نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
نائب صدر جمہوریہ کا بنگلورو میں صنعت کے رہنماؤں اور کاروباریوں سے خطاب کا متن (اقتباسات)
Posted On:
07 JUN 2025 8:34PM by PIB Delhi
سب کو میرا نمسکار!
یہ درحقیقت بنگلورو کے معماروں اور تاجروں کا ایک بہت اہم اتحاد ہے۔ آبادیاتی حیثیت، معاشی ترقی کے لحاظ سے بنگلور ملک کے سرفہرست تین شہروں میں سے ایک ہے ممبئی، دہلی، بنگلور۔ سب سے پہلے، میں اس ناخوشگوار واقعے پر اپنی تعزیت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں، سوگوار خاندان سے اظہار تعزیت کرتا ہوں، اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی خواہش کرتا ہوں۔
معزز سامعین، پہلگام میں قوم کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ سفاکیت تھی، بربریت اور ٹارگٹ کلنگ تھی۔ ہندوستان کی طاقت کو چیلنج کیا گیا، ہماری تہذیب کو ٹھیس پہنچائی گئی، لیکن یہ ہمارے لیے اپنی مسلح افواج کو سلامی دینے کا موقع ہے۔ انہوں نے فیصلہ کن حملہ کیا، انہوں نے پوری عالمی پذیرائی حاصل کی۔آپریشن سندور نے اپنے مقصد کو درستگی، پیمائش اور ٹارگٹڈ تباہی کے ساتھ حاصل کیا۔
مریدکے اور بہاولپور ہماری مسلح افواج کی طاقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ دنیا کو کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔ سادہ وجہ سے، تابوت کوقبرستان لے جایا گیا، اس ملک کے فوجی حکام کے ساتھ۔ اس ملک کے سیاستدان اور دہشت گرد۔
بھارت، جو دنیا کی آبادی کا چھٹا حصہ ہے، نے پوری دنیا کو ایک واضح پیغام بھیجا ہے۔ بھارت مزید دہشت گردی کو برداشت نہیں کرے گا اور یہی وجہ ہے کہ بھارت میں تیار کردہ ہمارے برہموس کی طاقت کا مظاہرہ جیش محمد اور لشکر طیبہ کے ہیڈکوارٹر پر تباہی کے ذریعے کیا گیا۔ میری مسلح افواج کی بہادری پر آپ سب کے ساتھ اظہار تشکر کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں لیکن اس موقع پر لوگوں کے درمیان میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔
معیشت ہو یا قومی سلامتی، آپ لوگوں کو بہت بڑا کردار ادا کرنا ہوگا۔ کردار اہم ہے کیونکہ روایتی جنگ کے دن گزر چکے ہیں۔ جنگ تکنیکی مہارت پر لڑنی پڑتی ہے۔ جب ہندوستان کی تکنیکی طاقت، تکنیکی صلاحیت کی تعریف کرنے کی بات آتی ہے تو ہمیں بنگلورو کو یاد رکھنا ہوگا۔ اس کا ہنر، اس کا تعاون، بنگلورو دنیا کے لیے رشک بن گیا ہے۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہمارے نوجوان ذہنوں نے کمالات کیے ہیں۔
عالمی شہرت کے ادارے اور کارپوریٹس اسی جگہ سے نکلے ہیں۔ اس لیے میں اس بات پر زور دوں گا کہ جدت کی اس اہم چیز جس نے ماضی میں بڑی تبدیلیوں کو متحرک کیا ہے اس کے لیے اب ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ ہم اب ایک مختلف دور میں رہ رہے ہیں۔ خلل ڈالنے والی ٹیکنالوجیز، مصنوعی ذہانت، انٹرنیٹ آف تھنگز، مشین لرننگ، بلاک چین اور اس قسم کا نیا معمول ہے۔ یہ ایسے چیلنجز ہیں جنہیں مواقع میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ بصورت دیگر یہ چیلنجز ہماری معیشت کے لیے مفید ثابت نہیں ہوں گے۔
اس لیے ٹیکنالوجی کے استعمال میں بڑی تبدیلی لانے کے لیے ہمارے وسائل، انسانی وسائل کو عام کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ کارپوریٹس، کاروبار، تجارت اور صنعت کے لیے ایک چیلنج ہے کہ ہمیں اعلیٰ درجے کی تحقیق میں مشغول ہونا چاہیے۔ یہ ہماری تحقیقی صلاحیت ہے جو اس بات کا تعین کرے گی کہ بھارت دنیا میں کتنا طاقتور ہوگا۔ ہماری تکنیکی رسائی، ہماری تکنیکی اختراع اس بات کی وضاحت کرے گی کہ ہم کتنے محفوظ ہیں۔
کاروبار کی ترقی، لوگوں کے لیے ہم آہنگی اور امن کی بنیاد ہے۔ امن کبھی سودے بازی سے حاصل نہیں ہوتا، امن طاقت کے مقام سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ طاقت کے مقام سے آتا ہے۔ سب سے بڑا امن تب حاصل ہوتا ہے جب ہم ہمیشہ جنگ کے لیے تیار ہوں۔ ایک وقت تھا جب صنعت کو ہتھیاروں، مہلک ہتھیاروں کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا، لیکن اب صنعت کو بالکل مختلف سمت میں اپنا حصہ ڈالنا ہے اور وہ سمت ٹیکنالوجی ہے۔ اور اس سمت میں ہمیں تحقیق کے ذریعے دنیا کی قیادت کرنی ہے کیونکہ طویل مدت میں تحقیق ہی اس کی حتمی طاقت ہے۔ اگر ہم بین الاقوامی سرحد کی گہرائی میں جا کر عالمی پیغام بھیجنے میں فخر محسوس کریں تو یہ ٹیکنالوجی کے سوا کچھ نہیں تھا۔
یہ براہموس تھا جو اتر پردیش میں تیار کیا گیا۔ آکاش نے ہمیں تحفظ فراہم کیا، لیکن یہ سب کچھ ٹیکنالوجی کی بدولت ممکن ہوا، اور اسی لیے میں بالکل صحیح جگہ پر ہوں کیونکہ بنگلورو وہ مقام ہے جہاں صلاحیت پروان چڑھتی ہے، جہاں ہنر کھلتا ہے، جہاں صنعت کو پر لگتے ہیں اور یہ پوری دنیا کی علمی برادری کی توجہ حاصل کرتی ہے۔ لہٰذا سب سے بڑے چیلنج کا حل بھی بنگلورو ہی میں موجود ہے۔
گزشتہ دس برسوں کے دوران، معزز حاضرین، بھارت نے غیر معمولی ترقی کا مشاہدہ کیا ہے۔ معیشت میں بے مثال تیزی، انفراسٹرکچر میں حیرت انگیز اضافہ، اور دیہی علاقوں تک ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی گہری رسائی ہوئی ہے۔ اس عرصے کے دوران، بھارت بڑی معیشتوں میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت رہا ہے۔ ہم گیارہویں پوزیشن سے سنگل ڈیجٹ میں آئے، پھر پانچویں مقام پر پہنچے، اور اب ہم چوتھے نمبر پر ہیں۔ اور اب ہمارا ہدف ہے کہ بہت جلد ہم دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بنیں۔
لیکن یہاں موجود سینئر سیاستدانوں اور صنعتکاروں سے میں ایک سوال کرنا چاہتا ہوں۔
بھارت اب محض ایک امکانات والا ملک نہیں رہا۔ بھارت اب ایک ایسی ابھرتی ہوئی طاقت ہے جیسا پہلے کبھی نہیں تھا۔ یہ ترقی بتدریج ہے، یہ ترقی اب رکنے والی نہیں ہے- لیکن ہمیں مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے، اور میں آپ کو بتاتا ہوں کیوں۔‘‘وِکست بھارت’’ (ترقی یافتہ بھارت) اب صرف ہمارا خواب نہیں رہا، یہ ہمارا مقصد بن چکا ہے۔ اور ہم یقیناً اس مقصد کو حاصل کریں گے۔ لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے ہمیں ایک بڑی چھلانگ لگانی ہوگی، اور یہ چھلانگ ہم فی کس آمدنی میں کئی گنا اضافہ کر کے ہی لگا سکتے ہیں۔ معیشت کا حجم اپنی جگہ درست ہے، لیکن ہمیں اپنی معیشت کی حیثیت کو اپنے آبادیاتی حجم کے تناظر میں دیکھنا ہوگا — کیونکہ ہم 1.4 ارب افراد پر مشتمل ملک ہیں۔ اس لیے تخمینی حساب سے ہمیں فی کس آمدنی میں آٹھ گنا اضافہ کرنا ہوگا۔
اب اس ترقی کے انجن میں، میرے سامنے بیٹھے ہوئے افراد، جن سے میں اپنے خیالات کا تبادلہ کر رہا ہوں، سب سے اہم شراکت دار ہیں۔ ترقی کا یہ انجن پوری طاقت سے تبھی چل سکتا ہے جب آپ اپنی بھرپور حصہ داری ادا کریں۔ لیکن ایک بات ہے—صنعت سے وابستہ افراد، سیاست سے وابستہ افراد کے برعکس، بیلنس شیٹس سے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ جبکہ سیاستدان ایسا نہیں کرتے۔ وہ مسلسل جدوجہد کرتے ہیں تاکہ مزید بلندی پر پہنچ سکیں۔اسی لیے ملک میں گرین فیلڈ منصوبوں (نئے صنعتی و معاشی منصوبوں) کا آغاز اس رفتار سے نہیں ہو رہا جیسا کہ ہونا چاہیے۔ میں آپ سے اپیل کرتا ہوں: براہ کرم اس پر غور کریں۔
کلسٹرز (گروپوں) کی شکل میں اکٹھے ہو کر گرین فیلڈ پروجیکٹس قائم کریں۔ کسی موجودہ منصوبے کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانا ایک بات ہے، لیکن اگر آپ نئے منصوبے لگائیں گے، تو روزگار، مواقع اور ترقی کی صلاحیت کی منصفانہ تقسیم ممکن ہو سکے گی۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ میں خود ایک کسان خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔ زرعی شعبہ ملک کی ترقی کی رفتار میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن اس وقت زرعی شعبے کی شراکت محض زرعی پیداوار کی حد تک محدود ہے اور وہ صرف مارکیٹ تک مصنوعات پہنچا رہے ہیں۔ کسان مارکیٹنگ کے نظام کا حصہ نہیں ہیں۔جبکہ ہماری صنعت کا انحصار بڑی حد تک زرعی پیداوار پر ہے۔ اب صنعت کو چاہیے کہ وہ سنجیدگی سے غور کرے، دماغ کھپائے، اور ایسا نظام بنائے جس سے زرعی شعبے اور صنعت کے درمیان بہتر ہم آہنگی پیدا ہو سکے۔
کسان کو سہارا دینا ہوگا۔ زرعی شعبے سے ابھرتے ہوئے کاروباری افراد — جنہیں میں ‘‘ایگری پرینیورز’’ کہتا ہوں — ان کی رہنمائی کرنی ہوگی، کیونکہ وہ خود بخود آگے نہیں بڑھ سکتے۔ فوڈ پروسیسنگ ایک بنیادی عنصر ہے۔ مختلف صنعتوں کے قیام سے، زرعی پیداوار میں ویلیو ایڈیشن ممکن ہے۔ ٹیکنالوجی یہ طے کرے گی کہ اگر پیداوار ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو کسان کو نقصان نہ ہو — کیونکہ پیداوار زیادہ ہونے پر قیمتیں کم ہو جاتی ہیں۔ اور قیمتیں منڈی کی قوتوں کے تحت طے ہوتی ہیں۔تو ہم قیمت کو کیسے برقرار رکھیں؟ہم قیمت کو اس وقت برقرار رکھ سکتے ہیں جب ہم اس اضافی پیداوار کو فارم پر یا اس کے قریب ہی ویلیو ایڈ کر کے محفوظ کر لیں۔
سڑکوں پر ٹماٹر پھینکے جانے کا منظر ہمارے قومی مزاج کے لیے سازگار نہیں۔ ہمیں ایسا نظام وضع کرنا ہوگا کہ اگر پیداوار بہت زیادہ ہو جائے، تو موبائل انڈسٹریل یونٹس کے ذریعے اسے فوری طور پر خام مال میں تبدیل کر کے متعلقہ صنعت تک پہنچایا جا سکے۔اب وقت آ گیا ہے کہ کارپوریٹس زرعی شعبے کے ساتھ اپنے منافع کو بانٹیں۔
یاد رکھیں، آپ کی سرمایہ کاری — چاہے وہ تحقیق میں ہو یا کھیتوں میں — دراصل آپ کی اپنی بہتری کے لیے سرمایہ کاری ہوگی۔ یہ پائیدار معیشت کے قیام کا سبب بنے گی۔ میں کارپوریٹس، کاروباری اداروں، تجارت اور صنعت سے وابستہ افراد سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ‘‘معاشی قوم پرستی’’ (ایکو نومک نیشنلزم ) کے تصور کو اپنائیں۔جب میں تین دہائیاں قبل رکنِ پارلیمنٹ اور وزیر تھا، تو ہمیں اپنا قیمتی سونا ہوائی جہاز کے ذریعے سوئٹزرلینڈ بھیجنا پڑا، تاکہ دو بینکوں کے پاس رکھ کر قرض حاصل کیا جا سکے — کیونکہ اس وقت ہمارے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر صرف ایک ارب امریکی ڈالر تھے۔
آج ہمارے پاس 700 ارب امریکی ڈالر سے زائد کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں۔ لیکن تصور کیجیے، اگر ہم ان اشیاء کی درآمد بند کر دیں جو ہمارے اپنے ملک میں بنتی ہیں، تو یہ ذخائر 700 نہیں بلکہ 800 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر جائیں گے۔کیونکہ ہم آج بھی پتنگیں، موم بتیاں، دیے، فرنیچر، پردے، ملبوسات جیسی چیزیں درآمد کرتے ہیں۔ اور ایسا کرتے ہوئے ہم تین خطرناک کام کرتے ہیں:1. ہم اپنے ہی لوگوں سے روزگار چھینتے ہیں، 2. ہم مقامی کاروبار کو نقصان پہنچاتے ہیں، 3. ہم اپنے زرمبادلہ کے ذخائر میں سوراخ کرتے ہیں۔
اب اس کا حل کیا ہے؟دو راستے ہیں: پہلا، عوام خود فیصلہ کریں۔دوسرا، زیادہ آسان راستہ —کیونکہ درآمدات کارپوریٹس، صنعت اور کاروباری ادارے کرتے ہیں، لہٰذا فیصلہ انہی کو کرنا ہے۔ یہ حکومت کا اختیار نہیں ہے کیونکہ ہم ایک عالمی تجارتی ضابطہ کار کے پابند ہیں۔لیکن عوام فیصلہ کر سکتے ہیں۔مہاتما گاندھی کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے ‘‘سوادیشی’’ کے ذریعے ہماری آزادی کی تحریک کو نئی طاقت دی۔ آج کے وزیراعظم نریندر مودی نے اسے نئی شکل دی ہے — ‘‘ووکَل فار لوکَل’’۔
میں آپ سے مؤدبانہ درخواست کرتا ہوں کہ تمام صنعتی و تجارتی انجمنیں مل کر اس پر غور کریں، اس پر موقف اختیار کریں۔ قوم ہمیشہ آپ کی شکر گزار رہے گی۔اور جب ہم ان ملکوں سے درآمد کرتے ہیں جو بحران کے وقت ہماری دشمنی پر اتر آتے ہیں، تو ہم اپنی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں۔ تو پھر حب الوطنی کا مظاہرہ کیوں نہ کیا جائے؟اسی سے میں ایک اور پہلو کی طرف آتا ہوں -ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ سیاسی درجہ حرارت کم کریں۔سیاسی جماعتوں کے درمیان مکالمہ تصادم کا نہیں بلکہ سکون بخش اور شائستہ ہونا چاہیے۔جمہوریت کی اصل پہچان، میرے دوستو، گفتگو اور مکالمے میں ہے۔
ویدانتی فلسفے کا اصول ہے کہ جمہوری اقدار کی تعریف اظہارِ رائے کی آزادی اور مباحثے کے بغیر ممکن نہیں۔ جسے ہم ‘‘اننت واد’’ (لامحدودیت یا کثیر الآرا نظریہ) کہتے ہیں، اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اظہارِ رائے کا حق حاصل ہے۔لیکن اگر کوئی آپ کے اظہارِ رائے کے حق پر حملہ کرے، اسے دبا دے یا اس پر پابندی لگائے، تو جمہوریت میں کمزوری پیدا ہوتی ہے۔لیکن اگر اظہارِ رائے کی بنیاد اتنی بڑھ جائے کہ دوسرے کی بات سنی ہی نہ جائے، اور اظہار کرنے والا یہ سمجھ بیٹھے کہ جو کچھ اُس نے کہہ دیا، وہی آخری بات ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ مباحثے کو ختم کر دیا گیا۔
اس لیے میں تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتا ہوں۔ قومی سلامتی کے مسائل، قوم پرستی سے جڑے مسائل، ترقی سے جڑے مسائل کو قومی نظریے سے دیکھا جانا چاہیے، نہ کہ جماعتی نظریے سے۔ مجھے سیاسی میدان میں لوگوں کی سیاسی سمجھداری پر کوئی شک نہیں ہے۔ اور وہ تمام سیاسی جماعتوں میں دستیاب ہیں۔ ہندوستان ایک فروغ پزیر وفاقی معاشرہ ہے جہاں مرکز اور ریاست کے درمیان ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ اس لیے سیاسی رہنماؤں، سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت ہونی چاہیے۔ اس مکالمے کا نہ ہونا ہماری قومی ذہنیت کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔
آئیے، میں آپ کی توجہ دو اورتشویشناک پہلوؤں کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ہم ملک میں امنِ عامہ (پبلک آرڈر) کو چیلنج کرتے ہیں۔امنِ عامہ کو چیلنج کرنا جمہوریت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔آخر ایسا ذہن کیوں پیدا ہو رہا ہے کہ لوگ سڑکوں پر نکل کر پبلک آرڈر کو چیلنج کریں؟یہ رویہ کسی بھی طرح سے درست نہیں ہے۔کبھی اتر پردیش میں بدامنی ہی معمول بن گئی تھی، لیکن آج امن و امان وہاں کا معمول بن چکا ہے۔اور دوسرا پہلو یہ ہے - ذرا تصور کیجیے: سرکاری املاک کو تباہ کرنا، لوٹ مار، نذرِ آتش کرنا، نجی جائیداد کو نقصان پہنچانا- یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ایسے افراد کونامزد کیا جانا چاہیے، اور عوام کے سامنے شرمندہ کیا جانا چاہیے۔نظام کو فوری طور پر حرکت میں آنا چاہیے۔ہم ایسے افراد کو برداشت نہیں کر سکتے جن کی ذہنیت قوم پرستانہ نہیں ہے۔اسی لیے ہمیں ایک ذہنی رویہ(ٹیمپرامنٹ) پیدا کرنا ہوگا۔عزت مآب کرناٹک کےگورنر صاحب فرما رہے تھے کہ جب کوئی ہندوستانی بیرونِ ملک جاتا ہے،تو وہ نظم و ضبط، شائستگی اور اس ملک کے قانون پر یقین کی علامت بن جاتا ہے -چاہے وہ سڑک پر ہو یا کسی اور شعبے میں۔لیکن جیسے ہی وہ بھارت واپس آتا ہے،تو اس کا رویہ بدل جاتا ہے، اور سب کچھ بے سمت ہو جاتا ہے۔لہٰذا ہمیں تعلیم سے آغاز کرنا ہوگا۔اور، نائب وزیراعلیٰ صاحب،اس مقصد کے لیے کرناٹک سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔بنگلور سے بہتر کوئی مقام نہیں ہو سکتا جہاں ہم اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام پر غور و فکر کریں۔اور اس کا آغاز ہمیں اپنے گھروں سے کرنا ہوگا۔
ہمیں بچوں کو بڑوں کا احترام، اساتذہ کا احترام، پڑوسیوں اور معاشرے کا احترام کرنا سکھانا ہے۔ بچوں کو ماحول پر دھیان دینا سکھانا ہوگا، بچوں کو سودیشی اپنانا سکھانا ہوگا، بچوں کو سکھانا ہوگا کہ شہری کی ذمہ داری کیا ہے۔ یہ ہمارے ویدوں میں موجود ہے، ایک بار پڑھایا جائے تو معجزاتی نتائج نظر آئیں گے۔
بنگلور میں، میں ایک اور اہم نکتہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ جب میں نے معاشی قوم پرستی (ایکونومک نیشنلزم) کی بات کی تھی، تو اس سے مراد وہ اشیاء تھیں جو ہمارے ملک میں بن رہی ہیں لیکن ہم انہیں درآمد کر رہے ہیں۔اب میں اس پہلو پر بات کرنا چاہتا ہوں کہ ہم ان اشیاء کو کیوں درآمد کر رہے ہیں جو ہمارے ملک میں بنتی ہی نہیں۔براہِ کرم درآمدی اشیاء کا متبادل تیار کرنے (درآمد متبادل) کے لیے کام کریں۔ہر شعبے کی سطح پر جائزہ لیں کہ آخر ہم کیوں یہ اشیاء باہر سے منگوا رہے ہیں۔ہمارے یہاں کارپوریٹس کئی سطحوں پر موجود ہیں -کچھ بہت بڑے ادارے ہیں، پھر دوسرا اور تیسرا درجہ ہے۔لیکن میرے مطابق سب سے زیادہ امکانات دوسرے اور تیسرے درجے میں ہیں۔اور ان سے بھی زیادہ اہم ہے نئے ابھرتے ہوئے کاروباری طبقے (کاروباری) کی کلاس۔میں یہاں اپنےنوجوان دوستوں سے مخاطب ہوں۔
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ(مینوفیکچرنگ) نے بھارت کوسرمایہ کاری اور مواقع کے عالمی مرکز کے طور پر سراہا ہے۔یہ تعریف سرکاری نوکریوں کے لیے نہیں تھی- بلکہ مواقع کے لیے تھی۔لہٰذا ہمارے نوجوانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اسٹارٹ اپس کی دنیا میں قدم رکھ سکتے ہیں،اپنے خیالات کو پنکھ دے سکتے ہیں۔انہیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ان کے لیےمواقع کا دائرہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔بھارت آج امیدوں اور امکانات سے بھرپور ہے۔ایک ایسا ماحولیاتی نظام (ایکوسسٹم) وجود میں آ چکا ہے جو مثبت طرزِ حکمرانی کی بدولت ہر فرد کو اپنے ہنر کو مکمل طور پر بروئے کار لانے اور اپنےخوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا موقع دیتا ہے۔
لیکن یاد رکھیں پہلا قدم آپ کو اٹھانا ہوگا۔کاروباری افراد کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کیجیے۔براہِ کرم کاروباری افراد سے مقابلہ نہ کریں،بلکہ انہیں مکمل تعاون فراہم کریں۔چونکہ آپ تجارت، کاروبار اور صنعت سے وابستہ ہیں،تو آپ جانتے ہیں کہ عالمی سطح پر چیلنجز روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔عالمی کشیدگیاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں -یوکرین اور روس کی جنگ اب ایک لامحدود جنگ بنتی جا رہی ہے۔حماس اور اسرائیل کا تنازعہ جاری ہے۔سپلائی چین متاثر ہو رہی ہے۔لیکن اسی مشکل ماحول میں نئے مواقع کا خزانہ بھی چھپا ہوا ہے۔جب دنیا غیریقینی اور غیرمتوقع حالات سے دوچار ہوتی ہے،تو ذہین اور ہنرمند لوگ ان بنیادوں کو چیلنج کرتے ہیں — اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔یہی وقت ہے کہ ہم ان مواقع سے فائدہ اٹھائیں۔
آپ کا بہت شکریہ۔
****
ش ح۔ ش ت۔رض
1573UN-NO-
(Release ID: 2135064)