وزارات ثقافت
شاعری زبان کی موسیقی ہے اور موسیقی آواز کی شاعری ہے: جاوید اختر
گلوبل میوزک شوکیس ساؤنڈ اسکیپس آف انڈیا سیزن 2 کا شاندار آغاز
Posted On:
10 NOV 2025 10:01PM by PIB Delhi
اندرا گاندھی نیشنل سینٹر فار دی آرٹس (آئی جی این سی اے) میں ساؤنڈ اسکیپس آف انڈیا سیزن 2 کی پُروقار افتتاحی تقریب منعقد ہوئی، جو ملک کا پہلا منتخب موسیقی شوکیس فیسٹیول اور بین الاقوامی کانفرنس ہے۔ یہ تین روزہ فیسٹیول 10 سے 12 نومبر تک جاری رہے گا۔ اس کا انعقاد انڈین پرفارمنگ رائٹ سوسائٹی لمیٹڈ (آئی پی آر ایس ) نے وزارتِ ثقافت، حکومتِ ہند کی معاونت سے، میوزی کنیکٹ انڈیا کے تعاون سے کیا ہے۔

افتتاحی اجلاس کے موقع پر پدم بھوشن جاوید اختر، جو ایک ممتاز شاعر، نغمہ نگار اور اسکرین رائٹر ہونے کے ساتھ ساتھ آئی پی آر ایس کے چیئرمین بھی ہیں، انھوں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا، جس میں انہوں نے فیسٹیول اور مختلف متعلقہ موضوعات پر تفصیل سے گفتگو کی۔ اس اجلاس سے آئی پی آر ایس کے سی ای او جناب راکیش نگم اور معروف کہانی کار و اسکرین رائٹر میور پوری نے بھی خطاب کیا۔ پہلے دن جاوید اختر نے نغمہ نگاری کے موضوع پر ایک خصوصی سیشن ‘دی آرٹ آف سانگ رائٹنگ’ کی بھی قیادت کی۔
اس اجلاس میں جناب اختر نے شاعری، موسیقی اور تخلیقی صلاحیت کے گہرے باہمی تعلق کا جائزہ لیا۔ انہوں نے کہاکہ ‘‘شاعری زبان کی موسیقی ہے اور موسیقی آواز کی شاعری ہے’’، اور شعری اوزان اور موسیقی کی ہم آہنگی کے درمیان مماثلت بیان کی، بلکہ اس تصور کو پائتھاگورس کے فلسفۂ توازن اور تناسب سے بھی جوڑا۔ اختر نے وضاحت کی کہ شاعری اور موسیقی دونوں کامل بحر، ردھم اور گونج پر قائم ہیں، اور جب دونوں مل جاتے ہیں تو ‘‘یہ ایک ایسا شاندار امتزاج بن جاتا ہے جو لسانی اور ثقافتی سرحدوں سے آگے بڑھ کر سیدھا دل تک پہنچتا ہے۔’’
ایک بے تکلف گفتگو میں جناب اختر نے جدید شعری رجحانات پر اپنی مضبوط رائے کا اظہار کرتے ہوئے نثری نظم کو ‘‘دھوکہ’’ اور ‘‘فریب’’قرار دیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ نثری نظم، ردھم اور لے کو ختم کر کے، شاعری کی اصل روح کھو دیتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘‘اگر یہ شعری نثر ہوتی تو اسے جائز قرار دیا جا سکتا تھا، لیکن نثری نظم وہ راگ اور ردھم چھین لیتی ہے جو شعر کی شناخت ہے۔’’ ان کے نزدیک سچی شاعری کی پہچان اس کی موسیقیت میں ہے۔
انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ شاعری ایسے علامتوں اور معنوں کو جنم دیتی ہے جو عام قاری سے بھی جڑ جاتی ہیں، بشرطیکہ اس میں ضبط، اصول اور ردھم برقرار رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شاعری لکھنے کے لیے محنت اور انکساری ضروری ہے۔ ‘‘شاعر کو شاعری پڑھنی چاہیے’’، انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا، اور مزید بتایا کہ لکھنے سے پہلے بحر، صوتیات اور آواز کے اتار چڑھاؤ کو گہرائی سے سمجھنا ضروری ہے۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ الفاظ کی اپنی زندگیاں ہوتی ہیں، جو لاشعور میں تعلقات اور تاثرات بناتی ہیں اور یہی عمل اصل تخلیق کا مرکز ہے۔
جب فلمی نغموں کے معیار میں کمی کے بارے میں پوچھا گیا تو جناب اختر نے کہا کہ معاشرہ خود اپنی تخلیقی گراوٹ کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘آپ مجھے معاشرے کے بارے میں بتائیے اور میں آپ کو اس کی خوبصورتی کے بارے میں بتاؤں گا ۔’’ ان کا خیال تھا کہ جب تعلیم کا محور فہم کے بجائے صرف روزگار ہو ہونے سے ادب اور زبان کی گہرائی ختم ہو گئی ہے۔ انہوں نے سوال کیاکہ ‘‘جب سیکھنے کا مقصد صرف کمانا رہ جائے تو اس میں رزمیہ یا شعری اظہار کی گہرائی کیسے باقی رہ سکتی ہے؟’’۔
مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے جناب اختر نے کہاکہ ‘‘اے آئی ایک مؤثر آلہ ہو سکتی ہے، لیکن تخلیقی نہیں ہو سکتی۔’’انہوں نے کہاکہ ‘‘فن شعور اور لاشعور کے درمیان موجود بے نام سرزمین میں جنم لیتا ہے۔’’ ان کے مطابق ہر فنونِ لطیفہ کا اظہار جذبے، تخیل، جنون اور ہنرمندی کا امتزاج ہوتا ہے۔وہ خوبیاں جن کی مشینی عمل نقل نہیں کر سکتا۔ تعلیم اور تہذیبی فہم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ معاشرے کی فن کو سمجھنے اور اس کی قدر کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ‘‘جذبے کی پیروی کرنا سمندر کی طرف بہتی ندی کی طرح ہےیہ خود اپنا راستہ تلاش کر لیتی ہے۔’’
پریس کانفرنس کے دوران جناب اختر نے بھارت کو ‘‘موسیقی کا ملک’’ قرار دیا اور اس کی متنوع اور پُرعظمت موسیقی روایتوں کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اتر پردیش اور شمال مشرقی خطے جیسے علاقے موسیقی کے میدان میں بے پناہ صلاحیت رکھتے ہیں جسے ابھی تک پوری طرح دریافت نہیں کیا گیا ہے۔ ساؤنڈ اسکیپس آف انڈیاکے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ ‘‘یہ ٹیلنٹ ہنٹ نہیں بلکہ ٹیلنٹ شوکیس ہے۔ایک ایسا قدم جس کا مقصد تخلیقی صلاحیت اور بازار کو ایک ساتھ لانا ہے۔’’
وزارتِ ثقافت اور آئی جی این سی اے کے تعاون کو سراہتے ہوئے جناب اختر نے فنکاروں کو بااختیار بنانے اور منفرد ثقافتی پہلوں کو فروغ دینے میں ان کے اہم کردار کو تسلیم کیا۔ اندرا گاندھی نیشنل سینٹر فار دی آرٹس میں جاری یہ تین روزہ فیسٹیول 100 سے زائد فنکاروں اور 24 بینڈز پر مشتمل ہے، جن میں دو بین الاقوامی فنکار بھی شامل ہیں، جبکہ دنیا بھر کے 15 سے زیادہ فیسٹیول ڈائریکٹر، کیوریٹر، پالیسی ساز اور صنعت کے رہنما بھی شامل ہیں۔اس فیسٹیول میں موسیقی کے مختلف انداز لوک فیوژن، کلاسیکل فیوژن، ہِپ ہاپ، جاز، میٹل، پاپ اور راک پیش کیے جا رہے ہیں۔ لسانی تنوع بھی اس کی ایک نمایاں خصوصیت ہے، اور ترانوں کو انگریزی، ہندی، کونکنی، لداخی، تمل اور دیگر ہندوستانی زبانوں میں پیش کیا جا رہا ہے۔
یہ تقریب نہ صرف موسیقی کے شوقین افراد کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے بلکہ ہندوستانی فنکاروں کے لیے بین الاقوامی مواقع کے دروازے کے طور پر بھی کام کرتی ہے ۔ کینیڈا ، مصر ، ایسٹونیا ، جرمنی ، انڈونیشیا ، جاپان ، نیدرلینڈز ، پولینڈ ، پرتگال ، جنوبی کوریا ، اسپین اور تھائی لینڈ سمیت 15 ممالک کے نمائندے فیسٹیول ڈائریکٹرز ، بکنگ ایجنٹوں اور پروموٹرز کے طور پر حصہ لے رہے ہیں ۔
فیسٹیول کے پچھلے ایڈیشن نے کئی ابھرتے ہوئے بھارتی بینڈوں کے لیے نئی راہیں ہموار کیں۔ مثال کے طور پر، بنگالی فوک ٹرائیو باول مون نے اسی پلیٹ فارم کے ذریعے بین الاقوامی شناخت حاصل کی اور بعد میں جنوبی کوریا کے گوانگجو میں بسکنگ ورلڈ کپ میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔جہاں انہوں نے نہ صرف حصہ لیا بلکہ خطاب بھی جیتا۔اسی طرح دہلی سے تعلق رکھنے والے فوک اور کلاسیکل فیوژن پرکشن گروپ تال فری نے ساؤنڈ اسکیپس آف انڈیا میں اپنی پیشکش کے بعد ملائیشیا کے شہر کوچنگ میں منعقد مشہور رین فاریسٹ ورلڈ میوزک فیسٹیول میں پرفارم کیا۔
ساؤنڈ اسکیپس آف انڈیا صرف ایک موسیقی فیسٹیول نہیں بلکہ بھارت کی ثقافتی اور لسانی تنوع کا پُررونق جشن ہے، جو بھارتی موسیقاروں کو عالمی موسیقی برادری سے جوڑتا ہے۔ یہ پہل بھارت کو صرف ایک صارفین کی منڈی کے طور پر نہیں بلکہ عالمی سطح پر ایک تخلیقی اور طاقتور موسیقی قوت کے طور پر پیش کرنے کی اہم کوشش ہے۔ جیسے جیسے بھارت کی موسیقی صنعت بین الاقوامی سطح پرپہچان حاصل کر رہی ہے، ایسے فیسٹیول اس حقیقت کی توثیق کرتے ہیں کہ بھارتی موسیقی کی آوازیں اب اپنی سرحدوں سے بہت آگے گونج رہی ہیں۔دنیا بھر میں بازگشت پیدا کر رہی ہیں۔
****
ش ح۔ ش آ ۔ م ش
U. No-1064
(Release ID: 2188649)
Visitor Counter : 7