ارضیاتی سائنس کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

ارضیاتی سائنس کے مرکزی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے گوا کے  ’’پولر اینڈ اوشین ریسرچ‘‘ میں ’’ساگر بھون‘‘  اور ’’پولر بھون‘‘  کا افتتاح کیا، یہ دونوں بھارت میں اپنی نوعیت کی پہلی اور دنیا کی چند نادر ترین سہولیات میں شامل ہیں


ایسے وقت میں جب دنیا بھر کے ممالک سمندری جغرافیائی سیاست یا سمندروں کی جغرافیائی سیاست کی باریکیوں پر غور کر رہے ہیں ، وزیر موصوف نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ آنے والے وقت میں یہ ادارہ جیو پولیٹکس میں ہندوستان کے بڑھتے ہوئے کردار کو فروغ دے گا، حتٰی کہ ہندوستان کو سمندری جغرافیائی سیاست میں عالمی کردار ادا کرنے کے قابل بنائے گا

اس کے علاوہ ، نئی سہولیات ادارے کو موسمیاتی پیٹرن کے مطالعہ میں بالادستی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ آب و ہوا کے خدشات کو دور کرنے کے قابل بھی بنائیں گی: ڈاکٹر جتیندر سنگھ

وزیر موصوف نے ہندوستان کے ساحلی علاقوں کی حفاظت کے لیے قطبی برف پگھلنے کی نگرانی کی ضرورت پر زور دیا

بلیو اکانومی پر وزیر اعظم کے وژن کا حوالہ دیتے ہوئے اوشین سائنس کو قومی ترقی کی کلید قرار دیا

Posted On: 22 MAY 2025 5:36PM by PIB Delhi

مرکزی وزیر مملکت (آزادانہ چارج) برائے سائنس و ٹیکنالوجی، ارضیاتی سائنس اور وزیر مملکت برائے وزیر اعظم کا دفتر، محکمہ جوہری توانائی، محکمہ خلاء، عملہ، عوامی شکایات اور پنشن، ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے منگل کے روز گوا میں واقع ’’نیشنل سینٹر فار پولر اینڈ اوشین ریسرچ‘‘ (این سی پی او آر) میں ’’ساگر بھون‘‘ اور ’’پولر بھون‘‘  کا افتتاح کیا، یہ دونوں سہولیات بھارت میں اپنی نوعیت کی پہلی اور دنیا بھر میں چند منفرد سہولیات میں  ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر کے ممالک سمندری جغرافیائی سیاست یاسمندروں کی جغرافیائی سیاست کی باریکیوں پر غور کر رہے ہیں، وزیر موصوف نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ آنے والے وقت میں یہ ادارہ عالمی جغرافیائی سیاست میں بھارت کے بڑھتے ہوئے کردار کوفروغ دے گا، حتٰی کہ بھارت کو سمندری جغرافیائی سیاست میں عالمی کردار ادا کرنے کے قابل بنائے گا۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ نئی سہولیات ادارے کو موسما تی پیٹرن کے مطالعے میں با بالادستی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ آب و ہوا کے خدشات کو دور کرنے کے قابل بھی بنائیں گے۔

نئی افتتاح شدہ سہولیات بھارت کی قطبی اور سمندری مطالعہ پر بڑھتی ہوئی توجہ کی علامت ہیں اور اس شعبے میں ایک اہم پیش رفت کی نمائندگی کرتی ہیں۔

وزیر موصوف کا یہ دورہ این سی پی او آر کے سلور جوبلی  کے موقع پر عمل میں آیا۔

ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے دورہ این سی پی او آر کے 25 سالہ سفر پر مبنی ایک دستاویزی فلم کی نقاب کشائی بھی کی اور ایک زیر تعمیر میوزیم کا ورچوئل وسیلے سے دورہ کیا، جو عوام کے لیے بصیرت انگیز، سائنسی علم پر مبنی اور شمولیت کا فراہم کرے گا۔  انہوں نے’’سائنس آن اسفیئر (ایس او ایس)‘‘ نامی ایک جدید تھری ڈی ویژولائزیشن پلیٹ فارم کا آغاز بھی کیا، جس کے ذریعے زمین کے نظام اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق ڈیٹا کو موثر انداز میں پیش کیا جائے گا۔

پولر بھون، جو اب این سی پی او آر کیمپس کی سب سے بڑی عمارت ہے، 11,378 مربع میٹر پر محیط ہے اور اس کی تعمیر پر 55 کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے۔ اس میں قطبی اور سمندری تحقیق کے لیے جدید ترین تجربہ گاہیں، سائنسی عملے کے لیے 55 کمرے، ایک کانفرنس روم، سیمینار ہال، لائبریری اور کینٹین شامل ہیں۔ اسی عمارت میں حال ہی میں شروع کی گئی ایس او ایس سہولت بھی قائم ہے اور  یہ بھارت کے پہلے ’’پولر اینڈ اوشین میوزیم‘‘ کی خدمت بھی فراہم کرے گی۔

ساگر بھون 1,772 مربع میٹر پر مشتمل ہے اور اس کی تعمیر پر 13 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ اس میں دو مائنس30 ڈگری  سیلسیس کی آئس کور لیبارٹریز اور +4 ڈگری سیلسیس کے اسٹوریج یونٹس شامل ہیں، جہاں تلچھٹ اور حیاتیاتی نمونے محفوظ کیے جائیں گے۔ عمارت میں 29 کمرے ہیں، جن میں ایک میٹل فری کلاس 1000 کلین روم بھی شامل ہے، جو دھاتوں اور آئسوٹوپ کے مطالعے کے لیے مختص ہے۔

انٹارکٹیکا  کے لئے موزون گرم کپڑوں میں ملبوس ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے مائنس 20 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت والی لیبارٹری کا دورہ بھی کیا۔

وزیر موصوف نے اس بات کا تذکرہ کیا کہ ان سہولیات کے اضافے کے ساتھ،این سی پی اور آر اب دنیا کے اُن چند  منتخب اداروں میں شامل ہو چکا ہے جو قطبی اور سمندری تحقیق کی ہم آہنگ صلاحیتوں سے  آراستہ ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس ادارے کی سائنسی کوششوں کی نہ صرف علاقائی طور پر معنویت ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی کافی اہمیت کی حامل  ہیں، کیونکہ قطبی مظاہر کی نوعیت سرحدی حدود سے ماورا ہوتی ہے۔

ماہرین کے تجزیےکا حوالہ دیتے ہوئے وزیر نے کہا کہ دنیا کا تقریباً 70 فیصد میٹھا پانی قطبی برف میں محفوظ ہے۔ اگر اس میں نمایاں پگھلاؤ واقع ہوا تو سمندر کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے نشیبی ساحلی علاقوں کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔ بھارت کی ساحلی پٹی، جو  ایک تخمینے کے مطابق اب 1,000 کلومیٹر سے زائد پر محیط ہیں، یہ ممکنہ تبدیلیاں ماحولیاتی اور سماجی –معاشی چیلنجز پیش کرتی ہیں،جن سے نمٹنے کے لیے مسلسل سائنسی نگرانی اور بروقت اقدامات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے این سی پی اور آر کے اس کردار کو بھی سراہا جو وہ بھارت کی تحقیقاتی موجودگی کو اہم خطوں میں برقرار رکھنے کے لیے ادا کر رہا ہے، جن میں انٹارکٹیکا (جہاں میتری اور بھارتی اسٹیشن قائم ہیں)، آرکٹک (ہمادری)اور ہمالیہ (ہیمانش) شامل ہیں۔ یہ ادارہ بھارت کے ’’ڈیپ اوشین مشن‘‘  کی قیادت کر رہا ہے، جو ملک کی ‘‘بلیو اکانومی‘‘  کی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ ہے۔

سمندری سائنس کو قومی ترقی کے اہداف سے جوڑتے ہوئے ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے عالمی معاملات میں سمندری جغرافیائی سیاست  کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ این سی پی اور آر جیسے ادارے ، بھارت کی سائنسی اور اسٹریٹیجک شمولیت خاص طور پر حکومت کے ’’وِکست بھارت 2047‘‘ وژن کے تناظر میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔انہوں نے یاد دلایا کہ وزیر اعظم نے مسلسل دو یوم آزادی کے موقع پر لال قلعے سے اپنی تقریروں میں ’’بلیو اکانومی‘‘ اور ’’ڈیپ اوشین مشن‘‘  کی اہمیت پر زور دیا ہے۔

ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے بھارت کی ’’آرکٹک پالیسی 2022‘‘ اور ’’انڈین انٹارکٹک ایکٹ 2022‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے قطبی خطوں میں سائنسی بنیادوں پر، ماحول دوست اور ذمہ دارانہ شمولیت کے لیے راہنما اصول قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ انڈین انٹارکٹک ایکٹ بھارت کی انٹارکٹیکا میں سرگرمیوں کے لیے قانونی بنیاد فراہم کرتا ہے اور بین الاقوامی معاہدوں و معیارات سے ہم آہنگ ہے۔

حالیہ برسوں میں بھارت کی قطبی تحقیق نے اپنے جغرافیائی اور موسمی دائرہ کار کو وسعت دی ہے اور اب تحقیقاتی مشنز کینیڈین آرکٹک، گرین لینڈ اور سنٹرل آرکٹک اوشین جیسے خطوں میں مختلف موسموں کے دوران انجام دیے جا رہے ہیں۔

وزیر موصوف نے اختتامی خطاب میں عالمی موسمیاتی اور سمندری اقدامات میں سائنسی بنیادوں پر مبنی، حکمتِ عملی کے تحت شرکت کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ  این سی پی او آر میں تعمیر کی گئی نئی انفراسٹرکچر سہولیات نہ صرف بھارت کی اس شعبے میں مسلسل شراکت کو سہارا دیں گی بلکہ بین الاقوامی تعاون کو بھی مزید گہرا بنانے میں مددگار ثابت ہوں گی۔

******

ش ح ۔ م ش ۔ ت ع

UN-NO-1009


(Release ID: 2130604)
Read this release in: English , Hindi , Marathi , Tamil