خلا ء کا محکمہ
azadi ka amrit mahotsav

خلائی ایپلیکیشنزکے ذریعے اسرو کی نیشنل اسپیس میٹ2.0 نے وِکست بھارت2047 کا نقشِ راہ پیش کیا


خلاء ستاروں کو فتح کرنے کے بارے میں نہیں بلکہ زمین پر زندگی کو بہتر بنانے کے بارے میں ہے: جناب پی۔ کے۔ مشرا

ہندستان کی خلائی اصلاحات نے اسٹارٹ اپس کے عروج کو ممکن بنایا: 2014 میں محض 2 سے بڑھ کر تعداد آج 350 سے زیادہ

اسرو نے بھارت منڈپم میں حکومت، صنعت، اکیڈمیا اورعوام کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا؛ آئندہ دہائی کے لیے مضبوط نقش راہ پیش

Posted On: 22 AUG 2025 8:58PM by PIB Delhi

چاند کی سطح پر وکرم روور کی کامیاب آسان لینڈنگ کی یاد میں منائے جانے والے دوسرے قومی خلائی دن  کے موقع پر بھارتی خلائی تحقیق کی تنظیم  (اسرو) نے آج نئی دہلی کے بھارت منڈپم میں نیشنل اسپیس میٹ2.0 کا انعقاد کیا۔ اس اجلاس کا موضوع’’وکست بھارت 2047 کے لیے خلائی ٹیکنالوجی اور اس کے اطلاقات سے استفادہ‘‘ تھا۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/LAV05380V6RK.JPG

یہ اجلاس ایک تاریخی سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جس میں مرکزی حکومت کی وزارتیں، ریاستی حکومتیں، پرائیویٹ سیکٹر، اکیڈمیا، اسٹارٹ اَپس اور ماہرین ایک ساتھ آئے تاکہ بھارت کی خلائی اطلاقات کے اگلے عشرے کا نقش راہ تیار کیا جا سکے۔ اس سے قبل 2015 میں ایک اسی نوعیت کی نیشنل میٹ منعقد ہوئی تھی، جس نے گزشتہ دہائی میں خلاء پر مبنی حلوں کے ذریعے طرزِ حکمرانی اور اصلاحات کی سمت طے کی۔ موجودہ ایڈیشن ایک پُرعزم ایجنڈا پیش کرتا ہے، جس کا مقصد طرزِ حکمرانی کی نئی اصطلاح کرنا، شہری مرکوز خدمات کی فراہمی کو مزید مضبوط بنانا اور سماجی و معاشی تبدیلی کے لیے خلائی ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانا ہے۔یہ سب کچھ وکست بھارت @2047 کے ویژن کے مطابق ہے۔

اجلاس میں10 بریک آؤٹ سیشنز منعقد کیے گئے، جن کی صدارت مرکزی وزارتوں اور محکموں کے سکریٹریوں اور سینئر عہدیداروں نے کی۔ ان اجلاس میں درج ذیل موضوعات شامل تھے:

  • زراعت اور پانی
  • جنگلات، ماحولیات اور توانائی پالیسی
  • انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ اور جیو-گورننس
  • صحت، تعلیم اور سماجی بہبود
  • ابلاغ، نیویگیشن اور ٹیکنالوجی کا فروغ
  • آفات کے خطرات میں کمی
  • سمندر، موسم اور زمینی وسائل
  • شمال مشرقی خطہ اور پہاڑی ریاستیں/مرکز کے زیر انتظام علاقے
  • ساحلی ریاستیں/مرکز کے زیر انتظام علاقے
  • اندرونی ریاستیں/مرکز کے زیر انتظام علاقے

ان سیشنز میں سینکڑوں ماہرین نے حصہ لیا، جنہوں نے گزشتہ چار ماہ کے دوران وزارتوں، محکموں، ریاستی حکومتوں اور اسرو کے ساتھ قریبی تعاون کرتے ہوئے فوری اور مستقبل میں نافذ کیے جانے والے سیکڑوں یوز معاملات کی نشاندہی کی۔

اختتامی تقریب کے مہمانِ خصوصی، جناب پی۔ کے۔ مشرا، پرنسپل سکریٹری برائے وزیر اعظم ہند، نے بھارت کے خلائی سفر کو وزارتوں، ریاستوں، صنعتوں، سائنسدانوں اور اسٹارٹ اپس کے اجتماعی عزم کی ایک درخشاں مثال قرار دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ اجلاس ’’ہول آف گورنمنٹ‘‘ اپروچ کی عکاسی کرتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح 60 سے زیادہ محکموں نے زرعی شعبے اور صحت سے لے کر آفات کے نظم و نسق اور ماحولیاتی لچک تک حکمرانی میں سیٹیلائٹس، سمت بتانے اور جیو اسپیشل آلات کو مرکزی دھارے میں شامل کیا ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/LAV054399QLX.JPG

جناب مشرا نے اپنے خطاب میں اس بنیادی تبدیلی کا حوالہ دیا جو2012 میں معزز وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں شروع ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اصلاحات اور پالیسیوں نے بے مثال مواقع فراہم کیے ہیں۔ 2014 میں صرف ایک یا دو اسٹارٹ اَپس تھے، لیکن آج یہ شعبہ بڑھ کر350 سے زیادہ اسٹارٹ اَپس پر مشتمل ہو چکا ہے، جن میں سے کچھ بھارت کی سرزمین سے سیٹلائٹس اور راکٹس لانچ بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے اسرو کی تعریف کی کہ اس نے نوجوانوں اور اسٹارٹ اَپس کی رہنمائی کر کے ایک متحرک ماحول بنایا، جبکہ اسپیکٹرم الاٹمنٹ، وینچر کیپیٹل فنڈز اور ٹیکنالوجی کی منتقلی جیسی اصلاحات نے بھارت کے خلائی شعبے کو قابلِ توسیع، اختراعی اور مضبوط بنا دیا ہے۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ نیشنل اسپیس میٹ کو باقاعدگی سے منعقد کرنے کی روایت قائم کی جائے، نجی شعبے کی زیادہ شمولیت کو یقینی بنایا جائے اور ایک ایسا روڈمیپ بنایا جائے جس میں ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز جیسے کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی)، کوانٹم کمپیوٹنگ اور بگ ڈیٹا اینالیٹکس،کو سیٹلائٹ اور گراؤنڈ سسٹمز کے ساتھ مربوط کیا جا سکے۔ انہوں نے عالمی تعاون کو مزید وسعت دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا اور ناسا-اسرو ایس اے آر مشن اور آئندہ آنے والا جی-20 سیٹلائٹس برائے ماحولیاتی اقدامات کی مثالیں پیش کیں۔ اختتام پر انہوں نے ایک نظریاتی پیغام دیا:

’’بھارت کا خلائی سفر شہریوں کو بااختیار بنانے، خلیجوں کو پاٹنے اور ایک خود انحصار قوم کی تعمیر کے بارے میں ہے۔ جب ہم وکست بھارت2047 کی طرف بڑھ رہے ہیں تو خلاء ترقی اور تبدیلی کا سب سے مضبوط محرک ہوگا۔‘‘

جناب پون گوئنکا، چیئرمین، اِن-اسپیس، نے اس بات پر زور دیا کہ نیشنل میٹ2.0 محض ایک نظریاتی کانفرنس نہیں بلکہ ایک عملی مسائل کے حل کا عمل ہے۔ انہوں نے’’ہول آف گورنمنٹ اور ہول آف نیشن‘‘ اپروچ کی اہمیت کو اجاگر کیا، جہاں ماہرین نے وزارتوں اور ریاستوں کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر حل تیار کیے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/LAV03769TQC0.JPG

جناب گوئنکا نے 2015 سے 2025 تک کے سفر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگرچہ خلائی ٹیکنالوجی کا علم اور دائرہ وسیع ہوا ہے، لیکن آج کا اصل فرق ایک پھلتا پھولتا نجی شعبے کا ایکو سسٹم ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ خلائی اصلاحات اور خلاء پر مبنی ڈیٹا کی بڑھتی ہوئی طلب ایک ایسا مثبت دائرہ قائم کرے گی جو اختراع کو مسلسل آگے بڑھائے گا۔ حکومت اور صنعت دونوں سے مخاطب ہوتے ہوئے، انہوں نے سکریٹریوں سے کہا کہ نجی شعبے کی صلاحیتوں پر زیادہ اعتماد کریں، اور اسٹارٹ اَپس کو یہ پیغام دیا کہ وہ خلاء کو صرف ایک کاروباری موقع نہیں بلکہ ایک قومی مشن کے طور پر دیکھیں۔

انہوں نے ایک ایسے مستقبل کا تصور پیش کیا جہاں خلائی ٹیکنالوجی ہر کسان، ہر طالب علم اور ہر برادری تک پہنچے اور ایک مضبوط اور خوشحال بھارت کی بنیاد کو مستحکم کرے۔

جناب وی۔ نارائنن، چیئرمین اسرو نے بھارت کے شاندار خلائی سفر کا ذکر کیا جو 1963 میں تھمبا سے معمولی راکٹ لانچز سے شروع ہوا تھا اور آج عالمی سطح پر بھارت کی قیادت کو تسلیم کیے جانے تک پہنچ گیا ہے۔ انہوں نے تاریخی سنگ میلوں کو یاد کیا جیسے 1975 کا اے ٹی ایس-6 تجربہ، اور اس بات کو اجاگر کیا کہ کس طرح اُس وقت دیہی بھارت میں2,400 ٹی وی سیٹس کے ذریعے تعلیم دی جا رہی تھی جبکہ آج 55 فعال سیٹلائٹس کا بیڑہ براڈکاسٹنگ، ٹیلی کام، ٹیلی میڈیسن، آفات کی وارننگ اور ماہی گیری کی مانیٹرنگ کو تقویت دے رہا ہے۔

اگلی دہائی کے ایجنڈے کا خاکہ پیش کرتے ہوئے جناب نارائنن نے درج ذیل نکات پر زور دیا:

  • نئی آلات، خود مختار برج اور مربوط نظاموں کے ذریعے صلاحیت میں اضافہ
  • خوراک، پانی، توانائی، ماحولیات، ماحولیاتی لچک، اسمارٹ گورننس اور شہری خدمات میں ایپلیکیشنز کو ادارہ جاتی شکل دینا
  • خلائی شعبے کی اصلاحات اور وزیر اعظم کے ویژن کے مطابق نجی شعبے کے گہرے انضمام کو یقینی بنانا

انہوں نے ایک جرات مندانہ مضبوط ہدف مقرر کیا: 2040 تک بھارت راکٹ، سیٹلائٹس اور ایپلیکیشنز میں عالمی رہنماؤں کے برابر کھڑا ہوگا اور وکست بھارت 2047 میں نمایاں تعاون دے گا۔

ڈاکٹر وی۔ کے۔ سرسوت، ممبر نیتی آیوگ اور سابق سربراہ ڈی آر ڈی او نے بھارت کی خلائی ٹیکنالوجی اور طرزِ حکمرانی کی تیز رفتار ترقی کو اجاگر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ2015 سے وزارتوں نے زراعت، حیاتیاتی تنوع، سڑکوں، صحت، آفات کے نظم و نسق اور ماحولیاتی ردِعمل سمیت مختلف شعبوں میں خلائی اطلاقات کو اپنے ورک فلو میں شامل کر لیا ہے، جس کے نتیجے میں طرزِ حکمرانی میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔

انہوں نے اہم اصلاحات کی تعریف کی، جیسے کہ جیو اسپیشل پالیسی2022، انڈین اسپیس پالیسی2023 اور اِن-اسپیس کا قیام، اور اس بات کو نوٹ کیا کہ بھارت ایک طلب کے تقاضے والی شراکت پر مبنی ماڈل کی طرف بڑھ رہا ہے جو اسپیس4.0 کے مطابق ہے۔

ڈاکٹر سرسوت نے نجی شعبے کی رفتار کو اجاگر کیا، جہاں اسکائی روٹ، اگنیکل، پکسل، دھرووا اور دجنترا جیسے اسٹارٹ اَپس لانچ، سیٹلائٹس اور ڈیٹا سروسز میں اختراع کی قیادت کر رہے ہیں۔ انہوں نے دفاع اور سلامتی کے لیے خلاء کی دوہری جہت پر زور دیا اور خلائی اثاثوں کے تحفظ کے لیے مضبوط، دیسی ٹیکنالوجیز کی ضرورت کو نمایاں کیا۔

آگے کی طرف دیکھتے ہوئے انہوں نے ایک بین الاقوامی خلائی اتحاد کی تجویز دی تاکہ نگرانی، خلائی ملبہ میں کمی، خلاء پر مبنی توانائی، مائننگ اور قانونی فریم ورکس جیسے عالمی چیلنجز سے نمٹا جا سکے۔ انہوں نے حکومت، صنعت، اکیڈمیا اور اسٹارٹ اَپس کے درمیان تعاون پر زور دیا تاکہ ہر شہری تک فوائد پہنچائے جا سکیں۔

اختتامی اجلاس میں آئندہ کے لائحۂ عمل پر روشنی ڈالی گئی۔ اس میں پورے بھارت کے لیے صارفین کی طلب کو یکجا کرنے کے لیے ایک کل ہند مشاورتی میکنزم کے قیام، زمین کے مشاہدے (ای او)، سیٹلائٹ نیویگیشن (ایس اے ٹی این اے وی) اور سیٹلائٹ کمیونیکیشن (ایس اے ٹی سی او ایم) خدمات کے پھیلاؤ کے ذریعے قومی خلائی معیشت کو مزید مضبوط کرنے اور 2040 تک ای او119 ، ایس اے ٹی این اے وی اور ایس اے ٹی سی او ایم سیٹلائٹس تعینات کرنے کے ایک جامع روڈمیپ کی تیاری پر زور دیا گیا۔

اہم حکمتِ عملیاں یہ رہیں:

سماجی اور حکومتی اطلاقات کے لیے معتدل سے کم ریزولوشن والے سیٹلائٹس اور این اے وی آئی سی استعمال کرتے ہوئے حکومت کی قیادت میں انفراسٹرکچر تیار کرنا۔

کمرشیل طور پر قابلِ عمل ہائی سے انتہائی ہائی ریزولوشن سیٹلائٹس اور کمیونیکیشن سیٹلائٹس کے لیے پبلک-پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) ماڈل کو فروغ دینا۔

ٹیکنالوجی ڈیمونسٹریشن کے لیے انفراسٹرکچر کو مستحکم کرنا، جہاں محکمۂ خلائی امور کے تحت اسرو ٹیکنالوجی کی ترقی کی قیادت کرے گا۔

اس اجلاس میں ایک انڈسٹری سیشن بھی شامل تھا، جس کی قیادت جناب پون گوئنکا، چیئرمین اِن-اسپیس، نے کی، جبکہ مشترکہ صدارت جناب موہن ایم، ڈائریکٹر ایل پی ایس سی نے انجام دی۔

نیشنل میٹ2.0 نے اسرو کے اس عزم کو اجاگر کیا کہ وہ ’’اکیسویں صدی کے لیے طرزِ حکمرانی کو نئے سرے سے متصور کرے‘‘، جہاں خلائی ٹیکنالوجی کو صرف سائنسی وقار کے لیے نہیں بلکہ شہریوں کو روزمرہ خدمات فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے، جو وزیرِ اعظم نریندر مودی کے آتم نربھر اور وکست بھارت کے ویژن سے ہم آہنگ ہے۔

اس نقش راہ میں پرعزم مگر قابلِ حصول اہداف مقرر کیے گئے ہیں، جیسے کہ: تین سال میں آپریشنل سیٹلائٹس کی تعداد تین گنا بڑھانا، اطلاقات کو تمام شعبوں میں پھیلانااور2040 تک بھارت کو دنیا کی نمایاں خلائی طاقتوں میں شامل کرنا۔

اہم شرکاء میں جناب دیویش چترویدی، جناب تنمے کمار، جناب منوج جوشی، جناب رودرا نارائن پلائی، جناب صیفی احسن رضوی، ڈاکٹر ایم روی چندرن، جناب چنچل کمار، جناب برجیندر نونیت اور جناب سنجے دوبے شامل تھے۔

سیشنز کی مشترکہ صدارت کرنے والوں میں جناب نلیش دیسائی، جناب پدمکمار ای ایس، جناب جے اسیر پیکیاراج، ڈاکٹر کے وی سری رام، ڈاکٹر اے کے انل کمار، ڈاکٹر اے کے پاترا، جناب سومیا نارائنن ایل، ڈاکٹر ایس پی اگروال، ڈاکٹر آر پی سنگھ اور جناب پنکج ڈی کلیدار شامل تھے۔

*****

ش ح۔ ش ا ر۔ ول

Uno- 5218


(Release ID: 2160073)
Read this release in: English , Hindi