نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

سی آئی آئی-آئی ٹی سی سسٹین ایبلٹی  ایوارڈتقریب کے 19ویں ایڈیشن میں نائب صدرجمہوریہ کے خطاب کا متن (اقتباسات)

Posted On: 10 JUL 2025 6:58PM by PIB Delhi

سلام ونیاز

میں مغربی بنگال کے گورنر کی حیثیت سے اپنے تین سالہ دور کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ ہر دن سیکھنے کا دن تھا، لیکن سب سے خوش کن بات یہ تھی کہ آئی ٹی سی کا ہیڈ کوارٹر وہیں واقع ہے اور پورے عرصے کے دوران سنجیو پوری اس کے چیئرمین رہے۔ میں نے اسی وقت آئی ٹی سی اور اس کے رہنما کے بارے میں جانا۔ مکمل طور پر کاروباری جذبہ، عزم، واضح سمت اور معاشرے کو بھی 100 فیصد واپس کرنے کا نظریہ۔

میں نے وہاں ایک کسان کا بیٹا ہونے کے ناتے یہ سیکھا کہ آئی ٹی سی کا زراعت، کاشت کاری، دیہی ترقی اور پائیداری سے گہرا تعلق ہے۔ آپ سب کی موجودگی سے خوشی ہوئی اور آپ کی وجہ سے یہاں ہونا میرے لیے باعثِ مسرت ہے۔ سنجیدہ، باوقار اور مہذب ڈاکٹر اشوک کھوسلا نے نہایت شاندار کام کیا۔ وہ سی آئی آئی-آئی ٹی سی سسٹین ایبلیٹی ایوارڈز کے جیوری چیئر ہیں۔ میں تمام ایوارڈ ز  یافتگان کومبارکبادپیش کرتا ہوں۔ میری خصوصی مبارکبادآئی ٹی سی اور اس کے چیئرمین کو بھی ہے کہ ان کے شایانِ شان تعریفی کلمات اور اعزازات سے نوازا گیا۔ یہ مثال دوسرے کارپوریٹس کے لیے بھی قابل تقلید ہوگی۔

معزز حاضرین پائیداری (سسٹین ایبلیٹی) جو آج کل دنیا بھر میں کارپوریٹس، حکومتوں اور بین الاقوامی و قومی اداروں میں ایک مقبول موضوع بن چکی ہے، دراصل ہزاروں برس سے ہمارے طرزِ فکر اور اقدار کا حصہ رہی ہے۔ دنیا نے اسے نظر انداز کیا، ہم خود بھی اسے بھول گئے اور اب ہمیں اس کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے، کیونکہ حالات یقینی اور خراب ہو چکے ہیں۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور ہمارے پاس اب کوئی راستہ نہیں بچا سوائے اس کے کہ ہم اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ،باہمی ہم آہنگی اور اتحاد کے ساتھ فوری عمل  اقدامات کریں۔

دوستو،سی آئی آئی-آئی ٹی سی سسٹین ایبلیٹی ایوارڈز کے 19ویں ایڈیشن میں آپ کے ساتھ شامل ہونا میرے لیے باعثِ مسرت ہے، کیونکہ ایسے اقدامات نہ صرف متاثر کن اور حوصلہ افزا ہوتے ہیں بلکہ یہ یاد دہانی بھی کرواتے ہیں کہ اس زمین پر موجود ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔یہ پلیٹ فارم وقت کے ساتھ ساتھ صرف صنعتوں کے لیے  بات چیت  کا ایک فورم ہی نہیں رہا بلکہ خوش قسمتی سے یہ تبدیلی کے لیے ایک اہم ذریعہ بن کر ابھرا ہے۔

ایسے وقت میں، دوستو، جب دنیا سمت کی متلاشی ہے، جب معیشتیں ترقی اور کرۂ ارض کے درمیان توازن کی تلاش میں ہیں، جب کاروبار ترقی کے بنیادی اصولوں پر دوبارہ غور کر رہے ہیں،سی آئی آئی بلند حوصلے کے ساتھ قیادت، وژن، امید اور حل پیش کر رہا ہے۔گزشتہ دو دہائیوں سے، سی آئی آئی-آئی ٹی سی سسٹین ایبلٹی ایوارڈز نے وہ کارپوریٹ عمدگی تسلیم کی ہے جو آپ نے ابھی یہاں دیکھی، جو معاشرتی طور پر ذمہ دار، ماحولیاتی طور پر ہوشیار اور اقتصادی طور پر شمولیت والی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض اوقات یہ حیرت انگیز ہوتا ہے کہ دنیا کے کچھ لوگ ہندوستان کو شمولیت کے بارے میں سبق سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہندوستان  ہزاروں برسوں سےشمولیت کا گہوارہ رہا ہے۔ ہر لحاظ سے اس کا اعلیٰ مقام اور ایک ہم آہنگ معاشرے کے لیے اس کی خدمات نمایاں ہیں۔

لہٰذا، دوستو، یہ ایوارڈز نہ صرف ہمارے ارادے کی تصدیق ہیں بلکہ ایک نئے صنعتی اخلاقیات کے رہنما مینار بھی ہیں، جو پائیداری کو کاروباری حکمت عملی کے مرکز میں رکھتے ہیں ۔ ایسی چیز جو برسوں پہلے معروف نہ تھی، لیکن اب یہ ہر کاروباری فیصلے اور کام کی ثقافت میں مکمل طور پر شامل ہو چکی ہے۔

دوستو، جب ہم ان ایوارڈز کی بات کرتے ہیں تو اعداد و شمار خود بولتے ہیں۔ گزشتہ 18 برسوں میں 1,199 درخواست دہندگان اور 410 منظوری دی گئیں، لیکن اس سے بھی زیادہ متاثر کن بات وہ جذبہ ہے جو ان سب کے پیچھے کارفرما ہے۔ ہر کامیاب ادارہ جدت، حوصلے اور تعاون کی کہانی بیان کرتا ہے جو ضابطے کی پابندی سے آگے بڑھ کر مقصد کو منافع میں شامل کرتا ہے اور ایک ایسے مستقبل میں سرمایہ کاری کرتا ہے جو زیادہ سبز، منصفانہ اور انسان دوست ہو۔ پائیداری بھی نیت کو اثر میں بدلنے کے مسلسل ارتقاء کا سفر ہے ،کیونکہ صرف دونوں کے امتزاج  سےہی حقیقی کامیابی اور نتائج حاصل ہوتے ہیں۔

آج ہر ایوارڈ یافتہ ایک رول ماڈل ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ صنعت معیار اور مساوات ، منافع اور مقصد دونوں کو حاصل کر سکتی ہے ۔دوستوں، سنجیو پوری نے کارپوریٹ انڈیا پر روشنی ڈالی۔ جب میں عالمی نقطہ نظر سے کارپوریٹ انڈیا کو دیکھتا ہوں، تو مجھے یہ ایک بے مثال ہنر کا ذخیرہ معلوم ہوتا ہے جو عزم اور معاشرے کو واپس دینے کی مثال پیش کرتا ہے۔ اس میں زبردست صلاحیت ہے۔ حکومت اور سرکاری اداروں کے ساتھ اس کا مربوط استفادہ ایک بڑی پیش رفت اور نمایاں نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔ اگر یہ ممکن ہوا تو پورا ماحولیاتی نظام ایک مختلف سطح پر پہنچ جائے گا۔ ہندوستان  آج ایک تاریخی موڑ پر کھڑا ہے اور یہ موڑ ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

ہم اس سیارے پر سب سے زیادہ آبادی  والے ملک کے باشندے ہیں۔  دنیا کی مجموعی آبادی کا چھٹا حصہ ہندوستان میں آباد ہے۔ہم دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت ہیں اور ایک ایسے ترقیاتی ماڈل کے علمبردار ہیں جو معیشت، ماحول اور اخلاقیات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کےلیے کوشاں ہے۔میں نے اپنی سیاسی زندگی 1989 میں شروع کی ،جب میں لوک سبھا کا رکن منتخب ہوا اور مجھے وزیر بننے کا شرف حاصل ہوا، تب اُس وقت میں نے معیشت کو دیکھا اور اس کے  اُس کے حجم کو جانا اور اب بھی میں اسے بخوبی جانتا ہوں۔

وزیر کی حیثیت سے میں نے وہ پریشانی دیکھی۔‘سونے کی چڑیا کہلانے والے ہندوستان’کا سونا ہوائی جہاز کے ذریعے اُٹھا کر دو سوئس بینکوں میں رکھا گیا، کیونکہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر ایک ارب امریکی ڈالر کے آس پاس رہ گئے تھے۔ ذرا تصور کریں کہ ہم کہاں سے کہاں آ گئے ہیں۔ ہم ترقی کی ایک ایسی راہ پر گامزن ہیں جو متحرک اور پائیدار ہے۔2030 کے لیے اقوام متحدہ کا عالمی ایجنڈا برائے پائیدار ترقی  میں ہندوستان کی شمولیت، ہندوستان کی شراکت اور  ہندوستان کے متحرک و مثبت کردار کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ خوش قسمتی سے، اپنی قیادت کے وژن کے ساتھ ہندوستان نے اس ذمہ داری کو نہایت وضاحت اور یقین کے ساتھ قبول کیا ہے۔حکومتِ ہند نے صرف حکومت پر مرکوز طریقہ کار سے آگے بڑھتے ہوئے ایک ہمہ گیر سماجی فریم ورک اختیار کیا ہے۔ ذیلی قومی و مقامی حکومتیں، سول سوسائٹی، نجی شعبہ اور مقامی برادریاں — سب اس ترقیاتی انجن کے اہم پرزے ہیں،لیکن دوستو، اگر ہمیں حقیقی کامیابی حاصل کرنی ہے تو اس انجن کو اپنی پوری طاقت سے چلانا ہوگا۔

وزیرِ اعظم کے پیش کردہ نعرے  اور اُن کی رہنمائی میں زمین پر اُترتے پالیسی اقدامات-‘‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس’’صرف ایک نعرہ نہیں بلکہ ہماری قومی روح ہے۔

ہندوستان کا معاشی منظرنامہ اب بھی مضبوط اور امید افزا ہے۔ ہم صرف بحالی کی طرف نہیں جا رہے، بلکہ ہم نئی تعریف کر رہے ہیں۔ اکنامک سروے 25-2024کے مطابق، ہمارے صنعتی شعبہ کی ترقی کی شرح  6.2 فیصدرہے گی، جس کی وجہ مضبوط تعمیراتی اور توانائی کے شعبے ہیں۔ ہماری یہ ترقی مسلسل اصلاحات، بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری اور حکمتِ عملی کے تحت ڈیجیٹلائزیشن کا نتیجہ ہے۔ذرا تصور کریں — گزشتہ چند برسوں میں ہم نے جو معاشی ترقی دیکھی، بنیادی ڈھانچے کی جوشاندار ترقی ہوئی، جو گہری تکنیکی رسائی ممکن ہوئی اور جو عوام دوست سہولتیں مہیا کی گئیں ہیں وہ شاندار ہے۔  بیت الخلا، گیس کنکشن، بجلی کے کنکشن، انٹرنیٹ کنکشن، تقریباً ہر گھر تک نل کے ذریعے پانی کی فراہمی جاری ہے، صحت و تعلیم کی سہولیات موجود ہیں اور سب کے لیے رابطے کے ذرائع میسر آ رہے ہیں۔ یہ سب کچھ وہ ہے، جس کا میری نسل نے اپنی جوانی میں کبھی خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ میں نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

ہندوستان محض ایک 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے کی خواہش نہیں رکھتا۔ معیشت کا حجم اہمیت رکھتا ہے، لیکن ایک حد تک، نمبر ایک معیشت بننا ایک وقارہے، لیکن آخر میں ہمیں عملی نتائج دیکھنے ہوتے ہیں۔ لہٰذا، ہندوستان ایک معتبر معیشت بننے کی صحیح راہ پرگامزن ہے، عالمی ویلیو چین میں ایک قابل اعتماد شراکت دار اور ایک غیر مستحکم دنیا میں ایک مستحکم ستون ہے۔ اس وقت دنیا افراتفری اور اضطراب کا شکار ہے،عالمی بحران کم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ سپلائی چین میں خلل جاری ہے۔ اس پریشان کن صورتحال میں ہندوستان ایک اہم آواز ہے۔ یہ مسائل بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے حل ہونے چاہئیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کے یہ الفاظ وہ اصول بیان کرتے ہیں جن پر ہم ہزاروں سال سے قائم ہیں۔

اس ملک میں ہم ایسی خوشحالی کے خواہاں ہیں جوبامقصد ہو، ایسی ترقی جو شمولیت والی ہو اور ایسی جدت جو دیانت داری پر مبنی ہو۔ ہرم نما ترقی ہندوستان  کے اس نظریہ، اقدار، اس کے روح اور تہذیبی جوہر کے مطابق نہیں ہے۔ ترقی کو ایک سطحی میدان کی مانند ہونا چاہیے، یعنی لوگوں کو مرکز میں رکھ کر، سب کو فائدہ پہنچانے والی، لوگوں کو بااختیار بنانے والی اور لوگوں میں ملک سے تعلق کا احساس پیدا کرنے والی۔ حکومت کا اس ضمن میں کردار صرف معاون کا ہے۔ بھاری ذمہ داریاں کارپوریٹ دنیا پر ہیں، لیکن حکومت اپنا حصہ ادا کر رہی ہے، چاہے وہ کلیئرنس کے لیے قومی سنگل ونڈو سسٹم ہو، گتی شکتی انفراسٹرکچر منصوبہ ہو، لاجسٹکس پر توجہ ہو، یا ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی۔اس کامقصد رکاوٹوںکم کرنا اور پیداواریت میں اضافہ کرنا ہے۔اس سے بڑے نتائج حاصل ہو رہے ہیں ،لیکن اگر میں کہوں تو صرف حکومت ہی پنالٹی گول(ہدف حاصل نہیں کر سکتی) نہیں کر سکتی۔

حکومت خود وہ کارنرز اور کورنر ککس نہیں لے سکتی جس سے گول (ہدف )حاصل کیے جاسکیں۔ نجی شعبے کا ایک اہم کردار ہے کیونکہ آخر کار صنعت ہی جدت کو فروغ دیتی ہے، روزگار پیدا کرتی ہے اور قومی ترقی کے ڈھانچے کی تعمیر کرتی ہے۔ لہٰذا میں نجی شعبے سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ صرف ایک اقتصادی کردار ادا کرنے والا نہیں بلکہ  ہندوستان کے مستقبل کا شریک معمار بھی بنے۔ یہ قوم کی ترقی کو یقینی بنانے میں ایک اہم عنصر ہے اور یہاں، دوستوں، میں عالمی اقتصادی مباحثے میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں جس پر سنجیو پوری نے بھی غور کیا ہے۔

ماحولیاتی، سماجی اور حکمرانی (ای ایس جی) معیارات کا عروج۔ یہ معیارات مغربی نظریے کے طور پر ابھرے ہیں، لیکن ان کی جڑیں اور ڈی این اے ہندوستان کی تہذیب کے نشان رکھتے ہیں۔ میں اس حوالے سے کہہ رہا ہوں کہ ای ایس جی بغیر تہذیبی اقدار کے مکمل نہیں ہے۔ حالیہ دور میں، تاریخی پس منظر میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مہاتما گاندھی کے بیان کردہ‘امانت داری’ کے تصور نے کاروباروں پر زور دیا کہ دولت کے مخافظ صرف شیئر ہولڈر کے طور پر نہ بنیں بلکہ پورے معاشرے کی خدمت کریں۔

ایک وقت تھا جب صحت اور تعلیم کے شعبوں کو کاروباری ادارے معاشرے کو کچھ لوٹانے کے ذرائع کے طور پر دیکھتے تھے، لیکن اب ایک رجحان یہ بنتا جا رہا ہے کہ صحت اور تعلیم منافع بخش کاروبار میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ ان اہم شعبہ جات کی تجارتی نوعیت اور اشیاء میں تبدیلی — جو دراصل صرف معاشرے کی خدمت اور اسے کچھ واپس دینے کے ذرائع ہونے چاہئیں — ایک ایسا پہلو ہے جس پرہندوستان کے کارپوریٹ کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اور اس کے لیے ایک مؤثر نظام وضع کرنا ہوگا۔اسی لیے میں زور دیتا ہوں کہسی آئی آئی کو اس معاملے میں مثال بننا چاہیے — ایک ایسا کاروباری کلچر فروغ دے کر جو برابری، شفافیت اور طویل المدتی اقدار کی تخلیق کو ترجیح دے۔ اگر ہم ای ایس جی کو  ہندوستانی اداروں کے ڈی این اے میں شامل کر لیں، تو نہ صرف خطرات کو کم کر سکتے ہیں بلکہ گرین فنانس سے لے کر عالمی تعاون تک نئی ممکنات سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

دوستو ہندوستان  اب صرف امکانات والا ملک نہیں رہا — اس کا عروج ہمیشہ جاری رہنے والا ہے ۔ وِکست بھارت 2047 ہمارا خواب نہیں بلکہ ہمارا طے شدہ ہدفہے اور ہم اسے حاصل کر کے رہیں گے،لیکن جیسے جیسے ہم 2047 تک وکست بھارت کی طرف بڑھ رہے ہیں، ہمیں ایک ایسی ترقی کا وژن واضح طور پر بیان کرنا ہوگا جو جرأت مندانہ، جامع اور پائیدار ہو۔دوستو، اس وژن کی بنیاد پانچ ستونوں پر ہونی چاہیے۔
پہلا ستون ہے: کاربن کے اخراج میں کمی اور سبز ترقی۔ماحولیاتی عمل اب کوئی انتخاب یا اختیار نہیں — یہ واحد راستہ ہے۔ ہمارے پاس 'دھرتی ماں' کے علاوہ رہنے کے لیے کوئی دوسرا سیارہ نہیں ہے۔ یہ ایک ناگزیر ضرورت ہے اور اگر ہم اسے کاروباری تناظر سے دیکھیں تو یہ ایک بڑھتا ہوا زبردست کاروباری موقع بھی ہے۔ ہندوستان 2070 تک نیٹ زیرو اخراج حاصل کرنےکے لیے عہد بستہ ہے۔ یہ ایک چیلنجنگ  ہدف ہے، لیکن درست پالیسی، مالی معاونت اور اس طرح کی صنعتوں کی قیادت — جیسی مجھے اس اسٹیج پر نظر آ رہی ہے  اور ان اداروں کا جو عزم دکھائی دے رہا ہے، اس کے ساتھ یہ ہدف قابلِ حصول ہے۔

آئیے  ہندوستانی صنعت کو اس سبز انقلاب (گرین ریولوشن)کی علمبردار بنائیں۔ آئیے ہم قابلِ تجدید توانائی، گرین ہائیڈروجن، سرکلر اکنامی ماڈلز اور کاربن مارکیٹس میں سرمایہ کاری کریں۔ آئیے پائیداری کو صرف ایک قانونی تقاضا نہ سمجھیں، بلکہ اسے مقابلے میں برتری حاصل کرنے کا ذریعہ بھی بنائیں۔جس لمحے ہم اسے صرف تعمیل کے دائرے میں لے آتے ہیں، ہم یہ جنگ ہار جاتے ہیں۔ پائیداری کو ہماری اولین ترجیح بنانا ہوگا۔دوسرا ستون ہے: تکنیکی قیادت اور جدت۔ہندوستان کا ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر ، جیسے یو پی آئی، جس کے اثرات اب ہماری سرحدوں سے باہر بھی پہنچ چکے ہیں اور اسے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے اور آدھار سے لے کراو این ڈی سی تک — یہ سب عالمی معیار قائم کر چکے ہیں،لیکن دوستو، اب اگلا محاذ ہے:مصنوعی ذہانت (اے آئی) ،کوانٹم کمپیوٹنگ، بائیوٹیکنالوجی، سیمی کنڈکٹرز اور خلائی ٹیکنالوجی۔

آپ سب چونکہ صنعت سے وابستہ ہیں، اس لیے جانتے ہوں گے کہ جب کوانٹم کمپیوٹنگ کی بات آئی تو ہندوستان  پہلا ملک تھا جس نے 6000 کروڑ روپے اس شعبے کے لیے مختص کیے۔جبگرین ہائیڈروجن مشن کی بات آئی تو 18000 کروڑ روپے کی منظوری دی گئی۔تو ہم ان چنندہ ممالک میں شامل ہیں، جنہوں نے ان عالمی ترجیحات پر بروقت توجہ دی ہے۔لیکن ہمیں بائیوٹیکنالوجی، سیمی کنڈکٹرز جیسے شعبوں میں بھی انتہائی چوکس اور متحرک رہنا ہوگا  اور یہ شعبے نہ صرف معاشی سلامتی بلکہ قومی سلامتی کے نقطۂ نظر سے بھی ہماری ترجیح ہونے چاہئیں۔

صنعت کو تحقیق و ترقی میں قیادت کرنی ہوگی اور مقامی ڈیزائن میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ میں اس بارے میں ایک لمحے کے لیے غور کرنا چاہوں گا۔ یہ وہ شعبہ ہے جس پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ کارپوریٹ دنیا کا زیادہ سے زیادہ امتزاج ضروری ہے۔ عام طور پر جو میں نے محسوس کیا اور کئی پلیٹ فارمز پر کہا ہے، وہ یہ ہے کہ تحقیق خود غرضی کے لیے نہیں ہونی چاہیے۔ تحقیق صرف کاغذوں تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ تحقیق محض معلومات کا جمع کرنا یا سطحی جائزہ لینا نہیں ہو سکتی۔ تحقیق کا تعلق زمین پر حقیقی تبدیلی لانے سے ہونا چاہیے اور یہ تبدیلی صنعت باآسانی پہچان سکتی ہے۔

لہٰذا آئیے ہم ہندوستانی جدت طرازی کے ساتھ عالمی معیار کی مصنوعات بنائیں، ہم یہ کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس صلاحیت ہے۔ ہمارے پاس انسانی ذہانت ہے۔ ہمارا ڈی این اے بہت مضبوط ہے۔ آئیے ہم درآمد شدہ ٹیکنالوجی کے صارف بننے سے نکل کر جدید ترین حل تخلیق کرنے والے بنیں۔اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں۔ ہر پہلو میں ہم رہنما رہے ہیں۔ ان ناموں کو دیکھیں، ہمیں فخر ہے۔  ہندوستانی علم کا نظام۔ جتنا ہم اس پر توجہ مرکوز کریں گے، اتنا ہی ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم اپنی بلندیوں پر تھے۔

دوستو، تیسرا ستون ہے نوجوانوں اور مہارتوں کی تربیت۔ ہماری آبادی کا تقریباً دو تہائی حصہ 35 سال سے کم عمر ہے۔ ہماری آبادیاتی یوتھ ڈیویڈنڈ، جس کی اوسط عمر 28 سال ہے، ہمیں چین اور امریکہ سے 10 سال کم عمر بناتی ہے۔ ہماری نوجوانوں کی آبادیاتی دولت  پردنیا کی حسد کی نظر ہے، لیکن پچھلے 10 سالوں میں ہم نے جو ترقی دیکھی ہے، وہ بے مثال ہے۔ اس نے قوم کو دنیا کی سب سے زیادہ خواہش مند قوم بنا دیا ہے کیونکہ لوگوں نے ترقی کے پھل چکھے ہیں۔ انہوں نے وہ سہولیات اور پالیسیاں حاصل کی ہیں جن کا انہیں کبھی تصور بھی نہیں تھا۔ جب کوئی قوم اتنی خواہش مند ہو تو اس میں بے چینی یا بے قراری کا امکان بھی ہمیشہ موجود رہتا ہے۔

لہٰذا کارپوریٹ سیکٹر کی ذمہ داری خاص طور پر یہ ہے کہ ہمارے سب سے بڑے اثاثے یعنی نوجوانوں کو صحیح سمت میں رہنمائی کرنی چاہیے۔ نوجوانوں اور مہارتوں پر توجہ دینا بنیادی ضرورت ہے۔ حکومت نے متعدد جدید اقدامات کیے ہیں، لیکن مؤثر تبدیلی کا بڑا حصہ صنعت کو کرنا ہوگا۔ یہ ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہے، لیکن ایک اثاثہ تب ہی سب سے بڑا ہوتا ہے ،جب ہم اسے وژن اور فوری ضرورت کے ساتھ قابو میں لائیں۔میں صنعت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اکیڈمیا، تربیتی اداروں اور حکومت کے ساتھ مل کر مستقبل کے لیے تیار نصاب تیار کریں۔ میں نے طویل عرصے سے کہا ہے کہ اگر صنعت اور حکومت ایک صفحے پر آئیں تو نتائج بے مثال، تیزی سے بڑھنے والے اور قومی ترقی کے لیے خوشگوار ہوں گے۔ مثلاً اپرنٹس شپ، انٹرنشپ، اسکل لیبز اور مینٹورشپ کو صنعتی حکمت عملی کا لازمی حصہ بنانا چاہیے، لیکن آپ اس معاملے میں ماہر ہیں۔ آپ حکومت کے کسی اور ادارے سے زیادہ اس بارے میں جانتے ہیں۔لہٰذا آپ کو ان شعبوں پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی اور ان سے جینیاتی طور پر جڑے رہنا ہوگا۔ آئیے ایسی ورک فورس بنائیں جو ڈیجیٹل طور پر ماہر، اخلاقی طور پر مضبوط اور پائیداری کے حوالے سے باشعور ہو۔

چوتھا ستون ہے عالمی اثر و رسوخ اور قیادت۔ ہندوستان کی جی-20صدارت نے ہماری صلاحیت کو ظاہر کیا کہ ہم عالمی اتفاق رائے کو جمع کروا سکتے ہیں، تعاون کر سکتے ہیں اور اس کو تیز کر سکتے ہیں۔  جی-20کے نتائج دیکھیں۔ایک تو ہم نے سب سے بلند معیار قائم کیا جسے عالمی سطح پر سراہا گیا۔دوسرا، ہم نے اپنے اخلاقی اصولوں پر عمل کیا اور افریقی یونین کو یورپی یونین کے ساتھ جی -20ممبران شامل کروایا۔ وزیراعظم کی بصیرت نے عالمی جنوبی ممالک کے اتفاق رائے کو عالمی ایجنڈے پر لایااور پھر جو آپ سب کی دلچسپی کا باعث ہے، عالمی بائیوفیول الائنس سے لے کر ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر ریپوزٹری تک، ہم نے دنیا کو دکھایا کہ قیادت اقتدار کا کھیل نہیں، بلکہ ذمہ داری ہے۔اجازت دیجئے کہ میں تھوڑا سا مڑ کر وزیراعظم کے چند سال پہلے کے کلمات پر غور کروں:ہم کسی جنگ یا وسعت کے دور میں نہیں رہ رہے جو ہماری ثقافت کی تعریف کرے۔

دوستو، اب ہندوستان کی صنعت کو اپنی عالمی موجودگی کو صرف مارکیٹوں میں بلکہ خیالات، معیارات اور حل میں بھی  وسعت دینی ہوگی ۔آئیے برانڈ انڈیا کو چار ستونوں پر استوار کریں:معیار، اعتماد، جدت اور قدیم حکمت جو جدید دور کے لیے دوبارہ تخیل کی گئی ہو۔

اجازت دیجئے کہ میں آپ سب کے سامنے کچھ کھل کر اپنی رائے بیان کروں۔ آئیے گرین فیلڈ پروجیکٹس کی طرف جائیں، صحت کے شعبے کو بڑھائیں، تعلیم کے شعبے کو فروغ دیں، میٹرو علاقوں کے آس پاس سہولیات بڑھانا بھی ٹھیک ہے، لیکن یہ مساوی توازن کی طرف نہیں لے جاتا۔ مساوی توازن بنیادی ہے تاکہ غیر منصفانہ رویے کو ختم کیا جا سکے۔ اسی لیے میں نے طویل عرصے سے کہا ہے اور اپنی رائے آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ اگر کارپوریٹ ایسوسی ایشنز اور کنگلومریٹس سی ایس آر فنڈز کو سنبھالیں، تو وہ علاقے جو اب تک نظر انداز کیے گئے ہیں، وہاں صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں میں عالمی معیار کے ادارے قائم ہو سکتے ہیں۔

پانچواں،  اخلاقیات، مساوات اور اعلیٰ معیار، یہ ہندوستان کے لیے کچھ منفرد ہے۔ ہم مزدور نہیں ہیں، ہم استحصال کے خلاف ہیں۔ ہم اپنی توانائی کو مثبت طریقے سے استعمال کرنے پر یقین رکھتے ہیں تاکہ اپنے خوابوں کو پورا کریں اور معاشرے کے وسیع تر فائدے کے لیے کام کریں۔ ایک حقیقی ترقی یافتہ قوم وہ ہے ،جہاں مواقع چند لوگوں کا خاصہ نہ ہوں بلکہ سب کا حق ہوں۔ ایک وقت تھا ،جب قانون کے سامنے مساوات محض ایک خواب تھا۔ کچھ لوگ یہ سوچتے تھے کہ وہ قانون سے بالا تر ہیں، وہ قانون کی رسائی سے باہر ہیں۔ ہم اکثر امتیازی نسب کی بات کرتے تھے، جو اب ہمارے معاشرے میں نہیں رہی۔ یہ ایک عظیم کامیابی ہے جس نے جمہوری زندگی کو ایک نیا اقدار کا نظام دیا ہے۔ یہ سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک ہے ،جس نے جمہوری زندگی کو ایک نیا اقدار کا نظام دیا ہے۔ دوستو صنعت میں خاص طور پر ایم ایس ایم ای ایز کی حمایت کرکے قیادت میں صنفی اور ذات پات کی تنوع کو فروغ دے کر شمولیت کے لیے ایک طاقت ہونی چاہیے۔ یہ کہنا آسان ہے لیکن کرنا مشکل۔

صنف اور ذات پات کے تنوع کو صحیح معنوں میں سراہنا چاہیے۔ جہاں تک صنف کا تعلق ہے، ہم مثبت کارروائی کے حامی ہیں، لیکن اصل مسئلہ تب ہوتا ہے جب صنفی امتیاز لطیف ہو۔ جب صنفی امتیاز کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا مگر معمولی غلبے کی خواہش کے ذریعے صنف کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ میں یہ اس لیے کہتا ہوں، کیونکہ یہ پارلیمنٹ میں میرے سب سے فخر کے لمحات میں سے ایک تھا، جب خواتین کے لئے ریزرویشن بل تین دہائیوں کی مشکلات کے بعد منظور ہوا۔ یہ حکمرانی میں پائیدار ترقی کے لیے اہم ہے۔

اب لوک سبھا کے ایک تہائی اراکین اور ریاستی اسمبلیوں کے کم از کم ایک تہائی اراکین اس جنس یعنی خواتین ہوں گی، لیکن جو بات زیادہ اہم ہے، جسے دنیا اب محسوس کر رہی ہے اور جو  ہندوستان کا ایک منفرد پہلو ہے، وہ یہ ہے کہ یہ خواتین کی ریزرویشن نہ صرف عمودی ہے بلکہ افقی بھی ہے۔ پائیداری کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے، درج فہرست ذات، درج فہرست قبیلہ اور خواتین کو بھی مناسب حالات میں شامل کیا گیا ہے۔

دوستو، میں سی  آئی آئی سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ  ہندوستانی صنعت کے لیے اخلاقی رہنما کا کردار ادا کرے، جو اسے اخلاقی کاروبار اور قدر پر مبنی ترقی کی طرف لے جائے۔ میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں جو آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ معاشی قوم پرستی بنیادی طور پر پائیداری سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر  ہندوستان جیسے ملک میں ہم غیر ضروری اشیاء جیسے پتنگیں، موم بتیاں، چراغ، فرنیچر، قالین وغیرہ درآمد کرتے ہیں، تو ہم تین کام کر رہے ہیں۔اول، ہم اپنی زرمبادلہ کی رقوم میں ایک غیر ضروری خسارہ پیدا کر رہے ہیں، لیکن یہ سب کچھ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے ہی لوگوں سے کام چھین رہے ہیں، کیونکہ ہم ان کو وہ کام نہیں دے رہے جو ہمارے لیے کرتے ہیں، جیسے کپڑوں کا کام وغیرہ۔ اورتیسرا جو آپ سب کے لیے اہم ہے، ہم کاروباری صلاحیت کو بھی کمزور کر رہے ہیں۔یہی بات لاگو ہوتی ہے جب خام مال اس ملک سے برآمد کیا جاتا ہے۔

خام مال کی برآمد دنیا کو یہ اشارہ دیتی ہے کہ ملک اسے قدر میں تبدیل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ہمارے کام پر ایسا داغ لگنا ناقابل قبول ہے۔اسی لیے ، ملک اور عام آدمی کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہمیں ذمہ داری اور مقصد یت کاماحول قائم کرنا ہوگا ۔

دوستو، ہم اس دور میں جی رہے ہیں جسے وزیر اعظم نریندر مودی نے درست طور پر 'امرت کال' کہا ہے، ایک ایسا موقع جو صدیوں میں ایک بار آتا ہے۔ اب وقت ہے کہ بھارت کو ٹکڑوں میں نہیں بلکہ اس کی مکمل مربوط صلاحیتوں کے ساتھ ازسرنوپیش کیا جائے۔

آج جب ہم 19ویں ایڈیشن کے تحت جمع ہوئے ہیں، تو آئیں ہم اس ترقی یافتہ بھارت کے وژن کے لیے اپنی وابستگی کو پھر سے تازہ کریں جو کبھی ہمارے ذہن میں تھا، خوشحال، جامع، جدید اور ماحولیاتی توازن کے ساتھ۔ ایک ایسا بھارت جو ہمدردی کے ساتھ قیادت کرے، اعتماد کے ساتھ مقابلہ کرے، اور حوصلے کے ساتھ تعاون کرے۔

سی آئی آئی کے ارکان سے میری گزارش ہے کہ قیادت کا مشعل اپنے ہاتھوں میں اٹھائیں، اسے فخر کے ساتھ لے کر چلیں، لیکن ساتھ ہی اس کا مقصد بھی یاد رکھیں، ایسا مقصد جو آپ کو عام آدمی سے جوڑے جو اپنا آج اور کل بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وکسِت بھارت کا سفر ہر اخلاقی فیصلے، ہر ماحول دوست سرمایہ کاری، ہر پیدا کردہ روزگار اور ہر بدلتی ہوئی زندگی کے ساتھ ہم خود تعمیر کرتے ہیں۔

دوستو، مجھے راجیہ سبھا کے چیئرمین ہونے کے ناطے بڑی عزت و فراست حاصل ہوئی ہے۔ میں مختلف آراء دیکھتا ہوں، لیکن دو چیزیں مجھے بہت زیادہ پریشان کرتی ہیں۔ ایک، ہمارا اصل زیور تھا مکالمہ، گفتگو، غور و فکر، مباحثہ، نظریات کا امتزاج، اور اتفاق رائے کی روش۔ یہ سب کچھ قانون سازاسمبلی نے متعین کیا تھا، جس میں نہ تو کوئی خلل پڑا اور نہ ہی کوئی بے ترتیبی ہوئی۔ اب جب یہ جمہوریت کے مندر کبھی کبھارناموزوں صورتحال کاسامنا کرتے ہیں، تو ہمیں گہری فکر ہونی چاہیے کیونکہ اس کا نقصان عام آدمی کو پہنچتا ہے۔

اسی لیے میں خبردار کرنےکے ساتھ اپنی بات ختم کرناچاہتا ہوں۔ آئیے ہم بیرون ملک سے پھیلائی جانے والی کہانیوں کے بہاؤ میں نہ بہیں۔ دوسروں کو ہمارے رویے کی پیمائش کرنے کی اجازت نہ دیں۔ ہم اپنی قوم کے لیےکئےگئے عہد کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور ہمیشہ ملک اور قوم کو پہلی ترجیح دیں۔ ہمارے ملک کے لیے سب سے بڑا خراج تحسین یہی ہوگا کہ ہم پائیدار ترقی پر یقین رکھتے ہیں۔

بہت بہت شکریہ۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (ش ح –م ع ن-ف ر)

U. No.2662

 


(Release ID: 2143961)
Read this release in: English , Hindi