Social Welfare
قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے تحت اعلیٰ تعلیم: بھارت کے تعلیمی منظرنامے کی نئی تشکیل
Posted On: 29 JUL 2025 10:43AM
اہم نکات
ودیا لکشمی اسکیم (2024) کے تحت 2,358 کروڑ روپے کے قرضے منظور کیے گئے، جس سے 8,379 طلبہ کو 860 ممتاز اداروں میں بغیر ضمانت کے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے ذریعے فائدہ پہنچا۔
آئی آئی ٹی کے بین الاقوامی کیمپس زنجبار، ابوظہبی، اور دبئی میں قائم کیے گئے، جبکہ غیر ملکی جامعات جیسے ڈیکن، وولونگونگ اور ساؤتھ ہیمپٹن نے بھارت میں اپنے کیمپس شروع کیے۔
سوائم پلیٹ فارم پر 5.15 کروڑ سے زائد اندراجات ہوئیں؛ ورچوئل لیبز کے تحت 900 سے زائد تجربہ گاہیں تیار ہوئیں؛ نیشنل ڈیجیٹل لائبریری آف انڈیا (این ڈی ایل آئی) میں 8 کروڑ سے زائد تعلیمی وسائل دستیاب ہیں،جو پورے ملک میں تعلیم، کریڈٹ ٹرانسفر، اور کثیر لسانی مطالعے کو فروغ دے رہے ہیں۔
پی ایم-اوشا اسکیم کے تحت 35 جامعات کو ہر ایک کو 100 کروڑ رروپےکی گرانٹ دی گئی تاکہ خودمختاری، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر، اور عالمی روابط کو فروغ دیا جا سکے،جو این ای پی 2020 کے معیاری تعلیم کے وژن کے عین مطابق ہے۔
بھارتی تعلیم کا نیا افق
قومی تعلیمی پالیسی 2020 بھارت کے اعلیٰ تعلیم کے منظرنامے کو ازسرنو تشکیل دینے کے سفر میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ پالیسی تعلیمی نظام میں ہمہ گیر تبدیلی کی علامت ہے، جو بھارت کو دنیا کے ممتاز اعلیٰ تعلیمی مراکز کی صف میں شامل کرنے کے وژن کے تحت تیار کی گئی ہے۔
رسائی، مساوات، معیار، افورڈیبیلٹی، اور احتساب جیسے رہنما اصولوں پر مبنی، این ای پی 2020 نہ صرف تعلیمی ڈھانچے بلکہ اس کے مواد کو بھی نئے انداز میں متعین کرنے کی کوشش ہے۔ اسکولی تعلیم میں جہاں بنیادوں کو مضبوط کرنے، نصاب کی تجدید، تشخیصی نظام میں تبدیلی، اور ہمہ جہتی ترقی پر زور دیا گیا ہے، وہیں اعلیٰ تعلیم میں لچکدار اور کثیر شعبہ جاتی تعلیم، ادارہ جاتی خودمختاری، معیاری تحقیق، اور عالمی انضمام کو ترجیح دی گئی ہے۔
خصوصاً اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے، قومی تعلیمی پالیسی ایک نظامی تبدیلی کی تجویز پیش کرتی ہے — جس کا مقصد سخت اور محدود شعبہ جاتی ڈھانچوں سے نکل کر لچکدار، طلبہ مرکز ماڈلز کی طرف جانا ہے؛ مواد پر مبنی روایتی تدریس سے ہٹ کر تنقیدی سوچ اور تحقیق پر مبنی سیکھنے کو فروغ دینا ہے؛ اور بکھری ہوئی نگرانی کے نظام کی جگہ ایک مربوط، بااختیار اور مؤثر طرز حکمرانی کو فروغ دینا ہے۔
قومی تعلیمی پالیسی کا جائزہ
قومی تعلیمی پالیسی کو 29 جولائی 2020 کو منظور کیا گیا — یہ گزشتہ 34 برسوں میں پہلی نئی تعلیمی پالیسی ہے۔
یہ پالیسی پانچ سالہ جامع مشاورت کے بعد تیار کی گئی، جس میں ماہرین تعلیم، پالیسی سازوں، اساتذہ، اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت شامل رہی، اور دو لاکھ سے زائد تجاویز موصول ہوئیں۔
ویژن اور مقصد
ایک ہمہ جہتی، سیکھنے پرمرکوز اور کثیر شعبہ جاتی نظامِ تعلیم کی تشکیل۔
21ویں صدی کی ضروریات سے ہم آہنگ تعلیم فراہم کرنا، جو بھارتی تہذیب و ثقافت کی جڑوں سے جڑی ہو۔معاشی ترقی، سماجی مساوات، اور قوم کی تعمیر کو فروغ دینا۔
اعلیٰ تعلیم میں اصلاحات
2035 تک 50 فیصد مجموعی داخلہ شرح (جی ای آر) کا ہدف مقرر۔
کثیر شعبہ جاتی تعلیم و تحقیق کی جامعات (ایم ای آریوز)اور نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن کا قیام۔
اکیڈمک بینک آف کریڈٹس، نیشنل کریڈٹ فریم ورک اور داخلے و اخراج کے متعدد اختیارات کے ذریعے لچکدار اور تاعمر سیکھنے کا نظام متعارف۔
تعلیمی شعبہ جاتی حدبندی کو ختم کر کے بھارتی علمی ورثے کو جدید تعلیم کے ساتھ مربوط کرنا۔
مربوط ضابطہ بندی، اساتذہ کی ترقی، اور ٹیکنالوجی پر مبنی تدریس کو فروغ دینا۔
رسائی، مساوات، اور شمولیت میں بہتری
قومی تعلیمی پالیسی 2020 کا ہدف ہے کہ 2035 تک مجموعی داخلہ شرح (جی ای آر) کو 50 فیصد تک پہنچایا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے حکومت زیادہ سے زیادہ اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرنے، پسماندہ طلبہ کی معاونت فراہم کرنے، آزاد اداروں کو کثیر شعبہ جاتی بنانے، اور دور دراز و آن لائن تعلیم کو فروغ دینے پر توجہ دے رہی ہے۔
2014-15 سے 2021-22 کے دوران اے آئی ایس ای کے مطابق تعلیمی اعداد و شمار کا جائزہ


سماجی طبقات کے لحاظ سے ترقی کا رجحان



شمولیت کو فروغ دینے کے اقدامات
وزیراعظم ودیا لکشمی اسکیم نومبر 2024 میں شروع کی گئی، جس کا مقصد بھارت کے 860 اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخل طلبہ کو بغیر ضمانت کے قرضے فراہم کر کے اعلیٰ تعلیم تک رسائی کو بڑھانا ہے۔ مالی سال 2024-25 سے 2030-31 تک ₹3,600 کروڑ کے بجٹ کے ساتھ، یہ اسکیم سالانہ 22 لاکھ سے زائد طلبہ کو فائدہ پہنچانے کے ساتھ اضافی 7 لاکھ طلبہ کی معاونت کرے گی، اور خاص طور پر شمولیت پر توجہ دے گی۔
اہم خصوصیات:
7.5 لاکھ روپے تک بغیر ضمانت کے قرضے، 75% کریڈٹ گارنٹی کے ساتھ۔
10 لاکھ روپے تک قرضوں پر 3% سود کی سبونشن، خاص طور پر ان طلبہ کے لیے جن کے والدین کی سالانہ آمدنی 8 لاکھ روپے سے کم ہو اور جو دیگر اسکیموں کے تحت نہ آتے ہوں۔
درخواست، منظوری، اور ادائیگی کے لیے مکمل ڈیجیٹل پلیٹ فارم۔
ای واؤچرز اور سی بی ڈی سی والٹس کے ذریعے محفوظ ادائیگی۔
ودیا لکشمی اسکیم: طلبہ کے لیے مالی رسائی
نومبر 2024 میں شروع کی گئی یہ اسکیم بھارت کے 860 اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخل طلبہ کو بغیر ضمانت کے تعلیمی قرضے فراہم کرتی ہے، جو سالانہ 22 لاکھ سے زائد طلبہ کو فائدہ پہنچاتی ہے۔
یہ اسکیم فیس اور تعلیمی اخراجات کی معاونت کرتی ہے، جس کے لیے مالی سال 2024-25 سے 2030-31 تک 3,600 کروڑ روپےکا بجٹ مختص ہے، اور اس کا ہدف مزید 7 لاکھ طلبہ کی مدد کرنا ہے۔
اہم فوائد:
7.5 لاکھ روپےتک قرضے، 75% کریڈٹ گارنٹی کے ساتھ۔
10 لاکھ روپےتک قرضوں پر 3% سود کی سبونشن، ان خاندانوں کے لیے جن کی سالانہ آمدنی 8 لاکھ روپےسے کم ہو اور جو دیگر سرکاری اسکیموں کے تحت شامل نہ ہوں۔
مکمل ڈیجیٹل، شفاف پلیٹ فارم کے ذریعے، جس میں ای واؤچرز اورسی بی ڈی سی والٹس کے ذریعے آسان ادائیگی اور قرض کی واپسی کی سہولت موجود ہے۔
اب تک کی پیش رفت:
موصول درخواستیں: 30,890
منظور شدہ قرضے: 13,358 (2,357.6 کروڑروپے)
جاری کردہ قرضے: 8,379 (320.5 کروڑروپے)
ودیا لکشمی ڈیجیٹل روپیہ ایپ اور معذور طلبہ کے لیے معاونت
ودیا لکشمی ڈیجیٹل روپیہ ایپ سود کی سبونشن کے فوائد تک براہ راست رسائی فراہم کرتی ہے اور یہ 61 بینکوں کے ساتھ مربوط ہے۔ یہ ایپ ڈیجیٹل فنانس سروسز (DFS)، انڈین بینک ایسوسی ایشن (آئی بی اے)، اور ممبر بینکوں کی شراکت داری سے تیار کی گئی ہے۔
معذور افراد کی معاونت
اعلیٰ تعلیم میں معذور افراد اور ذہنی امراض کے شکار طلبہ کی مؤثر شرکت کو یقینی بنانے کے لیے شمولیتی تدریسی طریقوں پر رہنما اصول تیار کیے جا رہے ہیں۔ یہ رہنما اصول تعلیم کے طریقہ کار اور سیکھنے کے ماحول کو مختلف ضروریات کے مطابق ڈھالنے اور تعلیمی مساوات کو فروغ دینے پر مرکوز ہیں۔
رہنما اصولوں میں درج ذیل اہم تدریسی عناصر شامل ہیں:
تعلیمی معاونت
معاون آلات
نصاب کی تشکیل
جانچ اور تشخیص
ذاتی مدد اور مشاورت کا انضمام
آزاد ادارے کثیر الشعبہ جاتی جامعہ میں تبدیل: قومی تعلیمی پالیسی 2020 کا وژن
این ای پی 2020 اعلیٰ تعلیم کے سخت اور منتشر نظام سے ہٹ کر لچکدار، کثیر الشعبہ جاتی اور عالمی معیار کے مطابق ادارے قائم کرنے کا وژن رکھتی ہے، جو مساوات، شمولیت، اور جدت کو فروغ دیں۔ اس کے تحت چار سالہ انڈرگریجویٹ پروگرام متعارف کیا گیا ہے جس میں متعدد داخلے اور اخراج کے اختیارات کے ساتھ اکیڈمک بینک آف کریڈٹ کے ذریعے کریڈٹ کی منتقلی ممکن ہے۔ نصاب اب چوائس بیسڈ کریڈٹ سسٹم کے تحت ترتیب دیے گئے ہیں، جو بین الشعبہ جاتی امتزاج اور تنقیدی سوچ و اخلاقی استدلال کی پرورش کرتے ہیں۔
تمام اعلیٰ تعلیمی ادارے 2040 تک کثیر الشعبہ جاتی یونیورسٹیوں یا ڈگری دینے والے کالجز میں تبدیل ہو جائیں گے، جبکہ 2030 تک ہر ضلع میں کم از کم ایک بڑا اعلیٰ تعلیمی ادارہ قائم کیا جائے گا۔ وزیراعظم اوشا پی ایم۔اوشا کے تحت 35 منتخب اداروں کو کل 100 کروڑروپے کی گرانٹ دی گئی ہے تاکہ وہ تحقیق، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر، بین الاقوامیت، اور شمولیت کے شعبوں میں اصلاحات نافذ کر سکیں اور فلَیگ شپ کثیر الشعبہ جاتی تعلیم و تحقیق یونیورسٹیز (ایم ای آر یوز) قائم کی جائیں۔
اداروں کو تحقیق پر مبنی یونیورسٹیز، تدریس پر مبنی یونیورسٹیز، یا خود مختار ڈگری دینے والے کالجز کے طور پر درجہ بندی بھی کی جائے گی۔ یہ تدریجی خودمختاری، شفاف کارکردگی میٹرکس پر مبنی، افیلی ایٹ کالجز کے ماڈل کی جگہ لے گی، جس سے ادارہ جاتی معیار اور جوابدہی میں بہتری آئے گی۔
آن لائن اور فاصلاتی تعلیم کو فروغ دینا
یو جی سی کے (اوپن اینڈ ڈیستانس لرننگ اور آن لائن پروگرامز) قوانین کے مطابق، 116 اعلیٰ تعلیمی ادارے 1,149 اوپن اینڈ ڈیستانس لرننگ پروگرامز پیش کر رہے ہیں جبکہ 102 ادارے 544 آن لائن پروگرامز کی پیش کش کر رہے ہیں، جس سے 19 لاکھ سے زائد طلبہ مستفید ہو رہے ہیں۔
یوجی سی کے آن لائن کورسز کے لیے کریڈٹ فریم ورک کے تحت طلبہ اب اپنے پروگرامز کی تکمیل کے لیے سوئم ایم او او سیز سے 40 فیصد تک کریڈٹس منتقل کر سکتے ہیں، جو لچکدار تعلیم، تاعمر سیکھنے، اور کثیر الشعبہ جاتی تعلیمی اختیارات کی سہولت فراہم کرتا ہے۔
قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں تجویز کردہ نیشنل ڈیجیٹل یونیورسٹی (این ڈی یو) بھارت کے اعلیٰ تعلیمی نظام میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس کا مقصد معیاری تعلیم تک وسیع رسائی فراہم کرنا، تاعمر سیکھنے کو فروغ دینا، اور طلبہ کو صنعت سے متعلقہ مہارتوں سے لیس کرنا ہے، جو ایک لچکدار، جامع اور ٹیکنالوجی پر مبنی فریم ورک کے تحت ممکن ہوگا۔
کثیر الشعبہ جاتی اور لچکدار اعلیٰ تعلیم
قومی تعلیمی پالیسی2020 بھارتی اعلیٰ تعلیم میں ایک تبدیلی کی بنیاد رکھتی ہے، جو طلبہ مرکز، لچکدار، اور کثیر الشعبہ جاتی نظام کو فروغ دیتی ہے۔ یہ وژن ساختی اصلاحات اور ڈیجیٹل جدتوں کے ذریعے عملی جامہ پہنا رہا ہے۔
اہم اقدامات
نیشنل کریڈٹ فریم ورک: 10 (این سی آر ایف ) اپریل 2023 کو متعارف کرایا گیا، این سی آر ایف تعلیمی، پیشہ ورانہ اور تجرباتی سیکھنے کے کریڈٹس کے حصول کو ممکن بناتا ہے۔ اسے 170 یونیورسٹیوں نے اپنایا ہے، جو تاعمر سیکھنے اور شعبوں کے درمیان آسان منتقلی کی حمایت کرتا ہے۔
نیشنل ہائر ایجوکیشن کوالیفیکیشن فریم ورک : 11 مئی 2023 کو جاری کیا گیا، این ایچ ای قیو ایف انڈرگریجویٹ سے ڈاکٹریٹ تک سیکھنے کے نتائج کی وضاحت کرتا ہے، جو قومی اور بین الاقوامی مساوات اور نقل و حرکت کو یقینی بناتا ہے۔
انڈرگریجویٹ پروگرامز کے لیے نصاب اور کریڈٹ فریم ورک: 12 دسمبر 2022 کو متعارف، یہ فریم ورک چوائس بیسڈ کریڈٹ سسٹم، متعدد داخلہ/اخراج کے اختیارات، اور بین الشعبہ جاتی تعلیمی راستے فراہم کرتا ہے۔
اپرنٹس شپ/انٹرنشپ شامل ڈگری پروگرامز: 100 سے زائد ادارے اب ایسے پروگرامز پیش کر رہے ہیں جو صنعت کے تجربے کو شامل کرتے ہیں، جس میں کم از کم 20% کریڈٹس انٹرنشپ یا اپرنٹس شپ کے لیے مخصوص ہیں۔
سویام پلس: یہ پلیٹ فارم AI اور ڈیٹا اینالیٹکس جیسے ابھرتے ہوئے شعبوں میں صنعت سے ہم آہنگ کورسز فراہم کرتا ہے۔ اس کی تفصیلات بعد کے سیکشنز میں دی گئی ہیں۔
نیشنل اپرنٹس شپ ٹریننگ اسکیم (این اے ٹی ایس ۲) :بارہ اشاریہ بارہ لاکھ ڈی بی ٹی ٹرانزیکشنز کے ذریعے 489 کروڑ روپےکے وظیفے جاری کیے گئے، جو آن جاب تربیت تک عوامی رسائی کو فروغ دیتے ہیں۔
یہ اقدامات اجتماعی طور پر مستقبل کے لیے تیار تعلیمی نظام کی حمایت کرتے ہیں، جو عالمی معیارات کے مطابق ہے اور صنعت کی ترقی کی ضروریات کے لیے جوابدہ ہے۔
متعدد داخلہ اور اخراج (ایم ای ایم ای)
قومی تعلیمی پالیسی 2020 کا ایک اہم جزو، متعدد داخلہ اور اخراج (ایم ای ایم ای) فریم ورک، تعلیمی لچک کو فروغ دینے اور طلبہ کے چھوڑنے کی شرح کو کم کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ یہ طلبہ کو ذاتی اور پیشہ ورانہ ضروریات کے مطابق تعلیم کو روکنے اور دوبارہ شروع کرنے کی صلاحیت دیتا ہے، جس سے مجموعی داخلہ شرح (جی ای آر) میں اضافہ ہوتا ہے اور تاعمر سیکھنے کی حمایت ہوتی ہے۔
- 153 یونیورسٹیوں میں متعدد داخلے کے اختیارات دستیاب ہیں، جس سے 31,156 انڈرگریجویٹ اور 5,583 پوسٹ گریجویٹ طلبہ مستفید ہو رہے ہیں۔
- 74 یونیورسٹیوں نے متعدد اخراج کے راستے متعارف کرائے ہیں، جو 25,595 انڈرگریجویٹ اور 2,494 پوسٹ گریجویٹ طلبہ کی مدد کر رہے ہیں۔
- 97 مرکزی مالی امداد یافتہ اداروں (سی ایف آئیز) نے ایم ای ایم ای کو اپنایا ہے، جن کے 33فی صد کورسز میں ایم ای ایم ای کی سہولیات موجود ہیں۔
اکیڈمک بینک آف کریڈٹ (اے بی سی)
اکیڈمک بینک آف کریڈٹ (اے بی سی) ایک منظم کریڈٹ ٹرانسفر نظام کے ذریعے تعلیمی نقل و حرکت کو ممکن بناتا ہے، جو طلبہ کو مختلف اعلیٰ تعلیمی اداروں میں کورسز کرنے اور کریڈٹس جمع کرنے کی سہولت دیتا ہے تاکہ وہ ڈگری یا ڈپلومہ مکمل کر سکیں۔ یہ ایک ڈیجیٹل ذخیرہ ہے جہاں طلبہ کے حاصل کردہ تعلیمی کریڈٹس محفوظ اور آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں۔ یہ نظام تعلیمی لچک کو فروغ دیتا ہے اور کثیر الشعبہ جاتی تعلیم کی حمایت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، اے بی سی مہارتوں، علم اور تعلیمی تجربات کو ایک متحدہ کریڈٹ بیسڈ فریم ورک میں مربوط کرتا ہے، جس سے طلبہ کو اپنے تعلیمی سفر کی تشکیل میں زیادہ خودمختاری حاصل ہوتی ہے۔
اعلیٰ تعلیمی اداروں میں دو سالانہ داخلے
یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی )نے دو سالانہ داخلوں کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت یونیورسٹیوں میں داخلے اب دو مراحل میں ہوں گے: جولائی/اگست اور جنوری/فروری۔ یہ اصلاح روایتی ایک مرحلے والے ماڈل کی جگہ لے گی اور این ای پی 2020 کے 2035 تک 50 فی صد جی ای آرکے ہدف کے مطابق ہے۔ اس سے طلبہ کو زیادہ انتخاب، اداروں کی کارکردگی میں بہتری، اور بھارتی اعلیٰ تعلیم کی بین الاقوامی شناخت کو فروغ ملے گا۔
نیشنل کریڈٹ فریم ورک
اسکول، ہنر اور اعلیٰ تعلیم کے ریگولیٹرز کے مشترکہ تعاون سے تیار کردہ، اور 7 اگست 2024 کو جاری کردہ اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (SOP) کے تحت نافذ، این سی آر ایف تعلیمی، ہنری، اور کام کی بنیاد پر سیکھنے کے لیے ایک متحدہ کریڈٹ سسٹم فراہم کرتا ہے۔ یہ اسکول تعلیم، ہائر ایجوکیشن، ووکیشنل ٹریننگ، ہنر کی ترقی، اور ورک بیسڈ لرننگ کے لیے کریڈٹ کے حصول، منتقلی اور ادائیگی کو ممکن بناتا ہے۔ یہ انڈرگریجویٹ پروگرامز کے نصاب اور کریڈٹ فریم ورک (سی سی ایف یو پی) میں شامل ہے اور متعدد داخلہ و اخراج کے اختیارات، تاعمر سیکھنے، اور سابقہ تعلیم کی پہچان کو سپورٹ کرتا ہے، نیز بین الشعبہ جاتی نقل و حرکت اور صنعت سے ہم آہنگ مہارتوں کو فروغ دیتا ہے۔
انڈرگریجویٹ پروگرامز کے لیے نصاب اور کریڈٹ فریم ورک (سی سی ایف یو پی)
یو جی سی نے دسمبر 2022 میں متعارف کرایا، سی سی ایف یو پی انڈرگریجویٹ تعلیم کی نئی شکل پیش کرتا ہے۔ اس کے اہم فیچرز میں شامل ہیں:
متعدد اخراج کے اختیارات، جن میں 1 سال کے بعد سرٹیفکیٹ، 2 سال کے بعد ڈپلومہ، اور 3 یا 4 سال کے بعد بیچلرز ڈگری دی جاتی ہے۔
اداروں، شعبوں، اور تعلیم کے طریقوں (آف لائن، آن لائن، ہائبرڈ) کے درمیان آسان منتقلی ممکن بنائی گئی ہے۔
کریڈٹس اکیڈمک بینک آف کریڈٹ (اے بی سی) کے ذریعے ٹریک کیے جاتے ہیں اور این سی آر ایف کے مطابق ہم آہنگ ہیں۔
یہ نصاب بین الشعبہ جاتی تحقیقات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، جس سے طلبہ آرٹس، سائنس، ہیومینیٹیز، اور ووکیشنل شعبوں میں کورسز کر سکتے ہیں۔
دوہری ڈگریاں
تعلیمی لچک کو بڑھانے کے لیے، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے ہدایت نامہ جاری کیا ہے جس کے تحت طلبہ بیک وقت دو تعلیمی پروگرامز کر سکتے ہیں۔ قابل اجازت امتزاج میں شامل ہیں:
دو فل ٹائم ڈگری پروگرام (شرط یہ ہے کہ کلاس کے اوقات آپس میں متصادم نہ ہوں)
ایک فل ٹائم پروگرام کے ساتھ ایک آن لائن یا فاصلاتی تعلیم پروگرام
یا دونوں پروگرام آن لائن یا فاصلاتی تعلیم کے ذریعے
یہ اقدام این ای پی 2020 کے وژن کے مطابق کثیر الشعبہ جاتی اور لچکدار تعلیمی راستے فراہم کرتا ہے۔
نیشنل ہائر ایجوکیشن کوالیفیکیشن فریم ورک
این ای پی 2020 کے تحت ایک کلیدی اصلاح، جس کا مقصد بھارت میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا اور معیاری بنانا ہے۔ یہ فریم ورک لیول 4.5 (پہلے سال کی انڈرگریجویٹ تعلیم) سے لے کر لیول 8 (ڈاکٹریٹ پروگرامز) تک کی تعلیمی قابلیتوں کی ترقی، درجہ بندی اور شناخت کا ایک منظم نظام فراہم کرتا ہے۔
اہم خصوصیات اور فوائد:
واضح تعلیمی نتائج کے ذریعے گریجویٹ خصوصیات کی تعریف، جو طلبہ، والدین، اداروں، اور ملازمت دہندگان کو تعلیمی کامیابیوں کی نوعیت اور معیار سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔
قابلیتوں کی قومی اور بین الاقوامی مساوات اور موازنہ ممکن بناتی ہے، جس سے طلبہ کو مختلف اداروں اور ممالک میں نقل و حرکت کی سہولت ملتی ہے۔
بین الشعبہ جاتی اور بین ادارتی راستے فراہم کرتی ہے، جس سے طلبہ آسانی سے شعبوں اور اداروں کے درمیان منتقل ہو سکتے ہیں۔
سابقہ تعلیم کی پہچان اور لچکدار تعلیمی ترقی کے ذریعے تاعمر سیکھنے کی حمایت کرتی ہے۔
تعلیمی معیار میں شفافیت اور ہم آہنگی کو بہتر بناتی ہے، جس سے بھارت کے اعلیٰ تعلیمی نظام پر عوام کا اعتماد بڑھتا ہے۔
عالمی معیار اور طلبہ کے مرکز نتائج کے مطابق قابلیتوں کو ہم آہنگ کر کے، این ایچ ای قیو ایف بھارت کو عالمی تعلیمی منظرنامے میں مضبوط بناتی ہے۔
ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل تعلیم
قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے تحت، بھارت ڈیجیٹل جدت کی طاقت کو بروئے کار لا رہا ہے تاکہ اعلیٰ تعلیم تک رسائی کو بڑھایا جا سکے، معیار کو بہتر بنایا جا سکے اور تعلیم کے نظام کو جدید بنایا جا سکے۔ آن لائن لرننگ کے پلیٹ فارمز، ورچوئل لیبز اور مصنوعی ذہانت پر مبنی آلات جیسی متعدد ٹیکنالوجی سے چلنے والی پہلوں نے طلبہ کے سیکھنے، مہارت حاصل کرنے اور ملک بھر میں حقیقی دنیا کے مواقع سے جڑنے کے طریقے کو تبدیل کر دیا ہے۔
سویام: بھارت کا قومی پلیٹ فارم ہے جس میں پانچ کروڑ پندرہ لاکھ سے زائد طلبہ نے داخلہ لیا ہے، 16,530 سے زائد کورسز دستیاب ہیں، اور 388 یونیورسٹیاں طلبہ کو 40 فیصد تک کریڈٹ منتقلی کی اجازت دیتی ہیں۔
سویام پلس: فروری 2024 میں شروع کیا گیا، یہ پلیٹ فارم مصنوعی ذہانت، ڈیٹا اینالٹکس اور صحت کے شعبوں میں صنعت سے منسلک آن لائن کورسز فراہم کرتا ہے، جو ڈیجیٹل یونیورسٹی کی بنیاد ہے۔
ورچوئل لیبز: 900 سے زائد ورچوئل لیبز اور 1,200 سے زائد تجربات ایس ٹی ای ایم (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، ریاضی) مضامین میں دستیاب ہیں تاکہ طلبہ کو عملی تجربہ فراہم کیا جا سکے۔
نیشنل ڈیجیٹل لائبریری: آٹھ کروڑ سے زائد تعلیمی مواد ویڈیو، متن اور آڈیو کی شکل میں فراہم کرتی ہے۔
انوادینی اور ای کمبھ: اے آئی سی ٹی ای کی انوادینی 22 زبانوں میں ترجمہ کی سہولت فراہم کرتی ہے جبکہ ای کمبھ متعدد بھارتی زبانوں میں انجینئرنگ کی کتابیں مہیا کرتا ہے۔
آپار شناختی کارڈ: دو کروڑ چھتیس لاکھ سے زائد طلبہ کے لیے منفرد بارہ ہندسوں کا تعلیمی شناختی کارڈ جاری کیا گیا ہے جو کریڈٹ منتقلی، ڈیجی لاکر انضمام اور تاعمر سیکھنے کو ممکن بناتا ہے۔
نیشنل ایجوکیشنل ٹیکنالوجی فورم: اے آئی سی ٹی ای کے تحت قائم، تعلیم میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر آزادانہ تبادلہ خیال کو فروغ دیتا ہے۔
نیشنل ایجوکیشنل الائنس فار ٹیکنالوجی: 393 تعلیمی ٹیکنالوجی کمپنیوں اور 171 مصنوعات کی فہرست رکھتا ہے؛ 25 فیصد مفت کوپنز کم آمدنی والے طلبہ کے لیے مخصوص ہیں، جو 1 لاکھ پندرہ ہزار سے زائد طلبہ کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔
انٹرنشپ پورٹل: یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں 11,578 اعلیٰ تعلیمی ادارے اور 78,759 صنعتیں شامل ہیں، جو ملک بھر میں 54 لاکھ سے زائد انٹرنشپس فراہم کرتا ہے۔
آئیڈیا لیبز: اے آئی سی ٹی ای-آئی ڈی ای اے لیبز کو تکنیکی اداروں میں قائم کیا گیا ہے تاکہ کثیرالشعبہ تعلیم و تحقیق کو فروغ دیا جا سکے، معاشرتی و صنعتی روابط مضبوط کیے جا سکیں، نئی عمر کی تعلیم کی حمایت کی جائے اور STEM کے تجرباتی تعلیم کو فروغ دیا جائے۔ اب تک 423 آئیڈیا لیبز قائم کی جا چکی ہیں۔
مراکز برائے امتیاز اور ادارہ جاتی ترقی
42 نئے مرکزی اداروں کا قیام
سال 2014 سے اب تک 42 نئے مرکزی اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ہیں جن میں مرکزی یونیورسٹیاں، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (IITs)، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمٹ (آئی آئی ایمز)، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی (IIITs)، اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ایجوکیشن اینڈ ریسرچ شامل ہیں، جو علمی معیار اور علاقائی ترقی کے لیے ایک مضبوط عزم کی نمائندگی کرتے ہیں۔
اداروں کی تعداد میں اضافہ:
مرکزی یونیورسٹیاں: 8 نئے (کل تعداد 40 سے بڑھ کر 48)
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی : سات نئے (کل تعداد 16 سے بڑھ کر 23)
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمٹ 8 نئے (کل تعداد 13 سے بڑھ کر 21)
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی:1 نیا (کل تعداد 31 سے بڑھ کر 32)
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی: 16 نئے (کل تعداد 9 سے بڑھ کر 25)
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ایجوکیشن اینڈ ریسرچ اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائس:2 نئے (کل تعداد 6 سے بڑھ کر 8)
کل اداروں کی تعداد میں اضافہ:
115 سے بڑھ کر 157 ہو گئی ہے۔
لداخ کو پہلی بار مرکزی یونیورسٹی ملی ہے جس کا نام سندھو سینٹرل یونیورسٹی رکھا گیا ہے۔ اس یونیورسٹی نے چار پوسٹ گریجویٹ پروگرامز کا آغاز کیا ہے جن میں شامل ہیں: ایم ٹیک اٹموسفیرک اینڈ کلائمٹ سائنسز، ایم ٹیک انرجی ٹیکنالوجی اینڈ پالیسی، ایم اے پبلک پالیسی اور ایم اے بدھسٹ سائنسز۔
مصنوعی ذہانت میں مرکزِ برتری (سینٹر آف ایکسی لینس)
"انڈیا میں مصنوعی ذہانت بنائیں اور مصنوعی ذہانت کو انڈیا کے لیے کام کریں" کے وژن کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے مصنوعی ذہانت میں تین مرکز برتری قائم کرنے کی منظوری دی ہے جن میں شامل ہیں: آئی آئی ایس سی میں صحت کے لیے مرکز برتری، آئی آئی ٹی کانپور میں پائیدار شہروں کے لیے مرکز برتری، اور آئی آئی ٹی روپار میں زراعت کے لیے مرکز برتری۔ ان مراکز کے قیام کے لیے مالی اعانت کا مجموعی حجم مالی سال 2023-24 سے 2027-28 تک 990 کروڑ روپے ہے۔ مزید برآں، مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے لیے 500 کروڑ روپے کے فنڈز کے ساتھ ایک نیا مرکز برتری کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
12 ممتاز ادارے (8 عوامی، 4 نجی)


اس اقدام کا مقصد اُن اعلیٰ تعلیمی اداروں کی نشاندہی اور معاونت کے لیے ایک فریم ورک قائم کرنا ہے جو عالمی معیار کے تدریسی و تحقیقی مراکز میں تبدیل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس مہم کے تحت اب تک 12 اداروں کو "ادارۂ امتیاز" کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔
مرکزی سنسکرت یونیورسٹیوں کا قیام
"مرکزی سنسکرت یونیورسٹیز ایکٹ 2020" کے تحت تین نمایاں سنسکرت اداروں کو مرکزی یونیورسٹیوں کا درجہ دیا گیا:
راشٹریہ سنسکرت سنستھان، نئی دہلی – 1970 میں قائم ہوا، سابقہ حیثیت ڈییمڈ یونیورسٹی کی تھی۔
شری لال بہادر شاستری راشٹریہ سنسکرت ودیا پیٹھ، نئی دہلی – 1962 میں قائم ہوا، سابقہ حیثیت ڈییمڈ یونیورسٹی کی تھی۔
راشٹریہ سنسکرت ودیا پیٹھ، تیرپتی – 1962 میں قائم ہوا، سابقہ حیثیت ڈییمڈ یونیورسٹی کی تھی۔
معیار کی ضمانت اور منظوری
قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے مطابق اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں ریگولیٹری اور منظوری کے نظام میں جامع اصلاحات کی جا رہی ہیں تاکہ شفافیت، خودمختاری اور کارکردگی پر مبنی طرز حکمرانی کو فروغ دیا جا سکے۔ ان اصلاحات کے مرکز میں "اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف انڈیا" (ایچ ای سی آئی )کا قیام شامل ہے۔
ایچ ای سی آ:ی کے ذریعے مربوط ریگولیشن
تعلیم میں نگران اداروں کی تکرار ختم کرنے اور قواعد کو آسان بنانے کے لیے این ای پی 2020 کے تحت "اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف انڈیا" (ایچ ای سی آئی )کے قیام کی تجویز دی گئی ہے، جو ایک مرکزی نگران ادارے کے طور پر کام کرے گا۔ یہ ادارہ ایک "نرم مگر مؤثر" نظام اپنائے گا، جس کے تحت تعلیمی اداروں کو خودمختاری دی جائے گی لیکن جوابدہی بھی یقینی بنائی جائے گی۔
کارکردگی سے منسلک تدریجی خودمختاری
وہ ادارے جو منظوری اور درجہ بندی میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں، انہیں تدریجی خودمختاری(گریٹڈ آٹونامی) دی جا رہی ہے، جس کے تحت وہ نئے پروگرامز شروع کر سکتے ہیں، بین الاقوامی اشتراکات قائم کر سکتے ہیں، اور اپنے مالی معاملات خود سنبھال سکتے ہیں۔ یہ اقدام یو جی سی کے "خود مختار کالجز ریگولیشن 2023" اور "ڈییمڈ یونیورسٹی ریگولیشن 2023" کے تحت نافذ کیا گیا ہے۔
نتائج پر مبنی منظوری کا نظام
این اے اے سیکا منظوری فریم ورک اب از سر نو ترتیب دیا گیا ہے، جو اب روزگار کے مواقع، تحقیقی اثرات اور سماجی شمولیت جیسے نتائج پر مبنی پیمانوں کو ترجیح دیتا ہے۔ منظوری کی بنیاد پر اداروں کو خودمختاری اور فنڈنگ دی جا رہی ہے، اور نئے ماڈلز جیسے "مچیورٹی بیسڈ گریڈیڈ لیولز" (ایم جی بی ایل) اور "بائنری ایکریڈیشن" متعارف کرائے گئے ہیں۔
این آئی آر ایف 2.0 اور درجہ بندی سے منسلک فنڈنگ
"نیشنل انسٹی ٹیوشنل رینکنگ فریم ورک" (این آئی آر ایف) کو این ای پی کے مقاصد کے مطابق ترقی دے کر "این آئی آر ایف 2.0" بنایا گیا ہے۔ اب اس میں ڈیجیٹل رسائی، اختراع، اور سماجی شمولیت جیسے نئے پیمانے شامل کیے گئے ہیں۔ اداروں کی درجہ بندی اب اسکیموں جیسے پی ایم۔اوشااور ادارۂ امتیاز سے منسلک فنڈنگ کے لیے بنیاد بن گئی ہے، جس سے کارکردگی اور سرکاری سرمایہ کاری کے درمیان مضبوط تعلق قائم کیا گیا ہے۔
تحقیق، اختراع اور ٹیکنالوجی

قومی تعلیمی پالیسی 2020 ایک علم پر مبنی اعلیٰ تعلیمی نظام کا خاکہ پیش کرتی ہے جس کی بنیاد تحقیق، اختراع اور ٹیکنالوجی پر رکھی گئی ہے۔ اس کا مقصد ایک متحرک تعلیمی ماحول کی تشکیل ہے جو تعلیمی اداروں کو قومی اور عالمی ترقی میں مؤثر کردار ادا کرنے کے قابل بنائے۔
ہندوستان کا 2047 تک 35 کھرب امریکی ڈالر کی معیشت بننے کا خواب براہ راست اُس کے تحقیق و اختراع کے بڑھتے ہوئے منظرنامے سے جڑا ہوا ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ عالمی سطح پر علم کا منظرنامہ تیزی سے بدل رہا ہے، خاص طور پر سائنس و ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور مشین لرننگ (ایم ایل) کے شعبوں میں، جو ہندوستان کے لیے مواقع اور چیلنجز دونوں پیش کر رہا ہے۔
ایسے میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ جامع تحقیقاتی ماحول کو فروغ دینے کے لیے مربوط کوششیں کی جائیں تاکہ تحقیق کی روح ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں سرایت کر جائے۔ اس وقت ہندوستان تحقیق پر صرف 0.64 فیصد جی ڈی پی خرچ کرتا ہے، جبکہ امریکہ میں یہ شرح 3.47 فیصد، اسرائیل میں 5.71 فیصد اور چین میں 2.41 فیصد ہے (سال 2023-24 کے اعداد و شمار)۔
قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے تحت تحقیق و ترقی کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے حکومتِ ہند نے متعدد اقدامات کیے ہیں، جن میں انوسندھان نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن کا قیام، اعلیٰ تعلیمی اداروں میں صنعت و اکیڈمیا کے مابین روابط، ملک بھر کے ایچ ای آئیْز میں اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کی تشکیل، اختراعی سیلز اور ہیکاتھونز کا انعقاد، اور مصنوعی ذہانت، بھارتی علمی نظام (آئی کے ایس(اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بین الشعبہ جاتی فیکلٹی کی ترقی شامل ہیں۔ یہ اقدامات تحقیق پر مبنی تعلیمی ماحول کو فروغ دینے اور بھارت کو عالمی علمی معیشت میں قائدانہ مقام دلانے کی سمت ایک اہم قدم ہیں۔
انوسندھان نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن
انوسندھان نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن ،جو 2023 کے ایکٹ کے تحت قائم کی گئی ہے، قومی تعلیمی پالیسی 2020کا ایک کلیدی اقدام ہے، جس کا مقصد ایک مضبوط اور جامع تحقیقاتی نظام کی تشکیل ہے۔ 50,000 کروڑ روپےکے ہائبرڈ فنڈنگ ماڈل کے تحت یہ ادارہ پیئر-ریویو شدہ گرانٹس، تحقیقاتی انفراسٹرکچر، رہنمائی، اور علاقائی زبانوں میں تحقیق کو فروغ دیتا ہے۔ ملک بھر میں 2,500 سے زائد اعلیٰ تعلیمی ادارے (ایچ ای آئیز) اور 300 یونیورسٹیاں فعال آر اینڈ ڈی سیلز، اختراعی مراکز اور صنعت-اکیڈمیا روابط کے ذریعے اس کوشش میں شامل ہیں۔
تحقیقی اصلاحات جیسے پی ایچ ڈی ڈگری ریگولیشنز 2022 نے تحقیق کے لیے لچکدار اور جامع راستے فراہم کیے ہیں، جس کے نتیجے میں 2022–23 تک پی ایچ ڈی داخلے دوگنا ہو کر 2.34 لاکھ ہو گئے ہیں، اور خواتین کا اندراج 135.6 فیصد تک بڑھ گیا ہے۔ 2024 میں بھارت دنیا میں تحقیقی اشاعتوں کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر آ گیا ہے، اور 2015 سے اب تک تحقیقاتی پیداوار میں 142 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ملک میں اختراع میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے—2023–24 میں 92,168 پیٹنٹ داخل کیے گئے، جن میں 25 فیصد حصہ ایچ ای آئیزکا تھا۔کپیلا پروگرام کے تحت 10,800 سے زائد پیٹنٹس داخل کیے گئے اور 71,000 سے زائد اساتذہ و طلبہ کو آئی پی خواندگی میں تربیت دی گئی۔
نیشنل انسٹی ٹیوشنل رینکنگ فریم ورک انڈیا رینکنگز 2024 میں تحقیق و اختراع کے لیے علیحدہ انڈیکس شامل کیا گیا ہے، جو ادارہ جاتی مسابقت میں اضافے کی عکاسی کرتا ہے۔ "انسٹی ٹیوشنز آف ایمیننس" اسکیم کے تحت 12 ایچ ای آئیز صنعت سے منسلک تحقیق، ٹیکنالوجی کی منتقلی، اور اسٹارٹ اپ انکیوبیشن کو فروغ دے رہے ہیں، جس سے بھارت کو عالمی تحقیقی نقشے پر مضبوطی سے مقام حاصل ہو رہا ہے۔
پورے ہندوستان میں ایچ ای آئی میں اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم
قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے وژن سے ہم آہنگ، حکومت ہند اعلیٰ تعلیمی اداروں (ایچ ای آئیز) میں اختراع اور اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کو مضبوط بنا رہی ہے۔ اس مقصد کے تحت "انسٹی ٹیوشن انوویشن کونسلز" قائم کی گئی ہیں، جو عملی تحقیق، نئے خیالات کی تشکیل (آئیڈییشن)، اور کاروباری صلاحیت کو فروغ دیتی ہیں۔ یہ کونسلز پروٹو ٹائپ ڈویلپمنٹ، انکیوبیشن، اور صنعت کے ساتھ اشتراک کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرتی ہیں۔ اب تک ملک کی 28 ریاستوں اور 8 مرکزی زیر انتظام علاقوں میں 16,051 آئی آئی سیز قائم کی جا چکی ہیں، جو رہنمائی، ہیکاتھونز، اور انوویشن چیلنجز کے ذریعے اختراع کو فروغ دے رہی ہیں، اورایچ ای آئیز کو بھارت کے عالمی اختراعی مرکز بننے کے سفر میں مرکزی حیثیت دے رہی ہیں۔
اے آئی، بھارتی علمیات(آئی کے ایس)، اور ٹیکنالوجی میں بین العلومی اساتذہ کی تربیت
این ای پی 2020 کے تحت شروع کیے گئے مالویہ مشن ٹیچر ٹریننگ پروگرام (ایم ایم ٹی ٹی پی)کے ذریعے اب تک 144 مراکز پر منعقدہ 3,957 پروگرامز کے تحت 2.5 لاکھ سے زائد اساتذہ کو تربیت دی جا چکی ہے، جن میں AI، سائبر سیکیورٹی، ایس ٹی ای ایم، اور قیادت جیسے موضوعات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
بھارتی علمیات (آئی کے ایس)کے اقدام کے تحت 51 مراکز قائم کیے گئے ہیں، 38 بین العلومی کورسز کا آغاز کیا گیا ہے، اور 88 تحقیقی منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی 5,527 انٹرن شپس مکمل ہو چکی ہیں اور 1,000 اساتذہ کو تربیت دی گئی ہے، جبکہ مزید 10,000 اساتذہ کو تربیت دینے کا ہدف مقرر ہے۔
اس کے علاوہ، یو جی سی نے 14 مارچ 2022 کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں "ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ سیلز (آر ڈی سیز) کے قیام کے لیے رہنما ہدایات جاری کیں تاکہ کثیر الشعبہ اور عملی تحقیق کو فروغ دیا جا سکے، جو آتم نربھر بھارت کے اہداف سے ہم آہنگ ہے۔ اب تک تقریباً 2,871 یونیورسٹیوں ایچ ای آئیز میں آر ڈی سیز قائم ہو چکے ہیں۔
اے آئی سی ٹی ای نے تکنیکی اداروں میں 423 "آئیڈیالیبز (آئیڈیا ڈیولپمنٹ ایولیویشن اینڈ ایپلی کیشن لیبز)قائم کی ہیں تاکہ بین العلومی تعلیم، STEM پر مبنی تجرباتی سیکھنے، اور تعلیمی و صنعتی روابط کو فروغ دیا جا سکے۔
بھارتیہ بھاشا اور بھارتی علمیات
حکومتِ ہند نے قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے تحت بھارتیہ بھاشاؤں (ہندوستانی زبانوں) کے فروغ اور بھارتی علمیات کو مرکزی دھارے کی تعلیم میں شامل کرنے کو ترجیح دی ہے۔ ان اقدامات کا مقصد بھارت کے لسانی اور علمی ورثے کا تحفظ اور فروغ ہے، تاکہ ایک جامع، کثیر لسانی اور ہمہ گیر تعلیمی ماحول قائم کیا جا سکے۔
نصاب میں اصلاحات، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز، اور ادارہ جاتی معاونت کے ذریعے، این ای پی 2020 تدریس، تحقیق اور جانچ میں بھارتی زبانوں کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ ساتھ ہی، اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھارتی علمیات پر مبنی کریڈٹ پر مبنی کورسز کو لازمی قرار دیا گیا ہے، تاکہ طلبہ کو روایتی علم، فلسفہ، سائنس، فن، اور سماجی سوچ کے بھارتی تناظر سے واقفیت حاصل ہو۔
کثیر لسانی تعلیم:
قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے تحت کثیر لسانی تعلیم کے فروغ کے لیے حکومتِ ہند نے متعدد اقدامات کیے ہیں تاکہ طلبہ کو مادری زبان میں معیاری تعلیم تک رسائی حاصل ہو اور علمی شمولیت کو فروغ دیا جا سکے۔
انوودنی ایپ اور ای-کمبھ پورٹل اے آئی سی ٹیای: کی انوودنی ایپ کے ذریعے انجینئرنگ، میڈیکل، قانون، انڈر گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ اور اسکل بکس کا ترجمہ بھارتی زبانوں میں کیا جا رہا ہے، جو ای-کمبھ پورٹل پر دستیاب ہیں۔
سویم پر کثیر لسانی مواد: سویم پلیٹ فارم پر متعدد بھارتی زبانوں میں تعلیمی مواد فراہم کیا گیا ہے تاکہ مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو فائدہ ہو۔
سی ایس ٹی ٹی کی اصطلاحات کی تیاری: کمیشن فار سائنٹیفک اینڈ ٹیکنیکل ٹرمینالوجی نے 22 بھارتی زبانوں میں 30 لاکھ سے زائد سائنسی و تکنیکی اصطلاحات تیار کی ہیں، جن میں سے 16 لاکھ اصطلاحات کو ڈیجیٹل شکل دی جا چکی ہے۔
اسمِتا پہل: اسمِتا اقدام کے تحت 5 سال میں 22 بھارتی زبانوں میں 22,000 کتب کی تیاری کا ہدف مقرر ہے، جس میں علمی ترجمہ اور اصل تحریر کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔
ریجنل زبانوں میں انجینئرنگ تعلیم: 10 ریاستوں کے 41 انجینئرنگ اداروں کو 12 علاقائی زبانوں میں تعلیم کی اجازت دی گئی ہے، جس سے تکنیکی تعلیم مادری زبانوں میں ممکن ہوئی ہے۔
قومی سطح کے امتحانات میں کثیر لسانی شمولت سی یو ای ٹی ، جے ای ای (مینز) اور (نیٹ (یو جی ) جیسے قومی سطح کے امتحانات 12 بھارتی زبانوں میں منعقد کیے جا رہے ہیں، جس سے مساوات اور رسائی میں اضافہ ہوا ہے۔
اعلیٰ تعلیم کی بین الاقوامیت
قومی تعلیمی پالیسی 2020 کا مقصد بھارت کو عالمی سطح پر اعلیٰ تعلیم کا مرکز بنانا ہے۔ اس کے تحت تحقیقی اور علمی تعاون کو فروغ دیا جا رہا ہے، دو طرفہ بین الاقوامی طلبہ کی آمد و رفت کو یقینی بنایا جا رہا ہے، بھارتی اداروں میں عالمی معیار اور بہترین عملی طریقے نافذ کیے جا رہے ہیں، بھارت میں غیر ملکی جامعات کی موجودگی کو بڑھایا جا رہا ہے، اور بھارتی اعلیٰ تعلیمی اداروں کی بیرون ملک موجودگی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
بھارتی جامعات کے بین الاقوامی کیمپس
اپنی عالمی رسائی کے حصے کے طور پر، بھارت نے اپنی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے بین الاقوامی کیمپس قائم کرنا شروع کر دیے ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد بھارت کو عالمی علمی مرکز کے طور پر قائم کرنا اور دنیا بھر میں معیاری تعلیم تک رسائی کو بڑھانا ہے۔
آئی آئی ٹی مدراس – زنجبار: یادداشتِ تفاهم 5 جولائی 2023 کو دستخط ہوئی؛ زنجبار، تنزانیہ میں کیمپس قائم کیا گیا ہے جہاں کلاسز شروع ہو چکی ہیں، یہ شراکت وزارتِ تعلیم (بھارت) اور وزارتِ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت (زنجبار) کے درمیان ہے۔
آئی آئی ٹی دہلی – ابو ظہبی: یادداشتِ تفاهم 15 جولائی 2023 کو ابو ظہبی ڈیپارٹمنٹ آف ایجوکیشن اینڈ نالج کے ساتھ دستخط کی گئی؛ کیمپس فعال ہے اور یہ آئی آئی ٹی دہلی کی پہلی بین الاقوامی موجودگی ہے۔
آئی آئی ایم احمد آباد – دبئی: یادداشتِ تفاهم 8 اپریل 2025 کو متحدہ عرب امارات حکومت کے ساتھ دستخط کی گئی، جس کے تحت دبئی انٹرنیشنل اکیڈمک سٹی میں آئی آئی ایم اے دبئی کیمپس قائم کیا جائے گا؛ یہاں فل ٹائم ایم بی اے اور ایگزیکٹو ایجوکیشن پروگرامز پیش کیے جائیں گے۔
بھارت میں غیر ملکی جامعات
معروف اداروں جیسے ڈییکن اور وولونگونگ یونیورسٹیز (آسٹریلیا) نے گجرات کے گفٹ سٹی میں کیمپس قائم کیے ہیں، جبکہ یونیورسٹی آف ساوتھہمپٹن (برطانیہ) نے گروگرام میں اپنی موجودگی قائم کی ہے، جو بھارت میں عالمی تعلیمی موجودگی کے ایک نئے دور کی نمائندگی کرتا ہے۔ برطانیہ، آسٹریلیا، امریکہ اور اٹلی کی چھ جامعات کو بھارت میں اپنے کیمپس قائم کرنے کے لیے اجازت نامہ (ایل او اے) دیا گیا ہے۔
ڈیکن یونیورسٹی، آسٹریلیا
گفٹ سٹی، گجرات میں کیمپس قائم کیا گیا۔
|
وولونگونگ یونیورسٹی، آسٹریلیا
گفٹ سٹی، گجرات میں کیمپس قائم کیا گیا۔
|
یونیورسٹی آف ساؤتھمپٹن، یوکے
گروگرام میں کیمپس قائم کیا گیا۔
|
اسٹڈی ان انڈیا پروگرام ایم ای ایم ای جیسی حیثیت اور انداز
اسٹڈی ان انڈیامہم نے بھارت کو عالمی تعلیمی منزل کے طور پر نمایاں کیا ہے۔ اس کے آغاز سے اب تک 47,602 بین الاقوامی طلبہ ایشیا اور افریقہ کے مختلف ممالک سے داخلہ لے چکے ہیں۔ بین الاقوامی طلبہ کو راغب کرنے کے لیے، اسٹڈی ان انڈیا مہم کو نئے سرے سے ترتیب دیا گیا ہے اور 2023 میں ایک مخصوص پورٹل لانچ کیا گیا ہے، جس پر 600 سے زائد تسلیم شدہ اداروں کے 8,000 سے زائد پروگرامز دستیاب ہیں جو 136 سے زیادہ ممالک تک پہنچتے ہیں۔ بھارتی اعلی تعلیمی اداروں (ایچ ای آئیز) نے بھی بین الاقوامی طلبہ کے داخلہ، مدد اور انضمام کے لیے بین الاقوامی اسٹوڈنٹ آفس قائم کیے ہیں۔
مشترکہ / دوہری / ٹوئننگ ڈگریوں کے لیے قواعد و ضوابط
عالمی شراکت داری کے ذریعے علمی اور تحقیقی معیار کو فروغ دینے کے لیے، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے 2 مئی 2022 کو بھارتی اور غیر ملکی اعلی تعلیمی اداروں کے درمیان تعلیمی تعاون کے ضوابط جاری کیے۔ ان ضوابط کے تحت بھارتی ادارے معروف غیر ملکی جامعات کے ساتھ شراکت داری میں ٹوئننگ، مشترکہ ڈگری اور دوہری ڈگری پروگرامز پیش کر سکتے ہیں۔ اس اقدام کا مقصد بین الاقوامی تجربہ فراہم کرنا، گھریلو بین الاقوامیت کو فروغ دینا، اور عالمی معیار کے نصاب کے ذریعے کثیرالشعبہ تعلیم کو یقینی بنانا ہے، جس سے طلبہ کی ملازمت کے مواقع بہتر ہوتے ہیں اور بھارت کی عالمی یونیورسٹی رینکنگ میں پوزیشن مضبوط ہوتی ہے۔
اہم نکات:
طلبہ اور فیکلٹی کی نقل و حرکت، مشترکہ تحقیق، اور نصاب کی ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے۔
بھارتی ایچ ای آئیز کی عالمی ساکھ کو بین الاقوامی رینکنگ کے معیار سے ہم آہنگ کرتا ہے۔
بھارتی کیمپس پر غیر ملکی طلبہ کو راغب کرنے کا ہدف رکھتا ہے۔
حالیہ صورتحال:
230 اہل بھارتی جامعات میں سے 103 ادارے فی الحال غیر ملکی اداروں کے ساتھ تعلیمی تعاون پر مبنی پروگرامز پیش کر رہے ہیں۔
گلوبل ایکیڈمک نیٹ ورک اور تعلیمی و تحقیقی تعاون کی اسکیم(ایس پی اے آر سی)
جی آئی اے ایناور ایس پی اے آر سی وزارت تعلیم کی اہم اسکیمیں ہیں جو علمی و تحقیقی تعاون کو فروغ دیتی ہیں۔ ایس پی اے آر سی اسکیم کے تحت بھارت کی اعلی تعلیمی ادارے، جن میں این آئی آر ایف میں ٹاپ 100، مرکزی جامعات، اور قومی اہمیت کے ادارے شامل ہیں، 28 منتخب ممالک کی اعلیٰ قیوایس رینکنگ والی جامعات کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔
ایس پی اے آر سی پورٹل کو دوبارہ لانچ کیا گیا ہے جہاں سال بھر پروپوزلز جمع کروائے جا سکتے ہیں (sparc.iitkgp.ac.in)۔ اب تک 799 مشترکہ تحقیقی منصوبے 515.99 کروڑروپے مالیت کے منظور کیے گئے ہیں جن میں سے 392 مکمل ہو چکے ہیں۔ اس پروگرام سے 51 پیٹنٹ فائلز ہوئیں جن میں سے 22 کو اجازت دی گئی ہے۔ ایس پی اے آر سی 12 اہم موضوعات میں تعاون کو سپورٹ کرتا ہے جن میں جدید مواد، سیمی کنڈکٹرز، صحت و میڈٹیک، توانائی اور موسمیاتی تبدیلی، نیلی معیشت، خلائی و دفاعی، سمارٹ شہروں، مینوفیکچرنگ اور انڈسٹری 4.0 شامل ہیں۔
بھارتی ادارے قیوایس عالمی رینکنگز 2025 میں
بھارت عالمی تعلیمی منظرنامے میں مضبوطی سے ابھر رہا ہے اور QS ورلڈ یونیورسٹی ایشیا رینکنگز 2025 میں سب سے زیادہ نمائندگی کرنے والا ملک بن گیا ہے، جہاں 987 اداروں میں سے 163 بھارتی جامعات شامل ہیں۔ سات بھارتی ادارے ایشیا کی ٹاپ 100 یونیورسٹیوں میں شامل ہیں جن میں پانچ آئی آئی ٹی (دہلی، بمبئی، مدراس، کھڑگ پور، کانپور)، دہلی یونیورسٹی اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس شامل ہیں۔
QS ورلڈ یونیورسٹی سبجیکٹ رینکنگز 2025 میں 79 بھارتی ایچ ای آئیز شامل ہیں جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 18.7% اضافہ ہے۔ بھارت ایشیا میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ نمائندگی والا ملک بن گیا ہے، جس میں 66 یونیورسٹیاں مختلف مضامین میں شامل ہیں۔
مزید برآں، 10 بھارتی ادارے عالمی سطح پر مخصوص مضامین میں ٹاپ 50 میں شامل ہیں جن میں 6آئی آئی ٹیز، 2آئی آئی ایمز، ایک مرکزی یونیورسٹی، اور ایک ڈیومڈ یونیورسٹی شامل ہیں۔
مالی معاونت اور بجٹ کی توسیع
ہائیئر ایجوکیشن فنانسنگ ایجنجس
تعلیمی انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے اور اداروں کو مالی خودمختاری فراہم کرنے کے لیے، ایچ ای ایف اے 2017 میں قائم کی گئی۔ یہ قرض پر مبنی ماڈل ہے جو اداروں کو بغیر پیشگی بجٹ کے مالی وسائل تک رسائی دیتا ہے۔ سات سالوں میں ایچ ای ایف اے نے44,449.18 کروڑ روپےکی منظوری دی ہے جو 201 منصوبوں پر استعمال ہوچکے ہیں، جن میں آئی آئی ٹیز ، آئی آ:ی ایمز اور نیس، اور مرکزی جامعات شامل ہیں۔ یہ فنڈز لیبارٹریز، ہاسٹلز، کلاس رومز، اور تحقیق کے بنیادی ڈھانچے کی بہتری میں استعمال ہوئے ہیں، جس سے عالمی معیار کی تعلیمی سہولیات کا قیام ممکن ہوا ہے۔
پی ایم اوشا پرائم منسٹر اچتر شِکْشا اَبھِیان
این ای پی 2020 کے تحت، پی ایم۔اوشااسکیم شروع کی گئی ہے تاکہ منتخب عوامی جامعات کو کثیرالشعبہ تعلیم اور تحقیقی جامعات(ایم ای آر یوز) میں تبدیل کیا جا سکے۔
پی ایم اوشا : ادارہ جاتی صلاحیت کی مضبوطی
پرائم منسٹر اچتر شِکْشا اَبھِیان پی ایم۔اوشا اعلیٰ تعلیم کی اصلاحات کے لیے مرکزی سرکاری اسکیم ہے۔ یہ اسکیم ریاستی جامعات اور کالجوں کی تبدیلی کے لیے کارکردگی کی بنیاد پر نتائج سے منسلک مالی امداد فراہم کرتی ہے۔ اس اسکیم نے درج ذیل اہم کردار ادا کیے ہیں:
ڈیجیٹل انفراسٹرکچر، بین الاقوامیت، اور تعلیمی خود مختاری کو فروغ دینا
کم وسائل والے علاقوں میں مخصوص مداخلتوں کے ذریعے مساوات اور شمولیت کو بڑھانا
پی ڈی ایف دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
***
(ش ح۔اس ک ۔ م ش )
U. No. 3488
(Backgrounder ID: 154952)
Visitor Counter : 31