PIB Headquarters
جی ایس ٹی کو معقول بنانا: کافی کے باغات سے لے کر ٹیک ہب تک، کرناٹک کی ترقی کی کہانی شروع ہوئی !
Posted On:
24 OCT 2025 9:59AM by PIB Delhi
کلیدی نکات :
- کافی، جو ہندوستان کی مجموعی پیداوار کا 71 فیصد ہے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ جی ایس ٹی کو 5 فیصد تک کم کرنے سے فوری کافی 11-12 فیصد سستی ہو جائے گی اور چھوٹے پروڈیوسروں اور برآمد کنندگان کو تقویت ملے گی۔
- ٹیکس سے پاک دودھ اور پنیر اور 5-7 فیصد سستا گھی اور مکھن، ڈیری سیکٹر کے 2.6 ملین کسانوں کو ریلیف فراہم کرے گا۔
- کاجو، کوئر اور سمندری مصنوعات پر جی ایس ٹی کو 5 فیصد تک کم کرنے سے ساحلی علاقوں کو فروغ ملے گا جس سے خواتین کی زیر قیادت ایم ایس ایم ایس اور ساحلی معاش کو فائدہ پہنچے گا۔
- ٹریکٹر، مشینری، سیمنٹ اور گرینائٹ پر 6-8 فیصد سستی قیمتوں سے صنعتی شعبے اور دیہی میکانائزیشن اور تعمیرات میں روزگار کو فروغ ملے گا۔
- الکل ساڑیاں ، بدری ویئر، روزن ووڈ ان لے اور ڈرونز پر جی ایس ٹی کو 5 فیصدتک کم کرنے سے دستکاری اور اختراع کو فروغ ملے گا جس سے کاریگروں اور ٹیک اسٹارٹ اپس کی مدد ہوگی۔
|
تعارف
کرناٹک- روایت اور ٹکنالوجی کے سنگم پر ایک ایسی ریاست ہے جہاں کورگ کے کافی کے باغات کی خوشبو پینیہ سے ہوسر تک پھیلی ہوئی صنعتی مشینری کے ساتھ گھل مل جاتی ہے۔ دکشینہ کنڑ کے ساحلی ماہی گیری سے لے کر میسور اور بیدر کے دستکاری کے مراکز تک- ریاست کی معیشت ہندوستان کے تنوع، لچک اور کاروباری جذبے کی عکاسی کرتی ہے۔
جی ایس ٹی کی شرحوں کی حالیہ معقولیت کرناٹک کی معیشت کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے، جس سے زراعت، مینوفیکچرنگ اور خدمات کو وسیع راحت ملتی ہے۔ کلیدی اشیاء جیسے کافی، ڈیری، ٹیکسٹائل، دستکاری، کوئراور ضروری صنعتی خام مال پر ٹیکس کی شرحوں کو کم کرکے، یہ اصلاحات سستی کو بڑھانے، گھریلو طلب کو متحرک کرنے اور ایم ایس ایم ای ایس اور برآمد کنندگان دونوں کی مسابقت کو مضبوط بنانے کے لیے تیار ہیں۔
اس نئے فریم ورک کے ساتھ کرناٹک کے کسانوں، کاریگروں اور کاروباریوں کو کم تعمیل لاگت، مضبوط ویلیو چینز اور مارکیٹ تک وسیع رسائی سے فائدہ ہوگا۔ یہ معقولیت ٹیکسیشن کو آسان بنانے کے ہندوستان کے وسیع تر ہدف کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے اور کرناٹک کے جامع، اختراع پر مبنی اور پائیدار ترقی کے ویژن کو مضبوط کرتی ہے۔
زراعت اور دیہی معاش
کافی
کرناٹک ہندوستان کی کافی کی معیشت کا مرکز ہے، جو ملک کی مجموعی پیداوار میں تقریباً 71 فیصدکا حصہ ڈالتا ہے، کوڈاگو، چک مگلور اور ہاسن میں پودے لگائے جاتے ہیں۔ اس خطہ میں چھوٹے اور سرحدی کسانوں کا غلبہ ہے جو 6.7 لاکھ لوگ قومی سطح پر کافی کی کاشت اور پروسیسنگ میں مصروف ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق کرناٹک کے مالے ناڈو علاقے سے ہے۔
کافی کے عرق(ایکسٹریکٹ)، جوہر(ایسنس) اور انسٹنٹ کافی پر جی ایس ٹی کی شرح میں حالیہ کمی نے 18 فیصد سے 5فیصد تک ایک بڑا مالی فروغ دیا ہے، جس سے خوردہ قیمتوں میں 11-12فیصد کی کمی متوقع ہے۔ یہ تبدیلی گھریلو مانگ کو فروغ دے گی، چھوٹے پروسیسرز اور کوآپریٹیو کے مارجن کو بہتر بنائے گی اور ہندوستان اور عالمی فی کس کافی کی کھپت کے درمیان فرق کو کم کرے گی۔
کرناٹک میں سایہ میں اگائی جانے والی عربیکا ، چک مگلور عریبکا اور بابابوڈونگیریس عربیکا سبھی کے جی آئی ٹیگ ہیں اور اٹلی، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں ان کی برآمداتی مانگ زیادہ ہے۔ شرح میں کمی نے گھریلو اور عالمی دونوں بازاروں میں کرناٹک کے پروڈیوسروں کی مسابقت کو مضبوط کیا ہے۔
ڈیری
کرناٹک کا ڈیری سیکٹر جس کی قیادت کرناٹک ملک فیڈریشن (کے ایم ایف) کرتی ہے، دیہی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، جو 2.6 ملین سے زیادہ دودھ پیدا کرنے والوں کی مدد کرتا ہے، جن میں سے زیادہ تر چھوٹے اور پسماندہ کسان ہیں۔ ریاست بھر میں 15,000 (پندرہ ہزار)سے زیادہ پرائمری ڈیری کوآپریٹیو کے ساتھ جس میں بنگلور، میسور، ہاسن اور تمکرو میں پروسیسنگ کے بڑے مراکز یہ شعبہ دیہی اور نیم شہری علاقوں میں تقریباً 2.2 ملین لوگوں کو روزی روٹی فراہم کرتا ہے۔
کے ایم ایف کا فلیگ شپ برانڈ، نندنی، دیہی پروڈیوسروں کو شہری صارفین سے جوڑ کر تعاون پر مبنی کامیابی کی علامت بن گیا ہے۔ مالی سال- 2024 میں کرناٹک نے 13.46 ملین ٹن دودھ پیدا کیا، جب کہ کے ایم ایف نے اوسطاً 52.7 لاکھ لیٹر دودھ فی دن فروخت کیا، جو اسے ہندوستان میں دوسرا سب سے بڑا ڈیری کوآپریٹیو بناتا ہے۔
یو ایچ ٹی دودھ اور پنیر پر جی ایس ٹی کی شرحوں میں 5 فیصدسے صفر تک اور گھی اور مکھن پر 12 فیصد سے 5 فیصد تک کی حالیہ کمی سے خوردہ قیمتوں میں 5-7 فیصد کمی آئے گی جس سے ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی مانگ میں اضافہ ہوگا اور کوآپریٹیو کے مارجن کو تقویت ملے گی۔ یہ دوہرا فائدہ صارفین کی استطاعت میں اضافہ کرتا ہے اور کے ایم ایف کو اپنے کسان اراکین کو بہتر اور زیادہ مستحکم قیمتیں فراہم کرنے کے قابل بنائے گا۔ کرناٹک میں دیہی آمدنی اور خواتین کو بااختیار بنانے کے ڈرائیور کے طور پر ڈیری کو مضبوط کرے گا۔
ساحلی اور کاٹیج انڈسٹریز
کاجو
جنوبی کنڑ اور اڈوپی کے ساحلی اضلاع کرناٹک میں کاجو پروسیسنگ کے بڑے مراکز ہیں۔ یہ محنت مزدوری کرنے والی صنعت دیہی اور سماجی طور پر کمزور کمیونٹیز کی ہزاروں خواتین کو ملازمت دیتی ہے۔ اکیلے دکشنا کنڑ میں تقریباً 66 پروسیسنگ یونٹس ہیں، جو مقامی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
پروسیس شدہ کاجو پر جی ایس ٹی کو 12 فیصد سے کم کر کے 5فیصد کرنے سے قیمتوں میں 6-7 فیصد کی کمی متوقع ہے جس سے چھوٹے پروسیسرز اور برآمد کنندگان کے مارجن میں بہتری آئے گی۔ ہندوستان کاجو کی تجارت میں ایک بڑا عالمی حریف ہے، جو متحدہ عرب امارات(یو اے ای)، جاپان اور ہالینڈ جیسے ممالک کو کاجو کے دانا برآمد کرتا ہے۔ اس اقدام سے گھریلو مانگ میں اضافہ اور کرناٹک کی ساحلی خواتین کی افرادی قوت کے لیے آمدنی میں استحکام کی توقع ہے۔
کوئر
تمکرو، ہاسن، چک مگلور اور ساحلی کرناٹک میں پھیلی ہوئی کوئر انڈسٹری ایک روایتی کاٹیج انڈسٹری ہے جو خاص طور پر خواتین کے لیے اہم غیر زرعی دیہی روزگار فراہم کرتی ہے۔ کرناٹک اسٹیٹ کوئر ڈیولپمنٹ کارپوریشن اور سنٹرل کوئر بورڈ کے تعاون سے یہ صنعت خواتین کو بااختیار بنانے اور دیہی روزی روٹی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
قومی سطح پر کوئر کی صنعت تقریباً 5.5 لاکھ لوگوں کو ملازمت دیتی ہے اور ایک بڑی ناریل پیدا کرنے والی ریاست کے طور پر کرناٹک میں توسیع کی بے پناہ صلاحیت ہے۔ ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا پروڈیوسر اور کوئر مصنوعات کا برآمد کنندہ بھی ہ۔ ، بنیادی طور پر امریکہ اور چین کو کوئر درآمد کیا جاتا ے۔ میٹوں، قالینوں اور جیو ٹیکسٹائل پر جی ایس ٹی کو 12 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کرنے سے توقع ہے کہ وہ مصنوعی متبادل کے مقابلے میں ان کی مسابقت میں اضافہ کرتے ہوئے 6-7 فیصدسستا ہو جائیں گے۔
یہ اصلاحات ایک سرکلر اور گرین اکانومی کی حمایت کرتی ہے، ناریل کی بھوسی سے بنی ماحول دوست مصنوعات کو فروغ دیتی ہے اور ایم ایس ایم ای ایس کو اپنے کاموں کو بڑھانے کی ترغیب دیتی ہے۔ اس میں قومی روزگار پیدا کرنے کے پروگراموں جیسے کہ وزیر اعظم کے ایمپلائمنٹ جنریشن پروگرام (پی ایم ای جی پی) کے ساتھ ہم آہنگی کرتے ہوئے خاص طور پر خواتین کے لیے اہم اضافی غیر زرعی روزگار پیدا کرنے کی صلاحیت بھی ہے۔
ماہی پروری
کرناٹک کی 320 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی، جو دکشنا کنڑ، اُڈوپی اور اترا کنڑ پر پھیلی ہوئی ہے- ہزاروں روایتی ماہی گیری کے خاندانوں اور ایک مضبوط سمندری غذا کی پروسیسنگ کی صنعت کو سپورٹ کرتی ہے اور جو خاص طور پر خواتین کے لیے اہم روزگار فراہم کرتی ہے۔ یہ شعبہ ساحلی پروسیسنگ پلانٹس، کولڈ اسٹوریج یونٹس اور ایکسپورٹ ہاؤسز میں کام کرنے والے لاکھوں ماہی گیروں اور کارکنوں کی مدد کرتا ہے۔
کرناٹک ہندوستان کی سمندری مچھلی کی پیداوار میں پانچویں مقام پر ہے۔ اگرچہ پکڑی جانے والی زیادہ تر مچھلیاں مقامی طور پر کھائی جاتی ہیں، تاہم مقامی اور بین الاقوامی دونوں منڈیوں میں پروسیس شدہ اور محفوظ شدہ سمندری غذا- جیسے ڈبے میں بند، منجمد اور کھانے کے لیے تیار مصنوعات کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پروسیس شدہ مچھلیوں اور سمندری مصنوعات پر جی ایس ٹی کی شرح کو 12 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کرنے سے توقع ہے کہ ڈبہ بند ٹونا، منجمد جھینگا اور کھانے کے لیے تیار مچھلی کی کری جیسی اشیاء تقریباً 6-7 فیصدتک سستی ہو جائیں گی، اس طرح ماہی گیری کی ویلیو چین میں ویلیو ایڈیشن میں اضافہ ہوگا۔ یہ پالیسی تبدیلی مقامی پروسیسنگ کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، روزگار کے مزید مستحکم مواقع پیدا کرتی ہے، اور غیر مستحکم برآمدی منڈیوں پر انحصار کم کرتی ہے۔
یہ اصلاحات سی فوڈ ایم ایس ایم ایز اور کوآپریٹیو کے لیے مسابقت کو بڑھا کر ساحلی معاش کو براہ راست بڑھاتی ہے، کرناٹک کی ماہی گیری برادریوں کو ریاست کے سب سے اہم قدرتی وسائل میں سے ایک سے زیادہ قیمت حاصل کرنے میں مدد کرتی ہے۔
زرعی مشینری
ٹریکٹر، زرعی مشینری اور پرزہ جات پر جی ایس ٹی میں کمی کرناٹک میں دیہی پیداوار اور صنعتی ترقی کو بڑھانے کی طرف ایک بڑا قدم ہے۔ 7.8 ملین سے زیادہ کسانوں کے لیے جن میں زیادہ تر چھوٹے اور معمولی کاشتکار ہیں، ٹریکٹروں اور مشینری پر جی ایس ٹی کی شرح کو 12 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد اور ٹریکٹر کے کل پرزوں پر 18 فیصد سے کم کر کے 5فیصد کرنے سے زرعی میکانائزیشن کی لاگت میں نمایاں کمی آئے گی۔
مثال کے طور پر،8 لاکھ روپے کی لاگت والے ٹریکٹر پر جی ایس ٹی کا جزو اب 96,000 (چھیانوے ہزار) روپے سے کم کر کے 40,000 (چالیس ہزار) روپےکر دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں تقریباً56,000 (چھپن ہزار)کی براہ راست بچت ہوتی ہے۔ اس سے کاشتکاروں، فارمر پروڈیوسر آرگنائزیشنز ( ایف پی او ایس) اور کسٹم ہائرنگ سینٹرز کے لیے ضروری آلات تک آسان رسائی ممکن ہو سکے گی جس سے میکانائزیشن کو فروغ ملے گا اور پیداوار میں اضافہ ہو گا۔
کرناٹک میں صنعتی کلسٹرز، جیسے ہبلی-دھارواڑ، بیلگاوی، اور بنگلور آٹوموٹیو کوریڈور کو بھی فائدہ پہنچے گا، کیونکہ ریاست میں ٹریکٹر کے کل پرزے اور مشینری تیار کرنے والے ایم ایس ایم ای ایس کا مضبوط نیٹ ورک ہے۔ کرناٹک میں آٹو کمپوننٹ انڈسٹری کی اچھی نمائندگی ہے، جس میں ٹویوٹا، ٹی وی ایس ، بوش اور متعدد ذیلی صنعتیں ہیں۔
نئے جی ایس ٹی فریم ورک کے تحت زرعی مشینری کی مانگ میں اضافہ متوقع ہے جس سے صنعتی روزگار (55,000 سے زائد کارکنان) اور دیہی آمدنی دونوں میں اضافہ ہوگا۔ ایک مضبوط مینوفیکچرنگ ماحولیاتی نظام کے ساتھ سستی میکانائزیشن کو جوڑ کر یہ اصلاحات پورے کرناٹک میں دیہی اور صنعتی ترقی کا ایک مثبت دور بناتی ہے۔
مینوفیکچرنگ اور صنعتی ترقی
ٹیکسٹائل اور ملبوسات
ریڈی میڈ گارمنٹس ( آر ایم جی) اور ٹیکسٹائل سیکٹر کرناٹک میں سب سے بڑے روزگار پیدا کرنے والے اداروں میں سے ایک ہے، جس کے بڑے مراکز بنگلور، بیلاری، ہبلی-دھارواڑ اور مانڈیا میں ہیں۔‘ہندوستان کے ملبوسات کی راجدھانی" کے طور پر جانا جاتا ہے- بنگلور میں 400 سے زیادہ ملبوسات کی اکائیاں ہیں اور یہ عالمی برانڈز جیسے‘ہل فائر’، ‘ٹومی’، ‘نائکے’ اور ’ایڈیڈاس’ کے لیے سپلائی کے مرکز کے طور پر کام کرتا ہے۔
یہ صنعت تقریباً 600,000 ( چھ لاکھ)لوگوں کو روزی روٹی فراہم کرتی ہے، جس سے یہ ہندوستان میں ٹیکسٹائل کا دوسرا سب سے بڑا آجر ہے۔ زیادہ تر کارکن خواتین ہیں، جن میں سے اکثر کا تعلق دیہی اور کم آمدنی والے گروہوں سے ہے۔ کرناٹک ہندوستان کی ملبوسات کی پیداوار کا 20 فیصد اور ٹیکسٹائل کی برآمدات کا 11 فیصد حصہ بناتا ہے، جس کی قیمت تقریباً4,000 (چار ہزار)کروڑ ہے، جس میں امریکہ ایک اہم منزل ہے۔
جی ایس ٹی کے نئے ڈھانچے کے تحت 5 فیصد ٹیکس کی حد کو روپے1,000 سے بڑھا کر2,500 روپےفی ٹکڑا کر دیا گیا ہے، جس سے ایم ایس ایم ای ملبوسات کی اکائیوں کو اہم ریلیف مل رہا ہے۔ یہ اصلاحات وسیع تر مصنوعات کی حد میں ٹیکس کے بوجھ کو کم کرتی ہے، قیمتوں میں مسابقت کو بڑھاتی ہے اور گھریلو مینوفیکچررز کے لیے ورکنگ کیپیٹل میں اضافہ کرتی ہے۔ اس سے کرناٹک کے برآمدات پر مبنی ملبوسات کے کلسٹرز کو تقویت ملے گی، خواتین کے روزگار میں بہتری آئے گی، اور جس سے ریاست کی ٹیکسٹائل ویلیو چین میں مانگ میں اضافہ ہوگا، داونگیرے اور بیلگاوی میں کتائی سے لے کر بنگلور اور بیلاری میں ملبوسات کی پیداوار تک۔
گرینائٹ
کرناٹک ہندوستان کی گرینائٹ صنعت کا ایک بڑا مرکز ہے، جس میں رامن نگر، چامراج نگر، بیلاری، کوپل اور رائئے چور میں کان کنی اور پروسیسنگ مراکز ہیں۔ یہ شعبہ کان کے کارکنوں، مشین آپریٹرز اور لاجسٹک عملے کے لیے روزگار کے خاطر خواہ مواقع فراہم کرتا ہے، جن میں سے اکثر کا تعلق پسماندہ اور قبائلی برادریوں سے ہے۔
کرناٹک ہندوستان کی کل گرینائٹ برآمدات میں تقریباً 32 فیصد کا حصہ ڈالتا ہے، جو اسے عالمی منڈی میں ایک بڑا حریف بناتا ہے۔ ہندوستان بنیادی طور پر چین کو گرینائٹ برآمد کرتا ہے، جو کہ خام گرینائٹ بلاکس کی اہم منزل ہے۔ گرینائٹ بلاکس پر جی ایس ٹی کی شرح کو 12 فیصد سے کم کر کے 5 فیصدکرنے سے پروسیسنگ یونٹس کی لاگت میں 6-7 فیصد تک کمی آئے گی، جس سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے مارجن میں براہ راست بہتری آئے گی۔
اس لاگت کے فائدہ سے برازیل اور ناروے جیسے عالمی پروڈیوسروں کے مقابلے ہندوستانی گرینائٹ کی قیمت کی مسابقت میں اضافہ متوقع ہے اور کرناٹک کے کان کنی کے شعبوں میں جدید مشینری، حفاظت اور ماحولیاتی معیارات میں زیادہ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
سیمنٹ
کرناٹک کی سیمنٹ کی صنعت، جو کلبرگی اور بیلاری میں مرکوز ہے، شمالی کرناٹک میں صنعتی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور چونے کے پتھر کے بھرپور ذخائر سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ یہ شعبہ ہزاروں ہنر مند اور نیم ہنر مند کارکنوں کو ملازمت دیتا ہے، جس میں انجینئرز، تکنیکی ماہرین اور لاجسٹک اہلکار اور معاون خدمات کے وسیع نیٹ ورک کو سپورٹ کرتا ہے۔
الٹرا ٹیک سیمنٹ اور اے سی سی جیسی سرکردہ کمپنیوں کے ساتھ کرناٹک جنوبی ہندوستان میں تعمیرات اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں کا ایک بڑا سپلائر ہے۔ سیمنٹ پر جی ایس ٹی کو 28 فیصد سے کم کر کے 18 فیصد کرنا سب سے اہم پالیسی اقدامات میں سے ایک ہے، جس سے خوردہ قیمتوں میں 7-8 فیصد کی کمی متوقع ہے۔
لاگت میں یہ اہم ریلیف ہاؤسنگ، رئیل اسٹیٹ اور پبلک انفراسٹرکچر کے منصوبوں کی لاگت کو کم کرے گا، جبکہ تعمیراتی مواد کی مانگ کو بھی بڑھا دے گا۔ توقع ہے کہ تعمیراتی سرگرمیوں میں اس توسیع سے ہنر مند اور غیر ہنر مند کارکنوں کے لیے روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے اور کرناٹک کے صنعتی اور تعمیراتی ماحولیاتی نظام میں اقتصادی ترقی کے ایک طاقتور ڈرائیور کے طور پر کام کریں گے۔
صندل اور صابن
چندن کے ساتھ کرناٹک کا لازوال ورثہ عالمی شہرت یافتہ میسور سندل صابن میں مجسم ہے، جسے بنگلور میں قائم ریاستی ملکیتی کرناٹک صابن اور ڈٹرجنٹس لمیٹڈ (کے ایس ڈی ایل) نے تیار کیا ہے۔ ریاست بھر سے حاصل کردہ صندل کی لکڑی کے تیل کا استعمال کرتے ہوئے، جس پر کے ایس ڈی ایل کی تاریخی اجارہ داری ہے، یہ برانڈ کرناٹک کی دستکاری اور ورثے کی علامت بنا ہوا ہے۔
جی آئی اسٹیٹس کے ساتھ میسور سندل صابن کے ایس ڈی ایل کے مجموعی کاروبار میں تقریباً 75 فیصد کا حصہ ڈالتا ہے اور جی ایس ٹی میں 18 فیصد سے 5 فیصدکی کمی سے خوردہ قیمتوں میں 11-12 فیصد کی کمی متوقع ہے، جس سے بڑی ایف ایم سی جی کمپنیوں کے زیر تسلط مارکیٹ میں مسابقت بڑھے گی۔ یہ اصلاحات فروخت کو بڑھانے، منافع کو مضبوط بنانےاور جدیدیت اور مصنوعات کے تنوع کو فروغ دینے میں مدد کرے گی، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ یہ مشہور برانڈ عالمی سطح پر کرناٹک کی نمائندگی کرتا رہے گا۔
ڈرونز
بنگلور ہندوستان کے ڈرون مینوفیکچرنگ، آر اینڈ ڈی اور سروسز ایکو سسٹم کا مرکز ہے، جس میں ایرو اسپیس کمپنیوں اور ٹیکنالوجی اسٹارٹ اپس دونوں کا متحرک نیٹ ورک ہے۔ یہ شعبہ اعلیٰ قدر کی اختراعات اور صنعتی تنوع میں حصہ ڈالتا ہے، جس میں ہنر مند انجینئرز، سافٹ ویئر ڈیولپرز اور تکنیکی ماہرین کو ملازمت دی جاتی ہے۔
کرناٹک ہندوستان کی پہلی ریاست تھی جس نے اس شعبے میں سرمایہ کاری کی اعلیٰ صلاحیت کو تسلیم کرتے ہوئے ایرو اسپیس پالیسی نافذ کی۔ ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ ( ایچ اے ایل) اور آئی ایس آر او-اسروجیسے سرکردہ آر اینڈ ڈی اور مینوفیکچرنگ اداروں کی موجودگی نے ڈرون جدت طرازی کی حمایت کرنے والے ایک مضبوط تکنیکی بنیاد کی تعمیر میں مدد کی ہے۔
بغیر پائلٹ کے فضائی گاڑیوں (ڈرونز) پر جی ایس ٹی کی شرح کو 18 فیصد/28 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کرنے سے ایک اہم مالی ترغیب ملتی ہے، جس سے مقامی طور پر تیار کردہ ڈرونز کی لاگت میں 11-20 فیصدکی کمی واقع ہوتی ہے۔ توقع ہے کہ اس اقدام سے درآمدات کے خلاف مسابقت میں اضافہ ہوگا اور زراعت، لاجسٹکس، انفراسٹرکچر کی نگرانی اور دفاع جیسے اہم شعبوں میں ان کو اپنانے میں تیزی آئے گی۔
یہ اصلاحات ‘میک اِن انڈیا’ پہل کے مطابق کرناٹک کی پوزیشن کو ڈرون اختراعات اور مینوفیکچرنگ کے ایک سرکردہ مرکز کے طور پر مضبوط کرتی ہے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے، ٹیکنالوجی کی ترقی کو فروغ دیتی ہے۔
دستکاری اور ثقافتی معیشت
الکل اور اڈوپی ہینڈلوم ساڑیاں
کرناٹک کے بُنائی کے ورثے کی بہترین نمائندگی اِلکل (باگل کوٹ) اور اُڈوپی کے جھرمٹ سے ہوتی ہے، جہاں روایتی کاریگر برادریاں نسلوں سے ہینڈلوم کی بنائی کی مشق کر رہی ہیں۔ یہ خطہ تقریباً 55,000 بُننے والے خاندانوں کی مدد کرتا ہے، جن میں سے اکثر گھریلو اکائیوں یا کوآپریٹیو سے کام کرتے ہیں اور اکثر سوت کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور پاور لومز سے مسابقت کا سامنا کرتے ہیں۔
الکل اور اُڈوپی دونوں ساڑیوں کو جغرافیائی اشاریہ ( جی آئی) کا درجہ حاصل ہے۔ الکل ساڑیاں اپنی مخصوص ٹوپے ٹینی بنائی تکنیک کے لیے مشہور ہیں، جو بغیر کسی رکاوٹ کے جسم کے ویفٹ کو پالو ویفٹ کے ساتھ ایک مخصوص سرخ ریشمی پالو کے ساتھ ملا دیتی ہے۔ اُڈپی ساڑیوں کو ان کے عمدہ سوتی کپڑے اور روایتی شکلوں کے لیے اہمیت دی جاتی ہے۔
ہینڈلوم ساڑیوں پر جی ایس ٹی کو 12 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کرنے سے توقع ہے کہ قیمتوں میں 6-7 فیصد تک کمی آئے گی، بڑے پیمانے پر تیار کردہ متبادل کے خلاف ان کی مسابقت میں بہتری آئے گی۔ ان اصلاحات سے کوآپریٹیو، سرکاری امپوریا، نجی خوردہ فروشوں، اور آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے فروخت میں اضافہ ہونے کی امید ہے، جس سے بنکروں کی آمدنی میں بہتری آئے گی اور کرناٹک کی صدیوں پرانی ہینڈلوم کی روایات کو برقرار رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔
بدری ویئر
بیدر سے خصوصی طور پر شروع ہونے والا بیدری ویئر ہندوستان کے بہترین دھاتی دستکاریوں میں سے ایک ہے، جو بیدر قلعہ کی خاص مٹی سے بنی زنک اور تانبہ کے سیاہ مرکب پر خالص چاندی کے تار کے پیچیدہ کام کے لیے جانا جاتا ہے۔ ایک جی آئی ٹیگ کے ساتھ پہچانا گیا، بدری ویئر دستکاری کی ایک متحرک میراث کی نمائندگی کرتا ہے جو روایتی کاریگر خاندانوں کے ذریعے نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔
یہ صنعت بیدر کے علاقے میں ہنر مندوں کے روزگار کا ایک اہم ذریعہ بنی ہوئی ہے، لیکن کم اجرت اور مشین سے بنی مصنوعات کی مسابقت نے کاریگروں پر معاشی دباؤ ڈالا ہے۔ جی ایس ٹی میں 12 فیصد سے 5 فیصد کی کمی سے 6-7 فیصدقیمت کا فائدہ ملتا ہے، جس سے دستکاری کے یہ نمونے گھریلو اور سیاحت سے چلنے والی برآمداتی منڈیوں میں زیادہ سستی اور مسابقتی بنتے ہیں۔
بدری ویئر کے 90 سے زیادہ ممالک میں برآمد ہونے کے ساتھ اس اصلاحات سے کاریگروں کے لیے منافع کو بہتر بنانے اور اس وراثتی دستکاری میں دلچسپی کو بحال کرنے کی امید ہے، کرناٹک کی صدیوں پرانی دھاتی فن کاری کو محفوظ رکھتے ہوئے معاش کو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔
میسور روز ووڈ
میسور اور آس پاس کے علاقوں میں انتہائی ہنر مند، خاندان پر مبنی دستکار گروپوں کے ذریعہ مشق کیا جاتا ہے، میسور روز ووڈ انلے دستکاری کرناٹک کے شاہی ورثے کی پہچان ہے۔ ووڈیار خاندان اور ٹیپو سلطان کی سرپرستی میں، یہ شاندار آرٹ فارم رنگین لکڑی، موتی اور دیگر ماحول دوست مواد کو گلاب کی لکڑی کی سطحوں میں ڈالتا ہے تاکہ آرائشی فرنیچر اور شاندار نمونے تیار کیے جاسکیں۔ تاریخی طور پر ہاتھی دانت کا استعمال کیا جاتا تھا، لیکن اب اس کی جگہ پائیدار متبادل نے لے لی ہے۔
2005 میں جی آئی کا درجہ دیا گیا، یہ دستکاری میسور کے ثقافتی ماحولیاتی نظام کا ایک لازمی حصہ بنی ہوئی ہے۔ اس کی فروخت کاویری ہینڈی کرافٹس ایمپوریم، پرائیویٹ گیلریوں اور امریکہ اور برطانیہ کو مخصوص برآمدات کے ذریعے چلائی جاتی ہے، بین الاقوامی مانگ بھی آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے بڑھ رہی ہے۔
جی ایس ٹی میں 12 فیصد سے 5 فیصد تک کمی سے قیمتوں میں 6-7 فیصدکی کمی متوقع ہے، اس سے استطاعت اور مسابقت میں بہتری آئے گی۔ مثال کے طور پر ایک روز ووڈ ڈائننگ سیٹ جس کی لاگت 4,000 امریکی ڈالر ہے اس کے نتیجے میں 250 امریکی ڈالر سے زیادہ کی بچت ہوسکتی ہے۔ یہ مالی ریلیف چھوٹے، گھریلو اداروں کے منافع میں اضافہ کرے گا، اعلی قیمت، اپنی مرضی کے مطابق لکڑی کے نمونے کے لیے عالمی مارکیٹ میں میسور کی پوزیشن کو مضبوط کرے گا۔
نتائج
جی ایس ٹی اصلاحات کرناٹک کی متنوع معیشت کو وسیع فوائد فراہم کرتی ہیں، کافی، ڈیری اور کاجو کی کاشت کرنے والے کسانوں سے لے کر ہینڈ لوم اور دستکاری میں مصروف کاریگروں تک اور صنعتی اور تکنیکی ترقی کو آگے بڑھانے والے کاروباری افراد تک ٹیکس کی کم شرح لاگت کو کم کرے گی، مارکیٹ میں مسابقت میں اضافہ کرے گی اور کلیدی شعبوں میں زیادہ ویلیو ایڈیشن کو فروغ دے گی، اس طرح دیہی اور شہری دونوں کمیونٹیز کے لیے آمدنی کے مواقع بڑھیں گے۔
روایتی معاش اور جدید صنعتوں کے درمیان تعلق کو مضبوط بنا کر یہ معقولیت جامع، روزگار پر مبنی، اور پائیدار ترقی کو فروغ دیتی ہے۔ ان اصلاحات سے پیداواری صلاحیت میں اضافہ، گھریلو طلب کو فروغ دینے اور ہندوستان کی سب سے زیادہ متحرک اور اختراع پر مبنی ریاستی معیشتوں میں سے ایک کے طور پر کرناٹک کی پوزیشن کو مزید مضبوط کرنے کی امید ہے۔
پی ڈی ایف دیکھنے کیلئے یہاں کلک کریں
*******
ش ح- ظ ا – ع ن
UR No. 230
(Release ID: 2182059)
Visitor Counter : 10