اقلیتی امور کی وزارتت
مذہب سے قطع نظر: وقف کو پراپرٹی مینجمنٹ کے طور پر سمجھنے کی کوشش
ہندوستان میں وقف کی قانونی اور انتظامی حقیقتوں کی باضیافت
Posted On:
03 APR 2025 6:56PM by PIB Delhi
ہندوستان میں وقف کے نظام کو طویل عرصے سے مذہبی عینک سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ ، قانونی دفعات، عدالتی تشریحات، اور پالیسی میں پیش رفت کا قریب سے جائزہ لینے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وقف بنیادی طور پر جائیداد کے انتظام وانصرام اور نظم و نسق کا معاملہ ہے، نہ کہ مذہبی عمل کا۔ وقف ایکٹ، 1995، بعد میں ہونے والی ترامیم کے ساتھ، وقف املاک کے مناسب انتظام اور استعمال کو یقینی بناتے ہوئے ، ان کے ریگولیشن پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ وقف ایکٹ، 1995، وقف کو ایک مسلمان فرد کی طرف سے منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد کو مستقل وقف کے طور پر بیان کرتا ہے ،جن مقاصد کے لیے اسلامی قانون نے مقدس، مذہبی،یا خیراتی کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ تاہم، وقف کا کلیدی پہلو اس کے مذہبی مفہوم میں نہیں بلکہ اس کی جائیداد پر مبنی انتظامیہ میںپنہاں ہے۔
وقف ایکٹ کی دفعہ 96 واضح طور پر مرکزی حکومت کو وقف اداروں کی سیکولر سرگرمیوں کو منظم کرنے کا اختیار دیتی ہے، جس میں سماجی، معاشی، تعلیمی اور فلاحی امور شامل ہیں۔ سینٹرل وقف کونسل (سی ڈبلیو سی) اور ریاستی وقف بورڈ (ایس ڈبلیو بیز) وقف کے انتظام میں شفافیت اور قانونی تعمیل کو یقینی بناتے ہوئے متولی اور ریگولیٹرز کے طور پر کام کرتے ہیں۔
ہندوستانی عدالتوں نے مسلسل اس بات پر زور دیا ہے کہ وقف املاک کا انتظام ایک سیکولرنظا م ہے، جو مذہبی عمل سے قطع نظر ہے۔ مختلف تاریخی فیصلوں کے ذریعے، عدلیہ نے اس بات کو تقویت بخشی ہے کہ وقف بورڈز مذہبی نمائندگی کے بجائے جائیداد کے انتظام کے ذمہ دار قانونی ادارے ہیں۔ یہ فیصلے اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ وقف کا انتظام ،وقف اثاثوں کو سنبھالنے میں شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بناتے ہوئے حکمرانی اور قانونی نگرانی کے تحت آتا ہے۔ اس اصول کی توثیق میں کئی معاملات کلیدی نظیر کے طور پر پیش کئے جاسکتے ہیں،جن میں:
- سید فضل پوکویا تھنگل بمقابلہ یونین آف انڈیا (کیرالہ ہائی کورٹ، اے آئی آر 1993 کے ای آر 308): فیصلے نے واضح کیا کہ وقف بورڈ ایک قانونی ادارہ ہے، جو کہ مسلم کمیونٹی کا نمائندہ نہیں ہے۔ اس کا بنیادی کردار وقف املاک کے مناسب انتظام کو یقینی بنانا ہے۔
- الہ آباد ہائی کورٹ (حافظ محمد ظفر احمد بمقابلہ یوپی سنٹرل سنی بورڈ آف وقف، اے آئی آر 1965 آل 333): عدالت نے فیصلہ دیا کہ متولی (وقف منتظم) کا وقف املاک میں کوئی ملکیتی مفاد نہیں ہے، اس بات کو تقویت دیتے ہوئے کہ وقف انتظامیہ خالصتاً سیکولر ہے۔
- تلکایت شری گووند لال جی مہاراج بمقابلہ ریاست راجستھان (1964 ایس سی آر (1) 561): سپریم کورٹ نے کہا کہ مندر کی جائیدادوں کا انتظام ایک سیکولرنظام ہے، جو وقف املاک پر ناٖفذ ہونے والی ایکنظیر کے طور پر ہے۔
ہندوستان میں وقف املاک کا انتظام بدانتظامی، تجاوزات اور شفافیت کے فقدان سے دوچار ہے۔ڈبلیو اے ایم ایس آئی پورٹل کے اعداد و شمار کے مطابق، 58,898 سے زیادہ وقف املاک تجاوزات کی زد میں ہیں۔ متعدد معاملات وقف اراضی کے غلط استعمال اور غیر قانونی حصول کو نمایاں کرتے ہیں:
- گووند پور، بہار میں (اگست 2024)، بہار سنی وقف بورڈ نے ایک پورے گاؤں کی ملکیت کا دعویٰ کیا، جس کی وجہ سے قانونی لڑائی شروع ہوئی۔
- کیرالہ میں (ستمبر 2024)، تقریباً 600 عیسائی خاندانوں نے اپنی آبائی زمینوں پر وقف بورڈ کے دعوے کی مخالفت کی۔
- سورت میونسپل کارپوریشن ہیڈ کوارٹرز کو سرکاری عمارت ہونے کے باوجود من مانی طور پر وقف املاک قرار دیا گیا تھا۔
ایسے متعددواقعات منظر عام پر آچکے ہیں، جن میں غیر مسلم املاک کو من مانی طور پر وقف قرار دے دیا گیا تھا، جس سے انتظامی اختیارات کی جانچ نہ کیے جانے کے خدشات پیدا ہوئے:
- تمل ناڈو وقف بورڈ نے پورے تھروچینتھورائی گاؤں پر دعویٰ کیا، جس سے رہائشیوں کے املاک کے حقوق متاثر ہوئے۔
- 132 محفوظ یادگاروں کو بغیر مناسب دستاویزات کے وقف املاک قرار دیا گیا۔
ان چیلنجوں کو تسلیم کرتے ہوئے، وقف انتظامیہ میں زیادہ وضاحت اور شفافیت لانے کے لیے وقف (ترمیمی) بل، 2024 پیش کیا گیا۔ اہم تجویزات درج ذیل ہیں:
- دفعہ 40 کا خاتمہ، جو وقف بورڈ کو یکطرفہ طور پر کسی بھی جائیداد کو وقف قرار دینے کی اجازت دیتی ہے۔
- وقف ریکارڈ کا ڈیجیٹلائزیشن، املاک پر بہتر نگرانی رکھنا اور غیر قانونی دعووں کو کم کرنا۔
- تنازعات کے بروقت حل کو یقینی بنانے کے لیےوقف ٹربیونلز کو مضبوط بنانا۔
- احتساب کو بڑھانے کے لیے وقف بورڈ میںغیر مسلم اراکین کی شمولیت۔
وقف کا نظام، جب کہ تاریخی طور پر مذہبی وقف سے جڑا ہوا ہے، ہندوستانی قانون کے تحت جائیداد کے انتظام کرنے والے ادارے کے طور پر کام کرتا ہے۔ قانونی ڈھانچہ، عدالتی احکام، اور وقف کو کنٹرول کرنے والے انتظامی ڈھانچے اس کی سیکولر نوعیت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وقف کے انتظام میں درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے نظامی اصلاحات کی ضرورت ہے، جیسا کہ وقف (ترمیمی) بل، 2024 میں تجویز کیا گیا ہے۔ شفافیت، جوابدہی، اور قانونی نگرانی کو یقینی بنا کر، وقف املاک غیر مسلموں اور دیگرشراکت داروں کے حقوق کی خلاف ورزی کیے بغیر اپنے مطلوبہ خیراتی مقاصد کو پورا کر سکتی ہیں۔
پی ڈی ایف ملاحظہ کریں
**********
(ش ح –ا ب ن)
U.No:9482
(Release ID: 2118495)
Visitor Counter : 75