Energy & Environment
ہندوستان کے توانائی کے شعبے کا منظرنامہ
پائیدار توانائی کے ساتھ ترقی کو آگے بڑھانا
Posted On: 22 JUN 2025 9:55AM
اہم نکات
- جون 2025 تک ہندوستان کی کل نصب شدہ بجلی کی صلاحیت 476 گیگاواٹ تک پہنچ گئی۔
- بجلی کی قلت 2013-14 میں 4.2 فیصد سے کم ہو کر 2024-25 میں 0.1فیصد رہ گئی۔
- 2.8 کروڑ سے زیادہ گھروں کو بجلی فراہم کی گئی، فی کس بجلی کی کھپت میں 45.8 فیصد اضافہ ہوا۔
- غیر حیاتیاتی ایندھن کے ذرائع اب کل صلاحیت میں 235.7 گیگاواٹ (49فیصد) کی حصہ داری ہے،جس میں 226.9 گیگاواٹ قابل تجدید توانائی اور 8.8 گیگاواٹ جوہری توانائی شامل ہے۔
- تھرمل پاور کی سب سے بڑی حصہ داری ہے، جو 240 گیگاواٹ یا 50.52 فیصد نصب شدہ صلاحیت کے حساب سے ہے۔
|
ہندوستان نے حالیہ برسوں میں اپنے توانائی کے شعبے کو مضبوط بنانے میں اہم پیش رفت کی ہے۔ ملک بجلی کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے اور پائیداری کو فروغ دینے کے دوہرے اہداف میں کامیابی کے ساتھ توازن قائم کر رہا ہے۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی (آئی ای اے) کے مطابق، آئندہ تین برسوں میں بجلی کی عالمی مانگ میں 85 فیصد اضافہ ابھرتی اور ترقی پذیر معیشتوں سے آئے گا۔ تیزی سے ترقی کرنے والی بڑی معیشتوں میں سے ایک کے طور پر، ہندوستان توانائی کی عالمی منتقلی میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی توانائی کی مانگ بڑی معیشتوں کے درمیان تیز ترین شرح سے بڑھنے کی توقع ہے، جو کہ پائیدار اقتصادی ترقی کی وجہ سے ہے۔ نتیجتاً، عالمی بنیادی توانائی کی کھپت میں ہندوستان کا حصہ 2035 تک دوگنا ہونے کا امکان ہے۔
گزشتہ دہائی کے دوران، ہندوستان کے توانائی کے شعبے نے بڑھتی ہوئی مانگ، بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور روایتی اور قابل تجدید توانائی کے دونوں ذرائع کے لیے مضبوط پالیسی کی حمایت سے مضبوط توسیع کا مشاہدہ کیا ہے۔ بجلی کی پیداوار 2015-16 میں 1,168 بلین یونٹس (بی یو) سے بڑھ کر 2024-25 میں ایک اندازے کے مطابق 1,824 بی یو ہو گئی ہے۔ اسی طرح، 2015-16 میں کل نصب شدہ صلاحیت 305 گیگا واٹ (جی ڈبلیو) سے بڑھ کر 2024-25 میں 475 گیگاواٹ تک پہنچ گئی ہے۔
ہندوستان نے اپریل 2018 تک گاؤں میں 100 فیصد بجلی کاری کاہدف حاصل کیا اور اس کے بعد سے 2.8 کروڑ سے زیادہ گھروں کو گرڈ سے جوڑا جاچکا ہے۔
اس مدت کے دوران، بجلی کی وزارت نے رسائی، کارکردگی اور بھروسے کو بہتر بنانے کے لیے کلیدی اصلاحات نافذ کیں۔ اہم اقدامات میں ایک متحد قومی پاور گرڈ کی تشکیل، دیہی برقی کاری کے لیے دین دیال اپادھیائے گرام جیوتی یوجنا (ڈی ڈی یو جی جے وائی) اور سوبھاگیہ اسکیم شامل ہے جس کا مقصد گھریلو برقی کاری ہے۔
بجلی کی قلت میں کمی: توانائی کی قلت 4.2فیصد (2013-14)سے کم ہو کر 0.1 فیصد (2024-25) ہو گئی۔
بڑھتی ہوئی کھپت: فی کس بجلی کی کھپت2023-24 میں 45.8 فیصد بڑھ کر 1,395 کلو واٹ گھنٹہ ہو گئی جو2013-14میں 957 کلو واٹ گھنٹہ تھی۔
ہندوستان کا توانائی کا شعبہ دنیا میں سب سے زیادہ متنوع ہے، جس میں روایتی ذرائع جیسے کوئلہ، گیس، ہائیڈرو اور نیوکلیئر، کے ساتھ ساتھ قابل تجدید ذرائع جیسے شمسی، ہوا، بایوماس اور ہوا سے پیدا ہونے والی چھوٹی تنصیبات سے توانائی پیدا کی جاتی ہے۔ بڑھتی ہوئی بجلی کی مانگ کے ساتھ، ہندوستان اقتصادی ترقی اور پائیداری کے اہداف کی حمایت کے لیے اپنی توانائی کی صلاحیت کو بڑھا رہا ہے۔
جون 2025 تک، بھارت کی کل نصب شدہ بجلی کی صلاحیت 476 گیگاواٹ کے ساتھ ایک اہم سنگ میل تک پہنچ گئی ہے، جس کی قیادت 240 گیگاواٹ تھرمل، 110.9 گیگاواٹ شمسی، اور 51.3گیگاواٹ ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی ہے، جو قابل تجدید توانائی اور توانائی کے تحفظ کی طرف ایک مضبوط تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔
غیر حیاتیاتی ایندھن کی صلاحیت میں ریکارڈ اضافہ
صاف توانائی کے لیے ہندوستان کا عزم
گزشتہ گیارہ برسوں میں، ہندوستان نے قابل تجدید توانائی کے شعبے میں قابل ذکر ترقی کی ہے۔ سی او پی26 میں کیے گئے وعدے کے مطابق، نئی اور قابل تجدید توانائی کی وزارت (ایم این آر ای)2030 تک غیر حیاتیاتی ایندھن کے ذرائع سے 500 گیگا واٹ بجلی کی تنصیب کی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے انتھک محنت کر رہی ہے۔ جون 2025 تک، ملک پہلے ہی غیر حیاتیاتی ایندھن کے ذرائع سے 235.7 گیگا واٹ توانائی حاصل کرچکا ہے ، جس میں 226.9 گیگاواٹ قابل تجدید توانائی اور 8.8 گیگاواٹ جوہری توانائی کی حصہ داری ہے، جو کل 476 گیگاواٹ کی نصب توانائی پیداواری صلاحیت کا 49 فیصد ہے۔یہ ہندوستان کے کاربن اخراج کو کم کرنے کے ہدف اور پائیدار مستقبل کے اس کے عزم کی طرف نمایاں قدم کی نشاندہی کرتا ہے۔
اہم حصولیابیاں (2014-2025)
عالمی قیادت:
آئی آر ای این اے آر ای اسٹیٹکٹس 2025 کے مطابق، بھارت قابل تجدید توانائی کی تنصیب کی صلاحیت میں عالمی سطح پر چوتھے، ہوا سے بجلی کی پیداوار میں چوتھے اور شمسی توانائی کی صلاحیت کے معاملے میں تیسرے نمبر پر ہے۔
قابل تجدید توانائی کی صلاحیت میں توسیع:
نصب شدہ آر ای صلاحیت مارچ 2014 میں 76.37گیگاواٹ سے بڑھ کر جون 2025 میں 226.79گیگاواٹ ہو گئی، جو تقریباً 3 گنا کا اضافہ ہے۔
پیداوار میں اضافہ
قابل تجدید توانائی کی پیداوار 2014-15میں 190.96 بی یو سے بڑھ کر 2024-25 (اپریل 2024-فروری 2025) میں 370.65بی یو ہو گئی، بجلی کی مجموعی پیداوار میں اس کا حصہ 17.20فیصد سے بڑھ کر 22.20فیصد تک پہنچ گیا۔
نصب شدہ صلاحیت کے علاوہ، 176.70 گیگاواٹ صلاحیت کےآر ای پروجیکٹ زیر عمل ہیں، جن میں 72.06 گیگاواٹ بولی کے مراحل میں ہیں۔
|
شمسی توانائی
شمسی توانائی کی صلاحیت میں 39 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے،جو 2014 میں 2.82 گیگاواٹ سے بڑھ کر 2025 میں 110.9 گیگاواٹ تک پہنچ گئی ،جس میں صرف 2024-25 میں ریکارڈ 23.83 گیگاواٹ کا اضافہ بھی شامل ہے۔
مینوفیکچرنگ میں ترقی (2014 سے مارچ 2025تک):
- سولر پی وی ماڈیول کی صلاحیت 2.3گیگاواٹ سے بڑھ کر 88 گیگاواٹ ہو گئی، جو کہ 38 گنا اضافہ ہے۔
- سولر پی وی سیل کی صلاحیت 1.2 گیگاواٹ سے بڑھ کر 25 گیگاواٹ ہو گئی، جو کہ 21 گنا اضافہ ہے۔
ہواسے پیدا ہونے والی بجلی کا شعبہ
ہندوستان ونڈ انرجی خاص طور پر ساحلی ہوا کی طاقت میں ایک عالمی رہنما کے طور پر ابھرا ہے۔ ابھرتے ہوئے مینوفیکچرنگ ایکو سسٹم، معاون پالیسیوں اور ساحلوں کی ترقی میں نئی پیش رفت کے ساتھ، ملک صلاحیت میں اضافے اور بنیادی ڈھانچے دونوں میں نمایاں پیش رفت کر رہا ہے۔ ہندوستان اس وقت ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے لحاظ سے دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔
ہندوستان کی ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی حصولیابیاں (2014-2025)
نصب شدہ صلاحیت 2014 میں 21 گیگاواٹ سے بڑھ کر جون 2025 تک 51.3 گیگاواٹ ہو گئی، جو کہ ایک دہائی میں دوگنی سے بھی زیادہ ہے۔
صرف مالی سال 2024-25 میں 4.15 گیگاواٹ کا اضافہ ہوا۔
اپریل 2024 اور فروری 2025 کے درمیان ونڈ انرجی کے ذریعے بجلی کی پیداوار بڑھ کر 78.21 بلین یونٹ (بی یو) تک پہنچ گئی، جس نے بجلی کی کل پیداوار میں 4.69 فیصد کا تعاون دیا۔
14 ہندوستانی کمپنیوں اور 18 گیگاواٹ سالانہ پیداواری صلاحیت کے ذریعہ 31 تصدیق شدہ پون چکی ماڈلز کے ساتھ گھریلو مینوفیکچرنگ کو تقویت ملی ہے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ونڈ انرجی کے مطابق، زمین کی سطح سے 150 میٹر بلندی پر ملک میں ہوا کی متوقع صلاحیت 1164 گیگاواٹ ہے۔
|
بین الاقوامی شمسی اتحاد(آئی ایس اے) ، جو 2015 میں ہندوستان اور فرانس نے سی او پی21 میں شروع کیا تھا، معاہدہ پر مبنی پہلی بین الحکومتی تنظیم ہے جس کا صدر دفتر ہندوستان میں ہے۔ 2020 کی ترمیم کے ساتھ، اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک آئی ایس اے میں شامل ہونے کے اہل ہو گئے ہیں۔ مارچ 2025 تک، 122 ممالک نے آئی ایس اے فریم ورک معاہدے پر دستخط کیے ہیں اور 105 نے اس کی توثیق کی ہے۔
|
اکتوبر 2018 میں بین الاقوامی شمسی اتحاد (آئی ایس اے) کے پہلے اجلاس میں ہندوستان کے وزیر اعظم نے ایک سورج - ایک دنیا - ایک گرڈ(او ایس اوڈبلیو او جی) کی اپیل کی تھی۔’’سورج کبھی غروب نہیں ہوتا‘‘ کے خیال پر مبنی ایک بین الاقوامی شمسی توانائی گرڈ بنانے کا عالمی پہل ہے۔ انٹرنیشنل سولر الائنس (آئی ایس اے) اس کے نفاذ کی قیادت کر رہا ہے۔ مطالعہ کا پہلا مرحلہ مکمل اور منظور ہو چکا ہے اور مزید پیش رفت جاری ہے۔ 2021 میں جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ، افریقہ اور یورپ سمیت خطوں کے ساتھ گرڈ کے باہمی رابطوں کو تلاش کرنے کے لیے ایک ٹاسک فورس بھی تشکیل دی گئی۔
|
|
پن بجلی میں توسیع
پن بجلی کی صلاحیت مالی سال 2014 سے مالی سال 2025 تک 35.8 گیگا واٹ سے بڑھ کر 48 گیگا واٹ ہو گئی۔ مالی سال 2030 تک 55 گیگا واٹ کا ہدف ہے، جسے انٹر اسٹیٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آئی ایس ٹی ایس) نارتھ ایسٹ پروجیکٹس کے لیے چارجز میں چھوٹ اور ایکویٹی میں مدد حاصل ہے۔
حیاتیاتی توانائی
گزشتہ 11 برسوں کے دوران حیاتیاتی توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جو 8.1 گیگا واٹ سے بڑھ کر 11.6 گیگا واٹ تک پہنچ گئی ہے۔ کمپریسڈ بایو گیس(سی بی جی) کی پیداواری صلاحیت میں بھی زبردست توسیع ہوئی ہے جہاں 2014 میں صرف ایک منصوبہ 8 ٹن فی یومیہ (ٹی پی ڈی) کی صلاحیت کے ساتھ کام کر رہا تھا، وہیں مارچ 2025 تک اس میں اضافہ ہو کر 150 منصوبوں تک پہنچ چکا ہے جن کی مجموعی پیداواری صلاحیت 1,211 ٹن فی دن ہے۔
نیشنل بائیو انرجی پروگرام (26-2021)
31 مارچ 2025 تک:
- بایو ماس بجلی اور شریک پیداواری صلاحیت کی مجموعی نصب شدہ صلاحیت: 9.82 گیگا واٹ (بگسے اور آئی پی پی ) اور0.92گیگاواٹ (غیربگسے)
- کچرے سے توانائی کی مجموعی نصب شدہ صلاحیت: 840.21 میگا واٹ فی سال (جس میں 309.34 میگا واٹ گرڈ سے منسلک اور 530.87 میگا واٹ فی سال آف گرڈ شامل ہیں)
- بایو ماس پروگرام کے تحت مجموعی نصب شدہ صلاحیت: 11.583 گیگا واٹ
- نصب شدہ بایو گیس پلانٹس: 51.04 لاکھ چھوٹے اور 361 درمیانے درجے کے پلانٹس، مجموعی طور پر 11.5 میگاواٹ آف گرڈ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے ساتھ۔
|
نئی اور قابل تجدید توانائی کی وزارت نے 2 نومبر 2022 کوقومی بایو انرجی پروگرام کا آغاز کیا۔ یہ پروگرام یکم اپریل 2021 سے 31 مارچ 2026 تک کے عرصے پر محیط ہے۔ اس کا کل بجٹ 1715 کروڑ روپے رکھا گیا ہے۔ پہلے مرحلے کے لیے 858 کروڑ روپے کی منظوری دی گئی ہے، جس میں پچھلی مالی ذمہ داریاں بھی شامل ہیں۔
یہ پروگرام تین حصوں پر مشتمل ہے:
ویسٹ ٹو انرجی پروگرام – شہری، صنعتی اور زرعی فضلہ کو توانائی میں تبدیل کرنے پر مبنی ہے۔
بایوماس پروگرام– بریکیٹ اور پیلیٹ پلانٹس کے قیام اور بایوماس پر مبنی شریک پیداوار (بجلی و حرارت کی مشترکہ پیداوار) کی حمایت کرتا ہے۔
بایو گیس پروگرام – چھوٹے (1 سے 25 کیوبک میٹر یومیہ) اور درمیانے (25 سے 2500 کیوبک میٹر یومیہ) سائز کے بایو گیس پلانٹس کو فروغ دیتا ہے۔
اہم اسکیمیں اور پروگرامس
Programmes
- 50.03 لاکھ درخواستیں موصول ہوئیں
- 11.88 لاکھ گھرانوں کو فائدہ پہنچا
|
1. PM-Surya Ghar: Muft Bijli Yojana
- 1-پی ایم سوریہ گھر: مفت بجلی یوجنا
فروری 2024 میں شروع کی گئی اس اسکیم کا مقصد ایک کروڑ گھریلو صارفین کو مفت بجلی فراہم کرنا ہے، جو کہ چھتوں پر نصب سولر سسٹمز کے ذریعے ممکن بنایا جائے گا۔ اس اسکیم کے لیے75,021 کروڑ کا بجٹ مختص کیا گیا ہے، جس کا ہدف رہائشی شعبے میں 30 گیگا واٹ سولر صلاحیت کا اضافہ ہے۔ اس کے ذریعے اگلے 25 برسوں میں ایک لاکھ کروڑ یونٹ بجلی پیدا ہونے کی توقع ہے اور تقریباً 720 ملین میٹرک ٹن (ایم ایم ٹی) کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی واقع ہوگی۔
اسکیم کے تحت ایک مخصوص قومی پورٹل بھی تیار کیا گیا ہے، جو صارفین کی آسان رجسٹریشن، وینڈرز کی منظوری، اور سبسڈی کی نگرانی کو یقینی بناتا ہے۔
2. پی ایم کسم اسکیم
Scheme
- کامیابیاں (31.03.2025 تک):
- جزو اے کے تحت 563.48 میگاواٹ کی صلاحیت نصب ہے۔
- جزو بی کے تحت 7.70 لاکھ ایگریکلچر پمپ لگائے گئے ہیں۔
- 3.39 لاکھ پمپ کوجزو سی کے تحت سولرائز کیا گیا۔
|
مارچ 2019 میں شروع کی گئی اس اسکیم کا مقصد کسانوں کی آمدنی میں اضافہ، توانائی اور پانی کے تحفظ کو یقینی بنانا، اور زرعی شعبے میں ڈیزل کے استعمال میں کمی لانا ہے۔ اس اسکیم کے تحت کسانوں کو مالی امداد فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ خودمختار سولر پمپس نصب کر سکیں، موجودہ گرڈ سے منسلک زرعی پمپس کو سولر پر منتقل کر سکیں اور اپنی بنجر یا غیر استعمال شدہ زرعی زمین پر سولر پاور پلانٹس لگا سکیں۔اس اسکیم کا ہدف ملک بھر میں 34.8 گیگا واٹ سولر صلاحیت کا اضافہ ہے، جس کے لیے مجموعی مالیاتی تخمینہ34,422 کروڑ رکھا گیا ہے۔
اس اسکیم کے تین اہم اجزاء درج ذیل ہیں:
- 10,000 میگا واٹ صلاحیت کے تقسیم شدہ گراؤنڈ ماؤنٹڈ گرڈ سے منسلک سولر پاور پلانٹس کی تنصیب۔
- 15 لاکھ خودمختار سولر زرعی پمپس کی تنصیب۔
- 35 لاکھ گرڈ سے منسلک زرعی پمپس کو سولرائز کرنا، جن میں فیڈر لیول سولرائزیشن بھی شامل ہے۔
اب اسکیم کے تمام اجزاء کو زرعی بنیادی ڈھانچے سے متعلق فنڈ (اے آئی ایف کے تحت شامل کر لیا گیا ہے تاکہ کسانوں کو آسان مالی معاونت فراہم کی جا سکے۔
.
- ہدف: مارچ 2026 تک 40 گیگاواٹ
- منظور شدہ: 55 پارکس، 13 ریاستوں میں 39,958 میگاواٹ کی صلاحیت
- کمیشنڈ: 24 پارکوں میں 12,804 میگاواٹ
|
3. Solar Parks Scheme
3.سولر پارک اسکیم
یہ اسکیم بڑے پیمانے پر گرڈ سے منسلک شمشی توانائی منصوبوں کے قیام میں سہولت فراہم کرتی ہے، جس کے لیے درکار تمام بنیادی ڈھانچے جیسے زمین، بجلی کے انخلاء کی سہولت، سڑک سے رابطہ، پانی کی سہولت وغیرہ فراہم کی جاتی ہے، ساتھ ہی تمام قانونی منظوریوں کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے۔
4. اعلی کارکردگی والے سولر پی وی ماڈیولز کے لیے پی ایل آئی اسکیم
اعلیٰ کارکردگی والے سولر پی وی ماڈیولز کے لیے پی ایل آئی اسکیم کا مقصد ملک میں گھریلو مینوفیکچرنگ کو فروغ دینا اور درآمدات پر انحصار کو کم کرنا ہے۔ اس اسکیم کے لیے24,000 کروڑ کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ اسکیم کے تحت 48,337 میگا واٹ مکمل یا جزوی طور پر مربوط سولر پی وی ماڈیول مینوفیکچرنگ صلاحیتوں کے قیام کے لیے لیٹر آف ایوارڈز جاری کیے جا چکے ہیں۔
پی ایل آئی اسکیم کے تحت دی گئی منظوریوں سے ہٹ کر بھی مستفید ہونے والے اداروں نے اضافی سہولتیں قائم کی ہیں۔ 31 مارچ 2025 تک جن اداروں نے پیداوار شروع کر دی ہے ان میں تقریباً 17 گیگا واٹ سولر پی وی ماڈیول مینوفیکچرنگ، تقریباً 6 گیگا واٹ سولر پی وی سیل مینوفیکچرنگ اور تقریباً 2 گیگا واٹ اِنگوٹ-ویفر مینوفیکچرنگ شامل ہے۔
5. پی ایم جن من: شمسی برق کاری کے ذریعے پی وی ٹی جی برادریوں کو بااختیار بنانا
- پردھان منتری جن جاتی آدیواسی نیائے مہا ابھیان (پی ایم جن من) کا آغاز خاص طور پر کمزور قبائلی گروپوں(پی وی ٹی جیز) کی ترقیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اس مشن کے تحت 9 مرکزی وزارتوں کے ذریعے 11 اہم اقدامات کیے جا رہے ہیں۔اس مشن اور دھرتی آبا جن جاتیہ گرام اتکرش ابھیان (ڈی اے جے جی یواے) کے تحت ایک اہم پہل نئی سولر پاور اسکیم ہے، جس کے لیے 515 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ اس اسکیم کا مقصد 18 ریاستوں میں قبائلی اور پی وی ٹی جی بستیوں کے ایک لاکھ غیر بجلی یافتہ گھروں کو بجلی فراہم کرنا ہے۔یہ اسکیم دور دراز قبائلی علاقوں میں شمولیاتی ترقی اور پائیدار توانائی کی رسائی کو فروغ دینے کی سمت ایک اہم قدم ہے۔
ٹارگیٹ:
- 1 لاکھ گھرانے
- 1500 کثیر مقصدی مراکز(ایم پی سیز) میں آف گرڈ سولر لائٹنگ فراہم کرنا
- 2000 سرکاری اداروں کی سولرائزیشن
|
پیش رفت
- 9961 ایچ ایچزکی منظوری دی گئی۔
- 2057 ایچ ایچزکوبجلی فراہم کی گئی(31.03.2025 تک)
|
بھارت کے جوہری توانائی پروگرام میں توسیع ہورہی ہے۔
ہندوستان کے ایٹمی توانائی کے شعبے نے گزشتہ دہائی کے دوران نمایاں توسیع اور جدید کاری کا مشاہدہ کیا ہے۔ صاف توانائی، مقامی ٹیکنالوجی اور اعلیٰ کارکردگی پر مرکوز حکمت عملی کے تحت، ملک نے نہ صرف اپنی موجودہ پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا ہے بلکہ مستقبل کے امکانات کو بھی مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔
جوہری توانائی میں کلیدی کامیابیاں (2014سے2025)
ایٹمی بجلی کی سالانہ پیداوار میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے:
2014-15 میں 35,592 ملین یونٹس (ایم یوز) سے بڑھ کر25-2024 میں 56,681 ملین یونٹس تک پہنچ گئی ہے۔
نصب شدہ ایٹمی صلاحیت میں 71 فیصد اضافہ ہوا ہے:
یہ صلاحیت 2014 میں تقریباً 4,780 میگا واٹ سے بڑھ کر 2025 میں 8,780 میگا واٹ ہو گئی ہے۔ یہ اضافہ نیوکلئیر پاور کارپوریشن آف انڈیا لمیٹڈ (این پی سی آئی ایل) کے زیرِ انتظام چلنے والے 25 ایٹمی ری ایکٹروں کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے۔
مالی سال 25-2024 میں 87 فیصد پلانٹ لوڈ فیکٹر(پی ایل ایف) حاصل کیا گیا ہے۔
پچھلے پانچ سالوں کے دوران تمام چلنے والے ری ایکٹروں کے لیے کیپیسٹی فیکٹر اور ایویلیبیلٹی فیکٹر 80 فیصد سے زائد رہے ہیں۔
- نئے ری ایکٹر شروع کیے گئے:
- کڈانکولم نیوکلیئر پاور پلانٹ (کے کے این پی پی )یونٹ-1 (1000 میگاواٹ) - دسمبر 2014
- یا کے کے این پی پی یونٹ-2 (1000 میگاواٹ) – مارچ 2017
- کاکراپار اٹامک پاور پروجیکٹ(کے اے پی پی) یونٹ-3 (700 میگاواٹ) - جون 2023
- کاکراپار اٹامک پاور سٹیشن (کے اے پی ایس) یونٹ-4 (700 میگاواٹ) – مارچ 2024
- راجستھان اٹامک پاور پروجیکٹ (آر اے پی پی) یونٹ-7 (700 میگاواٹ) - اپریل 2025
|
National
نیشنل گرین ہائیڈروجن مشن
نیشنل گرین ہائیڈروجن مشن(این جی ایچ ایم) ، جس کا آغاز جنوری 2023 میں ہوا اور مالی سال 30-2029 تک 19,744 کروڑروپے کے بجٹ کے ساتھ چلایا جا رہا ہے، یہ ایک اہم پہل ہے جس کا مقصد بھارت کو گرین ہائیڈروجن کی پیداوار اور برآمد میں عالمی رہنما بنانا ہے۔ اس مشن کا مقصد توانائی میں خود انحصاری کو فروغ دینا، کاربن کے اخراج کو کم کرنا، اور صاف ٹیکنالوجیز میں وسیع پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔
2030 تک مشن کے متوقع نتائج درج ذیل ہیں:
- بھارت کی گرین ہائیڈروجن پیداوار کی صلاحیت تقریباً 5 ملین میٹرک ٹن سالانہ تک پہنچ جائے گی، جو رکازی ایندھن کی درآمدات پر انحصار کم کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔
- مشن کے اہداف کے حصول سے 2030 تک رکازی ایندھن کی درآمدات میں مجموعی طور پر1 لاکھ کروڑ روپےکی کمی متوقع ہے۔
- یہ مشن مجموعی طور پر8 لاکھ کروڑ روپےسے زائد سرمایہ کاری کوراغب کرے گا اور ملک میں 6 لاکھ سے زائد گرین ملازمتیں یپدا کرے گا۔
- مشن کے تحت 100 گیگاواٹ سے زائد قابل تجدید توانائی کی پیداوار کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا اور گرین ہائیڈروجن کی پیداوار اور استعمال کے ذریعے سالانہ تقریباً 50 ملین میٹرک ٹن سی او2 کے اخراج میں کمی آئے گی۔
ہندوستان کی غیر قابل تجدید بجلی کی پیداوار
Generation
- جون 2025 تک:
-
- • کوئلہ 219 گیگاواٹ کی صلاحیت کے ساتھ سب سے بڑا حصہ دار ہے۔
- • گیس پر مبنی بجلی میں 20 گیگاواٹ کا تعاون ہے۔
- • ڈیزل پر مبنی بجلی مزید 589 میگاواٹ کا اضافہ کرتی ہے۔
|
ہندوستان کا توانائی شعبہ بڑی حد تک غیر تجدید شدہ تھرمل ذرائع پر منحصر ہے، جو ملک کی بجلی پیداوار کی صلاحیت میں سب سے زیادہ تعاون کرنے والا شعبہ ہے۔ صرف تھرمل پاور ہی بھارت کی کل نصب شدہ توانائی صلاحیت کا 50.52 فیصد ہے، جو ملک کی بجلی کی مانگ کو پورا کرنے میں اس کے مرکزی کردار کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ ذرائع مجموعی طور پر 240 گیگا واٹ کی تھرمل صلاحیت فراہم کرتے ہیں، جن میں سے کوئلہ خود 91 فیصد سے زائد تھرمل توانائی کا حصہ دار ہے، جو ملک کی توانائی ضروریات کو پورا کرنے میں اس کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔
ہندوستان کا کوئلہ سیکٹر
گزشتہ گیارہ سالوں کے دوران، وزارت کوئلہ کے تحت بھارت کے کوئلہ شعبے نے نمایاں تبدیلی دیکھی ہے۔ خود انحصاری، پائیداری، اور کارکردگی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے بڑے اصلاحاتی اقدامات اور انفراسٹرکچر کی ترقی نے ریکارڈ پیداواری صلاحیت، درآمدات میں خاطر خواہ کمی اور صاف ستھری اور شفاف آپریشنز کو ممکن بنایا ہے۔
کلیدی کامیابیاں (2015-2014)
کوئلہ پیدا کرنے والی ریاستوں کے ساتھ آمدنی کی تقسیم
کوئلہ پیدا کرنے والی ریاستوں کو ادا کی گئی آمدنی نے وہاں کے بنیادی ڈھانچے، صحت کی سہولیات، تعلیم، سماجی و اقتصادی ترقی اور شہریوں کی زندگی کو آسان بنانے میں نمایاں بہتری لائی ہے۔ کوئلہ کے پبلک سیکٹر انٹرپرائزز (پی ایس یوز) نے 15-2014 سے اب تک کوئلہ پیدا کرنے والی ریاستوں کو کل1.8 لاکھ کروڑ روپے کی آمدنی تقسیم کی ہے۔
پیداوار اور فراہمی میں اضافہ
کوئلے کی پیداوار میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جو-15 2014میں609.18 ملین ٹن (ایم ٹی)سے بڑھ کر-25 2024 میں 1,047.68 ملین ٹن ہو گیا، اس میں72 فیصد کا اضافہ ہوا۔
کوئلے کی فراہمی603.77 ملین ٹن سے بڑھ کر 1,025.25 ملین ٹن تک پہنچ گئی، جس سے خاص طور پر بجلی کی پیداوار میں بڑھتی ہوئی گھریلو طلب کو مؤثر طریقے سے پورا کیا گیا۔
درآمدات میں کمی اور بچت
مالی سال-15 2014 سے کوئلے پر درآمدی انحصار میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے، جو 26 فیصد سے کم ہو کر 2024-23 میں تقریباً21 فیصد تک آ گیا۔ مالی سال-25 2024 میں (جنوری2025 تک) یہ انحصار مزید کم ہو کر 19.60 فیصد پر آ گیا ہے۔
ملک کے بجلی گھروں کے لیے کوئلے کی درآمدات میں مالی سال 25-2024 کے دوران (اپریل سے جنوری) گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں34.24 فیصد کمی ہوئی ہے۔درآمدی اخراجات میں بھی نمایاں کمی آئی ہے، جس سے مالی سال 25-2024 (جنوری تک) میں تقریباً 5.88 ارب امریکی ڈالر (45,301 کروڑروپے) کی نمایاں بچت ہوئی ہے، جو خود کفالت کی جانب مضبوط پیش رفت کی علامت ہے۔
تجارتی کانکنی میں انقلابی پیش رفت
جون2020 میں شروع کی گئی تجارتی کانکنی پالیسی کے تحت اب تک 124 کوئلہ بلاکس دیئے جا چکے ہیں، جن میں سے 17 پہلے ہی پیداواری مرحلے میں ہیں۔ذاتی استعمال (کیپٹیو) اور تجارتی کانوں کی پیداوار میں262 فیصد کا نمایاں اضافہ ہوا ہے، جو 15–2014 میں52.7 ملین ٹن سے بڑھ کر 25–2024 میں190.95 ملین ٹن تک پہنچ گیاہے۔
پائیداری اور ماحولیات
ایک پائیدار مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے کوئلہ شعبہ متوازن توانائی کے امتزاج کی طرف گامزن ہے، جس میں شمسی اور ہوا جیسی قابلِ تجدید توانائیوں کو اپنایا جا رہا ہے، جب کہ ماضی کے ماحولیاتی اثرات کا ازالہ کاربن کیپچر، شجرکاری، اور صاف توانائی کے منصوبوں کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔
21,500 ہیکٹیئر رقبے پر 477.7 لاکھ درخت لگائے گئے، جو تقریباً 10.78 لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مساوی کاربن سنک کے مترادف ہے۔
مالی سال 15-2014 سے 25-2024 کے دوران 17 ایکو پارکس / کان کنی سے متعلق سیاحتی مقامات / تفریحی پارکس قائم کیے گئے، جن میں سے 7 پارکس کو مقامی سیاحتی سرکٹ کے ساتھ مربوط کیا گیاہے۔
کوئلہ سے متعلق پی ایس یوز نے نیٹ زیرو کا ہدف مقرر کیا ہے اور اب تک اس سلسلے میں درج ذیل کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں:
کوئلہ / لیگنائٹ سے متعلق پی ایس یوز
|
نیٹ زیرو کے حصول کا ہدف
|
نیٹ زیرو کے ہدف کے حصول کے لیے صلاحیت پر مبنی منصوبہ بندی
|
اب تک کمیشن کی گئی قابلِ تجدید توانائی کی صلاحیت
|
شمسی
|
ہوا
|
سی آئی ایل
|
2026
|
3000 ایم ڈبلیو
|
122.5 ایم ڈبلیو
|
|
این ایل سی آئی ایل
|
Achieved
|
300 ایم ڈبلیو
|
1380 ایم ڈبلیو
|
51ایم ڈبلیو
|
ایس سی سی ایل
|
2025
|
530 ایم ڈبلیو
|
245.5 ایم ڈبلیو
|
|
|
کل
|
|
1748 ایم ڈبلیو
|
51 ایم ڈبلیو
|
ماخذ: وزارتِ کوئلہ
کارپوریٹ سماجی ذمہ داری (سی ایس آر)
پبلک سیکٹر اداروں (پی ایس یوز) کی جانب سے کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کے تحت خرچ کی گئی رقم میں 132 فیصد اضافہ ہے۔ یہ رقم 15–2014 میں360.5 کروڑروپے تھی جو25–2024 میں بڑھ کر739.62 کروڑروپے ہو گئی۔
گزشتہ 11 برسوں کے دوران کل خرچ: 6,418 کروڑروپے، جس سے 3.5 کروڑ شہری مستفید ہوئے۔
نمایاں منصوبے صحت عامہ، ہنر مندی کے فروغ، امنگوں والے اضلاع، کھیلوں کے فروغ، اور دیویانگ جن کی شمولیت کے شعبوں میں شامل ہیں۔
روزگار کے مواقع پیدا کرنا
2014 سے 2025 تک مشن موڈ تقرری کے ذریعہ سی آئی ایل اور این ایل سی آئی ایل نے16,209 ملازمتیں فراہم کی ہیں۔
سی ایس آر کے تحت ہنر مندی اور روزگار سے متعلق پروگراموں کے ذریعے62,000 سے زائد افراد کو بااختیار بنایا گیا۔
اس کے ذریعہ 1263اسکولوں میں ڈیجیٹل ایجوکیشن کے بنیادی ڈھانچے فراہم کئے گئے۔
ڈیجیٹل خریداری میں قیادت
مالی سال 25–2024 میں جی ای ایم پورٹل کے ذریعے2.11 لاکھ کروڑروپے مالیت کی اشیاء و خدمات کی خریداری کی گئی، جو مالی سال 24–2023 میں1.01 لاکھ کروڑروپے تھی،یعنی اس میں108 فیصد کا شاندار اضافہ۔
وزارتِ کوئلہ جی ایم ایم کے ذریعے خریداری میں تمام وزارتوں میں پہلے نمبر پر رہی، جبکہ کول انڈیا لمیٹڈ(سی آئی ایل)تمام مرکزی پبلک سیکٹر اداروں (سی پی ایس ایز) میں سرفہرست رہا۔
بھارت میں تیل اور گیس کا شعبہ: اہمیت اور کامیابیاں
تیل اور گیس کا شعبہ بھارت کی آٹھ بنیادی صنعتوں میں سے ایک ہے اور ملک کی معیشت کو متحرک رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ بھارت، 2023 کے مطابق، دنیا میں تیل کا تیسرا سب سے بڑا صارف ہے، جس کے باعث یہ شعبہ ملک کی توانائی کی سلامتی اور مستقبل کی ترقی کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
جیسا کہ توقع ہے کہ بھارت کی مجموعی قومی پیداوار2040 تک 8.6 کھرب امریکی ڈالر تک پہنچ جائے گی، توانائی کی طلب ، خصوصاً تیل اور قدرتی گیس، تقریباً دوگنا ہو کر 1,123 ملین ٹن تیل کے مساوی ہو جائے گی، جس سے یہ شعبہ گھریلو اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کے لیے مزید پرکشش بن جائے گا۔
اہم کامیابیاں (2025–2014)
لکویفائیڈ پیٹرولیم گیس انقلاب:
- ایل پی جی کنیکشنز کی تعدادجو 2014 میں14.51 کروڑتھی، سے بڑھ کر 2025 میں32.97 کروڑ ہو گئی۔
پردھان منتری اجولا یوجنا (پی ایم یووائی)
یکم مارچ 2025 تک، پورے بھارت میں10.33 کروڑپی ایم یووائی کنیکشنز جاری کیے جا چکے ہیں۔
یکم اپریل2022 تک جاری کردہ 8.99 کروڑ کنیکشنز میں سے، 8.34 کروڑ مستفیدین نے اپریل2022 سے مارچ 2024 کے دوران کم از کم ایک بار ایل پی جی ریفل لیا، جو مسلسل ایل پی جی کے استعمال کی عکاسی کرتا ہے۔
|
مئی2016 میں شروع کی گئی پردھان منتری اجولا یوجنا (پی ایم یو وائی) کا مقصد غریب گھروں کی بالغ خواتین کو بغیر جمع شدہ رقم کے ایل پی جی کنیکشن فراہم کرنا تھا، تاکہ روایتی ایندھن جیسے لکڑی اور گوبر کے گٹھوں کی جگہ صاف ستھری توانائی کو فروغ دیا جا سکے۔ اس اسکیم سے خواتین کی صحت میں بہتری، ماحولیاتی پائیداری اور خواتین کے بااختیار بنانے کو فروغ ملا۔اجولا2.0 کے تحت اندرون ملک مہاجر خاندانوں کے لیے خاص سہولت فراہم کی گئی ہے، جس کے ذریعے وہ خود اعلامیہ کے ذریعے نیا ایل پی جی کنیکشن حاصل کر سکتے ہیں،جس کے لئے انہیں پہلے پتے کا ثبوت یا راشن کارڈ کی ضرورت تھی۔
پائپڈ نیچرل گیس (پی این جی) اور کمپریسڈ نیچرل گیس (سی این جی) کی توسیع
- پی این جی کنیکشنز تقریباً6 گنا اضافہ ہوا ہے،یہ2014 میں0.254 کروڑ تھا اوراب 2025 میں1.47 کروڑ ہو گیا ہے۔
- سی این جی اسٹیشنز کی تعداد دس گنا سے زیادہ بڑھ کر 2014 میں738 سے 2025 میں7,720 ہو گئی۔
- سٹی گیس ڈسٹری بیوشن (سی جی ڈی) نیٹ ورک مخصوص جغرافیائی علاقوں میں53 سے بڑھ کر 307 تک پہنچ گیا۔
- سی جی ڈی کی کوریج آبادی کے لحاظ سے 13.27 فیصد سے تقریباً100 فیصد، اور رقبے کے لحاظ سے 5.58 فیصد سے تقریباً 100 فیصد تک پہنچ گئی۔
قدرتی گیس کی پائپ لائن اور ایل این جی انفراسٹرکچر
- فعال قدرتی گیس پائپ لائنز کی لمبائی 2014 میں15,340 کلومیٹر تھی جو 2025 تک بڑھ کر 25,124 کلومیٹر تک پہنچ گئی ہے۔
- ایل این جی ٹرمینلز کی تعداد دوگنی ہو کر 4 سے بڑھ کر 8 ہو گئی اور ان کی گنجائش 22 ایم ایم ٹی پی اے سے بڑھ کر 52.7 ایم ایم ٹی پی اے تک پہنچ گئی۔
بایوفیول اور ایتھانول بلینڈنگ کی پیش رفت
- نیشنل پالیسی برائے بایوفیولز(2018، جس میں2022 میں ترمیم کی گئی)نے مالی سال 26-2025 تک 20 فیصد ایتھانول بلینڈنگ کا ہدف مقرر کیا تھا۔
- ایتھانول بلینڈنگ2014 میں1.53 فیصدتھی، جو2025 میں بڑھ کر 18.5 فیصد تک پہنچ گئی۔
- ایتھانول کی خریداری2014 میں38 کروڑ لیٹرتھی، جو2025 میں بڑھ کر440.74 کروڑ لیٹر ہو گئی۔
- بایوڈیزل کی خریداری بھی تیزی سے بڑھی، جو 16-2015 میں1.19 کروڑ لیٹر سے بڑھ کر 2024 میں43.99 کروڑ لیٹر تک پہنچ گئی۔
نتیجہ
بھارت نہ صرف اپنی توانائی کی صلاحیت میں اضافہ کر رہا ہے بلکہ اسے نئے سرے سے تشکیل دے رہا ہے۔ ملک موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرتے ہوئے توانائی کی سلامتی کو یقینی بنا رہا ہے اور جدید توانائی کی رسائی سب کو فراہم کر رہا ہے۔ پچھلے دہائی میں بھارت کی توانائی کا سفر خود کفالت، پائیداری اور جدت کی طرف ایک حکمت عملی پر مبنی تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔جرأت مندانہ اصلاحات، وسیع پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کی توسیع، اور قابل تجدید توانائی کی ترویج کے ذریعے بھارت نہ صرف اپنی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات کو پورا کر رہا ہے بلکہ عالمی موسمیاتی اہداف میں بھی خاطر خواہ حصہ لے رہا ہے۔ سبز ہائیڈروجن سے لے کر چھتوں پرسولرپینل کا نصب کرنا، دیہی علاقوں کی بجلی کاری سے ڈیجیٹل خریداری تک، ہر اقدام بھارت کے شمولیاتی، محفوظ اور صاف توانائی کے وژن کو مضبوط کرتا ہے۔ جیسے جیسے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے، اس کی متوازن اور مستقبل بین توانائی حکمت عملی اقتصادی ترقی اور ایک پائیدار مستقبل کو توانائی فراہم کرتی رہے گی۔
حوالہ جات
وزارتِ پٹرولیم و قدرتی گیس
نئی اور قابلِ تجدید توانائی کی وزارت
وزارتِ کوئلہ
محکمہ برائے ایٹمی توانائی
این آئی ٹی آئی آیوگ- https://iced.niti.gov.in/energy/electricity/generation
https://www.ibef.org/industry/power-sector-india
-) وزارتِ پٹرولیم و قدرتی گیس(
https://www.pib.gov.in/PressNoteDetails.aspx?NoteId=154355&ModuleId=3
https://www.ibef.org/industry/oil-gas-india
https://www.ibef.org/industry/power-sector-india
بین الاقوامی ایٹمی توانائیhttps://www.iea.org/news/growth-in-global-electricity-demand-is-set-to-accelerate-in-the-coming-years-as-power-hungry-sectors-expand
وزارت توانائی- https://npp.gov.in/dashBoard/cp-map-dashboard
پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
************
ش ح۔م ش۔ع ح۔ت ف۔م ا۔ ع د۔ ت ع
U NO: 2399
(Backgrounder ID: 154823)
Visitor Counter : 76