عملے، عوامی شکایات اور پنشن کی وزارت
جیتندر سنگھ نے کہا، غیر ضروری اپیلوں میں کمی لا کر سی اے ٹی کے بنیادی اور اصل مینڈیٹ کو برقرار رکھا جائے
وزیر نے عدلیہ سے اپیل کی کہ وہ ملک کی خدمت کے لیے سی اے ٹی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے رضاکارانہ طور پر آگے آئیں
سی اے ٹی کے مستقبل کے لائحہ عمل میں مصنوعی ذہانت (AI)، ڈیجیٹائزیشن اور پرفارمنس بینچ مارک شامل کیے گئے ہیں
Posted On:
20 SEP 2025 4:06PM by PIB Delhi
مرکزی وزیر مملکت (آزادانہ چارج) برائے سائنس و ٹیکنالوجی، ارضیاتی سائنسز اور پی ایم او، ڈیپارٹمنٹ آف ایٹمی توانائی، ڈیپارٹمنٹ آف اسپیس، عملہ، عوامی شکایات اور پنشن کے وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے آج تمام متعلقہ فریقین پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے میں تعاون کریں کہ سینٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹریبونل (سی اے ٹی) اپنی بنیادی اصل ذمہ داری پوری کرے، یعنی اعلیٰ عدالتوں میں خدمات سے متعلق مقدمات کے التوا کو کم کرنا۔ انہوں نے ہائی کورٹ میں غیر ضروری اپیلوں سے بچنے کے طریقے تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ سی اے ٹی کا بنیادی مقصد ملازمین کے لیے انصاف کی سہولت کے لیے ٹریبونل سطح پر حتمی فیصلہ فراہم کرنا اور عدالتی عمل کو ہموار بنانا ہے۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے بھارت منڈپم میں منعقدہ 10ویں آل انڈیا کانفرنس آف دی سینٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹریبونل سے خطاب کرتے ہوئے عدلیہ کے اراکین سے درخواست کی کہ وہ رضاکارانہ طور پر سی اے ٹی میں خدمات انجام دینے کے لیے آگے آئیں، ”انصاف کے انتظام اور قومی خدمت کے مفاد میں۔“ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ماضی میں اس طرح کے کردار قبول نہ کرنے کی وجہ سے ٹریبونل کے کام کرنے کے طریقہ کار میں ترامیم کرنا پڑی، جس میں عدالتی اراکین کی غیر موجودگی میں انتظامی اراکین کو بینچ کی قیادت کرنے کی اجازت شامل تھی۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے شرکا کو یاد دلایا کہ سی اے ٹی کو 1985 میں آئین کے آرٹیکل 323-اے کے تحت قائم کیا گیا تھا تاکہ حکومت کے ملازمین اور پنشنر کو تیز، سستا انصاف فراہم کیا جا سکے اور اعلیٰ عدالتوں پر خدمات سے متعلق مقدمات کا بھاری بوجھ کم کیا جا سکے۔
وزیر نے زور دیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں حکومت نے یہ یقینی بنایا کہ ٹریبونل میں تمام خالی عہدے بھرتی کیے جائیں، تاکہ یہ مکمل قوت کے ساتھ کام کر سکے۔ اگلا چیلنج، ان کے مطابق، زیر التوا مقدمات کو مقررہ وقت میں نمٹانا اور جدید کیس مینجمنٹ سسٹم کو اپنانا ہے۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے عدالتی عمل میں ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ای-فائلنگ، ریکارڈ کی ڈیجیٹلائزیشن، اور ورچوئل سماعتوں میں پیش رفت کی مثالیں دیں، جنہوں نے وبا کے دوران بھی تسلسل کو یقینی بنایا۔ انہوں نے تیز اور مستقل فیصلے کے لیے بغیر عدالتی آزادی سے سمجھوتہ کیے AI فعال کیس مینجمنٹ سسٹم کے منصوبوں کا بھی ذکر کیا۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ سی اے ٹی اپنی تمام بینچ میں کارکردگی کے معیار کو اپنانے پر غور کرے، جیسے مقدمات کی نمٹانے کی شرح، التوا میں کمی، ٹیکنالوجی کا استعمال اور فریقین کا اطمینان۔ ان اقدامات سے بہترین طریقہ کار کے اشتراک کو فروغ ملے گا اور شفافیت میں اضافہ ہوگا۔
وزیر موصوف نے حکومت کی وابستگی کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اب زیادہ تر سی اے ٹی بینچوں کے لیے مخصوص عمارتیں ہیں اور بنیادی ڈھانچے اور افرادی قوت کو مزید مضبوط بنانے کے اقدامات جاری ہیں۔ انہوں نے اختتام پر زور دیا کہ حکومت وسائل اور ٹیکنالوجی فراہم کر سکتی ہے، لیکن دیانتداری اور خدمت کا جذبہ ان افراد کی ذمہ داری ہے جن پر انصاف فراہم کرنے کا فریضہ سونپا گیا ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس بی آر گاوائی نے افتتاحی خطاب میں سی اے ٹی کے انصاف تک رسائی آسان بنانے اور اعلیٰ عدالتوں پر بوجھ کم کرنے میں کردار کو اجاگر کیا۔ جسٹس گاوائی نے تجویز دی کہ سرکاری محکمے مزید مقدمات کی کارروائی سے پہلے جائزہ لینے کے لیے نوڈل دفاتر قائم کریں۔ انہوں نے کیس کی درجہ بندی اور فیصلوں کا ترجمہ متعدد زبانوں میں کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کے استعمال کی بھی حوصلہ افزائی کی، اور ٹریبونل کے لیے قومی ڈیٹا بیس بنانے کی تجویز دی۔
سی ای ٹی کے چیئرمین جسٹس رنجیت مور نے اپنے خیرمقدم خطاب میں ٹریبونل کے منفرد کردار اور ضروریات پر روشنی ڈالی، جو عام عدالتوں سے مختلف ہیں۔ انہوں نے ایڈمنسٹریٹو ٹریبونل ایکٹ، 1985 کے پس منظر اور ملک بھر میں سی اے ٹی کے بینچوں اور سرکٹ بینچوں کے قیام کی وضاحت کی، جس کا مقصد فریقین کے دروازے پر انصاف فراہم کرنا تھا۔ انہوں نے خدمات سے متعلق قانون سازی میں ٹریبونل کے بڑھتے ہوئے کردار اور حکومت کی قیادت اور معاونت کے تحت بروقت اور قابل رسائی انصاف فراہم کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
مرکزی وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے کہا کہ اگرچہ سی اے ٹی کے فیصلے قابل تعریف ہیں، لیکن دونوں جانب سے اپیلوں کا سلسلہ انصاف میں تاخیر پیدا کرتا ہے اور اسے روکنا ضروری ہے، ساتھ ہی انہوں نے ڈیجیٹل کیس مینجمنٹ اور شفافیت کو اصلاحات کے لیے اہم قرار دیا۔ اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمانی نے سی اے ٹی کے معتبر ادارے میں ارتقا پر روشنی ڈالی اور کہا کہ تقرریوں کے معیار کو یقینی بنانا اس کی کامیابی کی کلید ہے، نیز ٹریبونل کے اراکین کے لیے مزید ورکشاپ اور صلاحیت سازی کی ضرورت پر زور دیا۔ اس موقع پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس جے کے مہیشوری، جسٹس ستیش چندر شرما، جسٹس پرسانا بی وڑالے اور جسٹس وجے بشنوئی، مختلف ہائی کورٹ کے جج، حکومت ہند کے سینئر افسران، بار کونسل اور ایسوسی ایشن کے اراکین اور قانونی برادری کے نمائندے بھی موجود تھے۔
************
ش ح۔ ف ش ع
U: 6348
(Release ID: 2168997)