وزارات ثقافت
azadi ka amrit mahotsav

کماراسوامی کا وژن بدھ مت کے آئیکنوگرافی اور آرٹ کے بارے میں ہماری سمجھ کو تشکیل دیتا ہے: پروفیسر نمن آہوجہ


ہندوستان کے زیادہ تر ورثہ کاابھی تک مطالعہ نہیں کیا گیا ہے اور علامتوں کو ان کے سیاق و سباق کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت ہے: ڈاکٹر کے کے چکرورتی

Posted On: 09 SEP 2025 8:30PM by PIB Delhi

اندرا گاندھی نیشنل سینٹر فار دی آرٹس (آئی جی این سی اے) کلچرل آرکائیوز اینڈ کنزرویشن ڈویژن نے ’بدھ کی ایک اور تصویر کی ابتدا‘ کے موضوع پر چوتھے آنند کینتیش کماراسوامی میموریل لیکچر کا اہتمام کیا۔  آنند کینتیش کماراسوامی کییاد میں قائم کیا گیا، جن کی اولین اسکالرشپ نے ہندوستانی فن اور جمالیات کی تفہیم کو ترتیب دیا، یہ لیکچر جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے اسکول آف آرٹس اینڈ ایستھیٹکس کے پروفیسرنمن پی آہوجہ نے پیش کیا۔  اجلاس کی صدارت نامور آرٹ مورخ اورآئی جی این سی اے کے سابق ممبر سکریٹری ڈاکٹر کلیان کمار چکرورتی ریٹائرڈ آئی اے ایس نے کی اور اس کا آغاز کلچرل آرکائیوز اینڈ کنزرویشن ڈویژن کے صدر پروفیسر اچل پانڈیا کے تعارفی کلمات کے ساتھ ہوا۔

اس موقع پر پروفیسر نمن آہوجہ نے کہا کہ ہندوستانی آرٹ کے مطالعہ میں آنند کے کماراسوامی کا سب سے بڑا تعاون مورتی پوجا کی ابتداء اور ہندوستان میں تصویری پوجا کے آغاز کو سمجھنے کے لیے ان کا بنیادی نقطہ نظر تھا۔  ان کے اہم اقدامات میں الفریڈ فوچر کے گندھارا آرٹ پر یونانی اثر و رسوخ کے وسیع پیمانے پر مقبول نظریہ کو مسترد کرنا شامل تھا۔  اپنے مضمون ’دی اوریجن آف دی بدھ امیج‘ اور اپنے مونوگراف یکشاس کے ذریعے، کماراسوامی نے یہ ثابت کیا کہ بدھ کی ابتدائی تصاویر کی بنیادبیرونی اثر و رسوخ کے بجائے ہندوستانی روایات اور فلسفہ تھیں۔  پروفیسر آہوجہ نے اس بات پر زور دیا کہ کماراسوامی کی بصیرت قوم پرست ردعمل سے آگے بڑھ گئی ہے، جس میں بھگود گیتا میں مثال کے طور پر نظریہ اور بھکتی کی طرف گہری فلسفیانہ تبدیلی کے اندر تصویری عبادت کے ظہور کا پتہ لگایا گیا ہے۔  متھرا ، گندھارا اور امراوتی کی کینونکل بدھ تصاویر، جو کشان دور میں ان کے وضاحتی لکشنوں کے ساتھ لگائی گئی تھیں، اس تبدیلی کی عکاسی کرتی ہیں۔

حالیہ دریافتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے، پروفیسر آہوجہ نے کہا کہ تمام ابتدائی تصاویر بدھ کی عکاسی نہیں کرتی تھیں؛ بہت سے بودھی ستووں کی نمائندگی کرتی تھیں، جن کی روحانی صفات کو زیادہ آزادانہ طور پر قبول کیا گیا تھا۔  یہ، پہلی صدی عیسوی تک سوریہ، لکشمی ، برہما اور اندرا جیسے دیوتاؤں کے بدھ مت کی بصری ثقافت میں انضمام کے ساتھ ساتھ، ابتدائی جنوبی ایشیا میں مذہبی عبادت کی وسیع موجودگی کی عکاسی کرتا ہے۔  بنگال میں چندرکیتو گڑھ سے نیا مواد پیش کرتے ہوئے پروفیسر آہوجہ نے پتھر پر مبنی روایات کے برعکس مٹی، ٹیراکوٹا، لکڑی اور ہاتھی دانت پر خطے کے انحصار پر روشنی ڈالی۔  نتائج میں ہاتھی دانت کے آثار کے صندوق ہیں، جن کی تاریخ دوسری صدی قبل مسیح اور دوسری صدی عیسوی کے درمیان ہے، جو بدھ کی زندگی کے واقعات کو کینونکل زبان میں نہیں بلکہ ستواہن فنکارانہ الفاظ کے پیرائے میں پیش کرتے ہیں۔  انہوں نے وضاحت کی کہ اس طرح کی نمائشیں ظاہر کرتی ہیں کہ بدھ مت کے تصورات کس طرح علاقائی طور طریقوں میں تبدیل ہوگئے۔

پروفیسر آہوجہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ دریافتیں کماراسوامی کے بنیادی دلائل پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔  اگرچہ دیوی دیوتاؤں اور تصویر کی پوجا کے بارے میں ان کی تحقیق کی قدر و قیمت برقرار ہے ، متھرا سے لے کر بنگال تک کے شواہد سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بدھ اور بودھی ستوا کی تصویر کشی کی تخلیق کبھی واحد نہیں تھی ، بلکہ اس کے اظہار میں کئی پرتیں، موافقت پذیری اور گہرا علاقائی اثرتھا۔

اس موقع پر، ڈاکٹر کے کے چکرورتی نے کہا کہ اگرچہ ہندوستان میں تقریبا 30,000 محفوظ یادگاری مقامات اور عجائب گھروں میں وسیع مجموعے ہیں، تاہم اس کے زیادہ تر آثار قدیمہ، سکے اور کتبوں کی دولت کا مطالعہ نہیں کیا گیا ہے۔  انہوں نے موجودہ اقدام کو بروقت قرار دیا ، کیونکہ اس نے تاریخ، فلسفہ، مذہب اور مادی ثقافت کو اختصار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔  کمارسوامی کے نقطہ نظر پر غور کرتے ہوئے، ڈاکٹر چکرورتی نے بودھ آرٹ کی مغربی درجہ بندی سے شمال-جنوبی مفاہیم کی طرف اپنی نظریاتی تبدیلی کا ذکر کیا، جہاں شمالی لینئر شکلیں بتدریج بڑی جنوبی طرزوں کے آگے کم مایہ رہ گئیں۔  نیز، انہوں نے کماراسوامی کے خطوط اور عالمی اسکالرز کے ساتھ تبادلوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی، جو ثقافتی مکالمے کی نئی جہتوں کو ظاہر کرتے ہیں۔   انہوں نے پورے جنوبی اور وسطی ایشیا میں مشہور اور انوکھی روایات کی ایک ساتھ موجودگی پر زور دیا، جہاں تال میں شیو بدھ کے امتزاج جیسے امتزاجی طرزوں اور فلسفوں کے اختلاط کی گواہی دیتے ہیں۔

ڈاکٹر چکرورتی نے مزید کہا کہ متھرا کی ابتدائی بودھ تصاویر، جو مضبوط اور یکش جیسی تھیں، نے بت سازی کے پرتوں کے ارتقاء کی عکاسی کرتے ہوئے، بتدریج گندھارا میں مزید قدرتی شکلوں کو راستہ دیا۔  انہوں نے کہا کہ بدھ، کماراسوامی کے وژن میں، صرف ایک تاریخی شخصیت نہیں تھے بلکہ روایات کا خلاصہ تھے-جہاں لوک داستانیں، فلسفہ اور علم کائنات یکجا تھے۔  پروفیسر نمن آہوجہ کے کام کی تعریف کرتے ہوئے، انہوں نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کا زیادہ تر غیر دریافت شدہ ورثہ میں اب بھی سیاق و سباق کے ساتھ علامتوں کے اس طرح کا محتاط انضمام ہونا باقی ہے۔

آخر میں کلچرل آرکائیوز ڈویژن کی انچارج اور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر شلپی رائے نے مقررین اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔  اس تقریب میں آرٹ، تاریخ اور ثقافت کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے محققین ، اساتذہ ، اسکالرز اوربڑی تعداد میں آرٹ کے شوقین افراد  نے شرکت کی۔  یہ سالانہ لیکچر کماراسوامی کے قائم کردہ فن اور ثقافت کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ک ح۔ ن م۔

U-5829


(Release ID: 2165217) Visitor Counter : 2
Read this release in: English , Hindi