نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
’’مجھ پر کوئی دباؤ نہیں ہے؛ نہ میں کسی پر دباؤ ڈالتا ہوں، نہ دباؤ میں آتا ہوں‘‘:نائب صدر
جب ہم ملک سے باہر جاتے ہیں تو وہاں حکومت یا حزب اختلاف نہیں بلکہ صرف’’بھارت‘‘ ہوتا ہے: نائب صدر
سیاست میں آپ مختلف جماعتوں سے ہو سکتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دشمنی ہو؛ دشمن ہماری سرحدوں کے پار ہو سکتے ہیں، ملک کے اندر نہیں:نائب صدر
قانون ساز اداروں کو اعلیٰ ترین اخلاقی معیار پر عمل کرنا ہوگا، ورنہ جمہوریت کے مندر میں کوئی پوجا کرنے نہیں آئے گا — لوگ دوسرے پوجا کے مقام کی تلاش کریں گے:نائب صدر
جے پور میں ’سنیہ ملن‘ تقریب میں نائب صدر نے عوامی جلسے سے خطاب کیا
Posted On:
30 JUN 2025 5:22PM by PIB Delhi
بھارت کے نائب صدر، جناب جگدیپ دھنکھڑ نے آج کہا:’’میں نہ دباؤ میں رہتا ہوں، نہ دباؤ ڈالتا ہوں، نہ دباؤ میں کام کرتا ہوں، نہ دباؤ میں کسی سے کام کرواتا ہوں۔‘‘
جے پور میں ’سَنیہ ملن سماروہ‘ سے خطاب کرتے ہوئے جناب دھنکھڑ نے کہا:’’مجھے تھوڑی سی فکر ہوئی، اپنی صحت کی نہیں بلکہ میرے دوست سابق وزیراعلیٰ کی،جنہوں نے کہا کہ ہم دباؤ میں ہیں۔ راجستھان کی سیاست میں وہ میرے سب سے پرانے دوست ہیں اور میرے بہت بڑے خیرخواہ بھی ہیں۔ میں عوامی طور پر، کیونکہ انہوں نے بھی عوامی طور پر کہا ہے کہ وہ بالکل بے فکر ہو جائیں— نہ مجھ پر کوئی دباؤ ہے، نہ میں کسی پر دباؤ ڈالتا ہوں اور نہ دباؤ میں کام کرتا ہوں۔‘‘
گورنروں کی آئینی حیثیت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا:’’جب گورنر کسی ریاست میں ہوتا ہے تو وہ آسان نشانہ ہوتا ہے۔‘‘
انہوں نے واضح کیا کہ ’’اگر ریاستی حکومت میں اورمرکز ی حکومت میں مختلف سیاسی پارٹیاں برسراقتدار ہیں ، تو الزام تراشی آسان ہوجاتی ہےلیکن وقت کے ساتھ حالات بدلے ہیں اور اب صدر جمہوریہ اورنائب صدر کو بھی اس رسہ کشی میں کھینچ لیا گیا ہے۔میرے خیال میں یہ قابل تشویش ہیں جس پر غور و فکر اور سوچنے کی ضرورت ہے، اور یہ نا مناسب ہے۔‘‘
موجودہ سیاسی ماحول پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، انہوں نے کہا،’’موجودہ سیاسی ماحول اور درجہ حرارت صحت مند نہیں ہے- نہ ہی افراد کے لیے اور نہ ہی جمہوریت کے لیے۔ یہ تشویشناک اور غور و فکر کی بات ہے۔‘‘ انہوں نے زور دے کر کہا،’’اقتدار میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے، حکمراں پارٹی اپوزیشن بن جاتی ہے، اپوزیشن حکمران پارٹی بن جاتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم دشمن بن جائیں، ہمارے دشمن سرحد کے پار ہو سکتے ہیں-- ملک کے اندر نہیں۔‘‘
اس بات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ قومی مفاد کو پارٹی سیاست سے بالاتر ہونا چاہیے، نائب صدر نے کہا کہ جب ہم بیرون ملک سفر کرتے ہیں تو کوئی حکمراں یا اپوزیشن پارٹی نہیں ہوتی، ہم صرف بھارت کی نمائندگی کرتے ہیں- اور اب اس کا مظاہرہ ہوچکا ہے۔ یہ قدم ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے لیے ملک سب سے اوپر ہے، قومی مفاد ہمارا فرض ہے، بھارتیتہ ہمارا فخر ہے۔ جب بھی ہندوستان کی بات ہوتی ہے ہم میں کوئی تفریق نہیں ہوتی۔ملک میں سیاسی اختلافات ہوسکتے ہیں ، لیکن کوئی ذاتی دشمنیاں نہیں ہوتیں۔یہ وہ طاقتور پیغام ہے جسے ہر کسی کو سمجھنا چاہئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’سیاسی درجۂ حرارت ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے۔ بے لگام بیانات عام ہورہے ہیں۔لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بھارت دنیا کی کل آبادی کے چھٹے حصے کی نمائندگی کرتا ہے۔ کوئی ملک اس کے قریب نہیں ہے۔ کس کی تہذیب پانچ ہزار سال قدیم ہے؟ یہ ناقابل تسخیر اور غیر معمولی ہے۔ ‘‘
ذمہ دار بیانیے کے بارے میں بولتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ اکثر جذبات میں آکر ہم سوالات اٹھاتے ہیں یا تنازعات کو بڑھاتے ہیں—لیکن اگر مجھے تکلیف نہیں پہنچ رہی ہے تو میں کہہ سکتا ہوں ’لڑتے رہو‘۔ کچھ موضوعات کو اخبارات میں سنسنی خیز بنا کر پیش نہیں کرنا ہوتا ہے—ان سے تکلیف ہوتی ہے۔ ہماری معیشت کو کافی نقصان پہنچتا ہے۔ اور کیونکہ ؟ 11 سال پہلے بھارت کہاں تھا ؟ یہ سیاسی معاملہ نہیں ہے ۔ ہر دور میں بھارت نے ترقی کی ہے۔ سال 1950 ، 60 اور 70 کی دہائیوں میں بڑی حصولیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ اگر میں موجودہ دور کی بات کروں تو اِسے پچھلے دور سے موازنے کے طور پر نہ دیکھا جائے—میں بھارت کا دنیا سے مقابلہ کررہا ہوں۔ ‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’ایک وقت تھا جب بھارت پانچ کمزور معیشتوں میں شمار ہوتا تھا—آج ’یہ دنیا کی سرکردہ 4 معیشتوں میں شامل ہے۔ اُن ممالک کی جانب دیکھئے جنہیں ہم پیچھے چھوڑا ہے۔ تھوڑا اور انتظار کیجئے—جاپان ، جرمنی ،برطانیہ، کینیڈا اور برازیل—سب ہم سے پیچھے ہیں۔ یہ جست اس لئے ممکن ہوسکیں کیونکہ دنیا نے پچھلی دہائی کو بھارت کے معاشی عروج کا دور قرار دیا۔—یہ وہ اعزاز ہے جس کا کوئی دوسرا ملک مقابلہ نہیں کرسکا۔ ‘‘
جمہوریت میں حزب اختلاف کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے ناجب صدر نے کہا’’ حزب اختلاف کا مطلب مخالفت نہیں ہے۔ جمہوریت اظہار رائے، مباحثے اور بات چیت مانگتی ہے—جسے ویدوں میں ’اننت واد‘ کہا گیا ہے۔
انہوں نے انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’جب اظہار رائے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ مخالفت کی آوازوں کو پوری طرح مسترد کردیا جاتا ہے تو اس اظہار کا اثر ختم ہوجاتا ہے۔اظہار رائے اہم ہے—یہ جمہوریت کی روح ہے۔ لیکن اگر یہ دبائی جاتی ہے یا بے حد انتہا پر پہنچ جاتی ہے کہ یہ دوسرے سبھی نظریات کو نظر انداز کرنے لگتی ہے ، تو یہ اپنی معنویت کھو دیتی ہے۔اپنے اظہار کو بامعنی بنانے کے لئے مباحثہ ضروری ہے—اور مباحثے کا مطلب ان لوگوں سے بھی رابطہ کرنا جو آپ سے متفق نہیں ہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ صحیح ہوسکتے ہیں۔ اس لئے دوسروں کو سننا آپ کے اپنے اظہار رائے کو تقویت دیتا ہے۔ ‘‘
انہوں نے دستور ساز اسمبلی کے کاموں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ دستور ساز اسمبلی نے تقریباً تین سال کا وقت دیا—دو سال ، 11 مہینے اور 18 دن تاکہ ہمیں دیا جانے والا آئین تحریر کیا جاسکے۔ ‘‘ انہوں نے واضح کیا کہ ’’اس وقت کئی سنگین معاملات درپیش تھے؛ اتفاق رائے مشکل تھا، لیکن وہ کبھی بھی آپسی محاذ آرائی میں مصروف نہیں ہوئے۔ کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ بات چیت اور سمجھوتے کے ذریعے وہ اتفاق رائے پر پہنچے—ان کے ذہن کے میں کبھی بھی محاذ آرائی کا خیال نہیں آیا۔‘‘
کاشتکاروں کے حق میں پالیسی سازی پر بولتے ہوئے نائب صدر نے کہا کہ ’’اگر حکومت کی جانب سے دی جانے والی سبسڈی سیدھے کسانوں تک پہنچتی ، تو ہر کسان خاندان کو سالانہ 30 ہزار روپے سے زیادہ رقم ملتی۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اگر جراثیم کش ادویات کی سبسڈیز سیدھے کسانوں کو منتقل کی جاتیں ، تو قدرتی یا نامیاتی کھیتی میں سے کسی کو چننے کا انہیں اختیار ہوتا۔‘‘
انہوں نے امریکہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’’امریکہ میں زرعی فرد کی سالانہ آمدنی دوسرے فرد کی اوسط آمدنی سے زیادہ ہوتی ہے—ہمیں اس سمت بڑھنا چاہئے۔ ‘‘
اس موقع پر راجستھان کے گورنر جناب ہری بھاؤ کسن راؤ باگڑے، راجستھان قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر جناب واسودیو دیو نانی، اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر جناب ٹیکا رام جولی، راجستھان پروگریسو فورم کے سرپرست جناب ہری موہن شرما اور فورم کے کارگزار صدر جناب جیت رام چودھری اور دیگر اہم شخصیات موجود تھیں۔
****
ش ح-ض ر ۔ع د
UR No- 2292
(Release ID: 2140881)