وزیراعظم کا دفتر

‘من کی بات2.0 ’کی دوسری کڑی میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن (28.07.2019)

Posted On: 28 JUL 2019 11:33AM by PIB Delhi

نئی دہلی،28 جولائی/            میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار! ‘من کی بات’ ہمیشہ کی طرح میری طرف سے بھی اور آپ کی طرف سے بھی انتظار رہتا ہے۔ اس بار بھی میں نے دیکھا کہ بہت سے سارے خطوط، کمینٹس، فون کال ملے ہیں۔ ڈھیرے ساری کہانیاں ہیں، سجھاؤ ہیں، ترغیب ہیں، ہر کوئی کچھ نہ کچھ کرنا چاہتا ہے اور کہنا بھی چاہتا ہے۔ ایک جذبہ محسوس ہوتا ہے اور ان سبھی میں بہت کچھ ہے جو میں سمیٹنا چاہوں گا لیکن وقت کی تحدید ہے اس لیے سمیٹ بھی نہیں پاتا ہوں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ آپ میری بہت کسوٹی کر رہے ہیں۔ پھر بھی آپ ہی کی باتوں کو اس ‘من کی بات’ کے دھاگے میں پروکر پھر سے ایک بار آپ کو بانٹنا چاہتا ہوں۔

آپ کو یاد ہوگا پچھلی بار میں نے پریم چند جی کی کہانیوں کی ایک کتاب کے بارے میں ذکر کیا تھا اور ہم نے طے کیا تھا کہ  جو بھی کتاب پڑھے اس کے بارے میں کچھ باتیں نریندر مودی ایپ کے توسط سے سب کے ساتھ شیئر کریں۔ میں دیکھ رہا تھا کہ بڑی تعداد میں لوگوں نے مختلف قسم کی کتابوں کی جانکاری شیئر کی ہیں۔ مجھے اچھا لگا کہ لوگ سائنس، ٹیکنالوجی، اختراعات، تاریخ، ثقافت، کاروبار، زندگی کا فلسفہ ایسےکئی موضوعات پر لکھی گئی کتابوں پر اور اس کو لے کر غور وفکر کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے تو مجھے یہ بھی صلاح  دی ہے کہ میں کئی اور کتابوں کے بارے میں بات کروں۔ ٹھیک ہے! میں ضرور کچھ مزید کتابوں کے بارے میں آپ سے بات کروں گا لیکن ایک بات مجھے تسلیم کرنی ہوگی کہ اب میں بہت زیادہ کتاب پڑھنے میں وقت نہیں صرف کر پا رہا ہوں لیکن ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ آپ لوگ جو لکھ کر بھیجتے ہیں تو کئی کتابوں کے بارے میں مجھے جاننے کا موقع ضرور مل رہا ہے لیکن یہ جو پچھلے ایک مہینے کا تجربہ ہے اس سے مجھے لگتا ہے کہ اس کو ہمیں آگے بڑھانا ہے۔ کیوں نہ ہم نریندر مودی ایپ پر ایک پرماننٹ بک کارنر ہی بنا دیں۔ اور جب بھی ہم نئی کتاب پڑھیں اس کے بارے میں وہاں لکھیں، بحث کریں اور آپ ہمارے اس بک کارنر کے لیے کوئی اچھا سا نام بھی تجویز کرسکتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ بک کارنر قارئین اور قلمکاروں کے لیے ایک سرگرم پلیٹ فارم بن جائے۔ آپ پڑھتے لکھتے رہیں اور ‘من کی بات’ کے سبھی ساتھیوں کے ساتھ شیئر بھی کرتے رہیں۔

ساتھیوں؛ ایسا لگتا ہے کہ آبی تحفظ-‘من کی بات’ میں جب میں نے اس بات کا ذکر کیا تھا، لیکن شاید آج میں تجربہ کر رہا ہوں کہ میرے کہنے سے پہلے بھی آبی تحفظ یہ آپ کے دل کو چھونے والا موضوع تھا،عام انسانوں کا پسندیدہ موضوع تھا اور میں مشاہدہ کر رہا ہوں کہ پانی کے موضوع پر ان دنوں ہندوستان کے دلوں کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ آبی تحفظ کو لے کر ملک بھر میں مختلف قسم کی مؤثر کوششیں ہو رہی ہیں۔ لوگوں نے روایتی طور طریقوں کے بارے میں جانکاریاں تو شیئر کی ہیں، میڈیا نے آبی تحفظ پر کئی اختراعی مہم شروع کی ہیں۔حکومت ہو، غیرسرکاری تنظیموں ہوں- جنگی سطح پر کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں۔ اجتماعیت کی حمایت کو دیکھ کر دل کو بہت اچھا لگ رہا ہے۔ بہت اطمینان ہو رہا ہے۔ جیسے جھارکھنڈ میں رانچی سے کچھ دور اورمانجھی بلاک کے آرا کیرم گاؤں میں  وہاں کے گاؤں والوں نے آبی بندوبست کو لے کر جو حوصلہ دکھایا ہے وہ ہر کسی کے لیے مثال بن گیا ہے۔ گاؤں والوں نے شرم دان کرکے پہاڑ سے بہتے جھرنے کو ایک متعین سمت دینے کا کام کیا ہے۔ وہ بھی خالص دیسی طریقہ۔ اس سے نہ صرف مٹی کا کٹاؤ اور فصل کی بربادی رکی ہے بلکہ کھیتوں کو بھی پانی مل رہا ہے۔ گاؤں والو ںکا یہ شرم دان اب پورے گاؤں کے لیے جیون دان سے کم نہیں۔ آپ سب کو یہ جان کر بہت خوشی ہوگی کہ شمال مشرق کی خوبصورت ریاست میگھالیہ ملک کی پہلی ایسی ریاست بن گئی ہے جس نے اپنی آبی پالیسی تیار کی ہے۔میں وہاں کی حکومت کو مبارک باد دیتا ہوں۔

ہریانہ میں ان فصلوں کی کھیتی کو فروغ دیا جارہا ہے جن میں کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور کسان کا بھی کوئی نقصان نہیں ہوتا ہے۔ میں حکومت ہریانہ کو خاص طور سے مبارکباد دینا چاہوں گا کہ انھوں نے کسانوں کے ساتھ مذاکرات کرکے انھیں روایتی زراعت  سے ہٹ کر کم پانی والی فصلوں کے لیے آمادہ کیا۔

اب تو تہواروں کا موسم آگیا ہے۔ تہواروں کے موقع پر کئی میلے بھی لگتے ہیں۔ آبی تحفظ کے لیے کیوں نہ اس میلوں کا بھی استعمال کریں۔ میلوں میں سماج کے ہر طبقہ کے لوگ پہنچتے ہیں ان میلوں میں پانی بچانے کا پیغام ہم بڑے ہی مؤثر ڈھنگ سے دے سکتے ہیں۔ نمائش لگا سکتے ہیں، نکڑناٹک کرسکتے ہیں۔ جشن کے ساتھ ساتھ آبی تحفظ کا پیغام بہت آسانی سے ہم پہنچا سکتے ہیں۔

ساتھیو؛ زندگی میں کچھ باتیں ہمیں جوش سے بھر دیتے ہیں اور خاص طور سے بچوں کی حصولیابیاں ان کے کارنامے ہم سب کو نئی توانائی دیتے ہیں۔ اور اس لیے آج مجھے کچھ بچوں کے بارے میں بات کرنے کا من کرتاہے اور یہ بچے ہیں ندھی بائی پوٹو منیش جوشی، دیوانشی راوت، تنش جین، ہرش دیودھرکر، اننت دیواری، پریتی ناگ، اتھرودیش  مکھ، ارون تیش، گنگولی اور ہریتک الا مندا۔

میں ان کے بارے میں جو بتاؤں گا اسے آپ بھی فخر اور جوش سے بھر جائیں گے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کینسر ایک ایسا لفظ ہے جس سے پوری دنیا ڈرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موت دروازےپر کھڑی ہے۔ لیکن ان سبھی دس بچوں نے اپنی زندگی کی جنگ میں نہ صرف کینسر کو کینسر جیسی مہلک بیماری کو شکست دیا ہے بلکہ اپنے کارناموں سے پوری دنیا میں ہندوستان کا نام روشن کیا ہے۔ کھیلوں میں ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ کھلاڑی ٹورنامنٹ جیتنے یا میڈل حاصل کرنے کے بعد چمپئن بنتے ہیں لیکن یہ ایک انوکھا موقع رہا جہاں یہ لوگ کھیل کے مقابلوں میں حصہ لینے سے پہلے ہی چمپئن تھے اور وہ بھی زندگی کی جنگ کے چمپئن۔

دراصل اسی مہینے ماسکو میں ورلڈ چلڈرن ونرس  گیمس کا انعقاد ہوا۔ یہ ایک ایسا انوکھا اسپورٹس ٹورنامنٹ ہے جس میں ینگ کینسرسروائورس یعنی جو لوگ اپنی زندگی میں کینسر سے لڑکر باہر نکلے ہیں وہیں حصہ لیتے ہیں۔ اس مقابلہ میں شوٹنگ، شطرنج، تیراکی، دوڑ، فٹ بال اور ٹیبل ٹینس جیسے مقابلوں کا انعقاد کیا گیا۔ ہمارے ملک کے ان سبھی دس چمپئن نے اس ٹورنامنٹ میں میڈل جیتے۔ ان میں سے کچھ کھلاڑیوں نے ایک سے زیادہ میڈل جیتے۔

میرے پیارے ہم وطنو؛ مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کو آسمان کے بھی پار، خلا میں ہندوستان کی کامیابی کے بارے میں ضرور فخر محسوس ہوا ہوگا۔ چندریان-2۔

راجستھان کے جودھپور سے سنجیو ہری پورا، کولکاتہ سے مہندرکمار ڈاگا، تلنگانہ سے پی اروند راؤ ایسے متعدد، ملک بھر کے مختلف حصوں سے کئی لوگوں نے مجھے نریندر مودی ایپ اور مائی گو پر لکھا ہے  اور انھوں نے ‘من کی بات’ میں چندریان-2 کے بارے میں ذکر کرنے کی اپیل کی ہے۔

دراصل خلا کے نقطہ نظر سے  2019 ہندوستان کے لیے بہت اچھا سال رہا ہے۔ ہمارے سائنسدانوں نے مارچ میں، اے سیٹ لانچ کیا تھا اور اس کے بعد چندریان-2۔ چناؤ کی گہماگہمی میں اس وقت اے سیٹ جیسی بڑی اور اہم خبر کی زیادہ چرچا نہیں ہوپائی تھی جبکہ ہم نے اے سیٹ میزائل سے ، صرف تین منٹ میں، 300 کلو میٹر دور سیٹلائٹ کو مارگرانے کی صلاحیت حاصل کی۔ یہ کامیابی حاصل کرنے والا ہندوستان دنیا کا چوتھا ملک بنا اور اب 22 جولائی کو پورے ملک نے فخر کے ساتھ دیکھا کیسے چندریان-2 نے سری ہری کوٹہ سے خلا کی جانب اپنے قدم بڑھائے۔ چندریان-2 کے تجربے کی تصویروں نے ہم وطنوں کو فخر اور جوش سے خوشی سے بھر دیا۔

چندریان-2 یہ مشن کئی معنوں میں خاص ہے۔چندریان-2،  چاند کے بارے میں ہماری سمجھ کو اور بھی واضح کرے گا۔ اس سے ہمیں چاند کے بارے میں زیادہ تفصیل سے جانکاریاں مل سکیں گی لیکن اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ چندریان-2 سے مجھے کون سا دو بڑاسبق ملا تو میں کہوں گا یہ دو سبق ہیں، یقین اور بے خوفی۔ ہمیں اپنی صلاحیت اور قابلیت پر بھروسہ ہونا چاہیے۔ اپنی قابلیت اور صلاحیت پر اعتماد کرنا چاہیے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ چندریان-2 پوری طرح سے ہندوستانی رنگ میں ڈھلا ہے۔ یہ روح اور جذبے سے ہندوستانی ہے۔پوری طرح سے ایک سودیشی مشن ہے۔ اس مشن نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ جب بات نئے نئے شعبوں میں کچھ نیا کر گزرنے کی ہو، اختراعی جذبے کی ہو تو ہمارے سائنسداں سب سے آگے ہیں، عالمی سطح کے ہیں۔

دوسرا، اہم سبق یہ ہے کہ کسی بھی رکاوٹ سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ جس طرح ہمارے سائنسدانوں نے ریکارڈ وقت میں دن رات ایک کرکے سارے تکنیکی مسائل کو درست کر چندریان-2 کو لانچ کیا وہ اپنے آپ میں غیرمعمولی ہیں۔ سائنسدانوں کی اس عظیم  تپسیا کو پوری دنیا نے دیکھا اس پر ہم سبھی کو فخر ہونا چاہیے۔ اور رکاوٹ کے باوجود بھی پہنچنے کا وقت انھوں نے بدلا نہیں۔ اس بات کی بھی بہتوں کو حیرانی ہے۔ ہمیں اپنے زندگی میں بھی عارضی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ہمیشہ یاد رکھئے اس سے نجات پانے کا حوصلہ بھی ہمارے اندر ہی ہوتا ہے۔ مجھے پوری امید ہے کہ چندریان-2 مہم ملک کے نوجوانو ں کو سائنس اور اختراع کے لیے راغب کرے گا۔ آخر کار سائنس ہی تو ترقی کا راستہ ہے۔ اب ہمیں بے صبری سے ستمبر مہینے کا انتظار ہے جب چاند کی سطح پر اترنے والے وکرم اور روورپرگیان کی لینڈنگ ہوگی۔

آج ‘من کی بات’ کی بات کے توسط سے میں ملک کے طلبا دوستوں کے ساتھ، نوجوانوں ساتھیوں کے ساتھ ایک بہت ہی دلچسپ مقابلہ کے بارے میں، کمپٹیشن کے بارے میں جانکاری شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ اور ملک کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو مدعو کرتا ہوں- ایک کوئز کمپٹیشن خلا سے متعلق تجسس، ہندوستان کا خلائی مشن سائنس اور ٹیکنالوجی- اس کوئز کمپٹیشن کے خاص موضوع ہوں گے، جیسے کہ راکٹ لانچ کرنے کے لیے کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔ سیٹلائٹ کو کیسے مدار میں قائم کیا جاتا ہے اور سیٹلائٹ سے ہم کیا کیا جانکاریاں حاصل کرتے ہیں۔ اے سیٹ کیا ہوتا ہے۔ بہت ساری باتیں ہیں۔ مائی گو ویپ سائٹ پر یکم اگست کو مقابلہ کی تفصیلات دی جائیں گی۔ میں نوجوان ساتھیوں سے، طالب علموں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس کوئز کمپٹیشن میں حصہ لیں اوراپنی حصے داری سے اسے دلچسپ، پر لطف اور یادگار بنائیں۔ میں اسکولوں سے ، سرپرستوں سے جوشیلے آچاریوں اور اساتذہ سے خاص اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے اسکول کو کامیاب بنانے کے لیے پوری محنت کریں۔ سبھی طالب علموں کو اس سے جوڑنے کے لیے ترغیب دیں۔ اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر ریاست سے سب سے زیادہ اسکور کرنے والے طالب علموں کو حکومت ہند اپنے خرچ پر سری ہری کوٹہ لے کر جائے گی اور ستمبر میں انھیں اُس پل کا گواہ بننے کا موقع ملے گا جب چندریان چاند کی سطح پر اتر رہا ہوگا۔ ان کامیاب طالب علموں کے لیے ان کی زندگی کا تاریخی لمحہ ہوگا۔ لیکن اس کے لیے آپ کو کوئز کمپٹیشن میں حصہ لینا ہوگا۔ سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے آپ کو کامیاب ہونا ہوگا۔

ساتھیو؛ میرا یہ مشورہ آپ کو ضرور اچھا لگا ہو۔ ہے نہ مزیدار موقع! تو ہم کوئز میں حصہ لینا نہ بھولیں اور زیادہ سے زیادہ ساتھیوں کو بھی ترغیب دلائیں۔ میرے پیارے ہم وطنوں آپ نے ایک بات محسوس کی ہوگی کہ  ہماری ‘من کی بات’ کی باتوں نے صفائی مہم کو لمحہ بہ لمحہ رفتار دی ہے اور اسی طرح سے صفائی کے لیے کی جارہی کوششوں میں بھی من کی بات کو ہمیشہ ہی تحریک دی ہے۔پانچ سال پہلے شروع ہوا سفر آج عوام کی شراکت سے صفائی کے نئے نئے معیارقائم کر رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم نے صفائی میں مثالی صورت حاصل کرلی ہے۔ لیکن جس طرح سے او ڈی ایف سے لے کر عوامی مقامات تک صفائی مہم میں کامیابی ملی ہے وہ 130 کروڑ ہم وطنوں کے عزم کی طاقت ہے لیکن ہم اتنے پر رکنے والے نہیں ہیں۔ یہ تحریک اب سوچھتا سے سندرتا کی طرف  بڑھ چلا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی میں میڈیا میں جناب یوگیش سینی اور ان کی ٹیم کی کہانی دیکھ رہا تھا۔ یوگیش سینی انجینئر ہیں اور امریکہ میں اپنی نوکری چھوڑ کر ماں بھارتی کی خدمت کے لیے واپس آئے ہیں۔ انھوں نے کچھ وقت پہلے دلی کو صاف ہی نہیں بلکہ سندر بنانے کا بیڑا اٹھایا۔ انھوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ لودھی گارڈن کے کوڑے دانوں سے شروعات کی۔ اسٹریٹ آرٹ کے ذریعے دلّی کے کئی علاقوں کو خوبصورت پینٹنگ سے سجانے سنوارنے کا کام کیا۔ اوور برج اور اسکول کی دیواروں سے لے کر جھگی جھونپڑیوں تک انھوں نے اپنا ہنر دکھانا شروع کیا تو لوگوں کا ساتھ بھی ملتا چلا گیا اور ایک طرح سے یہ سلسلہ چل پڑا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کنبھ کے دوران پریاگ راج کو کس طرح اسٹریٹ پینٹنگ سے سجایا گیا تھا۔ مجھے پتہ چلا بھائی یوگیش سینی نے اور ان کی ٹیم نے اس میں بھی بہت بڑا کردار انجام دیا تھا۔ رنگ اور لکیروں میں کوئی آواز بھلے نہ ہوتی ہو لیکن ان سے بنی تصویروں سے جو قوس وقزح بنتے ہیں ان کا پیغام ہزاروں الفاظ سے بھی کہیں زیادہ اثر انگیز ثابت ہوتا ہے۔ اور صفائی مہم کی خوبصورتی میں بھی یہ بات ہم محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ ویسٹ ٹو ویلتھ بنانے کا کلچر ہمارے سماج میں فروغ پائے۔ ایک طرح سےکہیں تو ہمیں کچرے سے کنچن بنانے کی جانب آگے بڑھنا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنوں، پچھلے دنوں مائی گو پر میں نے ایک بڑا ہی دلچسپ تبصرہ پڑھا۔ یہ تبصرہ جموں وکشمیر کے شوپیاں کے رہنے والے بھائی محمد اسلم کا تھا۔

انھوں نے لکھا-‘من کی بات’ پروگرام سننا اچھا لگتا ہے۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ میں نے اپنی ریاست جموں وکشمیر میں کمیونٹی موبیلائیزیشن پروگرام – بیک ٹو ولیج کے انعقاد میں سرگرم رول ادا کیا۔ اس پروگرام کا انعقاد جون کے مہینے میں ہوا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ ایسے پروگرام ہر تین مہینے کے وقفے سے منعقد کیے جانے چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی پروگرام کی آن لائن مانیٹرنگ کا انتظام بھی ہونا چاہیے۔ میرے خیال سے یہ اپنی طرح کا ایسا پہلا پروگرام تھا جس میں عوام نے سرکار سے براہِ راست مذاکرہ کیا۔

بھائی محمد اسلم جی نے یہ جو پیغام مجھے بھیجا اور اس کو پڑھنے کے بعد بیک ٹو ولیج پروگرام کے بارے میں جاننے کی میرا تجسس بڑھ گیا اور جب میں نے اس کے بارے میں تفصیل سے جانا تو مجھے لگاکہ پورے ملک کو بھی اس کی جانکاری ہونی چاہیے۔ کشمیر کے لوگ ترقی کے قومی دھارے سے جڑنے کے لیے اتنے بیتاب ہیں، کتنے متحرک ہیں، اس کا مذکورہ پروگرام سے پتہ چلتاہے۔ اس پروگرام نے پہلی بار بڑے بڑے افسران سیدھے گاؤں تک پہنچے۔ جن افسروں کو کبھی گاؤں والوں نے دیکھا تک نہیں تھا۔ وہ خود چل کر ان کے دروازے تک پہنچے تاکہ ترقی کے کام میں آرہی رکاوٹوں کو سمجھا جاسکے۔ مسائل کو دور کیا جاسکے۔ یہ پروگرام ہفتہ بھر چلا اور ریاست کی سبھی لگ بھگ ساڑھے چار ہزار پنچایتوں میں سرکاری حکام نے گاؤں والوں کو سرکاری یوجناؤں اور پروگراموں کی تفصیل سے جانکاری دی۔ یہ بھی جانا کہ ان تک سرکاری خدمات پہنچتی بھی ہیں یا نہیں۔ پنچایتوں کو کیسے مضبوط بنایا جاسکتا ہے؟ ان کی آمدنی کو کیسے بڑھایا جاسکتا ہے؟ ان کی خدمات عام لوگوں کی زندگی میں کیسے اثر انداز ہوسکتی ہیں۔ گاؤں والوں نے بھی مل کر اپنے مسائل کو بتایا۔ خواندگی جنسی شرح، صحت، صفائی، آبی تحفظ، بجلی ، پانی، بچیوں کی تعلیم، عمر رسیدہ افراد کے سوال ایسے کئی موضوعات پربات چیت ہوئی۔

ساتھیوں یہ پروگرام کوئی سرکاری خانہ پری نہیں تھا کہ حکام دن بھر گاؤں میں گھوم کر واپس لوٹ آئیں لیکن اس بار ادھیکاریوں نے دو دن اور ایک رات میں پنچایت میں ہی گزاری۔ اس میں انہیں گاؤں میں وقت گزارنے کا موقع ملا۔ ہر کسی سے ملنے کی کوشش کی۔ ہر مقام تک پہنچنے کی کوشش کی۔ اس پروگرام کو دلچسپ بنانے کے لیے کئی اور چیزوں کو بھی شامل کیا گیا۔ کھیلو انڈیا کے تحت بچوں کے لیے کھیلوں کا مقابلہ کرایا گیا۔ وہیں اسپورٹس کٹس، منریگا کے جاب کارڈس اور ایس سی ایس ٹی سرٹیفکیٹس بھی بانٹے گئے۔ مالی خواندگی کیمپس لگائے گئے۔ زراعت، باغبانی جیسے سرکاری محکموں کی طرف سے اسٹال لگائے گئے۔ اور سرکاری یوجناؤں کی جانکاری دی گئی۔ اس طرح سے یہ انعقاد ایک ترقی کا جشن بن گیا۔ عوامی شراکت داری کا جشن بن گیا۔ عوامی بیداری کا تہوار بن گیا۔ کشمیر کے لوگوں نے ترقی کے اس جشن میں کھل کر شامل ہوئے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ‘بیک ٹو ولیج’ پروگرام کا انعقاد ایسے دور دراز گاؤں میں بھی کیا گیا جہاں پہنچنے میں سرکاری حکام کو دشوار گزار راستوں سے ہوکر پہاڑیوں کو چڑھتے چڑھتے کبھی کبھی ایک دن ڈیڑھ دن پیدل سفر بھی کرنا پڑا۔ یہ حکام ان سرحدی پنچایتوں تک بھی پہنچے جو ہمیشہ سرحد پار فائرنگ کے سایے میں رہتے ہیں۔ یہی نہیں شوپیاں ، پلوامہ، کلگام اور اننت ناگ اضلاع کے انتہائی حساس علاقوں میں بھی حکام بغیر کسی خوف کے پہنچے۔ کئی افسر تو اپنے استقبال سے اتنےشرابورہوئے کہ وہ دو دنوں سے زیادہ وقت تک گاؤں میں رکے رہے۔ ان علاقوں میں گرام سبھاؤں کا انعقاد ہونا، اس میں بڑی تعداد میں لوگوں کا حصہ لینا اور اپنے لیے منصوبے تیار کرنا یہ سب بہت ہی خوش آئند ہے۔ نیا عزم، نیا جوش اور شاندار نتیجے ایسے پروگرام اور اس میں لوگوں کی شرکت یہ بتاتی ہے کہ کشمیر کے ہمارے بھائی بہن اچھی حکمرانی چاہتے ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ ترقی کی طاقت بم اور بندوق کی طاقت پر ہمیشہ غالب آتی ہے۔ یہ صاف ہے کہ جو لوگ ترقی کی راہ میں نفرت پھیلانا چاہتے ہیں، رخنہ ڈالنا چاہتے ہیں وہ کبھی اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔

میرے پیارے ہم وطنوں، گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ  جناب دتّاترے رام چندر بیندرے نے اپنی ایک نظم میں ساون کے مہینے کی عظمت کچھ اس طرح پیش کی ہے۔ اس کویتا میں انھوں نے جوکہا ہے اس کا مطلب یہ ہے:

بارش کی پھوہار اور پانی کی دھار کارشتہ  انوکھا ہے اور اس کی خوبصورتی دیکھ کر زمین مگن ہے۔

پورے ملک میں الگ الگ ثقافت اور زبانوں کے لوگ  ساون کے مہینے کو اپنے اپنے طریقے سے مناتے ہیں۔ اس موسم میں ہم جب بھی اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے گویا زمین نے ہریالی کی چادر اوڑھ لی ہو۔ چاروں طرف ایک نئی توانائی کی تخلیق ہونے لگتی ہے۔ اس مقدس مہینے میں کئی شردھالو کانوڑ یاترا اور امرناتھ یاترا پر جاتے ہیں جبکہ کئی لوگ باضابطہ اُپواس رکھتے ہیں۔ اور  پورے جوش سے جنم اشٹمی اور ناگ پنچمی جیسے تہواروں کا انتظار کرتے ہیں۔ اس دوران ہی بھائی بہن کے پیار  کی علامت رکشا بندھن کا تہوار بھی آتا ہے۔ ساون کے مہینے کی جب بات ہو رہی ہے تو آپ کو یہ جان کر بہت خوشی ہوگی کہ اس بار امرناتھ یاترا نے پچھلے چار سالوں میں سب سے زیادہ شردھالو شامل ہوئے ہیں۔ یکم جولائی سے اب تک تین لاکھ سے زیادہ تیرتھ یاتری مقدس امرناتھ گپھا کے درشن کرچکے ہیں۔ 2015 میں پورے ساٹھ دنوں تک چلنے والی اس یاترا میں جتنے تیرتھ یاتری شامل ہوئے تھے اس سے زیادہ اس بار صرف 28 دنوں میں شامل ہوچکے ہیں۔

امرناتھ یاترا کی کامیابی کے لیے میں خاص طو رپر جموں وکشمیر کے لوگوں اور ان کی مہمان نوازی کی تھی ستائش کرنا چاہتا ہوں۔ جو لوگ بھی سفر سے لوٹ کر آتے ہیں وہ ریاست کے لوگوں کی گرم جوشی اور اپنا پن کے جذبے کے قائل ہوجاتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں مستقبل میں سیاحت کے لیے بہت مفید ثابت ہونے والے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اتراکھنڈ میں بھی اس سال جب سے چار دھام یاترا کا آغاز ہوا ہے تب سے ڈیڑھ مہینے کے اندر آٹھ لاکھ سے زیادہ زائرین کیدار ناتھ دھام کے درشن کرچکے ہیں۔ 2013 میں آئے بھیانک  سیلاب  کے بعد پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں زائرین وہاں پہنچے ہیں۔

میری آپ سبھی سے اپیل ہے کہ ملک کے اُن حصوں میں آپ ضرور جائیں جن کی خوبصوری مانسون کے دوران دیکھتے ہی بنتی ہے۔

اپنے ملک کی اس خوبصورتی کو دیکھنے اور اپنے ملک کے لوگوں کے جذبے کو سمجھنے کے لیے سیاحت اور سفر شاید اس سے بڑی کوئی تعلیم نہیں ہوسکتی ہے۔

میری جانب سے آپ سبھی کو نیک خواہشات کہ ساون کا یہ خوبصورت اور زندگی سے بھرپور مہینے آپ سب میں نئی توانائی، نئی امید اور نیا یقین پیدا کرے۔ اسی طرح سے اگست کا مہینہ ‘بھارت چھوڑو’ اس کی یاد لے کر آتا ہے۔ میں چاہوں گا کہ 15 اگست کی کچھ خاص تیار کریں آپ لوگ۔ آزادی کے اس تہوار کو منانے کا نیا طریقہ ڈھونڈیں۔ عوامی شراکت داری بڑھائیں۔ 15 اگست عوامی تہوار کیسے بنے؟ جن اُتسو کیسے بنے؟ اس کی فکر ضرور کریں آپ۔ دوسری طرف یہی وہ وقت ہے جب ملک کے کئی حصوں میں زبردست بارش ہو رہی ہے۔ کئی حصوں میں ہم وطن سیلاب سے متاثر ہیں۔ سیلاب سے کئی قسم کے نقصانات بھی اٹھانے پڑتے ہیں۔ سیلاب کے بحران میں گھرے اُن سبھی لوگوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ مرکز، ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر متاثرین کو ہر قسم کی امداد فراہم کرانے کا کام بہت تیز رفتاری سے کر رہا ہے۔ ویسے جب ہم ٹی وی دیکھتے ہیں تو بارش کا ایک ہی پہلو دکھتا ہے۔ ہر طرف سیلاب، بھرا ہوا پانی، آمد ورفت  میں ٹریفک جام۔ مانسون کی دوسری تصویر- جس میں خوش ہوتا ہوا ہمارا کسان، چہکتے پرندے، بہتے جھرنے، ہریالی کی چادر اوڑھے زمین- یہ دیکھنے کے لیے تو آپ کو خود ہی اپنے خاندان کے ساتھ باہر نکلنا پڑے گا۔ بارش ، تازگی اور خوشی دونوں ہی اپنے ساتھ لاتی ہے۔ میری تمنا ہے کہ یہ مانسون آپ سب کو مسلسل خوشیوں سے بھرتا رہے۔ آپ سبھی صحت مند رہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو؛ ‘من کی بات’-کہاں شروع کریں، کہاں رکیں- بڑا مشکل کام لگتا ہے لیکن آخر وقت کی تحدید ہوتی ہے ایک مہینے کے انتظار کے بعد پھر آؤں گا، پھر ملوں گا، مہینے بھر آپ مجھے بہت کچھ باتیں بتانا، میں آنے والی ‘من کی بات’ میں اس کو جوڑنے کی کوشش کروں گا۔ اور میرے نوجوان ساتھیوں پھر سے یاد دلاتا ہوں۔ آپ کوئز کمپٹیشن کا موقع مت چھوڑیئے آپ سری ہری کوٹہ جانے کا جو موقع ملنے والا ہے اس کو کسی بھی حالت میں جانے مت دینا۔

آپ سب کا بہت بہت  شکریہ! نمسکار

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

U. No. 3477



(Release ID: 1580599) Visitor Counter : 218