امور داخلہ کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

مرکزی وزیر داخلہ اور تعاون جناب امت شاہ نے آج ایوان زیریں - لوک سبھا میں انتخابی اصلاحات پر مباحثہ میں حصہ لیا


اپوزیشن چار ماہ سے ایس آئی آر کے بارے میں یک طرفہ جھوٹ پھیلا کر ملک کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے

ایس آئی آر- موت یا دوہری ووٹر رجسٹریشن کی صورت میں ناموں کو حذف کرنے، 18 سال کی عمر کو پہنچنے پر نام شامل کرنے اور دراندازی کرنے والوں کو  چن چن کر حذف کرنے کے بارے میں ہے

درانداز وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم منتخب کرکے ملک کو غیر محفوظ  نہ بنا پائیں ، اسی لئے ووٹر لسٹ کی  تطہیر ضروری ہے اور ایس آئی آر کا یہی مقصد ہے

اہم اپوزیشن پارٹی کا  یکے بعد دیگرے  انتخابات ہارنے کا سبب ای وی ایم یا ووٹ کی چوری کی نہیں، بلکہ اس کی قیادت ہے، اور ایک دن اس کے کارکنان اس کا حساب ضرور مانگیں گے

اہم اپوزیشن پارٹی کے دور میں ای وی ایم متعارف کرایا گیا تھا، ای وی ایم کا استعمال کرتے ہوئے پہلا لوک سبھا الیکشن 2004 میں ہوا تھا۔ اب جب وہ ہار رہے ہیں تو وہ اپنی شکست کے لیے ای وی ایم کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں

11 سال سے ای وی ایم اور ووٹ کی چوری کی بات کرنے والی اہم اپوزیشن پارٹی نے انتخابی اصلاحات پر الیکشن کمیشن کو ابھی تک ایک بھی تجویز نہیں دی ہے

ہمارے ملک میں کچھ ایسے خاندان ہیں جو  پشتینی ووٹ چوری کرتے ہیں

ووٹر لسٹ نئی ہو یا پرانی، اہم اپوزیشن پارٹی اور اتحاد کا ہارنا یقینی ہے

دراندازوں کے بارے میں ہماری پارٹی کی پالیسی ہے: پتہ لگائیں، حذف کریں اور ملک بدر کریں، اپوزیشن کی پالیسی یہ ہے کہ دراندازی کو معمول پر لایا جائے اور اسے منظوری دی جائے اسے ووٹر لسٹ میں شامل کرکے باقاعدہ  ووٹربنایا جائے

آر ایس ایس کا نظریہ ملک کے لیے مرنا، ملک کو خوشحالی کی بلندیوں پر لے جانا اور ملک کی ثقافت کو برقرار رکھنا ہے

ملک پہلے ہی آبادیاتی بنیادوں پر تقسیم ہو چکا ہے، اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ایس آئی آر ضروری ہے کہ آنے والی نسلوں کو ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے

اپوزیشن سرجیکل اسٹرائیک، ہوائی حملے، آرٹیکل- 370 کی منسوخی، رام مندر کی تعمیر، دراندازوں کو ہٹانے، سی اے اے اور تین طلاق کے خاتمے کی مخالفت کرتی ہے، اسی لیے ہم جیت گئے۔

مودی جی تاریخ کے سب سے زیادہ محنتی اور سب سے زیادہ  سفر کرنے والے وزیر اعظم ہیں

اپوزیشن کو ایس آئی آر کی وجہ سے ہونے والے سیاسی نقصان پر دکھ ہے

جب آپ الیکشن جیتتے ہیں تو ووٹر لسٹ ‘درست’ ہوتی ہے، اپوزیشن کا دوہرا معیار اب نہیں چلے گا

ایس آئی آر ایک آئینی عمل ہے، اور اس پر سوال اٹھا کر اپوزیشن عالمی سطح پر ہندوستان کی  جمہوریت کی شبیہ کو داغدار کر رہی ہے

مودی حکومت نے الیکشن کمشنر کی تقرری میں اپوزیشن لیڈر کو شامل کیا ہے، جو اس سے قبل صرف وزیر اعظم ہی یہ فیصلہ کرتے تھے

اگر اپوزیشن 200 بار ایوان کا بائیکاٹ کر بھی لے تو ہم ایک بھی  دراندازی کرنے والے کو ووٹ کا حق نہیں دیں گے

اپوزیشن اتحاد نے تمل ناڈو میں ہندوؤں کو پوجا کا حق دینے والے جج کے خلاف مواخذے کی تحریک پیش کی ہے، ملک کے عوام انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے

प्रविष्टि तिथि: 10 DEC 2025 10:15PM by PIB Delhi

مرکزی وزیر داخلہ اور تعاون جناب امت شاہ نے آج  ایوان زیریں -لوک سبھا میں انتخابی اصلاحات پر  مباحثۃ میں حصہ لیا۔

مرکزی وزیر داخلہ جناب امت شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ مباحثہ کے لیے ملک کا سب سے بڑا فورم ہے اور ہم کبھی بھی بحث سے پیچھے نہیں ہٹتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسئلہ کوئی بھی ہو، ہم پارلیمنٹ کے  ضابطوں کے مطابق اس پر بات کرنے کے لیے ہمیشہ تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن ‘انٹینسیو ریویژن’ (ایس آئی آر) پر بحث کرنا چاہتی تھی، لیکن اس ایوان میں اس موضوع پر بحث نہیں ہو سکی کیونکہ‘‘‘انٹینسیو ریویژن’ (ایس آئی آر) کے انعقاد کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے، جو حکومت کے ماتحت کام نہیں کرتا۔ جناب شاہ نے کہا کہ انتخابی اصلاحات پر بحث طے تھی، لیکن زیادہ تر اپوزیشن ارکان نے ایس آئی آر پر بحث کی۔

 گزشتہ چار مہینوں سے ایس آئی آر کے بارے میں بے بنیاد جھوٹ پھیلایا جا رہا ہے اور ملک کے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو آئین ہند کے آرٹیکلز کے تحت بنایا گیا تھا اور الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے۔ آئین نے الیکشن کمیشن کو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے۔ ووٹر لسٹ کی تیاری اور اپ ڈیٹ کرنے کا بھی ذمہ دار الیکشن کمیشن ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے حصہ 15 میں آرٹیکل 324 الیکشن کمیشن کی تشکیل، الیکشن کمشنر کی تقرری اورایوان زیریں - لوک سبھا، ایوان بالا- راجیہ سبھا، قانون ساز اسمبلی، صدر اورنائب  صدر کے انتخابات کا مجموعی کنٹرول فراہم کرتا ہے۔ جناب شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 325 یہ التزام  فراہم کرتا ہے کہ کسی بھی اہل ووٹر کو انتخابی فہرستوں سے خارج نہیں کیا جاسکتا، لیکن آرٹیکل 326 مکمل جائزہ لینے کے لیے بہت ضروری ہے۔ آرٹیکل 326 ووٹر شپ کے لیے اہلیت اور شرائط کا تعین کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلی شرط یہ ہے کہ ووٹر ہندوستان کا شہری ہونا چاہیے نہ کہ غیر ملکی۔ دوسری شرط یہ ہے کہ 18 سال سے زیادہ عمر کا شخص ووٹر بن سکتا ہے۔ تیسری شرط یہ ہے کہ ووٹر کی اہلیت کا تعین وقتاً فوقتاً ذہنی معذوری، جرائم میں ملوث ہونے اور بدعنوانی کے حوالے سے قانون کی دفعات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تین معیارات طے کرتے ہیں کہ کون ہندوستانی ووٹر ہے اور الیکشن کمشنر کو ان تینوں معیارات کی نگرانی کرنی چاہیے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ آرٹیکل 327 الیکشن کمیشن کو انتخابی فہرستوں کی تیاری، حدود کی حد بندی، انتخابات کے انعقاد اور اس مقصد کے لیے قوانین کے نفاذ کی سفارش کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ آرٹیکل 327 الیکشن کمیشن کو اس تشریح کی بنیاد پر انتخابی فہرستیں تیار کرنے کا مکمل اختیار دیتا ہے۔

مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ ہماری جمہوری تاریخ کا آغاز 1952 میں ہوا، اور پہلی مکمل نظر ثانی 1952 میں، دوسری 1957 میں اور تیسری 1961 میں ہوئی، جب وزیر اعظم اپوزیشن پارٹی سے تھے۔ 1965 اور 1966 میں نظرثانی بھی اس وقت ہوئی جب وزیراعظم اپوزیشن پارٹی سے تھے۔ اس کے بعد 1983-84، 1987-89، اور 1992-93-95 میں بھی اہم اپوزیشن پارٹی کے رہنما وزیراعظم رہے۔  جناب شاہ نے بتایا کہ جب 2002-03 میں نظرثانی ہوئی تو ان کی پارٹی کے رہنما وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے کہا کہ مکمل نظرثانی 2004 میں ختم ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2004 کے بعد مکمل نظرثانی براہ راست 2025 میں ہو رہی ہے اور آج تک کسی جماعت نے اس پورے عمل کی مخالفت نہیں کی کیونکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کا مقصد انتخابات کے تقدس، انتخابات کے مقاصد اور جمہوریت کو برقرار رکھنا ہے۔  جناب شاہ نے کہا کہ اگر جمہوریت میں انتخابات کی بنیاد ووٹر لسٹ ہی آلودہ ہو تو انتخابات صاف کیسے ہو سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ووٹر لسٹ پر وقتاً فوقتاً مکمل نظر ثانی ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے اسے 2025 میں کرانے کا فیصلہ کیا۔

 جناب  امت شاہ نے کہا کہ 2010 میں یہ انتظام کیا گیا تھا کہ ووٹر لسٹ سے کسی کا نام حذف نہیں کیا جا سکتا تھا اور اس وقت حزب اختلاف کی اہم پارٹی اقتدار میں تھی۔ مکمل نظر ثانی میں دو جگہوں پر موت یا ووٹر ہونے کی صورت میں ناموں کو حذف کرنا، 18 سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد نام شامل کرنا اور غیر ملکی شہریوں کو  چن چن کر حذف کرنا شامل ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر درانداز یہ طے کر لیں کہ کسی ریاست کا وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کون ہوگا تو کیا کسی ملک کی جمہوریت محفوظ رہ سکتی ہے؟  جناب  شاہ نے کہا کہ ایک ووٹر کو ایک سے زیادہ جگہوں پر ووٹ نہیں ڈالنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ایس آئی آر محض ووٹر لسٹ کی صفائی ہے لیکن اس سے بعض جماعتوں کے سیاسی مفادات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔  جناب  شاہ نے کہا کہ اس ملک کی پارلیمنٹ یا ریاستی اسمبلی میں غیر ملکیوں کو ووٹ کا حق نہیں دیا جانا چاہئے۔

مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ مکمل نظر ثانی صرف ووٹر لسٹ کو بہتر بنانے کا عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ووٹر لسٹ پرانی ہو یا نئی، اپوزیشن کو نقصان ضرور ہوگا۔ یہ ووٹر لسٹ کی وجہ سے نہیں ہے۔ مفاد عامہ کے خلاف کام کرنے والوں کو اینٹی انکمبینسی کا سامنا ہے۔  جناب  شاہ نے کہا کہ اپوزیشن ووٹروں کی فہرست کی مخالفت اس وقت نہیں کرتی جب وہ انتخابات میں ہار جاتے ہیں بلکہ صرف اس وقت جب انہیں بدترین  شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ حالیہ ریاست میں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب آپ جیتتے ہیں تو الیکشن کمیشن بہت اچھا ہوتا ہے لیکن جب آپ ہارتے ہیں تو الیکشن کمیشن پر الزام لگا دیا جاتا ہے۔ جب آپ جیتتے ہیں تو ووٹر لسٹ اچھی ہوتی ہے، جب آپ ہارتے ہیں تو ووٹر لسٹ خراب ہوتی ہے۔ لیکن جمہوریت میں اس قسم کا دوہرا معیار برداشت نہیں کیا جا سکتا۔  جناب  شاہ نے کہا کہ یہاں کچھ خاندان ایسے ہیں جو نسل در نسل ووٹ چراتے ہیں۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ ہم بھی اپوزیشن میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست ہو یا مرکزی حکومت، ہم نے کبھی الیکشن کمیشن یا الیکشن کمشنر پر الزامات نہیں لگائے۔ جناب  شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایک غیر جانبدار ادارہ ہے جو انتخابات کرواتا ہے اور اسے کسی سیاسی جماعت نے نہیں آئین نے تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ووٹر نظرثانی ایک آئینی عمل ہے، آئینی عمل پر سوالیہ نشان لگا کر اور بے بنیاد الزامات لگا کر اپوزیشن عالمی سطح پر الیکشن کمیشن کا امیج خراب کرنے کا کام کر رہی ہے۔ ایسا کرکے اپوزیشن عالمی سطح پر ہندوستان کی جمہوریت کی شبیہ کو داغدار کررہی ہے۔  جناب شاہ نے کہا کہ ملک کے ووٹر جانتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں ووٹ دیا، اسی لیے ہم منتخب ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ووٹرز کے ذہنوں میں کوئی شک نہیں ہے۔  جناب شاہ نے کہا کہ الیکشن نہ جیتنے کے بعد الیکشن کمیشن، انتخابی عمل اور ووٹر لسٹ کو بدنام کرنے کا یہ نیا طریقہ ہماری جمہوریت کے لیے سود مند نہیں ہوگا۔

 جناب  امت شاہ نے کہا کہ مئی 2014 میں جناب  نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے اپوزیشن اعتراض کر رہی ہے۔ جناب  شاہ نے کہا کہ ان کے اتحاد نے تین لوک سبھا انتخابات اور 41 ریاستی اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی، جن کی کل تعداد 44 ہے، جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے 30 اسمبلی انتخابات بھی جیتے ہیں۔ اگر ووٹر لسٹ میں تضادات ہیں تو اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن جیتنے پر حلف کیوں اٹھایا اور الیکشن کیوں لڑا؟ انہوں نے کہا کہ اگر ووٹر لسٹ میں معمولی غلطیاں ہیں تو نظر ثانی کی جا رہی ہے، بنیادی طور پر ووٹر لسٹ کو درست کرنے کا عمل ہے۔ تاہم اپوزیشن جماعتیں اس عمل کا بائیکاٹ کرتی ہیں اور ان کی حکومتیں تعاون نہیں کرتیں۔ جناب  شاہ نے کہا کہ ووٹر لسٹ کی تصحیح اپوزیشن کا مطالبہ ہے اور الیکشن کمیشن ایسا ہی کر رہا ہے۔

مرکزی وزیر داخلہ اور تعاون نے کہا کہ اگر اپوزیشن یہ مانتی ہے کہ جمہوریت میں آپ سے صرف آپ کی پسند کے سوالات پوچھے جائیں، ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ ایمرجنسی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی صحافی سوال پوچھتا ہے تو آپ اسے حکمران جماعت کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔ اگر آپ کیس ہار جاتے ہیں، تو آپ جج پر الزام لگاتے ہیں؛ اور اگر آپ الیکشن ہار جاتے ہیں تو آپ ای وی ایم پر سوال اٹھاتے ہیں۔ جب ای وی ایم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی دلیل عوام میں گونج نہیں پائی، اپوزیشن نے ووٹ چوری کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے مارچ شروع کیا، لیکن پھر بھی ہار گئے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابی شکست کی وجہ اپوزیشن کی قیادت تھی، نہ کہ ای وی ایم یا ووٹر لسٹ۔

جناب امت شاہ نے کہا کہ 15 مارچ 1989 کو جب اہم اپوزیشن پارٹی کے لیڈر ملک کے وزیر اعظم تھے، قانونی ترمیم کے ذریعے ای وی ایم متعارف کروائی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی بنچ نے 2002 میں ای وی ایم سے متعلق قانونی ترمیم کو برقرار رکھا۔ 1998 میں مدھیہ پردیش، راجستھان اور دہلی کے صرف 16 اسمبلی حلقوں میں اس کا ٹرائل ہوا۔ انہوں نے کہا کہ مکمل جانچ پڑتال کے بعد 2004 میں پہلی بار ملک بھر میں ای وی ایم کا استعمال کیا گیا اور اپوزیشن جیت گئی۔ انہوں نے کہا کہ 2009 کے انتخابات بھی ای وی ایم کا استعمال کرتے ہوئے کرائے گئے تھے اور اپوزیشن جیتنے کے بعد خاموش رہی۔ انہوں نے اپوزیشن سے کہا کہ وہ ای وی ایم سے متعلق قانون لائے ہیں، مشینیں متعارف کرائی ہیں اور ای وی ایم کا استعمال کرتے ہوئے پہلے اور دوسرے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ انہوں نے دس سال حکومت کی لیکن جب وہ ہار گئے تو انہوں نے ای وی ایم میں چھیڑ چھاڑ کا الزام لگانا شروع کر دیا۔ جناب  شاہ نے کہا کہ اہم اپوزیشن پارٹی، جو 11 سال سے ای وی ایم اور ووٹ چوری کی بات کر رہی ہے، نے ابھی تک انتخابی اصلاحات پر الیکشن کمیشن کو ایک بھی تجویز نہیں دی ہے۔

 جناب  امت شاہ نے کہا کہ پانچ سال کی تحقیق کے بعد وی وی پی اے ٹی متعارف کرایا گیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ ووٹ اس پارٹی کے نشان کے تحت رجسٹرڈ ہوا جس کے لیے ووٹر نے ووٹ دیا۔ لیکن پھر اپوزیشن نے وی وی پی اے ٹی پر الزامات لگانے شروع کردیئے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پھر پانچ فیصد ای وی ایم اور وی وی پی اے ٹی کے نتائج کو یکجا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب تک 16,000 ای وی ایم اور وی وی پی اے ٹی کا ملاپ ہو چکا ہے، لیکن ان میں سے ایک بھی ووٹ تبدیل نہیں ہوا ہے۔ جب ووٹوں کی گنتی ہوتی ہے تو ہر ایک کے پولنگ ایجنٹ موجود ہوتے ہیں اور نتائج پر دستخط کرتے ہیں۔ وہ ای وی ایم اور وی وی پی اے ٹی دونوں نتائج پر بھی دستخط کرتے ہیں۔

مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ 2009 میں الیکشن کمیشن نے 10 ریاستوں میں 100 ای وی ایم لگا کر ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ کے الزامات کو چیلنج کیا۔ سبھی نے کوشش کی، لیکن کوئی بھی ای وی ایم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جون 2017 میں الیکشن کمیشن نے ای وی ایم کو تین دن تک اپنے دفتر میں رکھا اور اعلان کیا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت، تکنیکی ماہریا سائنسدان آکر ای وی ایم کو ہیک کرنے کا طریقہ دکھا سکتا ہے۔ تاہم اپوزیشن وہاں نہیں گئی۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن صرف پریس میں الزامات لگاتی ہے، نہ عدالت جاتی ہے اور نہ ہی الیکشن کمیشن سے رجوع ہوتی ہے۔ 2017 میں الیکشن کمیشن نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مستقبل کے تمام انتخابات ای وی ایم کے ذریعے کرائے جائیں گے۔ لیکن اپوزیشن اتنی مخالفت کیوں کر رہی ہے؟

جناب  امت شاہ نے کہا کہ مودی وہ وزیر اعظم ہیں جنہوں نے آزادی کے بعد سے عوامی رابطوں کے لیے سب سے زیادہ سفر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی نے 2001 سے ایک دن کی چھٹی نہیں لی ہے اور عوام کے لیے انتھک کام کر رہے ہیں۔ وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ جب سے نریندر مودی حکومت نے مئی 2014 میں اقتدار سنبھالا ہے، الیکشن کمیشن کو اہم اپوزیشن پارٹی سے انتخابی اصلاحات کے لیے ایک بھی تجویز موصول نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت نے الیکشن کمشنروں کی تقرری میں اپوزیشن لیڈر کو شامل کیا ہے، پہلے یہ فیصلہ صرف وزیر اعظم کرتے تھے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کی دفعہ 81 کے تحت امیدوار منتخب ہونے کے 45 دن کے اندر الیکشن پٹیشن دائر کر سکتا ہے اور اس کے 45 دن کے بعد کوئی بھی اسے چیلنج نہیں کر سکتا۔ مسٹر شاہ نے کہا کہ ای سی آئی کے عہدیداروں کو آر پی آئی ایکٹ 1950 کے تحت دی گئی استثنیٰ سے خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا بنیادی مسئلہ ووٹر لسٹ میں غیر قانونی تارکین وطن کا نام شامل کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اپوزیشن 200 بار انتخابات کا بائیکاٹ کر بھی لے تو ہم ملک میں ایک بھی غیر قانونی تارکین وطن کو ووٹ نہیں دینے دیں گے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ حکومت کی پالیسی کا پتہ لگانے، حذف کرنے اور ملک بدر کرنے کی ہے اور ہم یہ آئینی عمل کے ذریعے کریں گے۔

 جناب  امت شاہ نے کہا کہ اپوزیشن کی پالیسی یہ ہے کہ پہلے دراندازوں کو معمول پر لایا جائے اور پھر انہیں ووٹر لسٹ میں شامل کرکے باقاعدہ بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ آبادی میں اس طرح کی نمایاں تبدیلی ملک کے لیے ایک  سنگین خطرہ ہے۔ یہ ملک آبادی کی بنیاد پر پہلے ہی تقسیم ہو چکا ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ آنے والی نسلیں اس ملک کی تقسیم کا مشاہدہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اپوزیشن 200 بار ایوان کا بائیکاٹ کر بھی لے تو ہم ایک بھی درانداز کو ووٹ کا حق نہیں دیں گے۔

مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ آر ایس ایس کا نظریہ ملک کے لیے مرنا، ملک کو خوشحالی کی بلندی پر لے جانا اور ملک کی ثقافت کا پرچم بلند کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے سرجیکل اسٹرائیک، ہوائی حملے، آرٹیکل 370 کی منسوخی، رام مندر کی تعمیر، دراندازوں کو ہٹانے، سی اے اے، تین طلاق کے خاتمے اور ون نیشن ون الیکشن کی مخالفت کی، اسی وجہ سے ہم جیت گئے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ملک کے بنیادی ڈھانچے کو تین گنا بڑھا دیا ہے۔ جناب شاہ نے کہا کہ اپوزیشن اتحاد نے تمل ناڈو میں ہندوؤں کو  پوجا کا حق دینے والے جج کے خلاف مواخذے کی تحریک لائی ہے اور ملک کے لوگ انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔

*******

ش ح-  ظ ا – ع د

UR- No. 2898


(रिलीज़ आईडी: 2202077) आगंतुक पटल : 8
इस विज्ञप्ति को इन भाषाओं में पढ़ें: English , हिन्दी , Kannada