Infrastructure
ہندوستان کےنقل و حمل کے بنیادی ڈھانچہ میں تبدیلی (2025– 2014(
Posted On: 11 JUN 2025 9:31AM
اہم نکات
پی ایم گتی شکتی نے جی آئی ایس پر مبنی پلیٹ فارم پر 44 وزارتوں اور 36 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں متحد منصوبہ بندی کی۔
قومی شاہراہوں میں 60فیصد اضافہ ہوا (91,287 کلومیٹر سے 1,46,204 کلومیٹر تک)۔
ہائی وے کی تعمیر کی رفتار بڑھ کر 34 کلومیٹر فی دن ہوگئی (2014 میں 11.6 کلومیٹر فی دن سے)۔
بھارت مالا: 26,425 کلومیٹر سے نوازا گیا؛ 20,378 کلومیٹر تعمیرکی گئی ۔
68 وندے بھارت ٹرینیں 333 اضلاع میں چل رہی ہیں۔
2014 سے اب تک 45,000 آر کے ایم سے زیادہ ریل برق کاری کی تکمیل ہوئی۔
حفاظت: اہم راستوں پر کوچ تعینات۔
رسائی کے لیے 1,790 لفٹیں اور 1,602 ایسکلیٹرز نصب ۔
7.8 لاکھ کلومیٹر دیہی سڑکیں مکمل ہوئیں (2025-2014)۔
2029 تک پی ایم جی ایس وائی- IV 25,000 بستیوں کو جوڑ دے گا۔
اڑان کے تحت 88 ہوائی اڈے کام کر رہے ہیں۔
علاقائی رابطے کے تحت 1.51 کروڑ سے زیادہ مسافروں نے پرواز کی۔
5.22 کروڑ سے زیادہ صارفین نے 24 ہوائی اڈوں پر ڈیجی یاترا کو اپنایا ۔
ڈرون پالیسی اور ایم آر او اصلاحات مقامی ایوی ایشن ایکو سسٹم کو بڑھا رہی ہیں۔
بندرگاہ کی گنجائش دوگنی ہو کر 2,762 ایم ایم ٹی پی اے ہو گئی۔
مجموعی طور پر جہاز کے ٹرن اراؤنڈ کا وقت 93 سے 49 گھنٹے تک بہتر ہوا۔
ساگرمالا نے 277 پروجیکٹ مکمل کئے۔ ساگرمالا 2.0 لانچ کیا گیا۔
اندرون ملک آبی گزرگاہوں کے کارگو میں 710فیصد اضافہ ہوا (18 ایم ایم ٹی سے 146 ایم ایم ٹی تک)۔
3 بڑی بندرگاہوں پر گرین ہائیڈروجن ہب تیار ہو رہے ہیں۔
|
تعارف
گزشتہ دہائی کے دوران، بھارت نے بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں بے مثال پیش رفت دیکھی ہے، جو ایک ہمہ جہت اور مربوط حکمتِ عملی پر مبنی ہے۔ اہم پالیسی اصلاحات اور مشن موڈ منصوبوں کی بنیاد پر یہ تبدیلی نہ صرف جسمانی رابطوں میں وسعت کا سبب بنی ہے بلکہ اقتصادی پیداوار میں اضافہ، لاجسٹکس لاگت میں کمی اور خدمات کی فراہمی میں بہتری کا بھی ذریعہ بنی ہے۔
قومی سطح پر شروع کی گئی اہم مہمات جیسے پی آر اے جی اے ٹی آئی پرگتی، پی ایم گتی شکتی، نیشنل لاجسٹکس پالیسی، بھارت مالا، ساگر مالا، اور اُڑان نے ایک مربوط اور مسابقتی بھارت کے وژن کو مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔ شاہراہوں اور ایکسپریس ویز کی ریکارڈ توسیع، ریلوے کی بجلی کاری، گرین فیلڈ ہوائی اڈوں کی تعمیر، پہاڑی علاقوں میں رسیوں کے ذریعے آمد و رفت روپ وے کی سہولت، اورا سمارٹ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا فروغ ، یہ سب اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ حکومت، شمولیتی اور پائیدار ترقی کے لیے پرعزم ہے۔
یہ ہمہ جہت بنیادی ڈھانچے کے فروغ کی مہم ‘‘وکست بھارت 2047’’ کے ہدف کے تحت، ایک خوشحال اور مربوط بھارت کی تعمیر کی جانب واضح قدم ہے۔
ادارہ جاتی اصلاحات اور ہمہ گیر منصوبہ بندی
پی آر اے جی اے ٹی آئی (پرگتی) فعال حکمرانی اور بروقت عمل درآمد
پچیس مارچ 2015 کو شروع کی گئی پرگتی ایک انقلابی پہل ہے جس کا مقصد حکمرانی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو مؤثر بنانا ہے، جہاں جدید ترین ٹیکنالوجی کو انتظامی عمل سے مربوط کیا گیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد نہ صرف پروجیکٹس کی نگرانی کو بہتر بنانا ہے بلکہ شہریوں کی شکایات کا فوری حل تلاش کرنا بھی ہے۔
تازہ ترین یعنی 46ویں پرگتی میٹنگ 30 اپریل 2025 کو منعقد ہوئی، جس میں وزیر اعظم نے آٹھ اہم بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کا جائزہ لیا جن کی مجموعی لاگت 90,000 کروڑ روپے سے زائد تھی۔ آغاز سے لے کر اب تک پی آر اے جی اے ٹی آئی کے تحت 363 منصوبوں کا جائزہ لیا جا چکا ہے۔
پرگتی ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے جس کے ذریعے وزیر اعظم براہِ راست ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے مرکزی حکومت کے سیکریٹریز اور ریاستوں کے چیف سیکریٹریز سے رابطہ کرتے ہیں۔ یہ پورا نظام جدید ڈیجیٹل ڈیٹا مینجمنٹ اور جیو اسپیشل ٹیکنالوجیز سے تقویت یافتہ ہے۔اس کا بنیادی مقصد ایک فعال حکمرانی اور بروقت عمل درآمد کا کلچر قائم کرنا ہے، جس کے ذریعے شہریوں کی شکایات کا ازالہ، سرکاری اسکیموں کی مؤثر فراہمی اور وہ اہم منصوبے جو مختلف وزارتوں یا مرکز و ریاست کے باہمی مسائل کی وجہ سے تعطل کا شکار تھے، انہیں تیز رفتاری سے مکمل کیا جا سکے۔

پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان

پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان، جو 13 اکتوبر 2021 کو شروع کیا گیا، ہندوستان کے اقتصادی زون میں ملٹی ماڈل انفراسٹرکچر کنیکٹیویٹی کو بہتر بنانے کے لیے ایک جامع پہل ہے۔ اس مربوط پلیٹ فارم کے ذریعے 100 لاکھ کروڑ روپے کا مؤثر طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ سات اہم شعبوں بشمول ریلوے، سڑکوں، بندرگاہوں، آبی گزرگاہوں، ہوائی اڈوں، ماس ٹرانزٹ اور لاجسٹک انفراسٹرکچر پر مبنی، یہ وزارتوں اور ریاستی حکومتوں میں مربوط ترقی کو فروغ دیتا ہے۔ یہ اسکیم ایک متحرک جی آئی ایس پلیٹ فارم کا استعمال کرتی ہے جسےبی ائی ایس اے جی –این (بھاسکراچاریہ انسٹی ٹیوٹ فار اسپیس ایپلی کیشنز اینڈ جیو انفارمیٹکس) کے ذریعہ تیار کیا گیا ہے تاکہ ریئل ٹائم پروجیکٹ میپنگ اور 200 سے زیادہ ڈیٹا لیئرز کے انضمام کو ممکن بنایا جس جا سکے۔ اس پروجیکٹ میں 44 مرکزی وزارتیں اور 36 ریاستیں/مرکز کے زیر انتظام علاقے شامل ہیں اور اکتوبر 2024 تک مجموعی طور پر 1,614 ڈیٹا لیئرز کو بھی مربوط کیا گیا ہے۔ پی ایم گتی شکتی کے اصول کے بعد مختلف وزارتوں کے 15.39 لاکھ کروڑ روپے کے 208 بڑے بنیادی ڈھانچے کے پروجیکٹوں کا اندازہ لگانے کا سنگ میل حاصل کیا گیا ہے۔
پی ایم گتی شکتی مختلف مستفدین کونمائندگی فراہم کرکے ‘آتم نر بھر بھارت’ کے مقصد کو حاصل کرنے میں مدد کریں گے۔ الگ الگ منصوبہ بندی اور ڈیزائننگ کے بجائے منصوبوں کو مشترکہ نقطہ نظر سے ڈیزائن اور ان پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ اس میں مختلف وزارتوں اور ریاستی حکومتوں کی بنیادی ڈھانچے کی اسکیموں کو شامل کیا جائے گا جیسے بھارت مالا، ساگرمالا، اندرون ملک آبی گزرگاہیں، خشک/ زمینی بندرگاہیں،اڑان، اقتصادی زون جیسے ٹیکسٹائل کلسٹرز، فارماسیوٹیکل کلسٹرز، دفاعی راہداری، الیکٹرانک پارکس، صنعتی کوریڈورز، فشینگ زون بنانے اور کنیکٹیویٹی کو بہتر بنایا جائے گا۔ ہندوستانی کاروبار زیادہ مسابقتی ہیں۔ اس سے اقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا، غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا جائے گا اور ملک کی عالمی مسابقت میں اضافہ ہوگا۔
قومی لاجسٹک پالیسی
قومی لاجسٹک پالیسی(این ایل پی) 17 ستمبر 2022 کو شروع کی گئی تھی تاکہ ایک مربوط، موثر اورکفایتی لاجسٹکس نیٹ ورک بنا کر ہندوستان کی اقتصادی ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔ اس پالیسی کا مقصد لاجسٹکس کے اخراجات کو کم کرنا، 2030 تک انڈیا کے لاجسٹک پرفارمنس انڈیکس (ایل پی آئی) کی درجہ بندی کو سرفہرست 25 ممالک تک پہنچانا اور ڈیٹا پر مبنی فیصلہ سازی کو فروغ دینا ہے۔ پالیسی کا مقصد لاجسٹک اخراجات کو موجودہ 13-14 فیصد سے کم کرنا اور اسے دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے برابر لانا ہے۔ اس سے ہندوستانی گھریلو مارکیٹ اور بین الاقوامی مارکیٹ دونوں میں ہندوستانی مصنوعات کی مسابقت میں اضافہ ہوگا۔ مزید برآں کم لاگت بھی معیشت کے تمام شعبوں میں کارکردگی بڑھانے کی کوششوں کا باعث بنے گی، جس سے ویلیو ایڈیشن اور انٹرپرائز کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
عالمی بینک کے لاجسٹک پرفارمنس انڈیکس (ایل پی آئی) میں ہندوستان کی درجہ بندی 2014 میں 54 (160 ممالک میں سے) سے 2023 میں 38 (139 ممالک میں) سے سولہ مقامات کی بہتری کے ساتھ آ گئی ہے۔ عالمی بینک نے ایل پی آئی 2023 میں ہندوستان کی کوششوں کا اعتراف کیا ہے، جس میں دونوں ساحلوں پر بندرگاہیں اندرونی علاقوں میں اقتصادی قطبوں تک سافٹ وئیر کی فراہمی اور سرمایہ کاری کے نظام میں سختی اور سرمایہ کاری کی فراہمی شامل ہے۔
سڑکیں اور شاہراہیں
نیشنل ہائی وے نیٹ ورک کی توسیع
- اکتیس مارچ 2025 تک، ہندوستان میں 63 لاکھ کلومیٹر سے زیادہ سڑکوں کا نیٹ ورک ہے، جس میں سے قومی شاہراہیں 1,46,204 کلومیٹر، ریاستی شاہراہیں 1,79,535 کلومیٹر اور دیگر سڑکیں 60,19,723 کلومیٹر ہیں۔
- سال 14-2013 میں قومی شاہراہوں کی لمبائی 91,287 کلومیٹر تھی۔ اس لیے قومی شاہراہوں کی لمبائی میں تقریباً 60فیصد (1,46,204 کلومیٹر) کا اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستانی سڑکوں کا نیٹ ورک دنیا کا دوسرا بڑا ہے۔
- گزشتہ11 سالوں میں (25-2014) ہندوستان نے قومی شاہراہوں کے نیٹ ورک کو 54,917 کلومیٹر تک بڑھایا ہے۔
- قومی ہائی اسپیڈ کوریڈورز (ایچ ایس سی) کی لمبائی 2014 میں 93 کلومیٹر سے بڑھ کر اس وقت 2,474 کلومیٹر ہو گئی ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں 3,600 کلومیٹر ہائی اسپیڈ کوریڈور بنائے گئے ہیں۔
- 4 لین اور اس سے اوپر کے ایچ ایس سی (این ایچ ایس کو چھوڑ کر) کی لمبائی 2014 میں 18,278 کلومیٹر سے 2.5 گنا بڑھ کر اس وقت 45,947 کلومیٹر ہو گئی ہے۔
- سال 2013-14 میں،این ایچ کی تعمیر کی رفتار تقریباً 11.6 کلومیٹر فی دن تھی جو 2025 میں بڑھ کر تقریباً 34 کلومیٹر فی دن ہو گئی۔
14-2013 اور25-2024 کے درمیان این ایچ ایس کے لیے کام کے ایوارڈ اور تعمیرات میں بالترتیب 108فیصد اور 150فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
- سڑک کے بنیادی ڈھانچے پر وزارت کی سرمایہ کاری میں 2013-14 اور 25-2024 کے درمیان 6.4 گنا اضافہ ہوا ہے۔
- روڈ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کے بجٹ میں 2014 سے 2024-23 تک 570 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

بھارت مالا پریوجنا
بھارت مالا پریوجنا کو حکومت ہند نے 34,800 کلومیٹر کی لمبائی میں 5.35 لاکھ کروڑ روپے کی تخمینہ لاگت کے ساتھ منظوری دی ہے، جس کا مقصد اقتصادی راہداریوں، انٹر کوریڈورز، فیڈر روٹس، قومی راہداری اور بین الاقوامی رابطہ کاری، سرحدی رابطوں کی کارکردگی اور بین الاقوامی رابطہ کاری کی تعمیر کے ذریعے کنیکٹیویٹی کو بہتر بنانا اور ملک میں لاجسٹک لاگت کو کم کرنا ہے۔ ایکسپریس ویز کے ساتھ ساتھ بقایا نیشنل ہائی وے ڈیولپمنٹ پروجیکٹ (NHDP)۔ بھارت مالا پریوجنا کے تحت کل 26,425 کلومیٹر کی لمبائی والے پروجیکٹوں کو منظوری دی گئی ہے۔ مارچ 2025 تک، بھارت مالا پریوجنا کے حصے کے طور پر 20,378 کلومیٹر تعمیر کیا گیا ہے۔
بڑے مکمل منصوبے

اٹل ٹنل: 10,000 فٹ سے زیادہ کی بلندی پر دنیا کی سب سے لمبی ہائی وے ٹنل، اٹل ٹنل کا افتتاح وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 3 اکتوبر 2020 کو کیا تھا۔ یہ سرنگ منالی اور لیہہ کے درمیان سڑک کے فاصلے کو 46 کلومیٹر تک کم کرتی ہے اور وقت کو تقریباً 4 سے 5 گھنٹے تک کم کرتی ہے۔
ایسٹرن اور ویسٹرن پیریفرل ایکسپریس ویز: دہلی کے آس پاس پیریفرل ایکسپریس ویز کے دو پروجیکٹس بشمول 135 کلومیٹر ایسٹرن پیریفرل ایکسپریس وے (ای پی ای) کا افتتاح وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 27 مئی 2018 کو کیا۔ ای پی ای کی تعمیر این ایچ اے آئی نے کی تھی۔ نیز، کنڈلی-مانیسر-پلول (کے ایم پی) ویسٹرن پیریفرل ایکسپریس وے کے کنڈلی-مانیسر سیکشن کا افتتاح 19 نومبر 2018 کو کیا گیا تھا۔
بوگی بیل پُل: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 25 دسمبر 2018 کو آسام میں بوگی بیل پُل کا افتتاح کیا۔ آسام کے ڈبرو گڑھ اور دھیماجی اضلاع کے درمیان دریائے برہم پترا پر یہ پل قوم کے لیے بہت زیادہ اقتصادی اور اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے۔
دھولا-سدیہ پُل: مئی 2017 میں آسام میں دھولا-سدیہ پل کا افتتاح وزیر اعظم نے دور دراز کے علاقوں کو جوڑنے اور ان کی سماجی و اقتصادی ترقی کی راہ ہموار کرنے کے لیے کیا تھا۔ یہ ہندوستان کا سب سے لمبا پل ہے، جس کی لمبائی 9.15 کلومیٹر ہے۔
چنئی-ناشری ٹنل: جموں اور کشمیر میں سرنگ 2017 میں کھولی گئی تھی۔ جموں اور کشمیر میں ادھم پور اور رامبن کے درمیان 9 کلومیٹر لمبی، ہمہ موسمی سرنگ نہ صرف ہندوستان کی سب سے طویل ہائی وے ٹنل ہے بلکہ ایشیا کی سب سے لمبی دو طرفہ ہائی وے سرنگ بھی ہے، جو انٹیگریٹڈ ٹنل کنٹرول سسٹم (آئی ٹی سی ایس) سے لیس ہے۔
دیبانگ-لوہت دریا کا پل: یہ منصوبہ -52 این ایچ پر بومجور اور میکا اور ڈیگارو سے چوکم کے درمیان واحد رابطہ فراہم کرتا ہےیہ منصوبہ پاسی گھاٹ-روئنگ اور نمسائی-تیزو کے درمیان ہر موسم میں اورہفتہ کے ساتوں روز چوبیس گھنٹے براہ راست رابطہ قائم کرنے میں کامیاب رہا، جس سے کشتی کے ذریعے دریا عبور کرنے پر انحصار کم ہو گیا اور علاقے کو سماجی و معاشی فوائد حاصل ہوئے۔روئنگ سے پاسی گھاٹ کا فاصلہ 310 کلومیٹر سے کم ہو کر 75 کلومیٹر رہ گیا۔تیزو سے نمسائی کا فاصلہ 195 کلومیٹر سے کم ہو کر 57 کلومیٹر رہ گیا۔یہ کمی علاقائی ترقی، تیز رفتار آمد و رفت، اور اقتصادی سرگرمیوں کے فروغ میں معاون ثابت ہو رہی ہے۔
کولم بائی پاس: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 15 جنوری 2019 کو کیرالہ میں این ایچ- 66پر 13 کلومیٹر طویل، 2 لین والے کولم بائی پاس کو قوم کے نام وقف کیا۔ 352 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کی گئی، اس شاہراہ پر اشٹامودی جھیل پر تین بڑے پل ہیں۔
میتری سیتو: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 9 مارچ 2021 کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ‘میتری سیتو’ کا افتتاح کیا۔ اسے ‘شمال مشرق کا گیٹ وے’ بھی کہا جاتا ہے، تریپورہ کو بنگلہ دیش کے چٹاگانگ سے ملانے کے لیے دریائے فینی پر بنایا گیا یہ اہم پل 1.9 کلومیٹر طویل ہے، جو 13 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا ہے۔
سدرشن سیتو (بیٹ دوارکا): عزت مآب وزیر اعظم نے 25 فروری 2024 کو سدرشن سیتو کا افتتاح کیا۔ یہ ملک کا سب سے لمبا کیبل والا پل ہے جس کی لمبائی تقریباً 2.32 کلومیٹر ہے۔
سونمرگ ٹنل (زیڈ-مورہ): جموں و کشمیر کے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں این ایچ -01 پر 6.4 کلومیٹر لمبی سونمرگ ٹنل کا افتتاح وزیر اعظم نے 13 جنوری 2025 کو کیا تھا۔ سطح سمندر سے 8,650 فٹ کی بلندی پر واقع ہے، یہ سری نگر اورلہیہ کے درمیان ہر موسم میں رابطے کویقینی بنائےگی۔
زیر عمل بڑے پروجیکٹ
1. اروناچل پردیش میں فرنٹیئر ہائی وے: فرنٹیئر ہائی وے (این ایچ -913) ہند -تبت میانمار سرحد کے ساتھ ایک اسٹریٹجک اہمیت کی حامل سڑک ہے جس کا مقصد سرحدی علاقوں سے آبادی کی نقل مکانی کو روکنا ہے۔ فرنٹیئر ہائی وے کی کل ڈیزائن کی لمبائی 1,824 کلومیٹر ہے جس میں سے 271 کلومیٹر پر کام کا ذمہ ایم او ڈی؍ ایم او آر ٹی ایچ نے اسے قومی شاہراہ کے طور پر قرار دیئے جانے سے پہلے لیا ہے۔ باقی 1,553 کلومیٹر کی لمبائی کی شاہراہ 44 پیکجوں میں ایم او آر ٹی ایچ کےذریعہ منظور کی جا رہی ہے جو تین ایجنسیوں یعنی ریاستی پی ڈبلیو ڈی، بارڈر روڈ آرگنائزیشن ( بی آر او) اور نیشنل ہائی ویز اینڈ انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ (این ایچ آئی ڈی سی ایل) کے ذریعے انجام دیے جائیں گے ۔
2. دہلی-ممبئی ایکسپریس وے
وزارت نے 1386 کلومیٹر کی لمبائی والے 53 پیکجوں میں تیز راستوں سمیت دہلی-ممبئی ایکسپریس وے کی تعمیر کا کام شروع کیا ہے۔ جون 2024 تک، پیکجوں کی کل 26 تعداد مکمل ہو چکی ہے۔ کام کی مادی پیش رفت82 فیصد ہے اور مجموعی لمبائی 1136 کلومیٹر تعمیر کی جاچکی ہے۔ نظر ثانی شدہ طے شدہ تکمیل کی تاریخ اکتوبر 2025 ہے۔ راہداری دہلی، اتر پردیش، ہریانہ، راجستھان، مدھیہ پردیش، گجرات اور مہاراشٹر کے اندر بڑے اقتصادی مراکز کو کنیکٹیویٹی فراہم کرتی ہے۔ اس کے اثرات میں دہلی سے جے این پی ٹی کے فاصلے میں تقریباً 180 کلومیٹر کی کمی اور منسلک مقامات کے سفر کے وقت میں 50 فیصد تک کی کمی شامل ہے۔
3. چار دھام مہامارگ وکاس پریوجنا: وزارت نے اتراکھنڈ میں چار دھام (کیدارناتھ، بدری ناتھ، یمونوتری اور گنگوتری) کے لیے کنیکٹیویٹی میں بہتری کا پروگرام شروع کیا ہے۔ پروگرام میں تقریباً 12,595 کروڑ روپے کی کل تخمینہ لاگت سے قومی شاہراہ کی 825 کلومیٹر لمبائی کی بہتری/ترقی کے منصوبے شامل ہیں۔ اب تک، 629 کلومیٹر مکمل ہو چکا ہے اور فیصد پیش رفت کل لمبائی (825 کلومیٹر) کے مقابلے میں 76فیصد ہے۔
4. زیر عمل دیگر پروجیکٹ
راہداری کا نام
|
لمبائی
(کلومیٹر میں)
|
کل شرمایہ جاتی لاگت
(کروڑ روپے میں)
|
ہدف کے تکمیل کا سال
|
احمد آباد – دھولیرا
|
109
|
4,372
|
مالی سال 25-24
|
بنگلورو – چنئی
|
262
|
17,356
|
مالی سال 25-24
|
دہلی-امرتسر- کٹرا
|
669
|
38,905
|
مالی سال 26-25
|
کانپور - لکھنؤ ایکسپریس وے
|
63
|
4,219
|
مالی سال 26-25
|
پی ایم گتی شکتی کے تحت پیش رفت
نیٹ ورک پلاننگ گروپ (این پی جی )کو ڈی پی آئی آئی ٹی کے ذریعہ اسپیشل سکریٹری، لاجسٹکس (ڈی پی آئی آئی ڈی) کی سربراہی میں قائم کیا گیا تھا، جہاں تمام مرکزی/ریاستی بنیادی ڈھانچے کی وزارتیں میٹنگوں میں پیش کیے گئے بنیادی ڈھانچے کے پروجیکٹوں پر تعاون اور معلومات فراہم کرسکتی ہیں۔ 15 اپریل 2025 تک ایم او آر ٹی اینڈ ایچ کے 131 منصوبے مشاورت کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔ ان پروجیکٹوں کے علاوہ، متعدد وزارتوں/ محکموں جیسے ایم او ڈی ، ایم او پی ایس ڈبلیو ، این آئی سی ڈی سی، وزارت اسٹیل،محکمہ فرٹیلائزر وغیرہ نے بھی اہم انفرااسٹرکچر کو فروغ دینے کے لیے پروجیکٹ شروع کرنے کے واسطے درخواستیں بھیجی ہیں جن میں سے 100 پروجیکٹ کی کریٹکل انفراسٹرکچر گیپ پروجیکٹس (جن میں سے 65 پروجیکٹ ایم او آر ٹی اینڈ ایچ سے متعلق ہیں) کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان 65 کریٹکل انفراسٹرکچر گیپ پروجیکٹس کی تفصیلات یہ ہیں:
موجودہ حالت
|
تعداد
|
لمبائی
(کلومیٹر میں)
|
عارضی لاگت
(کروڑ روپے میں)
|
مکمل
|
4
|
459.50
|
10,247.63
|
زیر عمل
|
5
|
156.81
|
5,148.27
|
مالی سال 26-25 میں منظوری دی جائے گی۔
|
12
|
462.00
|
10,511.70
|
غیر قومی شاہراہ کے پروجیکٹس
|
44
|
850.00
|
23,224.00
|
ریاستی حکومت/پورٹ اتھارٹیز/دیگر ایجنسیوں کے ذریعے شروع کیے گئے پروجیکٹوں کی تعداد
|
16
|
202.00
|
6,602.00
|
غیرقومی شاہراہ کے پروجیکٹس( ایم او پی ایس ڈبلیو) کی طرف سے ترجیح کی بنیاد پر منصوبہ بندی کی جائے گی
|
28
|
648.00
|
16,622.00
|
ایم او آر ٹی اینڈ ایچ نے پورے قومی شاہراہ نیٹ ورک (~ 1.46 لاکھ کلومیٹر) کو جی آئی ایس پلیٹ فارم پر اپ لوڈ کیا ہے اوراین ایم پی پورٹل پر اس کی توثیق کی ہے۔ ایم او آر ٹی اینڈ ایچ نے نیشنل ہائی وے کوریڈورز کی منصوبہ بندی اور ترقی کے لیے پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان کو اپنانے سے کئی گنا فوائد حاصل کیے ہیں جیسے:
- جنگلات، جنگلی حیاتیات اور سی آر زیڈ کے ساتھ مصروفیات کے ذریعے ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کی کوشش
- کم اور تیز رفتار کلیئرنس کی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ ہونا
- دوسرے بنیادی ڈھانچے اور کلیئرنس کی ضرورت کے مطابق روکاوٹوں کی شناخت
- ایم او آر ٹی اینڈ ایچ قومی شاہراہوں اور متعلقہ بنیادی ڈھانچے سے متعلق اپنے تمام پروجیکٹوں میں پی ایم گتی شکتی کے تمام اصولوں کو پہلے ہی شامل کر رہا ہے۔
- ایم او آر ٹی اینڈ ایچ نے تمام پروجیکٹ کی منصوبہ بندی اور تیاری کی سرگرمیوں کے لیے این ایم پی پورٹل کا استعمال لازمی قرار دیا ہے۔
نیشنل الیکٹرانک ٹول کلیکشن ( این ای ٹی سی)

فیس پلازوں کے ذریعے بغیر کسی رکاوٹ کے ٹریفک کی نقل و حرکت کو یقینی بنانے اور فاسٹ ٹیگ کا استعمال کرتے ہوئے صارف کی فیس کی وصولی میں شفافیت کو بڑھانے کے لیے، نیشنل الیکٹرانک ٹول کلیکشن (این ای ٹی سی) پروگرام کو پورے ہندوستان میں لاگو کیا گیا ہے۔ 31 دسمبر 2024 تک، مجموعی طور پر بینکوں نے 10.30 کروڑ سے زیادہ فاسٹ ٹیگ جاری کیے ہیں۔ ای ٹی سی کے ذریعے تقریباً 98.5 فیصد کی رسائی کے ساتھ روزانہ کی اوسط وصولی تقریباً 192 کروڑ روپے ہے۔تمام لین میں1,051 نیشنل ہائی ویز فیس پلازہ ای ٹی سی بنیادی ڈھانچے کے ساتھ فعال ہیں۔ ہائی وے صارفین کی طرف سے فاسٹ ٹیگ کی مسلسل ترقی اور اسے اپنانا بہت حوصلہ افزا ہے اور اس نے ٹول آپریشنز میں کارکردگی بڑھانے میں مدد کی ہے۔
کابینہ کے حالیہ فیصلے
30 اپریل، 2025 کو ، اقتصادی امور کی کابینہ کمیٹی نے 166.80 کلومیٹر 4 لین والی گرین فیلڈ تک رسائی کے زیر کنٹرول قومی شاہراہ (این ایچ-06) کی ترقی، دیکھ بھال اور انتظام وانصرام کی منظوری دی جو ماولینگ کھنگ (میگھالیہ میں شیلانگ کے نزدیک) سے پنچگرام ( آسام میں سلچر کے قریب) تک ہے، جس کی کل لاگت تقریباً 22,864 کروڑ روپے ہے ۔
|
کابینہ نے 9 اپریل 2025 کو این ایچ 07( زیرک پور - پٹیالہ) سےاین ایچ 5( زیرک پور -پروانو) تک 19.2 کلومیٹر پر محیط 6 لین والے زیرک پور بائی پاس کی تعمیر کو منظوری دی ، جس کی لاگت 1,878.31 کروڑ روپے ہے
|
کابینہ نے 28 مارچ 2025 کو بہار میں پٹنہ، اراہ اور ساسارام کے درمیان 120.10 کلومیٹر طویل 4 لین والی گرین فیلڈ اور براؤن فیلڈ کوریڈور کی تعمیر کو منظوری دی جس کی کل تخمینہ لاگت 3,712.40 کروڑ روپے ہے۔
|
کابینہ نے 19 مارچ 2025 کو مہاراشٹر میں جے این پی اے پورٹ (پاگوٹے) سے چوک تک 29.219 کلومیٹر 6 لین تک ایکسس کنٹرول گرین فیلڈ ہائی اسپیڈ قومی شاہراہ کی تعمیر کو منظوری دی جس کی کل تخمینہ لاگت 4,500.62 کروڑ روپے ہے۔
|
کابینہ نے 5 مارچ 2025 کو اتراکھنڈ میں گووند گھاٹ سے ہیم کنڈ صاحب جی تک 12.4 کلومیٹر کے ایک روپ وے پروجیکٹ کو منظوری دی ، جس کو 2,730.13 کروڑ روپے کی تخمینہ لاگت سے تیار کیا جائے گا۔
|
کابینہ نے 5 مارچ 2025 کو اتراکھنڈ میں سون پریاگ سے کیدارناتھ تک 12.9 کلومیٹر کے ایک روپ وے کی تعمیر کو منظوری دی ، جسے 4,081.28 کروڑ روپے کی تخمینہ لاگت سے تیار کیاجائے گا۔
|
دیہی سڑکیں
پردھان منتری گرام سڑک یوجنا (پی ایم جی ایس وائی) کے تحت، ایک اہم مقصد میدانی علاقوں میں 500 سے زائد افراد اور250 سے زائد خصوصی زمرہ کے علاقوں (2001 کی مردم شماری کے مطابق این ای آر اور پہاڑی ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام ریاستوں، صحرائی علاقوں، قبائلی علاقوں اور منتخب قبائلی اور پسماندہ علاقوں) میں تمام غیر منسلک بستیوں سے رابطہ کو یقینی بنانا ہے۔ 1,63,000 بستیوں کا پورا ہدف مکمل کر لیا گیا ہے جس سے ان بستیوں تک خدمات کی فراہمی ممکن ہوئی ہے، دیہی سڑکوں کے کور نیٹ ورک کو بہتر بنایا گیا ہے اور ان علاقوں میں سماجی و اقتصادی تبدیلی آئی ہے۔
پی ایم جی ایس وائی -11 کو منتخب راستوں اور بڑے دیہی لنکس (ایم آر ایلز) کے اپ گریڈیشن اور ترقی کے مراکز کو بہتر رابطہ فراہم کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ پروگرام کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے 50,000 کلومیٹرکے ہدف میں سے کل 49,053 کلومیٹر لمبائی کو اپ گریڈ کیا گیا ہے۔ پی ایم جی ایس وائی-111 کا آغاز جولائی 2019 میں 1,25,000 کلومیٹر کو ہدف شدہ بستیوں سے راستوں اور بڑے دیہی لنکس سے منسلک بستیوں کے ذریعے کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس اسکیم کے تحت اب تک مجموعی طور پر 6,96,620 سہولیات بشمول 1,46,784 اسکول، 1,38,637 زرعی بازار، 82,806 طبی مراکز اور 3,28,393 ٹرانسپورٹ سہولیات کو بہتر کنیکٹیویٹی فراہم کی گئی ہے۔

حکومت نے 11 ستمبر 2024 کو پردھان منتری گرام سڑک یوجنا – IV(پی ایم جی ایس وائی - IV )کو منظوری دی ہے تاکہ مقررہ آبادی کے حجم کی غیر منسلک بستیوں کو ہر موسم میں قابل رسائی سڑکوں کے ذریعے جوڑا جا سکے۔ پی ایم جی ایس وائی - IV کے تحت، 25,000 غیر منسلک اہل بستیوں کو 62,500 کلومیٹر ہر موسم میں قابل رسائی سڑکوں کی تعمیر کے ذریعے جوڑنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ یہ اسکیم مالی سال 2024-25 سے 2028-29 تک نافذ کی جائے گی جس پر کل لاگت 70,125 کروڑ روپے آئے گی۔
پی ایم جی ایس وائی کی مختلف جاری اسکیموں کے تحت اب تک کل 8,37,022 کلومیٹر سڑکوں کی منظوری دی جا چکی ہے، جن میں سے 7,80,401 کلومیٹر سڑکوں کی تعمیر اور اپ گریڈیشن مکمل ہو چکی ہے (بحوالہ 24 مئی 2025 تک)۔ دیہی سڑکوں کی رسائی اس وقت 99فیصد تک مکمل ہو چکی ہے۔
مارچ 2025 تک، پی ایم جی ایس وائی اسکیم کے تحت تعمیر شدہ دیہی سڑکوں کی دیکھ بھال پر کل 4,056 کروڑ روپے خرچ کیے جا چکے ہیں، جنہیں ای - ایم اے آر جی (ای- مارگ)کے ذریعے مانیٹر کیا گیا ہے۔ توانائی اور وسائل کی بچت کے مقصد کے ساتھ، دیہی سڑکوں کی تعمیر میں مختلف نئی/گرین ٹیکنالوجیز جیسے کہ ویسٹ پلاسٹک، کولڈ مکس، فل ڈیپتھ ری کلیمیشن (ایف ڈی آر) ، نینو ٹیکنالوجی، جیو ٹیکسٹائل وغیرہ کا استعمال کیا جارہا ہے۔ سال 2024 میں 15,783 کلومیٹر سڑکیں ان گرین ٹیکنالوجیز کے تحت تعمیر کی گئی ہیں۔
اسی طرح پردھان منتری جن جاتی آدیواسی نیائے مہا ابھیان (پی ایم –جے اےاین ایم اے این ) ایک علیحدہ شعبہ کے طور پرپی ایم جی ایس وائی کے تحت شروع کیا گیا ہے تاکہ خاص طور پر کمزور قبائلی طبقوں(پی وی ٹی جی ) کی ان بستیوں کو سڑکوں سے جوڑا جا سکے جن کی آبادی 100 افراد تک ہو۔ اس اسکیم کا ہدف 8,000 کلومیٹر سڑکوں کی تعمیر ہے جو 5 سال (2023-24 سے 2027-28) پر محیط ہے۔ اب تک پی ایم –جے اےاین ایم اے این کے تحت 5,718.229 کلومیٹر سڑکوں کی منظوری دی جا چکی ہے جس پر 4,366.03 کروڑ روپے لاگت آئے گی۔
میٹرو ریل

میٹرو ریل
میٹرو ریل اس وقت بھارت کے 23 شہروں میں یا تو چل رہی ہے یا زیر تعمیر ہے۔ مئی 2025 تک، بھارت میں 1,013 کلومیٹر میٹرو لائنز آپریشنل ہو چکی تھیں، جو کہ 2014 میں صرف 248 کلومیٹر تھیں۔ یعنی صرف گیارہ سال میں 763 کلومیٹر کا اضافہ ہوا ہے۔ میٹرو نیٹ ورک کی کل لمبائی کے لحاظ سے بھارت اب دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ اس دوران 34 میٹرو منصوبوں کی منظوری دی گئی، جن کی کل لمبائی 992 کلومیٹر ہے۔ روزانہ سفر کرنے والوں کی تعداد، جو14- 2013میں 28 لاکھ تھی، اب 1.12 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ نئی لائنوں کی منظوری کی رفتار میں 9 گنا اضافہ ہوا ہے۔ اب ہر مہینے اوسطاً 6 کلومیٹر میٹرو لائن آپریشنل کی جا رہی ہے، جبکہ 2014 سے پہلے یہ اوسط صرف 0.68 کلومیٹر فی مہینہ تھی۔
میٹرو ریل کے لیے سالانہ بجٹ میں بھی 6 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔2013-14میں یہ بجٹ 5,798 کروڑ روپےتھا، جو 2025-26 میں بڑھ کر 34,807 کروڑ روپے ہو گیا ہے۔
میٹرو نیٹ ورکس کے علاوہ، بھارت نے ریجنل ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم (آر آر ٹی ایس )کے آغاز کے ساتھ ٹرانسپورٹ میں ایک نیا سنگ میل عبور کیا ہے۔ دہلی-میرٹھ کاریڈور پر چلنے والی ‘‘نمو بھارت’’ ٹرینیں اس بات کی علامت ہیں کہ بھارت جدید اور تیز رفتار ٹرانزٹ نظام کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے، جو خطوں کے درمیان سفر کو مزید تیز اور مؤثر بناتا ہے۔
ریلوے

ہندوستانی ریلوے 2014 کے بعد سے ہندوستانی ریلوے کا بجٹ 9 گنا سے بھی زیادہ بڑھ چکا ہے۔ ریلوے نے عالمی معیار کی جدید ٹرینیں متعارف کرائی ہیں، جن میں شامل ہیں:
وندے بھارت ٹرینز:یہ سیمی ہائی اسپیڈ ٹرینیں ہیں جو آرام دہ سفر اور اعلیٰ درجے کی سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ وندے بھارت ٹرینز اس وقت 24 ریاستوں/مرکزکے زیر انتظام علاقوں اور 333 اضلاع کو جوڑ رہی ہیں۔ اس وقت ملک میں 68 وندے بھارت ٹرینیں (136 سروسز) چل رہی ہیں۔ مستقبل میں 400 عالمی معیار کی وندے بھارت ٹرینیں تیار کرنے کا منصوبہ ہے۔
امرت بھارت ٹرین:یہ ایک نان-اے سی، پُش پل ٹرین ہے جو بغیر جھٹکوں کے محفوظ اور آرام دہ سفر فراہم کرتی ہے۔ یہ ٹرینیں انڈین ریلوے نےآئی سی ایف چنئی میں خود تیار کی ہیں۔ اس وقت 3 امرت بھارت ٹرینیں (6 سروسز) ملک میں چل رہی ہیں۔
نمو بھارت ریپڈ ریل:یہ قریبی شہروں کے درمیان سفر کے لیے مختصر فاصلے کی ٹرین سروس ہے، جو انٹر-سٹی نیٹ ورک پر چلتی ہے۔ اسے ریلوے کوچ فیکٹری (آر سی ایف) کپورتھلہ میں تیار کیا گیا ہے۔ اس وقت 2 نمو بھارت ریپڈ ریلز (4 سروسز) کام کر رہی ہیں۔
مستقبل کے منصوبے:آئندہ 2 سے 3 سالوں میں عوام کے سفر کے تجربے کو انقلاب انگیز بنانے کے لیے200 نئی وندے بھارت ٹرینیں،100 امرت بھارت ٹرینیں،50 نمو بھارت ریپڈ ریلز،17,500 جنرل نان-اے سی کوچزتیارکرنے اور چلانے کا منصوبہ ہے۔
ریل کی پٹریوں کی بہتری کا کام
سال 2014 کے بعد سے 31,000 کلومیٹر سے زائد نئی ریلوے پٹریاں بچھائی گئی ہیں۔
سال 2014 کے بعد سے 45,000 کلومیٹر سے زائد پٹریوں کی مرمت کی گئی ہے۔
کل مختص سرمایہ
سال 2004 تا 2014: تقریباً 3.62 لاکھ کروڑ روپے۔
سال 2014 کے بعد17 لاکھ کروڑ روپے سے زائد سرمایہ کاری کی گئی۔
مسافروں کی سہولیات
سترہ سو نوے لفٹس اور 1,602 ایسکلیٹرز ریلوے اسٹیشنوں پر نصب کیے گئے تاکہ تمام مسافروں کے لیے رسائی کو آسان بنایا جا سکے اور ریلوے اسٹیشنوں کو مزید جامع بنایا جا سکے۔
6,000 سے زائد ریلوے اسٹیشنوں پر وائی فائی کی سہولت دستیاب ہے تاکہ مسافروں کو بہتر کنیکٹیویٹی میسر ہو۔
مشن نیٹ زیرو کاربن ایمیشن 2030
انڈین ریلوے تیزی سے اپنے تمام براڈ گیج نیٹ ورک کو بجلی سے چلانے کی جانب گامزن ہے، اور اس وقت 98فیصد سے زائد براڈ گیج نیٹ ورک کی برق کاری( الیکٹریفائی) کی جا چکی ہے۔
2,000 سے زائد ریلوے اسٹیشن شمسی توانائی سے چل رہے ہیں، جو توانائی کے مؤثر استعمال کی طرف ایک اہم قدم ہے۔
تمام ریلوے اسٹیشنوں، سروس بلڈنگز وغیرہ میں 100فیصد ایل ای ڈی لائٹس نصب کی جا چکی ہیں۔
پیداوار میں اضافہ
انڈین ریلوے اپنے کوچوں کے بیڑے کو مزید محفوظ اور آرام دہ ایل ایچ بی کوچز میں تبدیل کررہا ہے۔ 2014 سے اب تک 37,000 سے زائد ایل ایچ بیکوچز تیار کیے جا چکے ہیں۔
سال2024-25 میں 7,134 کوچز تیار کیے گئے، جو گزشتہ سال (6,541 کوچز) کے مقابلے میں 9فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔
سال2024-25 میں 41,929 ویگن یونٹس تیار کیے گئے، جبکہ 2023-24 میں یہ تعداد 37,650 تھی۔
سال2024-25 میں 1,681 لوکوموٹیوز تیار کیے گئے، جو کہ 2023-24 کے 1,472 یونٹس کے مقابلے میں 19فیصد اضافہ ہے اور یہ پیداوار یوروپ، شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ، افریقہ اور آسٹریلیا کی مجموعی پیداوار سے بھی زیادہ ہے۔

کَوچ – خودکار ٹرین تحفظ نظام
کَوچ ایک دیسی ساختہ خودکار ٹرین تحفظ (اے ٹی پی )نظام ہے، جو جدید ترین ٹیکنالوجی پر مبنی ہے اور اسے اعلیٰ سطح کی حفاظتی تصدیق(ایس آئی ایل-4)درکار ہوتی ہے۔
یہ نظام لوکو پائلٹ کی مدد کرتا ہے تاکہ ٹرین مقررہ رفتار کے اندر چلے، اور اگر لوکو پائلٹ بروقت بریک نہ لگائے تو کَوچ خود بخود بریک لگا دیتا ہے۔ خراب موسم میں بھی یہ نظام ٹرین کی محفوظ آمد و رفت کو یقینی بناتا ہے۔اب تک یہ نظام 1,548 روٹ کلومیٹر پر (جنوبی وسطی ریلوے اور شمالی وسطی ریلوے) نصب ہو چکا ہے۔دہلی-ممبئی اور دہلی-ہاوڑہ کاریڈورز (تقریباً 3,000 روٹ کلومیٹر) پر کام جاری ہے۔اب تک ان روٹس پر 1,081 روٹ کلومیٹر (705 دہلی-ممبئی اور 376 دہلی-ہاوڑہ) میں ٹریک سائیڈ کام مکمل ہو چکا ہے۔
غیر محفوظ لیول کراسنگ(یو ایل سی) کا خاتمہ
100فیصد یو ایل سی کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔12,000 سے زائد روڈ اوور بریجز (آر او بی) اور روڈ انڈر بریجز (آر یو بی) بنائے گئے ہیں تاکہ سڑک اور ریل دونوں صارفین کے لیے محفوظ آمد و رفت یقینی بنائی جا سکے۔
صرف 2025-24 میں 1,256 نئے آر او بی / آر یو بی تعمیر کیے گئےہیں۔
انفراسٹرکچر میں حالیہ ترقیات
1.چناب پل – دنیا کا سب سے اونچا ریلوے آرچ پل اور انجی کھڈ پل– بھارت کا پہلا کیبل اسٹیڈ ریلوے پل، مشکل پہاڑی علاقے میں خدمات دے رہا ہے۔چناب ریل برج359 میٹر دریا سے اونچا، 1,315 میٹر طویل، زلزلہ اور تیز ہواؤں کے خلاف مزاحمت فراہم کرتا ہے۔
2.نیا پامبن پل(بھارت کا پہلا ورٹیکل لفٹ ریل سی برج)-نیا پامبن پل، جو بھارت کا پہلا عمودی طور پر اٹھنے والا ریل سمندری پل ہے، نے رامیشورم اور بھارت کے مرکزی حصے (مین لینڈ) کے درمیان ریلوے رابطے میں انقلابی تبدیلی پیدا کر دی ہے۔ یہ پل جدید انجینئرنگ کا شاہکار ہے اور قوم کے نام وقف کر دیا گیا ہے۔
3. کوسی ریل مہاسیتو وزیراعظم جناب نریندر مودی نے 18 ستمبر 2020 کو کوسی ریل مہاسیتو کا افتتاح کیا۔ یہ پل بھارت-نیپال سرحد کے قریب واقع ہے اور اس کی تزویراتی (اسٹریٹیجک) اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ خطے میں ریلوے رابطے کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کے نقطۂ نظر سے بھی نہایت اہم منصوبہ ہے۔
جاری اسکیموں/پروگراموں کی پیشرفت
- برق کاری کی (الیکٹریفیکیشن )رفتار2004سے 2014 کے درمیان براڈ گیج ریلوے نیٹ ورک کے صرف 5,188 روٹ کلومیٹر کو بجلی سے چلنے کے قابل بنایا گیا۔2014 سے 2025 کے درمیان 45,000 روٹ کلومیٹر سے زائد نیٹ ورک کو الیکٹریفائی کیا جا چکا ہے۔اس الیکٹریفیکیشن سے ریلوے کو ہر سال 2,960 کروڑ روپےکی بچت ہو رہی ہے (فروری 2025 تک)، جو مالی کارکردگی میں بہتری کی علامت ہے۔
- الیکٹریکل / الیکٹرانک انٹرلاکنگ سسٹمز۔انسانی غلطیوں سے ہونے والے حادثات کو روکنے کے لیے مرکزی نظام کے ذریعے پوائنٹس اور سگنلز کا کنٹرول فراہم کیا گیا ہے۔31 مارچ 2025 تک 6,600 سے زائد ریلوے اسٹیشنوں پر یہ جدید نظام نصب کیا جا چکا ہے۔
- ون اسٹیشن ون پروڈکٹ اسکیم ۔یہ ریلوے کی وزارت کی ایک اسکیم ہے جس کا مقصد مقامی کاریگروں، کمہاروں، بنکروں، ہنرمندوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہے۔اس اسکیم کے تحت ملک بھر کے ریلوے اسٹیشنوں پر مقامی مصنوعات کی فروخت کے لیے اسٹالز دیے جا رہے ہیں۔31مارچ 2025 تک، 1,979 اسٹیشنوں پر 2,266 او ایس او پی آؤٹ لیٹس کام کر رہے ہیں، جن کی کل فروخت 107.89 کروڑ روپے رہی ہے۔
- فریٹ لوڈنگ -ریلوے میں مال برداری کے شعبے میں 2014 کے بعد زبردست ترقی ہوئی ہے۔2004 سے 2014 کے درمیان کل فریٹ لوڈنگ 8,473 ملین ٹنتھی،جبکہ 2014 سے 2025 کے دوران یہ 14,200 ملین ٹن سے تجاوز کر گئی۔2024-25 میں فریٹ لوڈنگ کا اب تک کا سب سے بڑا ریکارڈ 1,617.38 ملین ٹن درج کیا گیا۔
- ڈیڈیکیٹڈ فریٹ کاریڈور۔2014 سے پہلے ایک بھی کلومیٹر ڈی ایف سیمکمل نہیں ہوا تھا۔2014 کے بعد اب تک 96 فیصد سے زائد ڈی ایف سیمکمل کیا جا چکا ہے (کل 2,843 کلومیٹر)۔ایسٹرن ڈی ایف سی 1,337 کلومیٹر مکمل۔ویسٹرن ڈی ایف سی 1,506 کلومیٹر تقریباً مکمل ہونے کے قریب ہے۔
حالیہ اقدامات اور ان کی پیش رفت

- گتی شکتی کارگو ٹرمینل:مال برداری کی لاگت کو کم کرنے اور کثیر الجہتی ٹرانسپورٹ کو فروغ دینے کے لیے 100 گتی شکتی کارگو ٹرمینلز قائم کیے جا چکے ہیں۔ یہ اقدام بھارت میں لاجسٹک سیکٹر کو مؤثر اور جدید بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
- امرت بھارت اسٹیشن اسکیم:اس اسکیم کے تحت 1300 سے زائد ریلوے اسٹیشنوں کی از سرِ نو تعمیر اور ترقی کی جا رہی ہے۔ان اسٹیشنوں کو عالمی معیار کی سہولیات سے آراستہ کیا جا رہا ہے تاکہ مسافروں کو جدید، آرام دہ، محفوظ اور سہولت سے بھرپور تجربہ حاصل ہو۔
- پی ایم جن اوشدھی کیندر- :ریلوے اسٹیشنوں پر عام آدمی کو سستی اور معیاری دوائیں فراہم کرنے کے لیے 68 پی ایم جن اوشدھی کیندر مختلف ریلوے اسٹیشنوں پر کام کر رہے ہیں۔یہ مراکز اسٹیشن کے احاطے میں ادویات کی آسان دستیابی اور صحت کی سہولیات تک رسائی کو یقینی بناتے ہیں۔
کابینہ کے حالیہ فیصلے
نو اپریل 2025 کو کابینہ نے 104 کلومیٹر طویل تروپتی-پاکالا-کٹپاڈی ریلوے لائن کو دوگنا کرنے کی منظوری دی ، جس کی تخمینہ جاتی لاگت 1332 کروڑ روپے ہے۔
|
4 اپریل ، 2025 کو کابینہ نے تقریباً 18658کروڑ روپے کے چار بڑے ریلوے پروجیکٹوں کو منظوری دی ۔یہ پروجیکٹ مہاراشٹر ، اڈیشہ اور چھتیس گڑھ کے 15 اضلاع کا احاطہ کرتے ہیں ۔
|
7 فروری 2025 کو کابینہ نے والٹیئر ریلوے ڈویژن کی تنظیم نو کی منظوری دی ۔ پلاسا-وشاکھاپٹنم-دوواڈا جیسے راستوں سمیت تقریباً 410 کلومیٹر طویل راستہ نئے وشاکھاپٹنم ڈویژن کے طور پر ساؤتھ کوسٹ ریلوے کے تحت رہے گا ۔ بقیہ 680 کلومیٹر ، جو کوٹاولاسا-بچلی جیسے راستوں کا احاطہ کرتا ہے ، ایسٹ کوسٹ ریلوے کے تحت ایک نیا ڈویژن بن جائے گا جس کا صدر دفتر رائےگڑا میں ہوگا ۔
|
شہری ہوابازی
مارچ 2025 تک ملک میں 160 آپریشنل ہوائی اڈے ہیں ، جن میں 145 ہوائی اڈے ، 2 واٹر ایروڈروم اور 13 ہیلی پورٹس شامل ہیں ۔
مکمل کیے گئے بڑے پروجیکٹ

گرین فیلڈ ہوائی اڈے فعال
وزارت نے متعدد گرین فیلڈ ہوائی اڈوں کے قیام کے ذریعے علاقائی ترقی اور اقتصادی شمولیت پر زور دیا ہے:
درگاپور ہوائی اڈہ ، مغربی بنگال (2015) :اس ہوائی اڈے نے مشرقی صنعتی پٹی سے کنکٹی ویٹی کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔
شرڈی ہوائی اڈہ ، مہاراشٹر (2017): مذہبی سیاحت کی خدمت کے لیے قائم ، اس ہوائی اڈے نے آغاز کے فورا ًبعد ٹریفک میں بھاری اضافہ دیکھا۔
کنور ہوائی اڈہ ، کیرالہ اور پاکیونگ ہوائی اڈہ ، سکم (2018): ان ہوائی اڈوں نے منفرد جغرافیائی اور اقتصادی چیلنجوں والی دو ریاستوں کو اہم روابط فراہم کیے ۔
کلبرگی ہوائی اڈہ ، کرناٹک (2019) :علاقائی اقتصادی انضمام کو فروغ دینے کے لیے بنایا گیا ۔
کرنول ہوائی اڈہ ، آندھرا پردیش (2020): جنوبی ہندوستان میں تیزی سے ترقی پذیر خطے تک رسائی میں اضافہ ۔
کشی نگر اور سندھو درگ ہوائی اڈوں (2021): نے سیاحت اور علاقائی تجارت کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔
ڈونی پولو ہوائی اڈہ ، ایٹا نگر (2022): اروناچل پردیش میں ایک اسٹریٹجک ہوائی اڈہ جو سرحدی کنکٹی ویٹی میں اضافہ کرتا ہے ۔
ایم او پی اے ہوائی اڈہ ، گوا (2023): نے موجودہ ہوائی اڈے کے بنیادی ڈھانچے کی تکمیل کی اور گوا کی بڑھتی ہوئی سیاحت کی صنعت کی مدد کی ۔
ان ہوائی اڈوں نے ہوا بازی کی ترقی کو لامرکزی بنانے ، علاقائی سیاحت کو بڑھانے ، روزگار پیدا کرنے اور میٹرو ہوائی اڈوں پر دباؤ کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔
ڈیجیٹل اور سیکورٹی کے بنیادی ڈھانچے میں اضافہ
ای جی سی اے پروجیکٹ: یہ مئی 2019 میں شروع کیا گیا ایک تاریخی پروجیکٹ تھا اور ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن کے آپریشنز کو ڈیجیٹل بنانے کے لیے جولائی 2021 تک مکمل ہوا ۔ 298 خدمات آن لائن منتقل ہوئیں ، جس سے ریگولیٹری تعمیل ، شفافیت اور کاروبار کرنے میں آسانی میں زبردست بہتری آئی ۔
بائیو میٹرک ایکسیس کنٹرول (اے ای پی) :ہوائی اڈے کے عملے کے داخلے کے لیے ایک قومی بائیو میٹرک پر مبنی نظام ، جو دسمبر 2019 میں متعارف کرایا گیا تھا ، جدید ہوا بازی کی سلامتی کی طرف ایک بڑی چھلانگ تھا ۔ اس نے انسانی غلطی کو کم کیا ، خطرے کا پتہ لگانے میں اضافہ کیا اور نقالی کو ختم کیا ۔
ڈیجی یاترا: 2022 کے بعد سے نافذ کی گئی ، ڈیجی یاترا نے چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے مسافروں کی بغیر کاغذ ، بغیر رابطے کی پروسیسنگ کے قابل بنایا ۔ مارچ 2025 تک 5.22 کروڑ سے زیادہ مسافروں نے اس سہولت کا استعمال کیا تھا ۔ ڈیجی یاترا ایپ اینڈرائڈ کے ساتھ ساتھ آئی او ایس پلیٹ فارم پر بھی دستیاب ہے اور اسے اب تک 01.21 کروڑ سے زیادہ صارفین نے ڈاؤن لوڈ کیا ہے ۔ اسے 24 بڑے ہوائی اڈوں پر شروع کیا گیا تھا ۔
ای-بی سی اے ایس: بیورو آف سول ایوی ایشن سیکیورٹی کے اندرونی اور بیرونی عمل کو ہموار کرنے کے لیے متعارف کرایا گیا ۔ دسمبر 2019 میں شروع کی گئی اس پہل نے تعمیل کی نگرانی ، لائسنس جاری کرنے اور سیکیورٹی آڈٹ کرنے کے لیے کاغذ کے بغیر ایکو سسٹم تشکیل دیا ۔ ای-بی سی اے ایس (سافٹ ویئر) ڈیجیٹل انڈیا کا حصہ ہے ، جسے این آئی سی نے تیار کیا ہے ۔
اہم اسکیمیں اور اقدامات

1. علاقائی رابطہ کاری اسکیم (آر سی ایس) اڑان (اڑے دیش کا عام ناگرک)
نیشنل سول ایوی ایشن پالیسی (این سی اے پی) کے تحت یہ فلیگ شپ اسکیم جون 2016 میں علاقائی راستوں پر سستی ، لیکن معاشی طور پر قابل عمل اور منافع بخش ہوائی سفر کے لیے جاری کی گئی تھی ۔ ملک کے شہری ہوابازی کے منظر نامے میں نئے راستے اور نئے ہوائی اڈے شامل کیے گئے ہیں ۔ ہندوستان میں آپریشنل ہوائی اڈوں کی تعداد 2014 میں 74 سے بڑھ کر 2025 میں 160 ہو گئی ہے ۔ اقتصادی امور کی کابینہ کمیٹی (سی سی ای اے) نے غیر استعمال شدہ اور کم استعمال شدہ ہوائی اڈوں کی بحالی اور ترقی کو کل 4500 کروڑ روپے کی لاگت کے ساتھ منظوری دے دی ہے ۔ مذکورہ بالا کے علاوہ ، اخراجات کی مالیاتی کمیٹی (ای ایف سی) نے بھی اڑان اسکیم کے تحت 50 مزید ہوائی اڈوں ، ہیلی پورٹس اور واٹر ایروڈروم کی ترقی کے لیے 1000 کروڑ روپے کی رقم منظور کی ہے۔ اس کے علاوہ :
چھ سو پچیس راستوں کو چالو کر دیا گیا ہے ۔
اٹھاسی غیر استعمال شدہ اور کم استعمال شدہ ہوائی اڈوں کو چاکو کر دیا گیا ہے (بشمول 13 ہیلی پورٹس اور 2 واٹر ایروڈروم) ۔
مزید برآں، 1.51 کروڑ سے زیادہ مسافروں نے آر سی ایس پروازوں میں سفر کیا ہے ۔
وہیں 3.05 لاکھ پروازیں چلائی گئی ہیں ؛ اور
کل 4029 کروڑ روپے کی وائبلٹی گیپ فنڈنگ ادا کی گئی ہے ۔
یہ اسکیم شمال مشرقی ہندوستان ، پہاڑی علاقوں اور قبائلی پٹیوں پر زیادہ توجہ دینے کے ساتھ مساوی علاقائی کنکٹی ویٹی کو یقینی بناتی ہے ۔ شمال مشرقی خطے کے لیے 90 آر سی ایس روٹس اور 12 ہوائی اڈوں/ہیلی پورٹس/واٹر ایروڈروم کو چالو کیا گیا ہے ۔
2. کرشی اڑان
ستمبر 2020 میں شروع کی گئی کرشی اڑان اسکیم ،زرعی پیداوار اور جلد خراب ہونے والی اشیاء کی تیزی سے نقل و حمل کےخاص طور پر قبائلی اور شمال مشرقی ریاستوں کو فائدہ پہنچانے کے لائق بناتی ہے ۔ آپریشن گرین اسکیم کے ساتھ ہم آہنگی میں ، یہ 50فیصد فریٹ سبسڈی ، ملٹی ماڈل ٹرانسپورٹ آپشنز اور باغبانی اور متعلقہ پیداوار کی کوریج پیش کرتی ہے ۔
3. لائف لائن اڑان
یہ خصوصی پہل مارچ 2020 میں کووڈ-19 لاک ڈاؤن کے دوران شروع کی گئی تھی تاکہ بلا رکاوٹ طبی اور ضروری سامان کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے ۔ 588 سے زیادہ پروازوں نے 5.45 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے پر 1000 ٹن کارگو پہنچایا ، جس میں خاص طور پر شمال مشرقی خطے ، جزائر اور پہاڑی علاقوں پر توجہ مرکوز کی گئی ۔ لائف لائن اڑان نے کووڈ لیبز کے قیام ، طبی ٹیموں کی نقل و حمل اور وشاکھاپٹنم گیس رساو جیسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے میں بھی مدد کی ۔
4. ہیلی کاپٹر ایمرجنسی میڈیکل سروسز (ایچ ای ایم ایس)
شہری ہوا بازی کی وزارت ، وزارت صحت اور خاندانی بہبود اور اتراکھنڈ حکومت کے درمیان مشترکہ منصوبے کے طور پر اکتوبر 2024 میں شروع کی گئی ۔ یہ ملک کا پہلا ایئر ایمبولینس ماڈل ہے جو پہاڑی علاقوں میں ٹروما کیئر فراہم کرتا ہے ۔ ایمس رشی کیش میں یہ پائلٹ پروجیکٹ پہلے ہی کامیاب ثابت ہو چکا ہے ۔
5. ڈرون ایکو سسٹم میں اصلاحات
ڈرون رولز ، 2021 (ابھرتی ہوئی ڈرون صنعت کو مزید آزاد بنانے کے لیے) سے لے کر ڈیجیٹل اسکائی ، 2018 (ڈرون رجسٹریشن کے لیے ایک آن لائن پورٹل) کے آغاز تک ڈرون پر مبنی خدمات میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے ۔ 34.79 کروڑ روپے کی پیداوار سے منسلک ترغیبی (پی ایل آئی) اسکیم جو مالی سال25-2024 کے دوران ادا کی گئی اور غیر ملکی ڈرونوں پر درآمدی پابندیوں نے مقامی مینوفیکچرنگ کو فروغ دیا ہے ۔ بھارت ڈرون مہوتسو (2022) اور آنے والا ڈرون بل (2025) ہندوستان کے عالمی ڈرون فوٹ پرنٹ کی تشکیل کر رہے ہیں ۔ سول ڈرون (پروموشن اینڈ ریگولیشن) بل ، 2025 ابھرتے ہوئے ڈرون شعبے کی منفرد ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے وضع کیا گیا ہے ۔ بڑھتے ہوئے ڈرون ایکو سسٹم کو درج ذیل اعداد و شمار سے سمجھا جا سکتا ہے:
رجسٹرڈ شدہ ڈرونوں کی تعداد-32108
ریموٹ پائلٹ سرٹیفکیٹ کی تعداد-26,081
ٹائپ سرٹیفکیٹ کی تعداد-106
ریموٹ پائلٹ ٹریننگ آرگنائزیشن کی تعداد-172
پالیسی اور قانون سازی کا فریم ورک
اینٹی ہائی جیکنگ ایکٹ ، 2016: یہ ایکٹ ہائی جیکنگ کی تعریف کو وسیع کرنے کے ساتھ دائرہ اختیار میں توسیع فراہم کرتا ہے ۔ اس ایکٹ میں عمر قید (شخص کی بقیہ فطری زندگی کے لیے) اور جرمانے کی سزا کے علاوہ منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد ضبط کرنے کا بھی التزام ہے ۔
ایئر کرافٹ (سکیورٹی) رولز ، 2023 اور ترامیم (2024) قومی اور شہری سلامتی کے مفاد میں خطرات کے خلاف فعال طور پر کام کرنے کے لیے حکام کو بااختیار بناتی ہیں۔
بھارتیہ وایویان ادھینیم ، 2024: یہ ایک قانون سازی کی اصلاح ہے جس کا مقصد عصری ضروریات اور عالمی معیارات کے مطابق ایئر کرافٹ ایکٹ ، 1934 کو دوبارہ نافذ کرکے ہندوستان کے ہوا بازی کے شعبے کو جدید بنانا ہے ۔ نیا قانون میک ان انڈیا اور آتم نربھر بھارت اقدامات کے تحت مقامی مینوفیکچرنگ کو فروغ دے گا ، شکاگو کنونشن اور آئی سی اے او جیسے بین الاقوامی کنونشنوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوگا اور لائسنسوں کے اجرا کو آسان بنانے جیسے ریگولیٹری عمل کو ہموار کرے گا ۔ یہ ایکٹ بے کاریوں کو دور کرتا ہے اور اپیلوں کے لیے التزامات فراہم کرتا ہے ۔
تحفظ مفادات برائے ہوائی جہاز اشیاء ایکٹ، 2025: یہ قانون لیز پر دینے والوں کے لیے اثاثوں کے تحفظ کو بہتر بناتا ہے، جو ہوائی جہاز کی لیزنگ کی توسیع کے لیے نہایت اہم ہے۔
سماجی شمولیت اور مسافروں کا تجربہ
ہوا بازی میں خواتین: ہندوستان 15فیصد خاتون پائلٹوں کے ساتھ عالمی سطح پر سرفہرست ہے ۔ شہری ہوا بازیکی وزارت (ایم او سی اے) نے 2025 تک 25فیصد خواتین افرادی قوت کو ہدف بنانے کے لیے 2024 میں رہنما خطوط جاری کیے ۔ ملک کے ہوائی ٹریفک کنٹرولرز میں سے 15فیصد خواتین ہیں اور پرواز بھیجنے والوں میں سے 11فیصد خواتین ہیں ۔ اس کے علاوہ ڈی جی سی اے میں فلائٹ آپریٹر انسپکٹرز (ایف او آئی) میں 33فیصد خواتین ہیں ۔
اڑان یاتری کیفے: ہوائی اڈوں پر مسافروں کو سستے کھانے کے متبادل پیش کرنے کے لیے ، پہلا اڑان یاتری کیفے 19 دسمبر 2024 کو کولکتہ کے نیتاجی سبھاش چندر بوس بین الاقوامی ہوائی اڈے پر شروع کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد چنئی اور احمد آباد ہوائی اڈوں پر ایسے کیفے متعارف کرائے گئے ۔
سامان سے متعلق اصلاحات: بڑے ہوائی اڈوں پر آخری سامان کی واپسی کا وقت کم کر کے 30 منٹ سے کم کر دیا گیا ۔ جنوری 2024 سے جون 2024 کے دوران 30 منٹ کے اندر موصول ہونے والا سامان 62فیصد سے بڑھ کر 97 فیصد ہو گیا ہے ۔
کابینہ کے حالیہ فیصلے
انیس جون 2024 کو کابینہ نے ایئرپورٹ اتھارٹی آف انڈیا (اے اے آئی) کی طرف سے وارانسی میں لال بہادر شاستری بین الاقوامی ہوائی اڈے کو اپ گریڈ کرنے کی تجویز کو منظوری دی ، جس کی تخمینہ جاتی لاگت 2869.65 کروڑ روپے ہے۔
|
سولہ اگست 2024 کو کابینہ کی طرف سے منظوری شدہ اس پروجیکٹ میں 1413 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کے ساتھ بہٹا ، پٹنہ میں ایک نئے سول انکلیو کی تعمیر شامل ہے ۔
|
نیز 16 اگست 2024 کو کابینہ نکی طرف سے منظور شدہ 1549 کروڑ روپے کا پروجیکٹ ، سلی گوڑی کے باگڈوگرا ہوائی اڈے پر ایک نیا سول انکلیو تیار کرے گا ۔
|
اس کے علاوہ 11 دسمبر 2021 کو وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے بلرام پور ، اتر پردیش میں کینال نیشنل پروجیکٹ کا بھی افتتاح کیا تھا ۔
بندرگاہیں ، جہاز رانی اور آبی گزرگاہیں
مکمل شدہ بڑے پروجیکٹ

وژنجم انٹرنیشنل ڈیپ واٹر ملٹی پرپز سی پورٹ: 2 مئی 2025 کو وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے افتتاح کیا گیا ۔ یہ 8800 کروڑ روپے کا پروجیکٹ ہندوستان کی پہلی مخصوص کنٹینر ٹرانس شپمنٹ بندرگاہ ہے ۔ حکمت عملی کے لحاظ سے بین الاقوامی جہاز رانی کے راستوں کے قریب واقع ، یہ دنیا کے سب سے بڑے کارگو جہازوں کی میزبانی کر سکتا ہے ۔ یہ بندرگاہ غیر ملکی بندرگاہوں پر ہندوستان کے انحصار کو نمایاں طور پر کم کرتی ہے اور کیرالہ میں اقتصادی سرگرمیوں کو بڑھاتی ہے ۔
کوچین شپ یارڈ لمیٹڈ میں نیو ڈرائی ڈاک (این ڈی ڈی):1800 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر شدہ ، 310 میٹر کی لمبائی اور 13 میٹر کی گہرائی کے ساتھ ، یہ 70,000 ٹن تک کی منتقلی کے طیارہ بردار بحری جہاز کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
بین الاقوامی جہاز کی مرمت کی سہولت (آئی ایس آر ایف) کوچین: ایشیا کی سب سے بڑی جہاز کی مرمت کی سہولت ، جس کی تعمیر ی لاگت 970 کروڑ روپے ہے ۔ یہ 6000 ٹن کی لفٹنگ کی گنجائش کے ساتھ بیک وقت 130 میٹر کے سات جہازوں کو ایڈجسٹ کر سکتا ہے ۔
جل مارگ وکاس پروجیکٹ (جے ایم وی پی): یہ پروجیکٹ قومی آبی گزرگاہ نمبر 1 (ہلدیہ سے وارانسی تک) کی صلاحیت بڑھانے کے لیے 5,370 کروڑ روپے کی منظوری کے ساتھ شروع کیا گیا ہے۔ یہ ایک اہم اندرونی جہاز رانی کی پہل ہے جو گنگا دریا پر مال برداری کی نقل و حمل کو بہتر بناتی ہے۔
جاری اہم پروجیکٹ
وادھون ڈیپ ڈرافٹ پورٹ: دنیا کی سرفہرست 10 کنٹینر بندرگاہوں میں سے ایک کے طور پر تصور کیا گیا ۔ 76,000 کروڑ روپے اور پی پی پی موڈ کے تحت 23 ملین ٹی ای یو کی صلاحیت کی سرمایہ کاری کے ساتھ تیار کیا جا رہا ہے ۔
ٹونا ٹیکرا ، دین دیال بندرگاہ پر کنٹینر ٹرمینل: پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) کے تحت نوازا گیا جس کی تخمینہ لاگت 4200 کروڑ روپے ہے اس کی سالانہ ہینڈلنگ کی صلاحیت 2.19 ملین ٹوینٹی فوٹ ایکویلینٹ یونٹ (ٹی ای یوز) ہے جو شمالی ، شمال مغربی اور وسطی ہندوستان سے تجارتی مطالبات کو پورا کرنے کے لیے قائم ہے ۔
ویسٹرن ڈاک پروجیکٹ ، پارادیپ پورٹ: اے ۔ 25 ایم ایم ٹی پی اے کی صلاحیت کے ساتھ 3000 کروڑ روپے کا پی پی پی پروجیکٹ ، 18 میٹر کے ڈرافٹ کے ساتھ کیپ سائز کے جہازوں کی مدد کرتا ہے ۔
گرین ہائیڈروجن ہب: تین بڑی بندرگاہوں دین دیال (کانڈلا) وی او سی پورٹ (توتی کورین) اور پارادیپ پورٹ پر زیر تعمیر ہے ۔ یہ گرین ہائیڈروجن کی پیداوار ، ذخیرہ اندوزی اور برآمد کو قابل بنانے کے لیے ہندوستان کے نیشنل گرین ہائیڈروجن مشن کے ساتھ ہم آہنگ ہیں ۔
ہندوستان کے سب سے بڑے ہاپر ڈریجر کی تعمیر: 12,000 ایم 3 کی گنجائش کے ساتھ ، کوچین شپ یارڈ لمیٹڈ کے ذریعے ڈریجنگ کارپوریشن آف انڈیا کے لیے تعمیر کیا جا رہا ہے ۔
اہم اسکیمیں اور پروگرام

1. ساگر مالا پروگرام
ساگر مالا پروگرام ، جو مارچ 2015 میں شروع کیا گیا تھا ، ایک فلیگ شپ پہل ہے جس کا مقصد ہندوستان کے سمندری شعبے میں انقلاب لانا ہے۔ 7500 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی ، 14,500 کلومیٹر ممکنہ بحری آبی گزرگاہوں اور اہم عالمی تجارتی راستوں پر اسٹریٹجک پوزیشن کے ساتھ ، ہندوستان بندرگاہ پر مبنی اقتصادی ترقی کے بے پناہ امکانات رکھتا ہے ۔ ساگرمالا کا مقصد روایتی اور بھاری انفراسٹرکچر پر مبنی نقل و حمل سے ہٹ کر مؤثر ساحلی اور آبی گزرگاہ نیٹ ورکس کی جانب منتقلی کے ذریعے لاجسٹکس کو آسان بنانا، اخراجات کم کرنا اور بین الاقوامی تجارتی مسابقت کو بہتر بنانا ہے۔
ساگر مالا پروگرام میری ٹائم امرت کال ویژن 2047 کا ایک اہم ستون ہے ۔ حکومت ہند ساگر مالا 2.0 کے ساتھ ساگر مالا پروگرام کو آگے بڑھا رہی ہے ، جس میں ہندوستان کی سمندری مسابقت کو بڑھانے کے لیے جہاز سازی ، مرمت ، ری سائیکلنگ اور بندرگاہ کی جدید کاری پر توجہ دی جا رہی ہے ۔ 40,000 کروڑ روپے کی بجٹ امداد کے ساتھ، اس پہل کا مقصد اگلی دہائی تک 12 لاکھ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانا ہے ۔ جو بنیادی ڈھانچے کی ترقی ، ساحلی اقتصادی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا باعث بنےگی ۔
2. سمندری شعبے کو سبز بنانا
ہرت ساگر رہنما خطوط: بندرگاہوں میں قابل تجدید توانائی ، ساحل سے جہاز کی طاقت اور سرکلر معیشت کو فروغ دینا ۔
ہرت نوکا رہنما خطوط: برقی ، ہائیڈروجن ، امونیا پر مبنی متبادل ایندھن کے جہازوں کی تعمیر اور ریٹروفٹنگ کے ذریعے اندرون ملک جہازوں کے ای-کاربونائزیشن کی حوصلہ افزائی کرنا۔
گرین ٹگ ٹرانزیشن پروگرام (جی ٹی ٹی پی): یہ پروگرام بڑی بندرگاہوں پر ٹگ بوٹس کو رواں روایتی ایندھن سے صفر اور نزدیک صفر (زیڈ این زیڈ) ایندھن کی جانب منتقل کرنے کا ہدف رکھتا ہے، جسے 2047 تک مکمل کیا جائے گا۔
انڈیا-سنگاپور گرین شپنگ کوریڈور: اپنی نوعیت کا پہلا بین الاقوامی گرین اور ڈیجیٹل کوریڈور ۔
3. ون نیشن ون پورٹ پروسیس (او این او پی)
تمام بڑی بندرگاہوں پر دستاویزات اور عمل کو معیاری بنانے کے لیے متعارف کرایا گیا ۔ کنٹینر اور بلک کارگو آپریشنز کے لیے کاغذی کارروائی میں 25فیصد کمی متوقع ہے ، جس سے لاجسٹک لاگت میں نمایاں بچت ہوگی ۔
نمایاں کارکردگی (2014-2025)
1. بندرگاہوں کا شعبہ
بندرگاہ کی صلاحیت: 1,400 ایم ایم ٹی پی اے سے بڑھ کر 2,762 ایم ایم ٹی پی تک دوگنا ہوگئی
کارگو ہینڈل: 972 ایم ایم ٹی سے بڑھ کر 1,594 ایم ایم ٹی ہوگئی
جہاز کے بندرگاہ پر قیام کا دورانیہ: مجموعی دورانیہ 93 گھنٹے سے کم ہوکر 49 گھنٹے ہوگیا
نیٹ اینول سرپلس: 1,026 کروڑ روپے سے بڑھ کر 9,352 کروڑ روپے ہو گیا
آپریٹنگ تناسب: 73فیصد سے 43فیصد تک بہتر
2. شپنگ سیکٹر
ہندوستانی پرچم بردار بحری جہاز: 1205 سے بڑھ کر 1549 ہو گئے
مجموعی ٹنج: 10 ایم جی ٹی سے 13.52 ایم جی ٹی تک اضافہ
ساحلی شپنگ کارگو: 87 ایم ایم ٹی سے بڑھ کر 165 ایم ایم ٹی ہوگیا
ملاح: 1.17 لاکھ سے بڑھ کر 3.20 لاکھ ہو گئے ؛ خاتون ملاح 10 گنا بڑھ گئیں
نئے راستے: بھارت-مالدیپ کارگو سروس ؛ بھارت-سری لنکا مسافر سروس
3. اندرونی آبی گزرگاہیں
چالو آبی گزرگاہیں: 3 سے بڑھ کر 29 ہوگئیں
کارگو ہینڈل: 18 ایم ایم ٹی سے بڑھ کر 146 ایم ایم ٹی تک پہنچ گئیں (جو710فیصد اضافہ ہے)
فیری/رو-پیکس مسافر: 25-2024 میں 7.5 کروڑ سے زیادہ
4. سیاحت
سی کروز پیسنجر: 0.84 لاکھ سے بڑھ کر 4.92 لاکھ (480فیصد اضافہ)
ریور کروز روٹس: 3 سے بڑھ کر 13
لائٹ ہاؤس سیاحت: 4.34 لاکھ سے بڑھ کر 18.63 لاکھ (330فیصد اضافہ)
گنگا ولاس: وارانسی سے ڈبرو گڑھ تک دنیا کا سب سے طویل دریا کا سفر 2023 میں مکمل ہوا
اس مدت کے علاوہ ، قومی آبی گزرگاہوں (این ڈبلیو) کا نوٹیفکیشن14-2013 میں 5 سے بڑھ کر 2016 تک 111 ہو گیا ۔
کابینہ کے حالیہ فیصلے
3 اکتوبر ، 2024 کو کابینہ نے 21-2020 سے 26-2025 کی مدت کے لئے بڑی بندرگاہوں اور ڈاک کارکنوں کے لئے پی ایل آر (پیداواریت سے منسلک انعام) اسکیم میں تبدیلیوں کی منظوری دی ۔
|
کابینہ نے 9 اکتوبر 2024 کو نیشنل میری ٹائم ہیریٹیج کمپلیکس (این ایم ایچ سی) کی ترقی کے فیز 1 بی اور فیز 2 کو منظوری دی ۔ فیز 1 بی میں 8 نئی گیلریاں اور دنیا کی سب سے اونچی لائٹ ہاؤس میوزیم شامل ہے ۔
|
بین الاقوامی تعاون
عالمی شراکت داروں (ناروے ، ڈنمارک ، متحدہ عرب امارات ، جنوبی کوریا ، بنگلہ دیش وغیرہ) کے ساتھ 21 سے زیادہ مفاہمت ناموں پر دستخط ہوئے ۔ )
سال2024 میں ، ہندوستان اور ایران نے چابہار میں شاہد بہشتی بندرگاہ کو چلانے کے لیے 10 سالہ معاہدے پر دستخط کیے ، جس سے ہندوستان کو بندرگاہ کو چلانے کے قانونی حقوق فراہم ہوئے ۔ یہ بین الاقوامی شمال-جنوب ٹرانسپورٹ کوریڈور نیٹ ورک کے لیے ایک اہم نوڈل پوائنٹ ہوگا۔
نیشنل میری ٹائم ہیریٹیج کمپلیکس کے لیے پرتگال ، متحدہ عرب امارات ، ویتنام اور تھائی لینڈ کے ساتھ تعاون
سال 2016 میں میرین نیویگیشن ایڈز میں تربیت کے لیے انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف میرین ایڈز ٹو نیویگیشن اینڈ لائٹ ہاؤس اتھارٹیز (آئی اے ایل اے) اور ڈی جی ایل ایل کے ساتھ مفاہمت نامہ ۔
بھارت-مشرق وسطی-یورپ اقتصادی راہداری (آئی ایم ای سی) ہندوستان کی جی 20 صدارت کے دوران شروع کیا گیا یہ پروجیکٹ یورپ اور مشرق وسطی کے ساتھ سمندری کنکٹی ویٹی کو بڑھاتا ہے ۔ لاجسٹک اخراجات کو 30فیصد اور ٹرانزٹ ٹائم کو 40فیصد تک کم کرنے کی توقع ہے ۔
نتیجہ
سال 2014 سے 2025 تک ہندوستان کا بنیادی ڈھانچے کا سفر مرکوز پالیسی سازی ، تکنیکی اختراع اور بڑے پیمانے پر عوامی سرمایہ کاری کا ثبوت ہے۔جیسے جیسے ملک وکست بھارت@2047 کی جانب بڑھ رہا ہے، ملک کی آبادیاتی اور جغرافیائی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا،آخری منزل تک رسائی (لاسٹ مائل کنیکٹی ویٹی)، ملٹی موڈل انٹیگریشن) اور انفراسٹرکچر میں ماحولیاتی لچک (کلائمٹ ریزیلینس) پر مسلسل توجہ دینا نہایت ضروری ہوگا۔
حوالہ جات
سڑک نقل و حمل اور شاہراہوں کی وزارت
دیہی ترقی کی وزارت
وزارت ریلوے
شہری ہوابازی کی وزارت
بندرگاہوں ، جہاز رانی اور آبی گزرگاہوں کی وزارت
https://archive.pib.gov.in/newsite/PrintRelease.aspx?relid=117685
https://pmgatishakti.gov.in/pmgatishakti/about_pmgati
https://www.pib.gov.in/PressNoteDetails.aspx?NoteId=153274
https://www.investindia.gov.in/team-india-blogs/national-logistics-policy-india
https://sansad.in/getFile/loksabhaquestions/annex/184/AU272_bm8Dsw.pdf?source=pqals
https://www.pib.gov.in/PressReleseDetail.aspx?PRID=2125467
https://www.pib.gov.in/PressReleseDetail.aspx?PRID=2120357
https://www.pib.gov.in/PressReleseDetail.aspx?PRID=2116186
https://www.pib.gov.in/PressReleseDetail.aspx?PRID=2112781
https://www.pib.gov.in/PressReleseDetail.aspx?PRID=2108416
https://www.pib.gov.in/PressReleseDetail.aspx?PRID=2108412
https://app.powerbi.com/view?r=eyJrIjoiMmNlNzVkMDYtYjJmMC00MWYyLTk0M2UtNzA5MmI3ZTQwZjdjIiwidCI6IjliZjc5NjA5LWU0ZTgtNDdhZC1hYTUzLTI0NjQ2MTg1NTM4YyJ9&pageName=ReportSection6b29be769c4ff01a033b
https://www.pib.gov.in/PressReleseDetail.aspx?PRID=2100853
https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2061667
https://www.pib.gov.in/PressReleseDetail.aspx?PRID=2120355
https://www.pib.gov.in/PressReleseDetail.aspx?PRID=2118723
https://www.pib.gov.in/PressReleseDetail.aspx?PRID=2067658
https://www.pib.gov.in/PressReleseDetail.aspx?PRID=2026702
https://www.pib.gov.in/PressReleseDetail.aspx?PRID=2046090
https://www.pib.gov.in/PressReleseDetail.aspx?PRID=2046091
https://www.pib.gov.in/PressNoteDetails.aspx?NoteId=154398
https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2061670
https://www.pib.gov.in/PressReleseDetail.aspx?PRID=2063453
https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2115878
https://x.com/RailMinIndia/status/1499759995294195719
https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=1880272
https://www.pib.gov.in/PressReleseDetailm.aspx?PRID=2090364
https://www.pib.gov.in/PressNoteDetails.aspx?NoteId=154085
https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=1553220
https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=1661260
https://www.pib.gov.in/PressReleaseIframePage.aspx?PRID=1796961
https://www.pib.gov.in/Pressreleaseshare.aspx?PRID=1557286
https://www.pib.gov.in/Pressreleaseshare.aspx?PRID=1559863
https://www.pib.gov.in/PressReleaseIframePage.aspx?PRID=1655178
https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=1780489
پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ش ح –م ح ۔م ش۔ش ت ۔اش ق ۔ت ا۔ش ت۔ ا ک۔ ن م)
U. No.1697
(Backgrounder ID: 154644)
Visitor Counter : 16