نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

ایمرجنسی کا نفاذ جمہوریت کو تباہ کرنے والےزلزلے سے کم نہیں تھا: نائب صدرجمہوریہ


ایمرجنسی کے دوران ملک کی اعلی ترین عدالت  کو گہن لگ گیا ، 9 ہائی کورٹس کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا: نائب صدرجمہوریہ

آج کا نوجوان  سب سے تاریک دور یمرجنسی سے بے خبر رہنے کا متحمل نہیں ہو سکتا: نائب صدر جمہوریہ

تعلیمی ادارے فطری اور خود رو تجربہ گاہیں ہوتی ہیں، جہاں خیالات کی تخلیق اور جدت جنم لیتی ہے: نائب صدرجمہوریہ

Posted On: 25 JUN 2025 4:03PM by PIB Delhi

نائب صدر، شری جگدیپ دھنکھڑ نے آج کہا کہ پچاس سال پہلے، اسی دن، دنیا کی سب سے قدیم، سب سے بڑی اور اب سب سے متحرک جمہوریت کو ایک کٹھن مرحلے سے گزرنا پڑا۔  یہ ایک ایسا غیر متوقع خطرہ تھا، جیسے کوئی زبردست طوفان یا زلزلہ نے جمہوریت کی بنیادیں ہلا دی ہوں۔ یہ تھا ایمرجنسی کا نفاذ۔ رات اندھیری تھی، کابینہ کو نظرانداز کر دیا گیا۔ اُس وقت کی وزیرِ اعظم، جو کہ ایک ہائی کورٹ کے مخالفانہ فیصلے کا سامنا کر رہی تھیں، نے ذاتی مفاد میں پورے ملک کو نظرانداز کرتے ہوئے ایمرجنسی کا اعلان کروا دیا۔ صدرِ مملکت نے آئینی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے اس پر دستخط کر دیے۔اس کے بعد کے 21، 22 مہینے جمہوریت کے لیے نہایت ہی پر آشوب اور ہنگامہ خیز تھے۔ یہ ایک ایسا دور  تھاجس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ یہ ہماری جمہوریت کا سب سے تاریک وقت تھا، جسے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

آج اتراکھنڈ کے نینی تال میں کماؤں یونیورسٹی کی گولڈن جبلی تقریبات میں مہمان خصوصی کے طور پر طلباء اور اساتذہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک لاکھ چالیس ہزار افراد کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ انہیں انصاف کے نظام تک رسائی حاصل نہیں تھی۔ وہ اپنے بنیادی حقوق کا دفاع نہیں کر سکتے تھے۔ خوش قسمتی سے9 ہائی کورٹس نے اپنے فیصلوں میں مضبوطی دکھائی اور کہا کہ ایمرجنسی ہو یا نہ ہو  بنیادی حقوق معطل نہیں کیے جا سکتے۔ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں فیصلہ دیا کہ ہر شہری کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔بدقسمتی سے، سپریم کورٹ جو ملک کی سب سے اعلیٰ عدالت ہے  اس وقت اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی۔ اس نے9 ہائی کورٹس کے فیصلے کو مسترد کر دیا۔ سپریم کورٹ نے دو باتیں کہیں ایک یہ کہ ایمرجنسی کا اعلان حکومتِ وقت (ایگزیکٹو) کا فیصلہ ہے اور یہ عدالتی نظرِ ثانی کے دائرے میں نہیں آتا اور دوسرا یہ کہ ایمرجنسی کے دوران شہریوں کے بنیادی حقوق معطل سمجھے جائیں گے۔یہ عوام کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔

جناب جگدیپ دھنکھڑ نے نوجوانوں کے لیے 'سموِدھان ہتیا دوس' (یومِ قتلِ آئین) کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں، صرف ایک لمحہ ٹھہریں اور غور کریں، کیونکہ جب تک آپ خود سیکھیں گے نہیں، تب تک آپ جان نہیں پائیں گے۔ سوچئے کہ اُس وقت پریس کے ساتھ کیا ہوا؟ کن لوگوں کو جیل میں ڈالا گیا؟ وہی لوگ بعد میں اس ملک کے وزیرِ اعظم اور صدر بنے۔ یہ اُس وقت کا منظرنامہ تھا۔ اسی لیے، نوجوانوں کو آگاہ کرنا ضروری ہے، کیونکہ آپ جمہوریت اور حکمرانی میں سب سے اہم حصص دارہوں۔ اس لیے آپ نہ تو اُس سیاہ دور کو بھول سکتے ہیں اور نہ ہی یہ برداشت کر سکتے ہیں کہ آپ اُس کے بارے میں نہ سیکھیں۔ بہت سوچ سمجھ کر اس وقت کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ اس دن کو ’سموِدھان ہتیا دوس‘ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ یہ دن اس عہد کے طور پر منایا جائے گا کہ ایسا واقعہ دوبارہ کبھی نہ ہو۔ یہ دن اُن لوگوں کو یاد کرنے کا دن ہوگا جو اس آئینی، انسانی اور جمہوری خلاف ورزی کے ذمہ دار تھے۔ وہ کون تھے؟ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟یہاں تک کہ سپریم کورٹ میں بھی، میرے ایک دوست گواہ ہیں، صرف ایک جج نے اختلاف کیا اور وہ جج تھے جسٹس ایچ آر کھنہ۔ امریکہ کے ایک بڑے اخبار نے تب تبصرہ کیا تھا کہ ‘اگر بھارت میں کبھی جمہوریت واپس آئی، تو جسٹس ایچ آر کھنہ کے لیے ایک یادگار ضرور تعمیر کی جائے گی، جنہوں نے حق پر ڈٹے رہنے کا حوصلہ دکھایا۔’

جناب دھنکھڑ نے کیمپس میں تعلیم کے کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تعلیمی ادارے صرف ڈگریاں یا اسناد حاصل کرنے کی جگہ نہیں ہوتے۔ اگر ایسا ہوتا، تو پھر ورچوئل لرننگ اور کیمپس لرننگ میں فرق کیوں ہوتا؟ جیسے ہی آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کیمپس میں وقت گزارتے ہیں، آپ کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہی ماحول آپ کی سوچ اور ذہنیت کی تشکیل کرتا ہے۔ یہ ادارے وہ مقامات ہیں جو اُس تبدیلی کو جنم دیتے ہیں جس کی ضرورت ہے، جس کی آپ کو خواہش ہے اور جس قوم کو آپ بنانا چاہتے ہیں۔ یہ خیالات کی تخلیق اور جدت کے فطری اور خود رو مراکز ہیں۔ خیالات آتے ہیں، لیکن ضروری ہے کہ اُن خیالات پر مزید غور و فکر  کیا جائے۔ اگر کوئی خیال صرف ناکامی کے خوف سے آتا ہے، تو نہ تو آپ جدت کی طرف بڑھیں گے اور نہ تجربے کی طرف اور یوں ترقی رُک جائے گی۔یہ وہ جگہیں ہیں جہاں دنیا ہمارے نوجوانوں کو رشک بھری نظر سے دیکھتی ہے، کیونکہ یہی وہ موقع ہے جب وہ نہ صرف اپنا مستقبل خود تحریر کرتے ہیں بلکہ بھارت کے مقدر کی کہانی بھی لکھتے ہیں۔لہٰذا، آگے بڑھیں! آپ نے یقیناً ایک مشہور کارپوریٹ پروڈکٹ کا نعرہ سنا ہوگا: 'جسٹ ڈُو اِٹ'  کیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں؟میں اس میں ایک اور اضافہ کرنا چاہوں گا: ’ڈو اِٹ ناؤ‘!

جناب جگدیپ دھنکھڑ نے سابق طلبہ اور ان کی خدمات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ پچاس برسوں میں اس ادارے کے طلبہ بہت بڑی تعداد میں سابق طلبہ  ہو چکے ہیں۔کسی بھی ادارے کے سابق طلبہ اس کے لیے ایک نہایت اہم ستون ہوتے ہیں۔ اگر آپ سوشل میڈیا اور گوگل پر نظر ڈالیں، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ترقی یافتہ دنیا کے بعض اداروں کے پاس سابق طلبہ فنڈ میں دس ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کی رقم ہے۔ ایک ادارے کے پاس تو پچاس ارب ڈالر سے زائد کا ذخیرہ موجود ہے۔یہ سرمایہ کسی سیلاب کی طرح اچانک نہیں آتا، بلکہ یہ قطرہ قطرہ برسنے والی بارش کی مانند آتا ہے۔مثال کے طور پر، اگر اس عظیم ادارے کے ایک لاکھ سابق طلبہ صرف سالانہ دس ہزار روپے دینے کا فیصلہ کریں، تو سالانہ رقم 100 کروڑ روپے ہو جائے گی اور ذرا تصور کریں کہ اگر یہ ہر سال ہوتا رہے، تو آپ کو کسی اور جانب دیکھنے کی ضرورت  نہیں ہوگی، نہ  ہی کسی پر انحصار کرنا پڑے گا۔ آپ خود کفیل ہو جائیں گے اور یہ آپ کو اطمینان بھی دے گا۔دوسری بات یہ ہے کہ سابق طلبہ کو اپنے مادرِ علمی سے جڑنے کا موقع ملے گا۔رابطے کا راستہ آسان ہوگا- وہ آپ کی رہنمائی کریں گے، آپ کا ہاتھ تھامیں گے۔ اسی لیے میں زور دے کر کہتا ہوں کہ دیو بھومی سے سابق طلبہ ایسوسی ایشن کے قیام کی پہل کی جائے۔

-----------------------------------------------------

ش ح۔ م م۔ص ج

UN-NO-2145


(Release ID: 2139614)