وزیراعظم کا دفتر

جموں زرعی سائنسز اور ٹکنالوجی کی شیر کشمیر یونیورسٹی کے سالانہ تقسیم اسناد کی تقریب میں وزیراعظم کی تقریر کا متن

Posted On: 19 MAY 2018 10:00PM by PIB Delhi

نئی دہلی/ 22مئی ۔یہاں موجود سبھی تجربہ کار اور میرے نوجوان ساتھیو

ساتھیو: آج صبح جموں وکشمیر کے الگ الگ حصوں میں جانے کا مجھے موقع ملا۔ مجھے یہاں آنے میں دیر ہوئی۔ ہم لوگ تقریباً ایک گھنٹے لیٹ پہنچے اور سب سے پہلے میں آپ سب سے معافی چاہوں گا ہمیں آنے میں تاخیر ہوگئی۔لیہ سے لے کر سری نگر تک ترقی کے  کئی پروجیکٹوں آج آغاز ہوا ہے۔ کچھ نئے کاموں کی شروعات ہوئی ہے۔ جموں کے کھیت کھلیان سے لے کر کشمیر کے باغان اور لیہ لداخ کی قدرتی اورروحانی طاقت کا میں نے ہمیشہ تجربہ کیا ہے میں یہاں جب بھی آتا ہوں میرا یہ یقین اور مضبوط ہوجاتا ہے کہ ملک کا ایک علاقہ ترقی کے راستے پر بہت آگے نکلنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ یہاں کے محنت کش اور جفا کش مزدور لوگ آپ جیسے تجربے کار نوجوانوں کی لگاتار کوششوں سے ہم صحیح سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں اور کامیابی حاصل کررہے ہیں۔

ساتھیو: اس یونیورسٹی کے تقریباً بیس سال ہوگئے ہیں اور تب سے لے کر اب تک بہت سے طلباء اور طالبات یہاں سے پڑھ کر نکل چکے ہیں اور وہ سماجی زندگی میں کہیں نہ کہیں اپناتعاون دے رہے ہیں۔

آج یونیورسٹی کی چھٹی سالانہ تقسیم اسناد کی تقریب ہے اس موقع پر مجھے  آپ سبھی کے بیچ یہاں آنے کا موقع ملا۔ دعوت کے لئے یونیورسٹی انتظامیہ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ یہاں پر جموں کے اسکولوں سے بھی کچھ بچے کچھ طلباء موجود ہے۔ آج یہاں چار سو سے زیادہ طلباء طالبات کو  ڈگری، میڈل اور سرٹیفکیٹ دیئے گئے یہاں آپ کی اس محنت کا نتیجہ ہے جو ملک کے اس پر وقار ادارے کا حصہ رہتے ہوئے آٖپ نے  ثابت کیا ہے۔ آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔نیک خواہشات پیش کرتا ہوں اور خاص کر بیٹیوں کو کیونکہ آج میدان انہوں نے مارا ہے۔

آج ملک میں ایسے کھیل کود دیکھے ،ایجوکیشن دیکھے، سب جگہ پر بیٹیاں کمال کررہی ہیں۔ میرے سامنے دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی آنکھوں میں ایک چمک دکھائی دے رہی ہیں۔ اعتماد نظر آرہا ہے یہ چمک مستقبل کے خوابوں کو بھی اور چنوتیوں کو دونوں کو سمجھنے کا جذبہ لے کر کے بیٹھی ہیں۔

ساتھو: آپ کے ہاتھ یہ صرف ڈگری یا سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔ لیکن یہ ملک کے کسانوں کا امید کا لیٹر ہے۔آپ کے ہاتھ میں جو سرٹیفکیٹ ہے اس میں دیش کے کسانوں کی امیدیں ، آرزوں بھری ہوئی ہیں۔ یہ ان کروڑوں امیدوں کا دستاویز ہے۔ جو ملک کا انداتا ہے۔ ملک کاکسان آٖپ جیسے تجربے کار لوگوں سے بڑی آنکھ لگائے بیٹھا ہے۔ وقت وقت کے ساتھ ٹیکنالوجی تیزی سے بدل رہی ہے اور بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی تمام بندوبست کی معمولی تبدیلی کررہی ہے۔اس رفتار کے ساتھ اگر سب سے تیز چل سکتا ہے تو وہ ہمارے ملک کا نوجوان ہے۔ ہمارا ملک کا نوجوان ہے اور اسی لئے بھی میں آپ کے بیچ آج صبح آپ سے بات کرنے کا مجھے موقع ملا ہے۔ میں اسے بہت اہم مانتا ہوں۔

نوجوان ساتھیوں:ٹیلی ویژن جیسے نیچر آف جاب بدل رہی ہے۔ روزگار کے نئے نئے طریقے فروغ پارہے ہیں۔ ویسے ہی ضرورت زرعی سیکٹر میں بھی نیا کلچر فروغ دیئے جانے کی ضرورت ہے اپنے روایتی طریقوں کو جتنا زیادہ ہم تکنیک پر مرکوز کریں گے اتنا ہی کسان کو زیادہ فائدہ ہوگا اور اسی ویژن  پر چلتے ہوئے مرکزی سرکار ملک میں کھیتی سے جڑے جدید طور طریقوں سے بڑھاوا دے رہی ہیں۔

ملک میں اب تک بارہ کروڑ سے زیادہ سوائل ہیلتھ کارڈ  بانٹے جاچکے ہیں۔ اس میں جموں و کشمیر میں بھی گیارہ لاکھ کسانوں کو یہ کارڈ مل چکے ہیں۔ ان کارڈ کی مدد سے کسانوں کو یہ پتہ چل رہا ہے کہ ان کے کھیت کو کس طرح کی کھاد کی ضرورت ہے اور کیا دیگر ضرورتیں ہے۔

یوریا کی سو فیصد نیم پوٹنگ کا فائدہ بھی کسانوں کو ہوا ہے۔ اس سےاوپج تو بڑھ ہی  ہے۔ فی ہیکیٹئر یوریا کی کھپت بھی کم ہوئی ہے۔

سینچائی کی جدید تکنیک اور پانی کی ہر بوند کا استعمال کرنے کی سوچ کے ساتھ مائیکرو اور اسپرنک کلر اری گیشن(چھڑکاؤ والی آبپاشی) کے دائرے میں لایا گیا ہے۔ابھی دو دن پہلے ہی کابینہ نے مائیکرو اری گیشن کے لئے پانچ ہزار کروڑ روپے کے فنڈ کا ا علان کیا ہے اور اس کو منظوری دے دی ہے۔ یہ ساری پالیسیاں یہ سارے فیصلے کسان کی آمدنی دوگنی کرنے کے ہمارے مقصد کو اور ہی مضبوط کرتے ہیں۔ ایسی متعدد کوششوں سے بن رہے انتظام کا اہم حصہ آپ سبھی لوگ ہیں۔

 یہاں سے پڑھ کر جانے کے بعد سے سائنٹفک اپروج، تکنیکی اختراع اور تحقیق اور ترقی کے ذریعہ سے زراعت کو فائدے مند کاروبار بنانے میں آپ سرگرم رول نبھائیں گے۔ یہ ملک کی آپ سے امید یں ہیں۔کھیتی سے لے کر مویشی پالن اور اس سے جڑے دوسرے کاروبار کو نئ تکنیک سے بہتر بنانے کی ذمہ داری ہماری نوجوان نسل کے کندھوں پر ہے۔

یہاں آنے سے پہلے آپ کی کوششوں کے بارے میں سن کر میری امید اور بڑھ گئی ہے۔ آپ سے امیدیں بھی میری ذرا زیادہ بڑ ھ گئی ہے۔ کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لئے آپ نے اور آپ کی اس یونیورسٹی نے اپنے علاقے کے لئے جو ماڈل تیار کیا ہے اس کے بارے میں بھی مجھے بتایا گیا۔ آپ نے اس کو مربوط فارمنگ سسٹم ماڈل یعنی آئی ایف ایس ماڈل کا نام دیا ہے۔ اس ماڈل میں آج اناج بھی ہے۔ پھل سبزی اور پھول بھی ہے۔ مویشی بھی ہے۔ مچھلی اور مرغی پالن بھی ہے۔کمپوز ٹ بھی ہے۔مشروم ، بائیو گیس اور میڑ پر پیڑ  کاتصور بھی ہے۔ اس سے ہر مہینے آمدنی تو یقینی ہوگی بلکہ یہ ایک سال میں لگ بھگ دو گنا روزگار فراہم کرائے گا۔

پورے سال بھر کسان کی آمدنی کو یقینی بنانے والا یہ ماڈل اپنے آپ میں  بہت اہم ہے۔ صاف ستھرا ایندھن بھی ملا، زراعت کے کچرے سے بھی آزادی ملی، گاؤں بھی صاف ستھرا ہوا، روایتی کھیتی سے جو آمدنی کسانوں کو حاصل ہوتی ہے اس سے زیادہ آپ کا یہ ماڈل یقینی بناتا ہے۔ یہاں کی آب وہوا کو دھیان میں رکھتے ہوئے آپ جو یہ ماڈل فروغ دیا ہے میں اس کی خاص ستائش کرناچاہتا ہوں۔ میں چاہوں گا اس ماڈل کو جموں  اور آس پاس کے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ روشناس اور تشہیر کی جائے ۔

ساتھیو: سرکار کسانوں کو صرف ایک فصل پر منحصر نہیں رکھناچاہتی بلکہ فاضل کمائی کے جتنے بھی ذرائع ہے ان کو بڑھاوا دینے کا کام اور اس کام پر ہم زور دے رہے ہیں۔ زراعت میں مستقبل کے لئے شعبوں کی ترقی کسانوں کی ترقی میں ا یک ضروری حصہ بننے والی ہے۔ مددگار ہونے وا لی ہے۔

 سبز اور سفید انقلاب کے ساتھ بھی جتنا زیادہ ہم آرگینک(نامیاتی)  انقلاب، پانی کا انقلاب، نیلا انقلاب، میٹھا انقلاب اس پر زور دیں گے اتنا ہی کسانوں کی آمدنی بڑھے گی۔اس بار جو بجٹ پیش کیا  اس میں بھی حکومت کی یہی سوچ رہی ہے ۔ ڈیری کو فروغ دینے کے لئے ایک الگ فنڈ کا بندوبست کیا تھا۔ لیکن اس بار مچھلی پالن اور مویشی پالن کے لئےدس ہزار کروڑ روپے کے دو نئے فنڈ بنائے گئے ہیں۔ یعنی زراعت اور  پشو پالن کے لئے کسانوں کو اب اقتصادی مدد آسانی سے مل پائے گی۔ اس کے علاوہ کسان کریڈٹ کارڈ کی جو سہولت پہلے صرف کھیتی تک محدود تھی اب مچھلی اور مویشی پالن کے لئے بھی یہ سوچ کسان کو فراہم ہوگی۔

زرعی شعبے میں سدھار کے لئے حال ہی میں ایک بڑی اسکیم بھی اعلان کی گئی ہے۔ زراعت سے جڑی گیارہ اسکیموں کو سبز انقلاب، زراعت کی ترقی کی اسکیم میں شامل کی گئی ہے۔ اس کے لئے 33 ہزار کروڑ روپے کی گنجائش کی گئی ہے اور 33 ہزار کروڑ روپے کی رقم کم نہیں ہے۔

 ساتھیو: کچرے سے دولت تیار کرنے کی طرف بھی سرکار کا بڑا فوکس ہے۔ ملک کے الگ الگ حصوں میں اب اس طرح کی مہم زور پکڑ رہی ہے جو زرعی کچرے سے دولت کے لئے کام آرہی ہے۔

 اس سال بجٹ میں سرکار نے گوبر دھن اسکیم کا بھی اعلان کیا ہے۔ یہ اسکیم گاؤں کے لوگوں کو صفائی ستھرائی بڑھانے کے ساتھ بھی گاؤں میں نکلنے والے بائیو ویسٹج سے کسانوں اور مویشیوں کو پالنے والی آمدنی بڑھانے میں مدد کرے گی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ کسان صرف بائی پروڈکٹس سے ہی دولت بن سکتی ہے۔ جو اہم فصل ہے۔ مین پروڈکٹس ہے۔ کئی بار اس کا بھی الگ استعمال کسانوں کی آمدنی بڑھا سکتا ہے۔ کوائر ویسٹ ہو،کوکونٹ  سلیز ہو ، بانس ویسٹ ہو، فصل کٹنے کے بعد کھیت میں جو باقیات رہتے ہیں ان سبھی سے آمدنی بڑھ سکتی ہے۔

اس کے علاوہ بانس سے جڑے، بانس کے سلسلے میں جو پرانا قانون تھا اس میں بھی ہم نے ترمیم کرکے اب بانس کی کھیتی کی راہ بھی آسان کردی ہے آپ حیران ہوجائیں گے ۔تقریبا پندرہ ہزار کروڑ روپے کا بانس کو ہمارا ملک درآمد کرتا ہے کوئی منطق نہیں ہے۔

ساتھو: مجھے یہ بھی جانکاری دی گئی کہ یہاں پر آپ لوگوں نے بارہ فصلوں کی ورائٹی تیار کی ہے۔رنبیر، باسمتی ، یہ تو ملک بھر میں شاید بہت مشہور ہے۔ آپ کی یہ کوشش قابل تعریف ہے لیکن آج جو کھیتی کے سامنے چنوتیاں ہے وہ بیچ کی خوبیوں سے کئی آگے ہے۔یہ چنوتی جڑی ہے موسم میں جو بدلاؤ ہورہا ہے اس کے ساتھ ہی  یہ ہمارے کسان زرعی سائنسداں کی محنت اور سرکار کی پالیسیوں کا یہ اثر ہے کہ پچھلے سال ہمارے ملک میں کسانوں نے ریکارڈ توڑ پیداوار کی ہے۔ گیہوں، چاول ہو یا پھر دال پرانے ریکارڈ ہمارے ٹوٹ گئے ہیں۔ تلہن اور کپاس  میں بھی کافی اضافہ درج کیا گیا ہے۔ لیکن اگر آپ پچھلے کچھ برسوں کا ڈاٹا دیکھیں گے تو پائیں گے کہ پیداوار میں ایک غیر یقینی صورت حال بنی ہوئی ہے اور اس کا سب سے بڑا سبب ہے ہماری کھیتی کی بارش پر انحصار ، آب وہوا میں تبدیلی کی  وجہ سے یہاں ایک طرف جہاں درجہ حرارت میں بڑھوتری دیکھی جارہی ہے وہیں کچھ علاقوں میں بارش بھی کم ہوتی جارہی ہے ۔ جموں وکشمیر میں بھی اس کا اثر دیکھاجارہا ہے۔ دھان کی کھیتی ہو، باغبانی ہو، یا پھر ٹوارزم کافی تعداد میں پانی اس کے لئے بے حد ضروری ہے۔ جموں وکشمیر کی پانی کی ضرورت گلیشئر پوری کرتے ہیں۔ لیکن جس طرح درجہ حرارت رہا ہے اس سے گلیشئر تیزی سے پگھل رہے ہیں اس کا نتیجہ کچھ حصوں میں کم پانی اور کچھ علاقوں میں باڑھ کی شکل میں بھی سامنے آہا ہے۔

ساتھو: یہاں آنے سے پہلے جب میں آپ کی یونیورسٹی کے بارے میں پڑھ رہا تھا تو مجھے آپ کا فصل پروجیکٹ کے بارے میں بھی پتہ چلا اس کے ذریعہ سے آپ کھیتی کے سیزن سے پہلے ہی فصل کی آؤٹ پوٹ  اور سال بھر کتنی نمی رہنے والی ہے اس کا تجربہ لگاتے ہیں لیکن اور اس سے بھی آگے جانے کی ضرورت ہے۔ نئے حالات سے نپٹنے کے لئے نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ یہ حکمت عملی فصلوں کی سطح پر چاہئے اور ٹیکنالوجی کی سطح پر چاہئے۔ میں ایسی فصلوں کی ورائٹی پر دھیان دینا ہوا جو کم پانی لیتی ہے اس کے علاوہ زرعی پیداوار کا اس طرح ویلیو ایڈیشن کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی لگا تار آپ کے سوچ کے عمل میں ہوناچاہئے۔

 جیسا میں آپ کو  سی   بک تھورن کی مثال دیتا ہوں۔ آپ سبھی سی بک تھورن کے بارے میں جانتے ہوں گے۔ لداخ علاقے میں پایا جانے والا پلانٹ منفی 40 سے  +40 ڈگری سینٹی گریڈ میں شدید درجہ حرارت کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ چاہے جتنا سکھا ہو یہ اپنے آپ پھلتا پھولتا ہے۔ اس کی طبی خوبیوں کا ذکر بھی آٹھویں صدی میں  لکھے گئےتبتی ساہتیہ میں بھی  ملتا ہے۔ ملک اور بیرون ملک کے کئی جدید تحقیقی اداروں نے اس سی بک تھورن کو بہت ہی قیمتی مانا گیا ہے۔ بلڈ پریشر کا مسئلہ ہو، بخار ہو، ٹیومر ہو، السر ہو یا پھر سردی کھانسی ہو، سی بک تھورن سے بنی متعدد طرح کی دوائیاں ان میں فائدہ دیتی ہے۔ایک مطالعہ کے مطابق دنیا میں دستیاب سی بک تھورن میں پوری  انسانیت کی وٹامن سی کی ضرورت اکیلے ہی پوری کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس زرعی پروجیکٹ کے ویلیو ایڈیشن نے تصویر بدل دی ہے۔ سی بک تھورن کا استعمال اب ہربل ٹی میں ، جیم ، پروڈکٹیو آئل، پروڈکٹیو کریم اور ہیلتھ  ڈرنک میں بھی بہت بڑی مقدار میں ہورہا ہے۔بہت اونچے پہاڑوں میں تعینات حفاظتی دستوں کے نوجوانوں کے لئے یہ بہت کارآمد ہورہی ہے۔ سی بک تھورن کے کئی طرح کےاینٹی آکسیڈنٹ پروڈکٹ بنائے جارہے ہیں۔

آج اس پلیٹ فارم پر میں مثال اس لئے دے رہا ہوں یہ بات اس لئے بھی کہہ رہا ہوں کیونکہ مستقبل میں ملک کے  جس بھی حصہ کو آپ اپنا کام کا ایریا بنائیں گے وہاں ایسے آپ کو  کئی پروڈکٹ ملیں گے۔ وہاں اپنے کوششوں سے آپ ایک ماڈل فروغ دے سکتے ہیں۔ کچھ زرعی  طلباء سے زرعی سائنسداں بنتے ہوئے ویلیو ایڈیشن کرتے ہوئے آپ اپنے سر پر زرعی انقلاب کی قیادت کرسکتے ہیں۔

جیسے ایک اہم موضوع ہے زراعت میں آرٹی فیشل انٹلی جنس یہ آنے والے وقت میں کھیتی میں انقلابی تبدیلی لانے والا ہے۔ ملک کے کچھ حصوں میں محدود سطح پر کسان اس کا استعمال بھی کررہے ہیں جیسے دوائی اور پیسٹ کنٹرول کے لئے ، ڈرون جیسی تکنیک کا استعمال آج اب دھیرے دھیرے شروع ہورہا ہے۔

اس کے علاوہ سوائل میپنگ اور کمیونٹی پرائسنگ میں بھی تکنالوجی کام کررہی ہے۔ اس کے علاوہ آنے والے دنوں میں بلاک  چین تکنالوجی کا بھی بڑا اہم رول رہے گا۔ اس تکنیک سے سپلائی چین کی رئیل ٹائم مانٹرنگ ہوپائے گی۔ اس سے کھیتی میں ہونے والے لین دین میں شفافیت آئے گی۔ سب سے بڑی بات بیچولیوں کی بدمعاشی پر بھی  لگام لگے گی اور  پیداوار کی بربادی پربھی لگام لگے گی۔

ساتھیو: یہ بھی ہم سبھی کو پوری طرح پتہ ہے کہ کسان کی لاگت بڑھنے ایک وجہ خراب کوالٹی کے بیج ، فرٹیلائز اور دوائیاں بھی ہوتی ہے۔ بلاک چین تکنالوجی سے ہم اس مسئلے پر کنٹرول پا سکتے ہیں۔ اس تکنیک کے ذریعہ سے پروڈکشن کے عمل سے لے کر کسانوں تک پہنچنے تک کسی بھی مرحلے پر پروڈکٹ کی جانچ آسانی سے کی جاسکتی ہے۔

ایک پورا نیٹ ورک ہوگا۔ جس میں کسان پروسیسنگ یونٹ ، وترک، ریگولیٹری اتھارٹی اور صارفین کی ایک چین ہوگی۔ان سبھی کے بیچ اصول اور شرطوں کی بنیاد پر بنائے گئے اسمارٹ کانٹریکٹ پر یہ تکنیک فروغ دی جاسکتی ہے۔ اس پوری چین سے جڑا شخص چونکہ اس پر نظر رکھ سکتا ہے لہذا اس میں بدعنوانی کی گنجائش کم رہے گی۔

اس کے علاوہ حالات کے حساب سے فصل کی بدلتی قیمتوں کی وجہ سے کسانوں کو ہونے والے نقصان سے بھی یہ تکنیک نجات دلا سکتی ہے۔ اس چین سے جڑا ہر شخص ایک دوسرے کے ذریعہ ریئل ٹائم میں جانکاریاں مشترک کرسکتا ہے اور آپ سی شرطوں کی بنیاد پر ہر ایک پر قیمتیں طے کی جاسکتی ہے۔

ساتھو: سرکار پہلے ہی ای ای نیم جیسی اسکیم کے ذریعہ ملک بھر کی منڈیوں کو جوڑ رہی ہے۔ اس کے علاوہ 22 ہزار گرام منڈیوں کو تھوک منڈیوں اور عالمی بازاروں سے  جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔حکومت فارمر پروڈیوسر آرگنائزیشن کو بھی طاقت دے رہی ہے، بڑھوا دے رہی ہے کسان اپنے علاقے میں ،  اپنے سطح پر چھوٹے چھوٹے گروپ بنا کر بھی گرامین ہاٹ اور بڑی منڈیوں سے بڑی آسانی سے جوڑ سکتے ہیں۔

اب بلاک چین جیسی تکینک ان کوششوں کو اور بھی زیادہ سود مند بنائے گا ۔ ساتھیو آپ لوگوں کو ایسے ماڈل تیار کرنے کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا۔ جو مقامی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ مستقبل کی تکنالوجی، فرینڈلی بھی ہو،

زرعی سیکٹر میں نئے اسٹارٹ اپ کیسے آئیں، نئے اختراع کیسے آئیں اس پر  ہمارا دھیان مرکوز ہوناچاہئے۔مقامی کسانوں کو بھی تکنیک سے جوڑنے کے لئے آپ کی کوشش لگاتار ہوتی رہنی چاہئے اور مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ سب ہی نے پڑھائی کے دوران گاؤں کی سطح پر لوگوں کو نامیاتی کھیتی سے جوڑنے کے لئے کافی کام کیا ہے۔ نامیاتی کھیتی کے مطابق فصلوں کی قسموں کو لے کر بھی آپ کے ذریعہ ریسرچ کی جارہی ہے اور ہر سطح پر اس طرح کی الگ الگ کوشش بھی کسانوں کو خوشحال بنانے کا کام کریں گے۔

ساتھیو: جموں وکشمیر کے کسانوں اور باغبانوں کے لئے گزشتہ چار سالوں کے لئے مرکزی سرکار نے بھی کئی اسکیموں کو منظوری دی ہے باغبانی اور زراعت سے جڑے دیگر اسکیموں کے لئے پانچ سو کروڑ روپے کی منظوری دی گئی ہے جس میں سے ایک سو پچاس کروڑ روپے ریلیز بھی کئے جاچکے ہیں۔ لیہ اور کارگل میں کولڈ اسٹوریج بنانے کے لئے بھی کام ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ سولر ڈرائرر سیٹ اپ کرنے والے کے لئے بیس کروڑ روپے کی سبسڈی کی بھی گنجائش رکھی گئی ہے۔

مجھے امید ہے کہ بیج سے لے کر بازار تک کئے جارہے سرکار کی یہ کوشش یہاں کے کسانوں کو اور زیادہ طاقت ور بنائیں گے۔

ساتھیو: سال 2022 ملک اپنی آزادی کے 75 سال کا جشن منانے جارہا ہے۔ میرا یقین ہے کہ تب تک آپ میں سے بہت سے طلباء خود کو ایک بہترین سائنسداں کے طور پر ثابت کرچکے ہوں گے۔ میری اپیل ہے کہ سال 2022 کو دھیان میں رکھتے ہوئے آپ کی یونیورسٹی اور یہاں کے طلباء اپنے لئے کوئی نہ کوئی مقصد ضرور طے کریں گے۔ جیسے یونیورسٹی کے سطح پر یہ سوچ جاسکتی ہے کہ کیسے اس ملک ہی نہیں بلکہ دنیا کی چوٹی ہی دو سو یونیورسٹیوں کی فہرست میں ہماری یونیورسٹی کو شامل کرا جائے۔ اس طرح یہاں کے طلباء فی ہیکیٹر کرشی پیداوار بڑھانے ، زیادہ سے زیادہ کسانوں تک جدید تکنیک تک لے جانے سے متعلق کوئی نہ کوئی عہد لے سکتا ہے۔ ساتھیو جب ہم کھیتی کو تکنالوجی لیڈ اوراینٹری پرینیورشپ ڈرائیون بنانے کی بات کرتے ہیں تب کوالٹی ہیومن ریسورسیس تیار کرنا اپنے آپ میں  ایک  بہت بڑی چنوتی ہوتی ہے۔

آپ کی یونیورسٹی سمیت ملک کے جتنے بھی ایسے ادارے ہے ان کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے اور ایسے میں پانچ ٹی یعنی ٹریننگ، ٹیلنٹ، تکنالوجی ٹائملی ایکشن اور ٹریول فری اپروچ کی اہمیت میری نظر سے بہت بڑتی جاتی ہے۔یہ پانچ ٹی ملک کی زرعی انتظامات میں انقلابی تبدیلی لانے کے لئے بہت ضروری ہے مجھے امید ہے کہ اپنے عہد طے کرتے وقت ان کا بھی دھیان میں رکھا جائے گا۔

ساتھیو: آج آپ یہاں ایک کلوز کلاس روم ماحول سے باہر نکل رہے ہیں۔ میری آپ کو نیک خواہشات ہے۔ لیکن یہ دیواروں والا کلاس روم چھوٹ رہا ہے۔ ایک بہت بڑے اوپن کلاس روم باہر آپ کا انتظار کررہا ہے یہاں آپ کے سیکھنے کا عمل صرف ایک پڑاؤ ختم ہوا ہے۔ اصل زندگی کی گہری تعلیم اب شروع ہورہی ہے۔اس لئے  اپنے اسٹوڈینٹس والے مائنڈ سیٹ کو ہمیشہ زندہ رکھنا ہوگا۔ اندر کے طلباء کو کبھی مرنے  نہ دیجئے۔تبھی آپ اختراعی سوچ سے ملک کے کسانوں کے لئے بہتر ماڈل فروخت کرپائیں گے۔

آپ عہد لیں اپنے کسانوں کو اپنے والدین کے خوابوں کو پورا کریں۔ قوم کی تعمیر میں آپ کا بھی سرگرم تعاون شامل ہو اس امید کے ساتھ میں میری بات کو ختم کرتا ہوں اور آپ سبھی ساتھیوں کو بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ متعدد کنبوں کو بھی  دل سے بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ مبارک باد دیتا ہوں۔

************

 

م ن۔  ح ا ۔ رض

 

U-2697



(Release ID: 1533050) Visitor Counter : 111