قومی انسانی حقوق کمیشن
azadi ka amrit mahotsav

کام کرنے کی جگہوں اور عوامی مقامات پر خواتین کے تحفظ کے موضوع پر  لکھنؤ یونیورسٹی کے اشتراک سے قومی سمپوزیم کا انعقاد

Posted On: 27 JUL 2025 1:07PM by PIB Delhi

 انسانی حقوق کے قومی کمیشن (این ایچ آر سی) نے ڈاکٹر رام منوہر لوہیا چیئر، شعبہ عمرانیات، یونیورسٹی آف لکھنؤ کے اشتراک سے 26 جولائی 2025 کو ’’خواتین کے لیے کام کرنے کی جگہوں اور عوامی مقامات پر تحفظ‘‘ کے موضوع پر ایک قومی سمپوزیم کا کامیابی سے انعقاد کیا۔ یہ اس اہم موضوع پر دوسرا قومی سمپوزیم تھا، جب کہ پہلا سمپوزیم 9 ستمبر 2024 کو منعقد ہوا تھا۔ یہ اقدام ملک بھر میں پیشہ ورانہ ماحول اور عوامی مقامات پر خواتین کے خلاف جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پس منظر میں کیا گیا ہے۔

alt

صدر نشین قومی انسانی حقوق کمیشن، جسٹس وی. راماسبرامنین نے اپنے ورچوئل کلیدی خطاب میں بھارت میں دیویوں کی پرستش کی ثقافتی روایت اور خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے تلخ زمینی حقائق کے درمیان تضاد پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں ہر گھنٹے خواتین پر جرائم سے متعلق تقریباً 51 ایف آئی آر درج کی جاتی ہیں۔ انہوں نے کام کی جگہوں پر جنسی ہراسانی کی روک تھام سے متعلق قانون 2013 کی طویل جدوجہد کا بھی ذکر کیا اور اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ خواتین تعلیم اور روزگار کے میدان میں قابل ذکر پیش رفت کر رہی ہیں، لیکن ان کے تحفظ اور وقار کو یقینی بنانے کے لیے بیداری، مؤثر نفاذ کے نظام اور وسیع تر اصلاحات ناگزیر ہیں۔

alt

جوائنٹ سکریٹری، این ایچ آر سی محترمہ سئیڈنگ پوئی چھاکچھواک نے سمپوزیم کے انعقاد کی ضرورت کو واضح کرتے ہوئے ذاتی تجربات بھی شیئر کیے تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ جامع قانونی نظام موجود ہونے کے باوجود صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات روزانہ کی بنیاد پر سامنے آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ این ایچ آر سی، انڈیا ایسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملات کو فوری طور پر نمٹانے کے لیے پیش قدمی کرتا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ آنے والی نسلیں خواتین کے حقوق کے حوالے سے زیادہ آواز بلند کرنے والی اور عملی اقدامات کرنے والی ہوں گی۔ محترمہ چھاکچھواک نے اساتذہ پر زور دیا کہ وہ صنفی مسائل کے تئیں زیادہ حساس رویہ اختیار کریں تاکہ ہر فرد کے وقار کی پاسداری کی جا سکے، کیونکہ ہر جرم ظاہری طور پر پُرتشدد نہیں ہوتا۔ انہوں نے پالیسی، نفاذ اور عوامی شعور پر بھرپور توجہ دینے کی اپیل کی۔

alt

یونیورسٹی آف لکھنؤ کے پروفیسر ایس کے چودھری نے اس بات پر زور دیا کہ آزادی اور مساوات کے حقوق بھارتی آئین میں دیے گئے ہیں، تاہم انہوں نے کہا کہ صرف بیداری کافی نہیں، لوگوں میں جرائم کی رپورٹ درج کرانے کا اعتماد بھی ہونا چاہیے۔ انہوں نے معاشرے میں بنیادی سطح پر تبدیلی کی ضرورت پر زور دیا اور اس بات کی وکالت کی کہ انسانی حقوق کی ایسی ثقافت کو فروغ دیا جائے جو روزمرہ کے طرزِ عمل میں جھلکے۔

ڈائریکٹر، سینٹر فار ٹرائبل اسٹڈیز اور صدر شعبۂ بشریات، دہلی یونیورسٹی پروفیسر ایس ایم پٹنائک نے عوامی مقامات پر ہراسانی کے مسئلے پر سماجی و بشریاتی نقطۂ نظر پیش کیا۔ انہوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ کس طرح پدرشاہی نظام اور گمنامی کا عنصر صنفی تشدد کو تقویت دیتا ہے۔ کارل سیگن کا حوالہ دیتے ہوئے — ’’کسی چیز کا ثبوت نہ ہونا، اس کے نہ ہونے کا ثبوت نہیں ہوتا‘‘ — انہوں نے خبردار کیا کہ اعداد و شمار کی کمی کو مسئلے کے ختم ہو جانے کی علامت نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ پروفیسر پٹنائک نے ہمدردی، کم عمری سے صنفی حساسیت کی تعلیم اور خواتین کے لیے معاون نظام کی تشکیل پر زور دیا۔

ایسوسی ایٹ پروفیسر، یونیورسٹی آف لکھنؤ ڈاکٹر پی کے گپتا نے گھریلو تشدد کے بڑھتے ہوئے معاملات کی طرف توجہ دلائی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ انفرادی سطح پر رویّوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے، کیونکہ وسیع سماجی تبدیلی کا آغاز گھر سے ہی ہوتا ہے۔

alt

صدر نشین، اتر پردیش سب آرڈینیٹ سروسز سلیکشن کمیشن ڈاکٹر ایس این سابت نے خواتین کے وقار کے تحفظ سے متعلق موجودہ قانونی نظام پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے شہری علاقوں میں خواتین کی حفاظت کو مؤثر بنانے کے لیے نئی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز اور نگرانی کے نظام میں سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیا۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں پروفیسر نیلیکا مہروترا نے خواتین کے تحفظ میں عوامی ٹرانسپورٹ نظام کے کلیدی کردار پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے مسئلے کے سیاق و سباق کے مطابق حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ میں حساسیت کو فروغ دینے کی اپیل کی۔ انہوں نے اس بات پر تنقید کی کہ ہر مسئلے کا ایک ہی طرح کا حل کارگر نہیں ہوتا۔

مقررین نے نظامی ناانصافیوں، صنفی دقیانوسی تصورات اور ادارہ جاتی جمود پر بات کی جو آئینی ضمانتوں کے مؤثر نفاذ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ قانونی شعور، ریاست کی جانب سے مؤثر مداخلت اور فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کی زیادہ نمائندگی کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ انسانی اور خواتین کے حقوق کے ارتقا پر بھی گفتگو ہوئی، نیز اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ بھارتی آئینی دفعات کس طرح یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس (یو ڈی ایچ آر) سے ہم آہنگ ہیں۔

کئی مقررین نے موجودہ اقدامات جیسے شی-باکس، ون اسٹاپ سینٹرز، اور پنک پولیس بوتھ جیسے اقدامات کو بھی اجاگر کیا، جو خواتین کی مدد اور تحفظ کے لیے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

سمپوزیم سے سامنے آنے والی چند اہم تجاویز درج ذیل ہیں:

  1. خواتین کے تحفظ سے متعلق پالیسی سازی، عمل درآمد اور بیداری پیدا کرنے—تینوں سطحوں پر مربوط اور ہدف بند کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔
  2. خواتین کے تحفظ کے حوالے سے غیر رسمی شعبے کو بھی گفت و شنید میں شامل کرنا چاہیے اور اس شعبے میں خصوصی بیداری مہمات چلانے کی ضرورت ہے۔
  3. انفرادی اور خاندانی سطح پر صنفی حساسیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کام کی جگہوں اور عوامی مقامات پر خواتین کے تحفظ کے حوالے سے رویوں میں مثبت تبدیلی آ سکے۔
  4. ریاست کو چاہیے کہ وہ فیصلہ سازی کے اداروں میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بناتے ہوئے ایسے شمولیاتی مواقع فراہم کرے، تاکہ منظم تبدیلیاں ممکن ہو سکیں۔
  5. تعلیمی اداروں سے یہ سفارش کی گئی کہ وہ صنفی مسائل کے بارے میں طلبہ کو حساس بنانے اور مخالف جنس سے برتاؤ کے حوالے سے آگاہی دینے کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔

قومی انسانی حقوق کمیشن، بھارت نے صنفی بنیاد پر تشدد سے نمٹنے اور خواتین کے لیے محفوظ، جامع اور مساوی پیشہ ورانہ و عوامی ماحول قائم کرنے کے لیے ادارہ جاتی اشتراک کو مزید مضبوط کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔

******

ش ح۔ ش ا ر۔ ول

Uno: 3401


(Release ID: 2149077) Visitor Counter : 3
Read this release in: English , Hindi , Tamil