ اور پُر امن طریقے سے منعقد ہو سکے ۔ وزیر موصوف نے کہا کہ عوام جمہوریت چاہتے ہیں ، نہ کہ خون خرابہ ۔
جموں و کشمیر میں اقتصادی پسماندگی کا ذکر کرتے ہوئے جناب شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 370 باہر کے لوگوں کو ریاست میں جاکر کاروبار کرنے سے روکتا ہے ۔ اقتصادی مسابقت کے فقدان کی وجہ سے ترقی کا راستہ مسدود ہوا اور بد عنوانی کو فروغ حاصل ہوا ۔ اراضی کی قیمتیں بے حد کم تر ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی وہاں جاکر زمین نہیں خرید سکتا ۔ سیاحت سمیت کوئی دیگر صنعت وہاں فروغ نہیں پاسکتی ۔ عوام ہمہ گیر اور لگاتار پیمانے پر غربت کے شکار ہیں ۔ اگرچہ مقامی آبادی کے لئے وافر اقتصادی مواقع دستیاب ہیں ۔ چہار طرف پھیلی ہوئی بدعنوانی ہے اور اسی کی وجہ سے ریاست میں بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہو پاتی ۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ میں کشمیری نو جوانوں کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ آرٹیکل 370 سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے ۔ اس سے صرف چند خوشحال اور اعلیٰ طبقے کے لوگوں کو فائدہ ہو گا ، جو نو جوانوں کو اپنے فائدے اور اپنے مفاد کے لئے ہمیشہ کنارے لگائے رکھنا چاہتے ہیں ۔ مرکز کی جانب سے اتنے بڑے پیمانے پر سرمائے کی فراہمی کے باوجود تعلیمی اور صحتی سہولتیں کہاں ہیں ۔ جو لوگ آرٹیکل 370 کی حمایت کرتے ہیں ، انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ یہ آرٹیکل ریاست کے باہر سے پیشہ وروں کو ریاست میں آنے اور سکونت پذیر ہونے سے روکتا ہے ۔ لہٰذا ، وہاں کوئی جانا نہیں چاہتا ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ یہ قرار داد منظور ہو اور آرٹیکل 370 کالعدم قرار دے دیا جائے ۔ ہر بچہ تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل کر سکے گا اور ہر مریض آیوشمان بھارت کے تحت مفت حفظانِ صحت خدمات سے ہمکنار ہو سکے گا ۔
کشمیری نو جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہاکہ ہم جموں و کشمیر کے نو جوانوں کو گلے لگانا چاہتے ہیں اور انہیں بڑی تعداد میں روزگار کے مواقع فراہم کرانا چاہتےہیں ۔ یہاں تک کہ علیحدہ سے اقتصادی طور پر پسماندہ طبقات کے لئے ریزرویشن بل کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ اگر یہ قرار داد دونوں ایوانوں میں پاس ہو جاتی ہے تو یہ تجویز خود کار طور پر بقیہ ہندوستان کی طرح جموں و کشمیر پر بھی احاطہ کر لے گی۔ دہشت گردی کا ذکر کرتے ہوئے جناب شاہ نے کہا کہ نو جوانوں کو پاکستان کے ناپاک ارادوں اور چالوں کے مطابق جہاد میں شریک ہونے کے لئے گمراہ کیا گیا ہے ۔ ہزاروں شہری ہلاک ہو چکے ہیں ، کیوں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پاکستان کی سرکاری پالیسی رہی ہے کہ آرٹیکل 370 کی حمایت کی جائے اور نو جوانوں کو ترقی کے اہم دھارے میں شامل ہونے سے روکا جائے اور ان کی ذہن سازی جہاد کے لئے کی جائے ۔ تمام سیاسی پارٹیاں ، جن کا نظریہ علیحدگی پسندانہ ہے ، وہ آرٹیکل 370 کو اپنے نجی مفاد کے لئے باقی رکھنا چاہتی ہیں ۔ ان کے بچے دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والے خون خرابے میں ہلاک نہیں ہوتے ۔ لہٰذا ، وہ اس آرٹیکل کی حمایت کرتے ہیں ۔
اس خدشے کی تردید کرتے ہوئےکہ آرٹیکل 370 کے ہٹائے جانے سے کشمیری ثقافت تباہ و برباد ہو جائے گی ، جناب شاہ نے کہا کہ تمام ریاستوں نے یونین آف انڈیا کا حصہ بننے کے بعد اپنی ثقافت اور اپنی زبان کی حفاظت کی ہے ۔ یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ آرٹیکل 370 اس پہلو کے سلسلے میں جموں و کشمیر کی حفاظت کرتا ہے ۔ یہ محض اور محض سیاسی پروپیگنڈا ہے ، جس نے کشمیر کے نو جوانوں کو 70 برسوں تک اس غلط فہمی اور اندھیرے میں رکھاہے ۔ وزیر موصوف نے کہاکہ میں کشمیر کے نوجوانوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اس حکومت کو آپ 5 سال دیجئے اور یہ خطہ ملک کا از حد ترقی یافتہ خطہ بن جائے گا ۔
کشمیر کی وہ بیٹیاں ، جو ریاست کے باہر شادیاں کرتی ہیں ، وہ جائیداد میں اپنا حق وراثت کھو دیتی ہیں ۔ یہ خواتین اور ان کے بچوں کے لئے از حد تفریق پر مبنی اصول ہے ۔ درج فہرست ذات اور درج فہرست قبیلوں کے افراد کے خلاف بھی تفریق برتی گئی ہے اور انہیں سیاسی عہدوں کے لئے ریزرویشن سے محروم رکھا گیا ہے ۔ یہ سب جانتے ہوئے بھی چند افراد اپنے ذاتی مفاد کے لئے اس آرٹیکل کو برقرار دیکھنا چاہتےہیں ۔
جناب شاہ نے ایوان کو یقین دہانی کرائی کہ اگر مرکز کے زیر انتظام والے علاقے والا ماڈل کام کرتا ہے تو ہماری حکومت جموں و کشمیر کو دوبارہ ریاست کا درجہ دینے پر غور کرے گی ۔ اس کے لئے کوئی آئینی ترمیم درکار نہیں ہو گی ۔
جموں و کشمیر آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد صحیح معنوں میں بھارت کا حقیقی حصہ بن جائے گا ۔ کشمیر کے تمام مسائل کے حل کا راستہ آرٹیکل 370 کی منسوخی سے ہوکر گزرتا ہے ۔ یہ ایک مضبوط قدم ہو گا اور قانونی چھان پٹک کی آزمائش کو بھی آسانی سے جھیل جائے گا ۔ آرٹیکل 370 ایک عارضی اور تغیراتی تجویز تھی اور اسے ختم ہونا ہی تھا ۔ اس کے لئے صرف سیاسی عزم درکار تھا ، جو صرف موجودہ حکومت کے پاس ہے ۔ میں تمام سیاسی پارٹیوں سے دِلی گزارش کرتاہوں کہ وہ محدود سیاسی مفادات سے اوپر اٹھ کر حکومت کے ساتھ آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے لئے ہاتھ ملائیں ۔ ملک چاہتا ہے کہ یہ ایک متحد ملک ہو ۔ وزیر موصوف نے یہ کہتے ہوئے اپنی بات پوری کی اور اس کے بعد تمام قرار دادیں اور جموں و کشمیر سے متعلق بل منظور کرلئےگئے ۔
جناب امت شاہ نے جموں و کشمیر ( تنظیم نو ) بل ، 2019 بھی متعارف کرایا ، جس کے ذریعے جموں و کشمیر کو ایک قانون ساز اسمبلی کے ساتھ مرکزی انتظام کا علاقہ قرار دیا گیا اور لداخ کو بغیر قانون ساز اسمبلی کے مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا گیا ۔ مزید براں ، جموں و کشمیر ریزرویشن ( دوسری ترمیم ) بل ، 2019 بھی متعارف کرایا گیا ، جس کا مقصد جموں و کشمیر ریزرویشن ایکٹ ، 2004 میں ترمیم کرنا تھا ۔ اس بل کا مقصد یہ ہے کہ جموں و کشمیر میں سماج کے اقتصادی لحاظ سے پسماندہ طبقات کو روزگار اور تعلیمی اداروں میں 10 فی صد کوٹہ فراہم کیا جائے ۔ دونوں بل راجیہ سبھا نے اتفاق رائے سے منظور کر لئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
م ن۔ش س۔ن ا۔ ع ا۔
U- 3609
(Release ID: 1581317)
Visitor Counter : 750