• Skip to Content
  • Sitemap
  • Advance Search
Others

کرگل وجے دیوس 2025

بہادری اور کامیابی کے 26 برسوں کو خراجِ تحسین

Posted On: 25 JUL 2025 5:19PM

تعارف

قوم اس سال 26 واں کرگل وجے دیوس عقیدت و احترام سے منا رہی ہے، جو بھارت کی تاریخ میں فخر کا ایک درخشاں باب ہے۔یہ دن 1999 کی اُس عظیم فتح کی یاد دلاتا ہے جب ہماری افواج نے برف سے ڈھکی پہاڑیوں اور دشمن کی شدید گولہ باری کے باوجود بے مثال جُرات، عزم اور قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کرگل کی بلندیوں کو دوبارہ حاصل کیا۔26 جولائی کو لداخ کے پُرپیچ پہاڑوں پر ترنگا ایک بار پھر فخر سے لہرایا — یہ پرچم آج بھی قربانی، بہادری اور ناقابلِ تسخیر قومی جذبے کی علامت ہے۔

یہ سالگرہ صرف تقویم کا ایک دن نہیں، بلکہ ہمارے قومی عزم، اتحاد اور غیرمتزلزل حوصلے کی ایک پُراثر یاد دہانی ہے—ایسا جذبہ جو بھارت کی شناخت ہے۔ یہ اُن سپاہیوں کو سلام ہے جنہوں نے بلند پہاڑوں، کم آکسیجن والے ماحول اور یخ بستہ ہواؤں میں لڑتے ہوئے ہر چوٹی کو اپنی بہادری کا نشان بنا دیا۔

وہ تنازعہ، جو بعد میں "کرگل جنگ" کے نام سے جانا گیا، مئی 1999 میں اُس وقت شروع ہوا جب دشمن عناصر چپکے سے لائن آف کنٹرول عبور کر کے بھارتی چوکیاں قابض ہو گئے۔ اُن کا خفیہ مقصد قومی شاہراہ 1اے کو کاٹنا تھا، جو سری نگر کو لیہ سے جوڑتی ہے — یعنی بھارت کی رگِ جاں۔ لیکن وہ قوم کے عزم کو کمزور سمجھنے کی بھول کر بیٹھے۔

بھارت نے "آپریشن وجے" کے تحت ایک منظم، باہمت اور عزم سے بھرپور کارروائی کا آغاز کیا۔ ہماری افواج نے دو ماہ سے زیادہ عرصے تک انتہائی مشکل اور دشوار گزار علاقوں میں انچ انچ لڑائی لڑی، یہاں تک کہ ہر درانداز کو نکال باہر کیا گیا اور تمام چوکیاں دوبارہ بھارت کے قبضے میں آ گئیں۔

کرگل وجے دیوس محض ایک دن کی یاد نہیں، بلکہ اُن عظیم قربانیوں کی وراثت کو سلام پیش کرنے کا ایک عہد ہے۔ یہ ایک پکار ہے کہ ہم اُس جُرات اور ایثار کے جذبے کو زندہ رکھیں جو ہماری آزادی کی محافظ ہے۔

آج، جب ہم 1999 کے ہیروز کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں، تو ایک لازوال سچائی کو دوبارہ دہراتے ہیں:
"
بھارت کی وحدت اور خودمختاری ہمیشہ ناقابلِ تسخیر رہے گی۔"

پس منظر: کرگل جنگ اور بھارت کا ردعمل

1999 کی گرمیوں میں جب پورا بھارت شدید گرمی سے نبرد آزما تھا، ایک الگ ہی جنگ ہمالیہ کی برف پوش بلندیوں پر لڑی جا رہی تھی۔ یہ نہ کسی میدان میں ہوئی، نہ کسی صحرائی وسعت میں — بلکہ ایسی بلند و بالا اور نوکیلی چوٹیوں پر جہاں آکسیجن کم، درجہ حرارت بے رحم، اور ہر قدم خون کی قربانی سے مشروط تھا۔

یہ کرگل جنگ تھی — محض ایک عسکری کارروائی نہیں بلکہ ایمان، ثابت قدمی اور عظیم قربانیوں کا امتحان۔

بلند پہاڑی علاقوں میں غیر معمولی نقل و حرکت کی ابتدائی سرگوشیاں جلد ہی ایک خطرناک حقیقت میں بدل گئیں۔ بھارتی گشتی دستے جب بٹالک، دراس اور ککسر جیسے دشوار گزار علاقوں میں گشت پر تھے، تو انہوں نے بھارتی حدود میں گھسے ہوئے دراندازوں کو دیکھا جو گہرائی میں مورچے بنائے بیٹھے تھے۔ یہ عام عسکریت پسند نہیں تھے — بلکہ مکمل طور پر لیس پاکستانی فوجی تھے جو سردیوں میں برفانی چوٹیاں عبور کر کے بھارتی حدود میں داخل ہو چکے تھے، اور اُن کا مقصد سری نگر کو لیہ سے جوڑنے والی اہم شاہراہ کو منقطع کرنا تھا۔

یہ سب لاہور اعلامیے کے چند ہی ہفتوں بعد ہوا — ایک ایسا اعلانِ امن جسے اس چالاک دراندازی نے تار تار کر دیا۔

بھارت کا ردعمل پُرامن لیکن پُرعزم تھا۔ یہ بدلے کا نہیں، بلکہ ملکی سالمیت کی بحالی کا عزم تھا۔ اس آپریشن میں نہ تیز رفتار پیش قدمی تھی، نہ کھلے میدان — بلکہ ان پہاڑی چوٹیوں کو انچ انچ واپس لینے کا جہاد تھا۔ وہ جوان، جن کی عمریں بمشکل بیس برس تھیں، رات کی تاریکی میں بندوقیں تھامے عمودی چٹانوں پر چڑھتے، جانتے ہوئے کہ ہر قدم دشمن کی گولیوں کی زد میں ہے۔

ہر چڑھائی، ہر مورچہ، ہر چوٹی — ایک فتح، ایک مزاحمت اور ایک قومی غیرت کا مظہر بن گئی۔

کرگل جنگ کے دوران ٹولولنگ، ٹائیگر ہِل اور پوائنٹ 4875 جیسے نام صرف جغرافیائی مقامات نہ رہے، بلکہ جنگی نعرے اور قومی فخر کی علامتیں بن گئے۔

ٹولولنگ کی بلندیوں پر میجر راجیش ادھیکاری نے شدید دشمن فائرنگ کے باوجود اپنی ٹکڑی کی قیادت کی، اور شدید زخمی ہونے کے باوجود پیچھے ہٹنے سے انکار کیا۔
ٹائیگر ہل پر ہمارے جوانوں نے رات کی تاریکی میں تقریباً ناممکن بلندیوں کو عبور کرتے ہوئے دشمن کو حیران کن حملے میں پسپا کر کے چوٹی کو دوبارہ حاصل کیا — ایک جرات مندانہ کارروائی جس نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔

پوائنٹ 4875 پر کیپٹن وکرم بترا نے بے مثال جُرات کا مظاہرہ کیا اور اپنی مشہور زمانہ الفاظ"یہ دل مانگے مور"کے ساتھ تاریخ میں اپنا نام ہمیشہ کے لیے رقم کر گئے۔ اسی معرکے میں وہ مادرِ وطن پر قربان ہو گئے۔

ان کے ساتھ ساتھ کیپٹن انوج نیّر، گرینیڈیئر یوگندر سنگھ یادو، رائفل مین سنجے کمار اور بے شمار ایسے جانباز سپاہی بھی صفِ اول میں کھڑے تھے، جن کی بے خوفی اور قربانی بھارت کے لیے ایک ناقابلِ تسخیر ڈھال بن گئی۔

یہ وہ جوان تھے جنہوں نے نہ صرف گولیاں برداشت کیں بلکہ قدرت کے سخت موسم، ہڈیوں کو جھنجھوڑ دینے والی سرد ہوائیں، صفر سے نیچے درجہ حرارت، اور ہر سانس کے ساتھ کم ہوتا ہوا آکسیجن کا سامنا بھی کیا۔ پھر بھی ان کے گھر والوں کو بھیجے گئے خطوط میں خوف نہیں، صرف فرض کی بات تھی۔ کسی نے گھر کی بنی ہوئی روٹی کی یاد دلائی، کسی نے جلد واپسی کا وعدہ کیا، تو کئی نے بچوں کو محنت سے پڑھائی کرنے کی نصیحت دی۔
بہت سے کبھی واپس نہ آئے۔ ان کی کمی ان گھروں میں محسوس کی گئی جہاں مائیں چراغ جلائے رکھتی تھیں، بیوائیں تصویریں سنبھال کر رکھتی تھیں، اور بچے کھیل میں اپنے والدوں کی وردیاں پہنتے تھے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ جدائی دائمی ہے۔

جولائی کے آخر تک، کئی ہفتوں کی بے مثال لڑائی کے بعد، بھارت نے لائن آف کنٹرول کو عبور کیے بغیر تمام قابض چوکیاں واپس لے لیں۔ اس سنجیدہ ضبطِ جذبات نے نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کی بلکہ بھارت کو دنیا بھر میں عزت و وقار بھی بخشا۔
قیمت بھاری تھی — 545 شہداء، ہزاروں زخمی، مگر قوم کا عزم اور بھی مضبوط ہوا۔ ہر وہ نام جو آج ڈراس میں کرگل جنگ کے یادگار دیواروں پر کندہ ہے، اُس عظیم قربانی اور فخر کی یاد دہانی ہے۔

کرگل صرف ایک فوجی فتح نہیں تھا، بلکہ ایک ایسا لمحہ تھا جس نے حب الوطنی کی تعریف بدل دی۔ اس نے بھارتی سپاہی کو گمنامی سے نکال کر ہر شہری کے دل میں بٹھا دیا۔
یہ یاد دلاتا ہے کہ آزادی کی حفاظت وہی کرتے ہیں جو کچھ نہیں مانگتے بس خدمت کا موقع چاہیں۔

آج، جب ڈراس میں کرگل وجے دیوس پر ہر شیپور بجاتا ہے، جب ہر پرچم ان ویران پہاڑوں پر لہراتا ہے، تو اس جنگ کی گونج سنائی دیتی ہے — وہ جنگ جس نے نہ صرف زمین کو واپس لیا بلکہ جُرات، عزت، اور ایک آزاد قوم اور اس کے محافظوں کے ناقابلِ شکست بندھن کو بھی دوبارہ زندہ کیا۔

کرگل کے ہیروز: بہادری کو سلام

کرگل جنگ ایک ایسی داستان ہے جس میں بہادری، قربانی اور غیر متزلزل عزم کی جھلک ملتی ہے۔ ہر اونچائی جو دوبارہ حاصل کی گئی، غیر معمولی جرأت کے مظاہروں کا نتیجہ تھی۔ قوم نے ان جانبازوں کو اپنے اعلیٰ ترین فوجی اعزازات سے نوازا۔

جنگ کے دوران چار سپاہیوں کو بھارت کا سب سے بڑا بہادری کا اعزاز، پرم ویر چکر دیا گیا۔ نو سپاہیوں کو مہا ویر چکر اور پچپن کو ویر چکر سے نوازا گیا۔ ایک سپاہی کو سروتم یدھ سیوا میڈل دیا گیا، جبکہ چھ کو اُتم یدھ سیوا میڈل اور آٹھ کو یدھ سیوا میڈل سے نوازا گیا۔ سینا میڈل تراسی اہلکاروں کو دیا گیا، اور چوبیس کو وائیو سینا میڈل سے نوازا گیا۔ یہ اعزازات اس جنگ میں دکھائی گئی غیر معمولی بہادری اور شاندار خدمت کا ثبوت ہیں۔

گرینیڈیئر یوگندر سنگھ یادو – پرم ویر چکر، ۱۸ گرینیڈیئرز۔

گرینیڈیئر یوگندر سنگھ یادو، ۱۸ گرینیڈیئرز کے پلاٹون کا حصہ تھے جنہیں دراس میں واقع ٹائیگر ہل کو فتح کرنے کا مشن سونپا گیا تھا۔ تین جولائی ۱۹۹۹ کو شدید گولہ باری کے دوران، انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ ایک برفانی پہاڑی پر چڑھائی شروع کی۔ انہوں نے دشمن کا پہلا بنکر تباہ کیا، جس سے ان کی پلاٹون کو آگے بڑھنے کا موقع ملا۔ کندھے اور پیٹ میں گولیاں لگنے کے باوجود، وہ پیچھے نہیں ہٹے۔ انہوں نے ایک اور دشمن بنکر کو تباہ کیا اور تین دشمن فوجیوں کو ہلاک کیا۔ ان کی جرأت نے ان کے ساتھیوں کو ٹائیگر ہل پر قبضہ کرنے کے لیے حوصلہ دیا۔ اس بے مثال بہادری کے کارنامے پر انہیں پرم ویر چکر سے نوازا گیا۔

رائفل مین سنجے کمار – پرم ویر چکر، ۱۳ جے اے کے رائفلز۔

رائفل مین سنجے کمار، ۱۳ جے اے کے رائفلز سے تعلق رکھتے تھے اور وہ ان ابتدائی دستوں میں شامل تھے جنہیں چار جولائی ۱۹۹۹ کو مشکوہ وادی میں ایک ہموار چوٹی پر قبضہ کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ چوٹی پر پہنچتے ہی وہ دشمن کے ایک بنکر سے شدید فائرنگ کی زد میں آ گئے۔ اس کے باوجود، انہوں نے دشمن کے ساتھ آمنے سامنے کی لڑائی لڑی اور تین دراندازوں کو ہلاک کر دیا، حالانکہ وہ خود شدید زخمی ہو چکے تھے۔ دشمن گھبراہٹ کا شکار ہو کر ایک مشین گن چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ سنجے کمار نے یہ ہتھیار اٹھایا اور پیچھے ہٹتے دشمنوں پر فائر کھول دیا، جس سے مزید کئی دشمن ہلاک ہوئے۔ ان کی بے خوف کارروائی نے ان کے ساتھیوں کو حوصلہ دیا اور وہ ہدف پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ان کی غیر معمولی بہادری پر انہیں پرم ویر چکر سے نوازا گیا۔

کیپٹن وکرم بترا – پرم ویر چکر (بعد از شہادت)، ۱۳ جے اے کے رائفلز۔

کیپٹن وکرم بترا، ۱۳ جے اے کے رائفلز سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے اپنی قیادت میں پوائنٹ ۵۱۴۰ پر قبضہ کیا۔ ایک نہایت جرأت مندانہ حملے میں انہوں نے ہاتھوں سے لڑتے ہوئے چار دشمن سپاہیوں کو ہلاک کیا۔ فتح کے بعد انہوں نے ہیڈکوارٹر کو اپنی کامیابی کی اطلاع اپنے مشہور الفاظوں میں دی: ’’یہ دل مانگے مور‘‘ – جو کرگل کے جذبے کی علامت بن گئے۔

سات جولائی ۱۹۹۹ کو ان کی کمپنی کو پوائنٹ ۴۸۷۵ پر قبضہ کرنے کا حکم ملا۔ شدید لڑائی کے دوران انہوں نے پانچ دشمن سپاہیوں کو ہلاک کیا۔ وہ خود شدید زخمی ہو چکے تھے، مگر اس کے باوجود وہ اپنے جوانوں کی قیادت کرتے رہے، یہاں تک کہ مشن مکمل ہو گیا۔ انہوں نے فتح یقینی بنانے کے بعد جامِ شہادت نوش کیا۔ ان کی حوصلہ افزا قیادت اور عظیم قربانی پر انہیں بعد از شہادت پرم ویر چکر سے نوازا گیا۔

کیپٹن منوج کمار پانڈے – پرم ویر چکر (بعد از شہادت)، ۱۱ گورکھا رائفلز۔

کیپٹن منوج کمار پانڈے، ۱۱ گورکھا رائفلز کے افسر تھے۔ تین جولائی ۱۹۹۹ کو انہیں بٹالک سیکٹر میں خالوبر رج کو دشمن سے صاف کرنے کا حکم دیا گیا۔ جیسے ہی ان کی کمپنی نے پیش قدمی کی، وہ شدید دشمن فائرنگ کی زد میں آ گئی۔ کیپٹن منوج نے غیر معمولی حوصلے کے ساتھ حملہ کیا، دو دشمن بنکر تباہ کیے اور چار سپاہیوں کو ہلاک کیا۔ کندھے اور ٹانگوں میں زخمی ہونے کے باوجود، وہ مسلسل آگے بڑھتے رہے اور مزید دشمن ٹھکانوں کو ختم کیا۔ دشمن کے خلاف اس فیصلہ کن لڑائی میں وہ شدید زخمی ہوئے اور جامِ شہادت نوش کیا۔ ان کی بے مثال جرأت اور قربانی پر انہیں بعد از شہادت پرم ویر چکر سے نوازا گیا۔

کیپٹن انوج نیّر – مہا ویر چکر (بعد از شہادت)، ۱۷ جاٹ۔

کرگل کی بلندیوں کو سر کرنے والے نوجوان افسروں میں کیپٹن انوج نیّر خاموش حوصلے کی جیتی جاگتی مثال تھے۔ چھ جولائی ۱۹۹۹ کو، ٹولولنگ کمپلیکس میں واقع پمپل ٹو پر حملے کے دوران، ان کی کمپنی شدید دشمن فائرنگ کی زد میں آ گئی۔ جانی نقصان بڑھتا جا رہا تھا، اور کسی بھی لمحے کی ہچکچاہٹ مزید جانیں لے سکتی تھی۔

کیپٹن نیّر نے صورتِ حال کا جائزہ لیا اور غیر متزلزل عزم کے ساتھ میدان میں اترے۔ انہوں نے فرنٹ لائن سے قیادت کرتے ہوئے ذاتی طور پر تین دشمن بنکر دستی بموں اور قریب سے لڑنے کی مہارت سے تباہ کیے۔ جب مشین گن کی گولیاں ان کے اردگرد چٹانوں پر برس رہی تھیں، وہ ایک چوتھے بنکر کی طرف بڑھتے رہے۔ اس آخری دلیرانہ قدم کے دوران، دشمن کا ایک راکٹ پروپیلڈ گرنیڈ ان سے آ ٹکرایا، اور وہ موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ ان کی جرأت نے دشمن کی دفاعی لائن توڑ دی اور ان کے ساتھیوں کو ہدف پر قبضہ کرنے کا موقع ملا۔ بعد میں ان کی والدہ نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ کبھی جھگڑا نہیں کرتے تھے، مگر ہمیشہ دوسروں کی حفاظت کرتے تھے۔ کرگل میں انہوں نے اسی جذبے کو حقیقت میں بدل دیا، اپنے ساتھیوں کو اپنی جان سے بچایا۔

میجر راجیش ادھیکاری – مہا ویر چکر (بعد از شہادت)، ۱۸ گرینیڈیئرز۔

میجر راجیش ادھیکاری کی داستان غیر متزلزل عزم و حوصلے کی روشن مثال ہے۔ یکم جون ۱۹۹۹ کو، ٹولولنگ پر حملے کے دوران، ان کی کمپنی دشمن کی توپوں اور ہلکے ہتھیاروں کی شدید فائرنگ کی زد میں آ گئی۔ پیش قدمی انتہائی سست اور جانی نقصان بہت زیادہ تھا۔

ایسے نازک موقع پر، میجر ادھیکاری نے کھلے میدان میں ایک جرأت مندانہ چال چلی اور دشمن کی فائرنگ کو اپنی طرف موڑ کر اپنے جوانوں کو محفوظ راستہ فراہم کیا۔ انہوں نے پورے اطمینان اور مہارت سے ایک اہم دشمن بنکر کو غیر مؤثر بنایا، مگر اسی دوران دشمن کی فائرنگ کا ایک شدید وار انہیں جاں بحق کر گیا۔ ان کی قربانی نے ان کے سپاہیوں کو حوصلہ دیا، جنہوں نے تھوڑی ہی دیر بعد اُس مقام پر کامیابی حاصل کر لی۔

لیفٹیننٹ کیشنگ کلیفورڈننگرم مہا ویر چکر (بعد از شہادت)، ۱۲ جے اے کے لائٹ انفنٹری۔

صرف ۲۴ سال کی عمر میں، میگھالیہ کے لیفٹیننٹ کیشنگ کلیفورڈ ننگرم نے ثابت کر دیا کہ بہادری کا تعلق رینک یا سروس کے سالوں (برسوں) سے نہیں ہوتا۔ بٹالک سیکٹر میں واقع پوائنٹ ۴۸۱۲ کی تقریباً عمودی ڈھلوانوں پر، انہوں نے اپنی فوجیوں کی قیادت کی جو دشمن کے مضبوط ٹھکانوں کے خلاف لڑ رہے تھے۔

شدید فائرنگ کی زد میں آ کر بھی، کلیفورڈ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے آگے بڑھے۔ انہوں نے بے عیب نشانے بازی سے دستی بم پھینکے اور ایک کے بعد ایک بنکر کو خاموش کیا۔ زخمی ہونے کے باوجود، وہ انخلا سے انکار کرتے رہے، اور مشن مکمل کرنے کے لیے پرعزم رہے۔ پیٹ میں گولی لگنے سے ان کی جان گئی، مگر اس سے پہلے انہوں نے اپنے ساتھیوں کو چوٹی پر چڑھ کر فتح حاصل کرنے کی تحریک دی۔

بعد میں ان کے والد نے کلیفورڈ کے الفاظ یاد کرتے ہوئے کہا: ’’اگر میں مرتا ہوں، تو کم از کم ایک سپاہی کے طور پر۔‘‘ آج ان کا نام شلونگ اور پورے شمال مشرق میں ایک افسانہ ہے، پہاڑوں کا وہ بیٹا جس کے خون نے کرگل کی برف کو مقدس کر دیا۔

میجر وِیوک گپتا – مہا ویر چکر (بعد از شہادت)، ۲ راجپوتانا رائفلز۔

ٹولولنگ کا قبضہ کرگل جنگ کا ایک فیصلہ کن لمحہ تھا، اور میجر ویویک گپتا کی قیادت نے اسے ممکن بنایا۔ تیرہ جون ۱۹۹۹ کو، ان کی کمپنی نے رات کے اندھیرے میں ایک حملہ شروع کیا۔ منصوبہ نہایت محتاط تھا، چڑھائی دشوار گزار تھی، اور صبح ہوتے ہی انہیں گولیوں کی تیز بارش کا سامنا کرنا پڑا۔

زخمی ہونے کے باوجود، ویویک نے ہمت نہیں ہاری اور ایک اہم دشمن پوزیشن کو غیر مؤثر بنایا جو پیش قدمی کو روک رہی تھی۔ دشمن کی ایک اور گولہ باری نے انہیں شدید زخمی کر دیا، مگر اس سے پہلے انہوں نے ایک راستہ بنایا جسے ان کے سپاہیوں نے استعمال کرتے ہوئے دشمن کی لائن توڑ کر چوٹی پر قبضہ کر لیا۔

کیپٹن وجینت تھاپر – ویر چکر (بعد از شہادت)، ۲ راجپوتانا رائفلز

صرف ۲۲ سال کی عمر میں، کیپٹن وجینت تھاپر بہادری اور ہمدردی کی زندہ مثال تھے۔ ۲ راجپوتانا رائفلز میں کمیشن حاصل کرنے کے بعد، وہ آپریشن وِجے کے مرکز میں شامل ہو گئے۔ جون ۱۹۹۹ میں، ان کے بٹالین نے ڈراس سیکٹر میں واقع کْنول، جو ایک سخت محفوظ چوٹی تھی، پر حملہ کیا۔ فرنٹ لائن سے قیادت کرتے ہوئے، وجینت نے اپنے جوانوں کو دشمن کی بے انتہا گولہ باری کے باوجود حوصلہ دیا اور قریب سے لڑائی میں کئی بنکر تباہ کیے۔ زخمی ہونے کے باوجود، وہ آگے بڑھتے رہے، مگر ہدف سے چند میٹر کے فاصلے پر دشمن کے سنائپر کی گولی لگنے سے وہ شہید ہو گئے۔ ان کی بہادری نے فیصلہ کن فتح کا راستہ ہموار کیا۔

ان کی کہانی کو خاص بنانے والا وہ خط ہے جو انہوں نے اپنے خاندان کے لیے لکھا تھا، جس میں انہوں نے اپنے مقدر کو قبول کرتے ہوئے لکھا: ’’جب آپ کو یہ خط ملے گا، تو میں آسمان سے آپ سب کو دیکھ رہا ہوں گا۔ مجھے کوئی پچھتاوا نہیں۔‘‘ انہوں نے اپنے اہل خانہ کو زندگی کو بھرپور اور فخر کے ساتھ جینے کی تلقین کی۔ ان کے الفاظ اور قربانی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہیں اور ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ حقیقی بہادری صرف جنگ میں نہیں بلکہ فرض اور تقدیر کو وقار کے ساتھ قبول کرنے میں بھی ناپی جاتی ہے۔

 

 

26ویں کرگل وجے دیوس سے پہلے خصوصی اقدامات

جیسے جیسے قوم کرگل وجے دوس کی ۲۶ویں سالگرہ منانے کی تیاری کر رہی ہے، بھارتی فوج نے ایسے منفرد اور پُراثر اقدامات کیے ہیں جو صرف رسمی تقاریب تک محدود نہیں۔ ان سرگرمیوں کا مقصد اُن شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرنا ہے جنہوں نے مادرِ وطن کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، اُن کی جرأت کو یاد رکھنا اور عوام و افواج کے درمیان رشتۂ اعتبار کو مزید مضبوط کرنا ہے۔ ہر قدم میں یاد، عزت اور عزم کی جھلک ملتی ہے۔

ٹولولنگ پر خراج تحسین: یاد کا سفر

۱۱ جون ۲۰۲۵ کو بھارتی فوج کے ’’فوراے ور اِن آپریشنز ڈویژن‘‘ نے کرگل جنگ کے مشہور محاذ، ٹولولنگ چوٹی، پر ایک یادگاری مہم کا انعقاد کیا۔ یہ مہم ڈراس میں واقع کرگل وار میموریل سے شروع ہوئی اور اُن تاریخی راستوں کو عبور کیا گیا جن پر ہمارے جانباز سپاہیوں نے دشمن سے دوبدو لڑائی کے بعد فتح حاصل کی تھی۔

اس مہم میں ۳۰ منتخب فوجی شامل تھے، جو اُن یونٹس سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے ٹولولنگ کی لڑائی میں براہِ راست حصہ لیا تھا۔ انہوں نے خطرناک اور دشوار گزار پہاڑی راستے طے کیے اور چوٹی پر پہنچ کر ترنگا لہرایا۔ ان کی موجودگی ان سپاہیوں کے لیے ایک زندہ خراجِ تحسین تھی جنہوں نے مادرِ وطن کے لیے اپنی جان قربان کی۔

بھارتی فضائیہ نے بھی اس یادگاری مہم میں شمولیت اختیار کی، جس میں افسران اور فضائی اہلکاروں نے چڑھائی میں حصہ لیا۔ یہ اشتراک، آپریشن وِجے کے دوران نظر آنے والے مشترکہ عسکری ہم آہنگی (جوائنٹ مین شپ) کی نمائندگی کرتا ہے، جو آج بھی بھارت کی دفاعی حکمت عملی کی بنیاد ہے۔

یہ مہم صرف ایک مہم جوئی یا مشق نہیں بلکہ ایک خاموش دعا، ایک پرخلوص سلام، اور ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہونے والی قربانی کی داستان ہے — جو آنے والے وقتوں میں نوجوانوں کے لیے حوصلے اور فرض شناسی کی مثال بنے گی۔

ماؤنٹین ٹیرین بائیسکل مہم  (پہاڑی علاقوں کی سائیکل مہم): طاقت اور عوامی رابطہ (آؤٹ ریچ)

بھارتی فوج کی ’’پہاڑی علاقوں کی سائیکل مہم (ماؤنٹین ٹیرین بائیسکل مہم )، جو ’’فور اے ور اِن آپریشنز ڈویژن‘‘ کے زیرِ اہتمام منعقد کی گئی، ۲۵ جون ۲۰۲۵ کو سیاچن بیس کیمپ سے شروع ہوئی اور ۱۲ جولائی ۲۰۲۵ کو ڈراس میں واقع کرگل وار میموریل پر اختتام پذیر ہوئی۔ اس مہم کے دوران ۶۸۰ کلومیٹر کے کٹھن اور دشوار گزار راستے طے کیے گئے، جن میں دنیا کے کچھ بلند اور مشکل ترین درّے شامل تھے، جیسے کہ خاردونگ لا، فوتو لا اور ہمبٹنگ لا۔

۲۰ فوجیوں پر مشتمل اس ٹیم نے نہ صرف اپنی جسمانی قوت اور ذہنی استقلال کا مظاہرہ کیا، بلکہ اس مہم کا ایک گہرا مقصد بھی تھا — مقامی کمیونٹی اور نوجوانوں سے براہِ راست رابطہ قائم کرنا۔ راستے میں، ٹیم نے ۱۱ سرکاری اسکولوں اور لداخ یونیورسٹی کے ۱۱۰۰ طلباء سے ملاقات کی۔ انہوں نے طلباء کو کرگل جنگ کی حقیقی داستانیں سنائیں اور ان عظیم قربانیوں پر روشنی ڈالی جو ہمارے سپاہیوں نے ملک کی خودمختاری کے تحفظ کے لیے پیش کیں۔

یہ مہم نہ صرف قوت، عزم اور حوصلے کی علامت تھی بلکہ ایک اہم سماجی پیغام بھی لے کر آئی — کہ فوج اور عوام کے درمیان تعلق مضبوط ہو، اور نوجوان نسل کو اپنے قومی ہیروز کی قربانیوں سے روشناس کرایا جائے۔

اس سائیکل مہم کے دوران فوجی جوانوں نے لیہ اور سیلمو میں واقع پہلے اور دوسرے(فرسٹ اینڈ سیکنڈ) لداخ این سی سی بٹالین کے کیڈیٹس سے بھی ملاقات کی۔ ان سیشنز کا مقصد نیشنل کیڈٹ کور کے اُس اہم کردار کو اجاگر کرنا تھا جو وہ نوجوانوں کو نظم و ضبط، حب الوطنی اور خدمت کے جذبے سے سرشار شہری بنانے میں ادا کرتی ہے۔

یہ نشستیں نوجوان ذہنوں کے لیے نہایت متاثرکن ثابت ہوئیں، جنہوں نے انسپائریشن لیتے ہوئے قوم کی خدمت کے عزم کا اظہار کیا۔ راستے بھر عام شہریوں اور فوجی یونٹس کی جانب سے سائیکل سواروں کا جوش و خروش سے استقبال کیا گیا، انہیں خوش آمدید کہا گیا اور تازگی بخشنے والی اشیاء پیش کی گئیں۔ یہ عوامی جوش و محبت، ملک کی مسلح افواج پر عوام کے اعتماد اور احترام کا مظہر تھا۔

گن ہل مہم: آرٹلری کو خراجِ عقیدت

۷ جولائی ۲۰۲۵ کو بھارتی فوج نے ایک تاریخی مہم کے تحت گن ہل (پوائنٹ 5140) کی جانب پیش قدمی کی — وہ بلند اور اسٹریٹیجک چوٹی جسے ۱۹۹۹ کی کرگل جنگ کے دوران دوبارہ حاصل کیا گیا تھا۔ ڈراس سیکٹر میں واقع گن ہل کی بازیابی نے جنگ میں ایک فیصلہ کن موڑ پیدا کیا اور بھارتی فوج کی پیشہ ورانہ مہارت اور غیر متزلزل عزم کا مظاہرہ کیا۔

اس مہم میں ۸۷ فوجیوں نے حصہ لیا، جن میں توپ خانے (آرٹلری) کے ۱۰ مختلف یونٹس سے تعلق رکھنے والے ۲۰ اہلکار بھی شامل تھے — وہی یونٹس جنہوں نے اصل لڑائی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

۲۰۲۳ میں اس چوٹی کو باضابطہ طور پر ’’گن ہل‘‘ کا نام دیا گیا تاکہ کرگل جنگ میں آرٹلری رجمنٹس کی غیر معمولی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا جا سکے۔

گن ہل مہم کو مزید مؤثر اور جذباتی بنانے کے لیے اُن تجربہ کار فوجیوں کو بھی شامل کیا گیا جنہوں نے کرگل جنگ کے دوران اسی سیکٹر میں لڑائی لڑی تھی۔ کرنل (اس وقت کیپٹن) راجیش آدھو اور صوبیدار (اس وقت لانس نائیک) کیول سنگھ، جنہیں سینا میڈل سے نوازا گیا تھا، نے جنگ کے دوران اپنے حقیقی تجربات شریک کیے۔ ان کی زبانی بیان کردہ داستانوں نے مہم میں شامل جوانوں کے دلوں میں فخر اور جذبۂ حب الوطنی کو مزید اجاگر کیا۔

یہ مہم اس پیغام کو مضبوطی سے اُجاگر کرتی ہے کہ کرگل کے ہیروز کی یادیں نہ صرف زندہ رہیں گی بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے باعثِ افتخار بھی رہیں گی۔

سپیشل آؤٹ ریچ ڈرائیو (خصوصی عوامی رابطہ مہم ): شہداء (ہیروز)کے خاندانوں سے دوبارہ جُڑنے کی انوکھی پہل

بھارتی فوج نے کرگل جنگ کے ۵۴۵ شہداء کے خاندانوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک غیر معمولی اور اولین نوعیت کی ’’خصوصی عوامی رابطہ مہم‘‘ کا آغاز کیا ہے۔ ان شہداء میں ۵۳۷ کا تعلق بھارتی فوج سے، پانچ کا بھارتی فضائیہ سے، ایک کا بارڈر سیکورٹی فورس سے اور دو کا سولین طبقے سے تھا۔

یہ مہم یکم جون ۲۰۲۵ کو شروع ہوئی، جس کے تحت ۳۷ ٹیمیں کرگل سے روانہ ہوئیں تاکہ ملک بھر کی ۲۵ ریاستوں، دو یونین ٹریٹریز اور حتیٰ کہ نیپال تک شہداء کے اہل خانہ کے گھروں تک پہنچا جا سکے۔

ہر ملاقات شکریہ، احترام اور خلوص سے بھرپور تھی۔ ٹیموں نے خاندانوں کو یادگاری تحائف، ستائشی خطوط اور حکومت کی جانب سے دی جانے والی سہولیات کی تفصیلات پیش کیں۔ ساتھ ہی، اگر کسی خاندان کو کسی معاملے میں مدد درکار تھی تو اُسے سننے اور حل کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔

رسمیات سے ہٹ کر، یہ رابطہ دلوں کو چھو لینے والا اور جذبات سے لبریز تجربہ رہا۔ کئی خاندانوں نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ ۲۶ سال گزر جانے کے بعد بھی اُن کے پیاروں کو یاد رکھا گیا۔ اس مہم نے ان کی یادوں کو پھر سے تازہ کر دیا اور اُن کے دلوں میں فخر کو مزید مضبوط کیا۔ کچھ خاندانوں نے اپنے شہداء کی ذاتی اشیاء بھی ٹیموں کو بطور یادگار فراہم کیں، جو اب کرگل وار میموریل پر محفوظ کی جائیں گی تاکہ آنے والی نسلیں ان قربانیوں کو جان سکیں۔

یہ پروگرام ۲۶ جولائی ۲۰۲۵ کو ڈراس میں منعقد ہونے والی قومی تقریب پر اپنے اختتام کو پہنچے گا، جس میں معزز مہمانان، حاضر سروس فوجی، سابق فوجی اور شہداء کے اہل خانہ شریک ہوں گے۔

یہ پہل صرف ایک تقریب نہیں بلکہ قوم اور مسلح افواج کے درمیان قائم اُس لازوال رشتے کا زندہ ثبوت ہے جو قربانی، عزت اور وفاداری پر قائم ہے۔

کرگل کے جذبے کو آگے بڑھانا

کرگل کی فتح محض ایک فوجی کامیابی نہیں تھی بلکہ دنیا کو یہ پیغام تھا کہ بھارت ہر صورت اپنی خودمختاری کا تحفظ یقینی بنائے گا۔ یہ جذبہ آج بھی ملک کی سلامتی کی پالیسی کی رہنمائی کرتا ہے۔ بھارت طویل عرصے کی صبر و تحمل کی پوزیشن سے نکل کر اب دہشت گردی کی حمایت کرنے والوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی واضح حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔

یہ عزم ۷ مئی ۲۰۲۵ کو شروع کی گئی آپریشن سندور میں واضح نظر آیا، جو پہلگام دہشت گرد حملے کے ردعمل میں شروع کیا گیا تھا جس میں ۲۶ بے گناہ جانیں ضائع ہوئیں۔ اس مشن میں تینوں مسلح افواج نے بھرپور، پیشہ ورانہ اور مقصدی انداز میں تعاون کیا۔ درست اطلاعات کی بنیاد پر، مسلح افواج نے پاکستان اور پاکستان زیر انتظام جموں و کشمیر میں نو دہشت گرد کیمپوں کو نشانہ بنایا۔ جدید ڈرونز، لوئٹرنگ میونیشنز اور کئی سطحوں پر مشتمل فضائی دفاعی نظام استعمال کیے گئے تاکہ بین الاقوامی سرحدوں کو عبور کیے بغیر اہم خطرات کو ختم کیا جا سکے۔

ان فضائی حملوں نے جیش محمد اور لشکر طیبہ کے اہم کمانڈ سینٹرز کو تباہ کیا اور ۱۰۰ سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کیا، جن میں آئی سی-۸۱۴ جہاز ہائی جیکنگ اور پلوامہ حملے سے منسلک دہشت گرد بھی شامل تھے۔

جب پاکستان نے ۷ اور ۸ مئی کو ڈرون اور میزائل حملوں کے ذریعے جوابی کارروائی کی کوشش کی، تو بھارت کے مربوط فضائی دفاعی نیٹ ورک نے ہر حملے کو ناکام بنا دیا۔ اس سے بھارت کے جدید نیٹ سینٹرک وارفیئر سسٹمز اور جدید اینٹی ڈرون صلاحیتوں کی مضبوطی کا ثبوت ملا۔

نتیجہ

یومِ کَرگل وِجے دیوس صرف ایک یادگار نہیں بلکہ اس غیر متزلزل حوصلے اور عظیم قربانی کی مقدس یاد دہانی ہے جس نے 1999 میں قوم کو فتح دلائی۔ یہ اُن بہادر شہداء کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے جنہوں نے لداخ کی برفانی چوٹیوں پر ناممکن حالات کا سامنا کرتے ہوئے لڑائی کی، جنہوں نے اپنا آج قربان کر دیا تاکہ بھارت فخر سے سر اٹھائے اور آزاد رہے۔ ان کی دلیری اور شان کی کہانیاں ہمیشہ قوم کے دلوں میں محفوظ رہیں گی، اور آنے والی نسلوں کو خواب دیکھنے، جُرات کرنے اور خدمت کرنے کی ترغیب دیں گی۔

کَرگل کے اسباق نے بھارت کے سیکورٹی کے نقطۂ نظر کو تبدیل کیا، جس سے ایک مضبوط، چالاک اور خود کفیل دفاعی حکمت عملی کا آغاز ہوا۔ ساختی اصلاحات، چیف آف ڈیفنس اسٹاف کے قیام، ملکی دفاعی صنعت کی ترقی اور جدید فوجی ٹیکنالوجی کی بدولت، ملک نے پُرعزم انداز میں ترقی کی راہ اپنائی۔ آج بھارت نہایت اعتماد کے ساتھ لڑائی کے لیے تیار ہے، اس کی افواج جدید صلاحیتوں سے لیس ہیں اور ہر انچ زمین کی حفاظت کے لیے پختہ ارادے کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔

 

 

کرگل کا جذبہ بھارت کے سرحد پار دہشت گردی کے خلاف واضح اور پختہ ردعمل میں بھی جھلکتا ہے۔ سرجیکل اسٹرائیکس، بالاکوٹ فضائی کارروائیاں، اور حالیہ آپریشن سندور نے ایک واضح پیغام دیا ہے: بھارت امن کا خواہاں ہے، لیکن اشتعال انگیزی پر فیصلہ کن کارروائی کرنے سے کبھی دریغ نہیں کرے گا۔

جب قوم ۲۶واں کرگل وِجئے دیوس منا رہی ہے، تو وہ بہادروں کی یاد کو خراج عقیدت پیش کرنے، اپنے دفاع کو مضبوط کرنے اور جمہوریہ کی وحدت و سلامتی کو برقرار رکھنے کا عہد دوبارہ کرتی ہے۔ ان کی قربانی آنے والی نسلوں کے لیے ہمیشہ روشنی کی مانند رہنمائی کا ذریعہ ہوگی۔

حوالہ جات:

پی آئی بی آرکائیوز

https://archive.pib.gov.in/archive/ArchiveSecondPhase/FEATURE/1999-FEATURES/PDF/FEA-1999-07-20_145.pdf

نیو انڈیا سماچار

https://newindiasamachar.pib.gov.in/WriteReadData/story/2022/Jul/S202207167790.pdf

پی آئی بی بیک گراؤنڈرس

https://www.pib.gov.in/PressNoteDetails.aspx?NoteId=154617&ModuleId=3

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2129453

وزارت دفاع:

https://bharatrannbhoomidarshan.gov.in/shaurya_gatha/details/2/kargil-war

 

پی ڈی ایف دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

***

UR-3582

(ش ح۔اس ک ۔ م ش )

(Backgrounder ID: 154957) Visitor Counter : 24
Read this release in: English , Hindi
Link mygov.in
National Portal Of India
STQC Certificate