Technology
خلا میں ہندوستان کی اگلی چھلانگ کا آغاز
Posted On: 10 JUN 2025 4:03PM

ہندوستان اپنے خلائی سفر میں ایک تاریخی چھلانگ کے دہانے پر کھڑا ہے جس میں ہندوستانی فضائیہ کے گروپ کیپٹن شوبھانشو شکلا خلا میں سفر کرنے والے چار دہائیوں میں پہلے ہندوستانی خلاباز بننے کے لئے تیار ہیں۔ اسرو کے ہیومن اسپیس فلائٹ پروگرام(ایس ایس پی) کے تحت منتخب کیا گیا، شکلا کا بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) کے ایکسیوم مشن 4 (Ax-4) پر مشن پائلٹ کے طور پر آنے والا کردار نہ صرف راکیش شرما کے 1984 کے مشن کی وراثت کو زندہ کرتا ہے بلکہ یہ خلائی شعبے میں ہندوستان کے عزم کا ایک جرات مندانہ اقدام اور نئے باب کا اشارہ بھی دیتا ہے۔ اس کا مشن ملک کے بڑھتے ہوئے تکنیکی اعتماد، عالمی تعاون، اور عالمی خلائی برادری میں بامعنی رول ادا کرنے کی تیاری کی علامت ہے۔
شوبھانشو شکلا کو ایکسیوم مشن 4 کے لیے منتخب کیا گیا ہے اور وہ ہندوستان کے گگنیان مشن کے لیے چنے گئے ہندوستانی فضائیہ کے چار ٹیسٹ پائلٹس میں سے ایک ہیں۔
یہ مشن علامت سے کہیں زیادہ آگے کی حیثیت رکھتاہے۔ شکلا کی تفویض خلائی حیاتیات اور لائف سپورٹ سسٹم میں جدید تجربات کی حمایت کرے گی، جو ہندوستان کی صلاحیتوں کو مضبوط کرتے ہوئے خلا میں انسانی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے اہم ہے۔ ان کی شرکت ہندوستان کے خلائی پروگرام کے اندر ایک وسیع تر تبدیلی کی عکاسی کرتی ہے، جس کا مقصد اب نہ صرف دریافت کرنا ہے بلکہ قیادت کرنا ہے۔
ایکسیوم مشن 4
ایکسیوم مشن 4 بھارت، پولینڈ اور ہنگری کے لیے انسانی خلائی پرواز کی "واپسی کا احساس" کرے گا، جس میں 40 سال سے زیادہ عرصے میں ہر ملک کی پہلی حکومت کی طرف سےا سپانسر شدہ پرواز ہوگی۔ جب کہایکس -4 تاریخ میں ان ممالک کے دوسرے انسانی خلائی مشن کی نشاندہی کرتا ہے، یہ پہلا موقع ہوگا جب تینوں ممالک بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر ایک مشن کو انجام دیں گے۔ یہ تاریخی مشن اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کس طرح ایکسیوم اسپیس زمین کے مدار کے راستے کی نئی تعریف وضع کر رہا ہے اور قومی خلائی پروگراموں کو عالمی سطح پر بلند کر رہا ہے۔ .[1]

رول: شکلاایکس -4 پر مشن پائلٹ کے طور پر، کمانڈر پیگی وٹسن(امریکہ) کی قیادت میں بین الاقوامی عملے کے ساتھ کام کریں گے۔ ایکسیوم اسپیس کے زیر انتظام 11 جون کو اسپیس ایس فالکن 9 پر سوار یہ مشن شکلا کو آئی ایس ایس کا دورہ کرنے والا پہلا ہندوستانی خلاباز بنائے گا۔
سائنسی فوکس: مشن آپریشنل تیاری اور سائنسی تجربات پر زور دینے کی سمت ایک قابل ذکراقدام ہے۔ شکلا خوراک اور غذائیت سے متعلق اہم تجربات کریں گے، جو اسرو، ڈیپارٹمنٹ آف بائیو ٹیکنالوجی(ڈی بی ٹی) اور ناسا کے اشتراک سے تیار کیے گئے ہیں۔ یہ تجربات خلائی غذائیت اور کلوزڈ لوپ لائف سپورٹ سسٹم میں معلومات کے اضافے کے لئے بنائے گئے ہیں، جو مستقبل کے طویل دورانیے کے مشنوں کے لیے اہم ہیں۔[3]
حیاتیاتی تجربات: دو بڑے تجربات کیے جائیں گے:
مائکروالجی کا مطالعہ: اس بات کی تحقیق کرنا کہ کس طرح مائکرو گریوٹی اور خلائی تابکاری خوردنی مائکروالجی کی نشوونما اور غذائیت کو متاثر کرتی ہے، جو پائیدار خلائی غذائیت اور آکسیجن کی پیداوار کے لیے امید افزا ہیں۔[4]
سیانوبیکٹیریا ریسرچ: مائکروگرویٹی کے تحت اسپیرولینا اور سینیچوکوکس کی نشوونما اور میٹابولک ردعمل کی جانچ کرنا، جس میں انسانی فضلے سے حاصل کردہ نائٹروجن ذرائع کا استعمال بھی شامل ہے۔ اس تحقیق کا مقصد مستقبل کے خلائی رہائش گاہوں کے لیے خود کو برقرار رکھنے والے لائف سپورٹ سسٹم تیار کرنا ہے۔[5]
ویجر ٹیرڈیگریٹس: اسرو کا یہ پروجیکٹ آئی ایس ایس کو بھیجے گئے ٹارڈی گریڈز کی بحالی، بقا اور تولید کی تحقیقات کرے گا۔ یہ پروجیکٹ غیر فعال ٹارڈی گریڈز کے احیاء کا جائزہ لے گا، مشن کے دوران ڈالے جانے والے اور بچائے گئے انڈوں کی تعداد کو شمار کرے گا، اور اسپیس فلون بمقابلہ زمینی کنٹرول آبادی کے جین کے اظہار کے نمونوں کا موازنہ کرے گا۔ تحقیق میں پائیداری کے مالیکیولر میکانزم کی نشاندہی کرنا ہے جس کے انتہائی ماحول میں زندگی کی حدود کو سمجھنے کے مضمرات ہیں۔ یہ علم مستقبل کی خلائی تحقیق سے متعلق معلومات میں اضافہ کر سکتا ہے اور زمین پر بائیو ٹیکنالوجی ایپلی کیشنز کو تیار کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔
دیگر تحقیق کی منصوبہ بندی: آئی ایس ایس پر فصل کے بیج، مائیوجینسس، اسپراؤٹس، ویاگار شامل ہیں۔[6]
اسٹریٹیجک اہمیت: اس مشن کو خلائی پرواز کے آپریشنز، مائیکرو گریوٹی موافقت، اور ہنگامی تیاریوں میں تجربہ فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، یہ سب ہندوستان کے آنے والے گھریلو انسانی خلائی پرواز کے مشن، خاص طور پر گگنیان کے لیے ضروری ہیں۔[7]
ہندوستان کی خلائی کامیابیاں: قیادت کا عزم
ہندوستان کا خلائی پروگرام، جس کی قیادت انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن(اسرو) کر رہا ہے، ایک تبدیلی سے گزر رہا ہے جس کی نشاندہی جرات مندانہ عزائم، تکنیکی اختراعات، اور بڑھتے ہوئے عالمی تعاون سے ہوتی ہے۔
جنوری 2015 سے دسمبر 2024 تک شروع ہونے والے پچھلے دس سالوں کے دوران، کل 393 غیر ملکی سیٹلائٹس اور 3 ہندوستانی کسٹمر سیٹلائٹس کو تجارتی بنیادوں پر اسرو کی پی ایس ایل وی، ایل وی ایم 3 اور ایس ایس ایل وی لانچ وہیکلز کے ذریعہ خلا میں بھیجا گیا ہے۔
ہندوستان نے اب تک 34 ممالک کے سیٹلائٹس خلا میں بھیجے ہیں، جن میں 2014 سے ترقی یافتہ ممالک کے سیٹلائٹس بھی شامل ہیں، جس میں امریکہ (232)، برطانیہ (83)، سنگاپور (19)، کینیڈا (8)، کوریا (5) لکسمبرگ (4)، اٹلی (4)، جرمنی (3)، بیلجیم (3)، فن لینڈ (3)، فرانس (3)، سوئٹزرلینڈ (2)، نیدرلینڈ (2) جاپان(2)، اسرائیل (2)اسپین (2)، آسٹریلیا (1)، متحدہ عرب امارات (1)، آسٹریا (1) وغیرہ۔ .[8]
15 فروری 2017 کو، اسرو نے ایک ہی مشن میں 104 سیٹلائٹ لانچ کیے – جو کہ ایک عالمی ریکارڈ ہے۔
گگنیان پروگرام:
گگنیان پروگرام کو تقریباً 20,193 کروڑ روپے کے مالی اخراجات کے ساتھ منظوری دی گئی۔ یہ ہندوستان کا پہلا مقامی انسانی خلائی پرواز ہے۔ اس کا مقصد ہندوستانی خلابازوں کو لو ارتھ آربٹ (ایل ای او) میں بھیجنا ہے، جس سے مزید جدید مشنوں کی بنیاد رکھی جائے گی۔ اس کے بعد اس کو وسعت دی گئی ہے جس میں 2035 تک بھارتیہ انترکش اسٹیشن (بی اے ایس) کا قیام اور 2040 تک بھارتی عملے کا چاند پر قدم رکھنا شامل ہے۔
یہ سرمایہ کاری کلیدی ٹیکنالوجی کی ترقی کی سرگرمیوں اور کل آٹھ منصوبہ بند مشنوں کی حمایت کرتی ہے، جن میں بغیر عملے کے اور عملے کی پروازیں شامل ہیں۔ ہندوستانی فضائیہ کے چار ٹیسٹ پائلٹوں کا انتخاب کیا گیا ہے اور انہوں نے اپنی جسمانی، نفسیاتی اور عمومی خلائی پرواز کی تربیت مکمل کر لی ہے۔

گروپ کیپٹن پی بی نائر
گروپ کیپٹن اجیت کرشنن
گروپ کیپٹن انگد پرتاپ
گروپ کیپٹن ایس شکلا

وہ آزاد خلائی پرواز میں ہندوستان کے پہلے خلاباز بننے کے لیے تیار ہیں، جو قومی سائنسی کامیابی کے ایک نئے باب کی نشان دہی کرتے ہیں۔
مئی 2025 تک، یہ پروگرام 2027 کی پہلی سہ ماہی کے لیے پہلے انسانی خلائی پرواز کے ساتھ اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو گیا۔ فی الحال، انسانی درجہ بندی والی ایل وی ایم 3 گاڑی، کریو اسکپ سسٹم، اور کریو ماڈیول اور سروس ماڈیول سبھی ٹیسٹنگ اور انضمام کے آخری مراحل سے گزر رہے ہیں، جبکہ خلا میں جانے کی ٹریننگ بھی جاری ہے۔ [10]
سائنسی توجہ: مائیکرو گریوٹی ماحول میں جدید خلائی سائنس کی تحقیق کے لیے بنیاد رکھنے کے ساتھ ساتھ محفوظ انسانی خلائی پرواز کے لیے ضروری ٹیکنالوجیز کو تیار کرنا اور ان کی تصدیق کرنا۔ اس مشن میں پیشگی اور مظاہرے کے مشن شامل ہیں، جو بھارت کے منصوبہ بند خلائی اسٹیشن، بھارتیہ انترکش اسٹیشن(بی اے ایس) کی مستقبل کی تعمیر اور آپریشن کے لیے ضروری ہیں۔ یہ سائنسی اہداف امرت کال کے دوران ہندوستان کے وسیع تر وژن کے ساتھ خلائی تحقیق کے لیے قریب سے ہم آہنگ ہیں، جس میں 2035 تک بی اے ایس کو فعال کرنا اور 2040 تک ایک قمری مشن کا آغاز کرنا شامل ہے۔ مزید برآں، اس پروگرام سے صنعتی شرکت اور اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی امید ہے، خاص طور پر خلا سے متعلقہ تمام شعبوں میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ .[11] [12]
اسٹریٹجک اہمیت:
تکنیکی ترقی اور دیگر فوائد:
نئی ٹیکنالوجیز: کرائیوجینک انجن، ہلکے وزن کے مواد، لائف سپورٹ سسٹمز، اور روبوٹکس جیسی جدید ٹیکنالوجیز کی ترقی میں مختلف صنعتوں جس میں ایرو اسپیس، آٹوموٹیو، صحت کی دیکھ بھال اور توانائی کے ایپلی کیشنز شامل ہیں۔
ملازمت کی تخلیق: اس مشن سے ایرو اسپیس انڈسٹری، تحقیقی اداروں اور متعلقہ شعبوں میں بے شمار ملازمتیں پیدا ہونے کی امید ہے۔
اقتصادی ترقی: گھریلو خلائی ٹیکنالوجی کی ترقی سرمایہ کاری کو راغب کرے گی، گھریلو مینوفیکچرنگ کو فروغ دے گی، اور اقتصادی ترقی میں اہم رول ادا کرے گی۔
مستقبل کی نسلوں کے لئے محرک:
ایس ٹی ای ایم ایجوکیشن: یہ مشن نوجوان ذہنوں کو سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، اور ریاضی (ایس ٹی ای ایم) میں کیریئر بنانے کی ترغیب دے گا۔
ملکی وقار: ایک کامیاب انسانی خلائی پرواز پروگرام ملک کے وقار میں اضافہ کرے گا اور ہندوستانی عوام میں کامیابی کا احساس پیدا کرے گا۔
بین الاقوامی تعاون اور سفارت کاری:
عالمی شراکت داری: یہ مشن دیگر خلائی سفر کرنے والے ممالک کے ساتھ بین الاقوامی تعاون کو فروغ دے گا، جس سے علم کا اشتراک اور مشترکہ منصوبے شروع ہوں گے۔
سفارت کاری پراثرانداز: ہندوستان کا کامیاب خلائی پروگرام اس کی عالمی حیثیت اور سفارتی اثر و رسوخ میں اضافہ کرے گا۔[13]
خلائی تحقیق میں تاریخی سنگ میل:
آدتیہ ایل-1: ہندوستان کا پہلا شمسی مشن، آدتیہ ایل-1، 2017 میں شروع کیا گیا تھا اور اس کا مقصد سورج زمین کے لگرینجین پوائنٹ 1 (ایل 1) کے گرد مدار سے سورج کا مطالعہ کرنا تھا جو زمین سے تقریباً 1.5 ملین کلومیٹر دور ہے۔[14]۔فروری 2025 میں، آدتیہ ایل-1پر موجود سولر الٹرا وائلٹ امیجنگ ٹیلی سکوپ(ایس یو آئی ٹی) نے زیریں شمسی ماحول میں ایک طاقتور شمسی بھڑک اٹھنے والے 'کرنیل' کا بے مثال نظارہ حاصل کیا، یعنی فوٹو فیر اور کروموسفیئر۔[15]
چندریان -3 اور چاند پر تحقیق: ہندوستان چاند کے جنوبی قطب تک پہنچنے والا پہلا ملک بن گیا، جس نے قمری سائنس میں تکنیکی صلاحیت اور عالمی قیادت کا مظاہرہ کیا۔ مزید برآں، پرگیان روور نے اپنے ایل آئی بی ایس آلے کا استعمال کرتے ہوئے چاند پر سلفر کی تصدیق کی۔

اسپیس ڈاکنگ اور سروِسنگ: دسمبر 2024 کے لیے تیار کردہ اسپا ڈیکس مشن، ہندوستان کی مقامی ڈاکنگ ٹیکنالوجی کا مظاہرہ کرے گا، جو خلائی اسٹیشن پر قیام اور طویل مدتی مشنوں کے لیے ضروری ہے۔
آربیٹل ری انٹری وہیکل: اسرو ایک پروں والی باڈی(او آر وی) تیار کر رہا ہے، جسے ایک ایسینٹ وہیکل کا استعمال کرتے ہوئے مدار میں لانچ کیا جائے گا جو بعد میں ایک آزاد نظریے (آٹونومس اپروچ ) کے ساتھ یہ رن وے لینڈنگ کے لیے کرہ رارض میں دوبارہ داخل ہو جائے گا۔
بین الاقوامی تعاون:
این آئی ایس اے آر جیسے مشن(ناسا کے ساتھ) اورایکس -4 میں شکلا کی شرکت بین الاقوامی خلائی شراکت میں ہندوستان کے بڑھتے ہوئے کردار کو اجاگر کرتی ہے۔
اسرو ، فرانس کی قومی خلائی ایجنسی یعنی سی این ای ایس کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ سیٹلائٹ مشن کے لیے کام کر رہا ہے جس کا نام‘ٹی آرآئی ایس ایچ این اے’ (تھرمل انفراریڈ امیجنگ سیٹلائٹ برائے ہائی ریزولوشن نیچرل ریسورس اسیسمنٹ) ہے، جو ابتدائی مراحل میں ہے۔
اسرو اور جاپان کی خلائی ایجنسی جے اے ایکس اے نے قمری قطبی ریسرچ کے مشترکہ مشن کو حاصل کرنے کے لیے ایک فزیبلٹی اسٹڈی کی ہے۔[16]
جنوری 2025 میں، اسرو اور یورپی خلائی ایجنسی(ای ایس اے) نے خلابازوں کی تربیت، مشن کے نفاذ اور تحقیقی تجربات سے متعلق سرگرمیوں میں تعاون کے لیے ایک معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ مشترکہ مائیکرو گریوٹی تجربات کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔ [17]
پالیسی، سرمایہ کاری اور نجی شعبے کی ترقی
سو فی صد ایف ڈی آئی: ترمیم شدہ ایف ڈی آئی پالیسی کے تحت، خلائی شعبے میں 100فیصد ایف ڈی آئی کی اجازت ہے۔ ترمیم شدہ پالیسی کے تحت آزادانہ داخلے کے راستوں کا مقصد ممکنہ سرمایہ کاروں کو خلا میں ہندوستانی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنا ہے۔ ترمیم شدہ پالیسی کے تحت مختلف سرگرمیوں کے لیے داخلے کا راستہ درج ذیل ہے:
آٹومیٹک روٹ سے 74فیصد تک: سیٹلائٹ مینوفیکچرنگ اور آپریشن، سیٹلائٹ ڈیٹا پروڈکٹس اور گراؤنڈ سیگمنٹ اور یوزر سیگمنٹ۔ 74فیصد سے زیادہ کی سرمایہ کاری حکومتی ذرائع کے تحت ہیں۔
آٹومیٹک روٹ سے 49فیصد تک: سٹیلائٹ کو لانچ کرنے والی گاڑیاں اور اس سے وابستہ نظام یا ذیلی نظام، خلائی جہاز کو بھیجنے اور واپس بلانے کے لیے خلائی یونٹ کی تخلیق۔ 49فیصد سے زیادہ کی یہ سرمایہ کاری حکومتی ذرائع کے تحت ہیں۔
آٹومیٹک روٹ سے 100فیصد تک: سیٹلائٹ، زمین اور صارفین کے لیے اجزاء اور سسٹمز/ ذیلی نظاموں کی تیاری۔[18]
بھارت کی خلائی پالیسی 2023: خلائی شعبے کے لیے طے کیے گئے نظریے کے تحت ، بھارت کی خلائی پالیسی کو خلائی معیشت کی پوری ویلیو چین،جس میں خلائی اور زمینی اثاثوں کی تخلیق میں پرائیویٹ سیکٹر کی زیادہ سے زیادہ شراکت کی حوصلہ افزائی شامل ہے ، کو فروغ دے کر ایک جامع نقطہ نظر کو آگے بڑھانے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔[19]
خلائی وژن 2047: ہندوستان کے طویل مدتی روڈ میپ میں بی اے ایس، قمری لینڈنگ، اگلی نسل کی لانچ گاڑیاں، اور زہرہ کے مشن شامل ہیں، یہ سب خلائی وژن 2047 کی حکمت عملی کے تحت ہیں۔[20]
خلائی شعبے میں مرکزی پبلک سیکٹر انٹرپرائزز-
اینٹرکس کارپوریشن لمیٹڈ: اےسی ایل 1992 میں قائم ہونے والا اسرو کا تجارتی بازو ہے، جو ہندوستان کی خلائی مصنوعات اور ٹیکنالوجیز کی عالمی سطح پر مارکیٹنگ کرتا ہے۔ یہ اینڈ ٹو اینڈ سیٹلائٹ حل، لانچ سروسز، ریموٹ سینسنگ ڈیٹا اور بین الاقوامی کلائنٹس کو مشاورت فراہم کرتا ہے۔[21]
نیو اسپیس انڈیا لمیٹیڈ (این ایس آئی ایل): ایس ایس آئی ایل اسرو کا تجارتی بازو ہے، ہندوستانی خلائی مصنوعات اور خدمات کو فروغ دیتا ہے اور تجارتی بناتا ہے جبکہ ہندوستانی صنعتوں کو ہائی ٹیک خلائی سرگرمیاں شروع کرنے کے قابل بناتا ہے، اسرو کی مہارت اور ورثے سے فائدہ اٹھاتا ہے۔[22]
ان-اسپیس :اسے جون 2020 میں محکمہ خلائی کے تحت ایک خود مختار نوڈل ایجنسی کے طور پر قائم کیا گیا تھا، تمام خلائی سرگرمیوں میں نجی شعبے کی شرکت کے لیے سنگل ونڈو سہولت کار کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ لانچ گاڑیاں، سیٹلائٹ بنانے، اور خلا پر مبنی خدمات فراہم کرنے میں غیر سرکاری اداروں کو فروغ دیتا ہے، اجازت دیتا ہے اور ان کی نگرانی کرتا ہے۔ [23]
بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری اور مشن کی کامیابی
پچھلے 11 سالوں میں، اسرو نے 100 خلائی لانچ مشن مکمل کیے ہیں۔
بجٹ: خلائی بجٹ پچھلی دہائی میں تقریباً تین گنا بڑھ کر14-2013 میں 5,615 کروڑ سے بڑھ کر26-2025 میں 13,416 کروڑ ہو گیا ہے، جو حکومت کے مضبوط عزم کی عکاسی کرتا ہے۔[24]
اسپیڈیکس (اسپیس ڈیبریزایکسپریمینٹل) یہ مشن زمین کے مدار میں خلائی ملبے کے بڑھتے ہوئے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایک نیا اقدام ہے۔
اصلاحات اور اختراعات: خلائی شعبے کو نجی کمپنیوں کے لیے کھولنا، ایک بہترین وینچر کیپیٹل فنڈ کے قیام، اور نئی پالیسیوں نے ایک متحرک ماحولیاتی نظام کو فروغ دیا ہے، جدت طرازی اور ملازمتوں کی تخلیق کو متحرک کیا ہے۔[25]
حالیہ برسوں میں 328+ خلائی اسٹارٹ اپ سامنے آئے ہیں۔
یہ اسٹارٹ اپ اسرو اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر ہندوستان کے خلائی اختراعی ماحولیاتی نظام کو وسعت دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
حرف آخر
ہندوستان کا خلائی پروگرام اپنی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے، کیونکہ یہ تحقیق کے سفر سے قیادت کے مشن کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ ایکسیوم مشن 4 میں گروپ کیپٹن شبھانشو شکلا کا اہم کردار ایک ذاتی سنگ میل سے کہیں زیادہ ہے، یہ ایک قومی فتح ہے جو خلائی سائنس میں ہندوستان کی ابھرتی ہوئی صلاحیتوں اور عالمی سطح کی عکاسی کرتی ہے۔ جدید تحقیق، اسٹریٹجک شراکت داری، اور گگنیان اور بھارتیہ انترکش اسٹیشن جیسے اقدامات میں شامل ایک مضبوط وژن کے ذریعے، ہندوستان خلا میں انسانی موجودگی کی بنیاد رکھ رہا ہے۔ پالیسی اصلاحات، پرائیویٹ سیکٹر کی شرکت، اور تکنیکی عزائم کا یکجا ہونا اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ خلائی شعبہ نہ صرف سائنسی ترقی کو آگے بڑھائے گا بلکہ جدت اور اقتصادی ترقی کو بھی فروغ دے گا۔ جیسا کہ ہندوستان اپنی پہلی آزاد انسانی خلائی پرواز کی تیاری کر رہا ہے اور چاند کی طرف اور اس سے آگے کی مہم جوئی کر رہا ہے، یہ دنیا کو اشارہ دیتا ہے کہ خلا کا مستقبل ایسی قوموں کے ذریعے تشکیل دیا جائے گا جو خواب دیکھنے کی ہمت اور اس کو روبہ عمل لانے کا عزم رکھتی ہیں، اور ہندوستان مضبوطی سے ان میں شامل ہے۔
حوالہ جات:
https://static.pib.gov.in/WriteReadData/specificdocs/documents/2025/jun/doc2025610567801.pdf
****
ش ح۔ ع و۔ ج
UNO-1671
(Backgrounder ID: 154630)
Visitor Counter : 8