• Skip to Content
  • Sitemap
  • Advance Search
Security

سرخ راہداری سے نکسلواد سے پاک بھارت تک: فیصلہ کن کامیابیوں کی ایک دہائی (2014–2025)

Posted On: 13 DEC 2025 1:40PM

اہم نکات

  • نکسلواد سے متاثرہ اضلاع کی تعداد 2014 میں 126 سے گھٹ کر 2025 میں صرف 11 رہ گئی ہے، جبکہ انتہائی متاثرہ اضلاع 36 سے کم ہو کر محض 3 رہ گئے ہیں۔ اس طرح ریڈ کوریڈور کے تقریباً خاتمے کی واضح علامت سامنے آئی ہے۔
  • 12,000 کلومیٹر سے زائد سڑکیں، 586 محفوظ پولیس اسٹیشنز، 361 نئے کیمپ، 8,500 سے زیادہ موبائل ٹاورز کی تنصیب اور 92 کروڑ روپے کے اثاثوں کی ضبطی نے بنیادی علاقوں میں ماؤ نوازوں کی جغرافیائی اور مالی بالادستی کا خاتمہ کر دیا ہے۔
  • صرف 2025 میں 317 نکسلی (جن میں اعلیٰ قیادت بھی شامل ہے) مارے گئے، 800 سے زائد گرفتار ہوئے اور تقریباً 2,000 نے خود سپردگی اختیار کی۔ یہ اب تک کی سب سے زیادہ کمی ہے اور مارچ 2026 تک نکسلیّت سے پاک بھارت کی جانب ناقابلِ واپسی پیش رفت کو ظاہر کرتی ہے۔

 

تعارف

بائیں بازو کی انتہاپسندی کے خلاف مرکزی حکومت کی فیصلہ کن دفاعی حکمتِ عملی کی عکاسی کرتے ہوئے ملک بھر میں نکسلیّت سے متاثرہ علاقوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔ مؤثر اور فیصلہ کن اقدامات کے نتیجے میں نکسلواد سے انتہائی متاثرہ اضلاع کی تعداد 2014 میں 36 سے گھٹ کر 2025 میں صرف 3 رہ گئی ہے، جبکہ بائیں بازو کی انتہاپسندی سے متاثرہ اضلاع کی مجموعی تعداد 126 سے کم ہو کر 2025 تک محض 11 رہ گئی ہے۔

حکومت نے نکسلیّت کے خلاف ایک متحد، ہمہ جہتی اور فیصلہ کن حکمتِ عملی اپنائی ہے، جس نے سابقہ حکومتوں کے بکھرے ہوئے طرزِ عمل کی جگہ لی ہے۔ مکالمہ، سلامتی، ہم آہنگی کے واضح اصولوں پر عمل کرتے ہوئے، حکومت نے مارچ 2026 تک ہر نکسلواد سے متاثرہ علاقے کو مکمل طور پر نکسلیّت سے پاک بنانے کا مضبوط ہدف مقرر کیا ہے۔

 

دس برسوں میں نکسلی تشدد میں نمایاں کمی

ملک میں نکسلیّت کا پھیلاؤ ’’ریڈ کوریڈور‘‘ کے نام سے معروف خطے میں تھا، جس سے چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، اوڈیشہ، مہاراشٹر، کیرالہ، مغربی بنگال، مدھیہ پردیش اور آندھرا پردیش و تلنگانہ کے بعض حصے متاثر تھے۔ بھارت کی ہمہ جہتی انسدادِ ایل ڈبلیو ای حکمتِ عملی نے تشدد میں نمایاں کمی کی ہے، تحریک کو کمزور کیا ہے اور متاثرہ اضلاع کو دوبارہ قومی دھارے میں شامل کیا ہے۔

2004–2014 کے مقابلے میں 2014–2024 کے دوران:

  1. پُرتشدد واقعات میں 53 فیصد کمی واقع ہوئی، جو 16,463 سے گھٹ کر 7,744 رہ گئے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0037G86.jpg

  1. سکیورٹی فورسز کی اموات میں 73 فیصد کمی واقع ہوئی، جو 1,851 سے گھٹ کر 509 رہ گئیں۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image004UP3S.jpg

  1. عام شہریوں کی اموات میں 70 فیصد کمی آئی، جو 4,766 سے کم ہو کر 1,495 رہ گئیں۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image005IP4K.jpg

 

2024–2025 کے دوران عملیاتی کامیابیاں

2025 میں اب تک 317 نکسلیوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے، 862 کو گرفتار کیا گیا ہے اور 1,973 نے خود سپردگی اختیار کی ہے۔ صرف 2024 میں 290 نکسلی ہلاک ہوئے، 1,090 گرفتار کیے گئے اور 881 نے خود سپردگی کی۔ مجموعی طور پر 28 اعلیٰ سطح کے نکسلی رہنماؤں کو ہلاک کیا گیا ہے، جن میں 2024 میں مرکزی کمیٹی کا 1 رکن اور 2025 میں 5 اراکین شامل ہیں۔ نمایاں کامیابیوں میں آپریشن بلیک فاریسٹ کے دوران 27 سخت گیر نکسلیوں کی ہلاکت، 23 مئی 2025 کو بیجاپور میں 24 نکسلیوں کی خود سپردگی، اور اکتوبر 2025 میں چھتیس گڑھ (197) اور مہاراشٹر (61) میں مجموعی طور پر 258 نکسلیوں کی خود سپردگی شامل ہے، جن میں 10 سینئر نکسلی بھی شامل تھے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0062RQ3.jpg

 

سکیورٹی حصار سے متعلق کامیابیاں

مرکزی حکومت کے دور میں 2025 تک نکسلیّت سے انتہائی متاثرہ اضلاع کی تعداد 2014 کے 36 کے مقابلے میں گھٹ کر صرف 3 رہ گئی ہے۔ نکسلیّت سے متاثرہ اضلاع کی مجموعی تعداد بھی 2014 میں 126 سے کم ہو کر 2025 میں محض 11 رہ گئی ہے۔ 2014 تک جہاں صرف 66 محفوظ پولیس اسٹیشن تھے، وہیں گزشتہ 10 برسوں میں ان کی تعداد بڑھ کر 586 ہو چکی ہے۔ نکسلی واقعات درج کرنے والے پولیس اسٹیشنوں کی تعداد 2013 میں 76 اضلاع کے 330 سے کم ہو کر جون 2025 تک 22 اضلاع کے صرف 52 رہ گئی ہے۔ مزید برآں، گزشتہ 6 برسوں میں 361 نئے سکیورٹی کیمپ قائم کیے گئے ہیں اور عملیاتی رسائی کو مضبوط بنانے کے لیے 68 نائٹ لینڈنگ ہیلی پیڈز تعمیر کیے گئے ہیں۔

 

نکسلیوں کی مالی ناکہ بندی

مرکزی حکومت نے این آئی اے میں ایک مخصوص شعبہ قائم کر کے نکسلیوں کی مالی معاونت کو مؤثر طور پر روک دیا ہے، جس کے تحت 40 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے اثاثے ضبط کیے گئے۔ اس کے علاوہ ریاستی حکومتوں نے بھی 40 کروڑ روپے سے زیادہ کے اثاثے ضبط کیے، جبکہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے 12 کروڑ روپے مالیت کے اثاثے منسلک (اٹیچ) کیے ہیں۔ ان بیک وقت کارروائیوں نے شہری نکسلیوں کو شدید اخلاقی اور نفسیاتی نقصان پہنچایا ہے اور ان کے اطلاعاتی جنگی نیٹ ورکس پر سخت کنٹرول قائم کر دیا ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0073TC1.png

 

مرکزی حکومت کے ذریعے ریاستوں کی صلاحیت سازی

مرکزی حکومت نے بائیں بازو کی انتہاپسندی سے متاثرہ ریاستوں کی صلاحیت کو مضبوط بنانے کے لیے اہم سکیورٹی اور بنیادی ڈھانچے کی اسکیموں کے تحت مالی معاونت میں اضافہ اور ہدفی مدد فراہم کی ہے۔

  • مرکزی حکومت نے گزشتہ 11 برسوں میں سکیورٹی ریلیٹڈ ایکسپینڈیچر (ایس آر ای) اسکیم کےتحت ایل ڈبلیو ای سے متاثرہ ریاستوں کو 3,331 کروڑ روپے جاری کیے ہیں، جو گزشتہ 10 برسوں کے دوران فنڈز کے اجراء میں 155 فیصد اضافے کی عکاسی کرتا ہے۔
  • اسپیشل انفراسٹرکچر اسکیم (ایس آئی ایس) کے تحت مرکزی حکومت نے ریاستی خصوصی فورسز (ایس ایف) اور خصوصی انٹیلی جنس برانچز (ایس آئی بی) کو مضبوط بنانے کے لیے 371 کروڑ روپے کی منظوری دی، جبکہ ابتدائی مرحلے میں 246 محفوظ پولیس اسٹیشنوں کے لیے 620 کروڑ روپے منظور کیے گئے۔ اس اسکیم کو 2026 تک توسیع دی گئی ہے اور توسیعی مدت میں ایس ایف، ایس آئی بی اور ضلعی پولیس کی مزید مضبوطی کے لیے 610 کروڑ روپے اور 56 اضافی محفوظ پولیس اسٹیشنوں کے لیے 140 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
  • گزشتہ 8 برسوں (2017–18 سے آگے) کے دوران 1,757 کروڑ روپے مالیت کے منصوبوں کی منظوری دی گئی ہے، جن میں سے اب تک 445 کروڑ روپے مرکزی حکومت کی جانب سے جاری کیے جا چکے ہیں۔
  • 2014 کے بعد سے مجموعی طور پر 586 محفوظ پولیس اسٹیشن تعمیر کیے جا چکے ہیں۔
  • اسپیشل سنٹرل اسسٹنس (ایس سی اے) اسکیم کے تحت 3,817.59 کروڑ روپے فراہم کیے گئے ہیں۔
  • اسسٹنس ٹو سینٹرل ایجنسیز اسکیم (اے سی اے ایل ای ایم ایس) کے تحت گزشتہ 10 برسوں میں کیمپوں کے بنیادی ڈھانچے کے لیے 125.53 کروڑ روپے اور ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن یا قیام کے لیے 12.56 کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں۔

 

بنیادی ڈھانچے کی ترقی

حکومتِ ہند نے بائیں بازو کی انتہاپسندی سے متاثرہ علاقوں میں سڑکوں کے نیٹ ورک اور موبائل رابطے کو وسعت دے کر بنیادی ڈھانچے کو نمایاں طور پر مضبوط کیا ہے، جس سے رسائی، سکیورٹی ردِعمل اور سماجی و معاشی انضمام میں بہتری آئی ہے۔

  • ایل ڈبلیو ای علاقوں میں سڑکوں کی رابطہ کاری:

مئی 2014 سے اگست 2025 کے دوران مرکزی حکومت نے بائیں بازو کی انتہاپسندی سے متاثرہ علاقوں میں 12,000 کلومیٹر سڑکیں تعمیر کی ہیں، جبکہ مجموعی طور پر 17,589 کلومیٹر سڑکوں کے منصوبوں کی منظوری 20,815 کروڑ روپے کی لاگت سے دی گئی ہے۔ اس سے پہلے ناقابلِ رسائی علاقوں میں ہر موسم میں آمد و رفت اور نقل و حرکت کو یقینی بنایا گیا ہے۔

  • موبائل نیٹ ورک کی توسیع:

پہلے مرحلے میں (ٹو جی)2,343 موبائل ٹاورز 4,080 کروڑ روپے کی لاگت سے نصب کیے گئے۔ دوسرے مرحلے میں 2,542 ٹاورز کی منظوری 2,210 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری سے دی گئی، جن میں سے 1,154 پہلے ہی نصب کیے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ آسپیریشنل ڈسٹرکٹس اور فور جی  سیچوریشن اسکیموں کے تحت (فور جی)8,527 ٹاورز کی منظوری دی گئی ہے، جن میں بالترتیب 2,596  اور 2,761 ٹاورز اب فعال ہیں۔ ان اقدامات سے نکسلیّت کے بنیادی علاقوں میں مواصلاتی سہولت اور سراغ رسانی کی رسائی میں نمایاں بہتری آئی ہے۔

 

متاثرہ اضلاع میں مالی شمولیت

مرکزی حکومت نے بائیں بازو کی انتہاپسندی سے متاثرہ اضلاع میں جامع مالی شمولیت کو یقینی بناتے ہوئے 1,804 بینک شاخیں، 1,321 اے ٹی ایم اور 37,850 بینکنگ کورسپانڈنٹس قائم کیے ہیں۔ اس کے علاوہ 90 اضلاع میں ہر 5 کلومیٹر کے فاصلے پر کوریج کے ساتھ 5,899 ڈاک خانے کھولے گئے ہیں، جس سے پہلے نکسلی اثر و رسوخ میں رہنے والی دور دراز آبادیوں تک بینکاری، ڈاک اور رقوم کی ترسیل کی سہولیات براہِ راست پہنچائی گئی ہیں۔

 

تعلیمی بااختیاری (48 اضلاع میں ہنرمندی کی ترقی)

مرکزی حکومت نے بائیں بازو کی انتہاپسندی سے متاثرہ 48 اضلاع میں ہنرمندی کی ترقی کے اقدامات شروع کیے ہیں، جن کے تحت 495 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری سے 48 صنعتی تربیتی اداروں (آئی ٹی آئی) کی منظوری دی گئی ہے اور 61 اسکل ڈیولپمنٹ سینٹرز (ایس ڈی سیز) منظور کیے گئے ہیں۔ ان میں سے 46 آئی ٹی آئیز اور 49 ایس ڈی سیز پہلے ہی فعال ہیں، جو مقامی نوجوانوں کو فنی تربیت اور روزگار کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ اس سے نکسلی بھرتی میں کمی آئی ہے اور دور دراز سماجوں کو قومی معیشت کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے میں مدد ملی ہے۔

 

این آئی اے میں علیحدہ شعبہ

نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے نکسلیّت کے خلاف ایک مخصوص شعبہ قائم کیا ہے، جس نے 108 مقدمات کی تفتیش کی اور 87 مقدمات میں فرد جرم داخل کیں۔ تیز رفتار قانونی کارروائی کے ذریعے اس اقدام نے ماؤ نواز تنظیمی ڈھانچے کو نمایاں طور پر کمزور کیا۔ اسی دوران 2018 میں مرکزی حکومت نے بستریہ بٹالین قائم کی، جس میں مجموعی طور پر 1,143 بھرتیاں کی گئیں۔ ان میں ابتدائی طور پر 400 مقامی نوجوان شامل تھے، جو چھتیس گڑھ کے شدید متاثرہ اضلاع بیجاپور، سکما اور دنتے واڑہ سے لیے گئے تھے۔ اس طرح سابق نکسلی مضبوط گڑھوں کو تربیت یافتہ سکیورٹی اہلکاروں کے مراکز میں تبدیل کیا گیا، جو اب بغاوت کے خلاف مؤثر کردار ادا کر رہے ہیں۔

 

تین دہائیوں بعد نکسلیوں سے آزاد علاقے (کامیابی کی کہانیاں)

سکیورٹی فورسز نے آکٹوپس، ڈبل بُل اور چکبندھا جیسے فیصلہ کن آپریشنز کے ذریعے طویل عرصے سے مضبوط نکسلی گڑھوں پر قابو پایا، جن میں بدھا پہاڑ، پارسناتھ، باراماسیا اور چکربندھا (بہار) شامل ہیں، جو تین دہائیوں تک ماؤ نواز کنٹرول میں تھے۔ دور دراز جنگلات کے اندر مستقل کیمپ قائم کیے گئے اور اب تک ناقابلِ رسائی ابوجھمد (چھتیس گڑھ) علاقے تک پہنچ حاصل کی گئی۔ ان مسلسل حملوں نے پی ایل جی اے بٹالین کو بیجاپور-سکما کے اپنے بنیادی علاقے کو ترک کرنے پر مجبور کیا اور نکسلیوں کی 2024 کی ٹیکٹیکل کاؤنٹر افسنسیو کمپین (ٹی سی او سی) کو مکمل طور پر ناکام بنا دیا، جس سے ان کے اسٹریٹجک مضبوط گڑھ اور عملی بالادستی کا خاتمہ ہوا۔

 

خود سپردگی اور بحالی کی اسکیم

مرکزی حکومت کی خود سپردگی و بحالی پالیسی نے نکسلی کیڈرز کے خاتمے کی رفتار بڑھائی ہے، جس میں پرکشش مراعات اور یقینی روزگار فراہم کیا جاتا ہے۔ اعلیٰ درجے کے ایل ڈبلیو ای کیڈرز کو 5 لاکھ روپے، درمیانے/نچلے درجے کے کیڈرز کو 2.5 لاکھ روپے اور تمام خود سپردگی کرنے والوں کو 36 ماہ تک پیشہ ورانہ تربیت کے دوران ماہانہ 10,000 روپے دیے جاتے ہیں۔ نتیجتاً، صرف اس سال 521 ایل ڈبلیو ای کیڈرز نے خود سپردگی اختیار کی اور نئے ریاستی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ تعداد بڑھ کر 1,053 ہو گئی، جس سے سینکڑوں سابق باغیوں کو یقینی روزگار اور سکیورٹی کے ساتھ مرکزی دھارے میں شامل کیا گیا۔

 

نتیجہ

گزشتہ گیارہ برسوں کے دوران مرکزی حکومت کی مربوط اور ہمہ جہتی حکمتِ عملی جس میں متوازن سکیورٹی کارروائیاں، بے مثال بنیادی ڈھانچے کی توسیع، مالی ناکہ بندی، تیز رفتار ترقی اور پرکشش خود سپردگی پالیسی شامل ہیں، نے 2014 کے 126 اضلاع میں موجود بائیں بازو کی انتہاپسندی کو 2025 تک محض 11 اضلاع تک محدود کر دیا ہے، جن میں سے صرف تین انتہائی متاثرہ ہیں۔ تشدد میں 70 فیصد سے زائد کمی آئی ہے، شہریوں اور سکیورٹی فورسز کے جانی نقصان میں نمایاں کمی آئی ہے، اعلیٰ ماؤ نواز قیادت کو منظم طریقے سے بے اثر بنایا گیا ہے اور ہزاروں کیڈرز نے مسلح جدوجہد کے بجائے مرکزی دھارے میں زندگی اختیار کی ہے۔

گرچہ مزاحمت کے چھوٹے مقامات ابھی باقی ہیں اور مکمل خاتمے کے لیے 31 مارچ 2026 تک مسلسل نگرانی ضروری ہے، مگر رجحان واضح ہے: نکسلی بغاوت کی نظریاتی اور علاقائی بنیاد ٹوٹ چکی ہے، جس سے طویل عرصے سے محروم علاقوں میں پائیدار امن اور ترقی کے لیے راہ ہموار ہوئی ہے۔

حوالہ جات

PIB

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2179459&reg=3&lang=2

https://www.pib.gov.in/PressReleseDetailm.aspx?PRID=2130295&reg=3&lang=2

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=1991936&reg=3&lang=2

Jharkhand Police

https://jhpolice.gov.in/news/police-reaching-out-villagers-under-operation-goodwill-8090-1351598017

Ministry of Home Affairs

Click here to see PDF

******

ش ح۔ ش ا ر۔ ول

Uno- 3103

(Backgrounder ID: 156472) आगंतुक पटल : 4
Provide suggestions / comments
इस विज्ञप्ति को इन भाषाओं में पढ़ें: English , हिन्दी , Bengali
Link mygov.in
National Portal Of India
STQC Certificate