وزارات ثقافت
azadi ka amrit mahotsav

"ہندوستانی ثقافت ،ہم آہنگی اور مستقل احترام کو فروغ دیتے ہوئے  بغیر نقصان پہنچائے ہوئے نشو ونما پاتی ہے۔" جناب سریش سونی


مانسون پر بین الاقوامی سیمینار: ثقافتی اور تجارتی اثر و رسوخ کا دائرہ

Posted On: 13 FEB 2025 11:13PM by PIB Delhi

'پروجیکٹ موسم' کے تحت اندرا گاندھی نیشنل سینٹر فار دی آرٹس (آئی جی این سی اے) کے زیر اہتمام ایڈوانسڈ اسٹڈی انسٹی ٹیوٹ آف ایشیاء (اے ایس آئی اے) ایس جی ٹی یونیورسٹی کے اشتراک سے منعقدہ دو روزہ بین الاقوامی سیمینار 'مانسون: ثقافتی اور تجارتی اثر ورسوخ کا دائرہ' کے اختتامی سیشن کے دوران،راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سابق سہ سرکاروہ جناب  سریش سونی نے روشنی ڈالی کہ یورپی اثر و رسوخ کے برعکس، ہندوستانی ثقافت نے مقامی روایات کو بغیر کسی تباہی کے تقویت بخشی۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ان خطوں میں ہندوستان کا احترام آج بھی برقرار ہے آئی جی این سی اے کے ممبر سکریٹری ڈاکٹر سچیدانند جوشی؛  پروجیکٹ موسم کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اجیت کمار؛  اور اے ایس آئی اے ، ایس جی ٹی  یونیورسٹی  کے ریسرچ  ڈائریکٹر  پروفیسر اموگھ رائے بھی اس سیشن میں موجود تھے۔


https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001MQ7A.jpg

اپنے خطاب کے دوران جناب سریش سونی نے نوبل انعام یافتہ وی ایس نائپول کے جنوبی ایشیاء کے سفر کے دوران ہندوستان کے پہلے دورے کا مزید ذکر کیا، یہ ایک ایسا تجربہ تھا، جس نے ان پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔ انہوں نے جو کچھ دیکھا اس سے دل کی گہرائیوں سے متاثر ہوئے اور انہوں  نے دہلی میں ایک میٹنگ کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ہندوستان کے بارے میں دنیا کا تصور بڑی حد تک پچھلے 250 سالوں میں تیار کئے گئے  بیانئے سے تشکیل پاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے  واضح کیا کہ اس تصویر کا زیادہ تر حصہ ہندوستان کے حقیقی جوہر کو قید کرنے میں ناکام ہے۔ انہوں نے دلیل دی کیا کہ اگر پچھلے 2500 سالوں کی تحریروں کو سامنے لایا جائے، تو وہ ہندوستان کی ایک زیادہ مستند اور باریک تصویر کو ظاہر کریں گی، جو اس کے بھرپور ثقافتی اور فلسفیانہ ورثے کی عکاسی کرتی ہیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت کے باہمی تعلقات اور اثرات کی جڑیں اس فلسفے سے جڑی ہوئی  ہیں، جو ویدک زمانے سے رائج ہے۔ ویدک دور سے طرز زندگی میں تنوع کے باوجود، ایک جامع نقطہ نظر ،ایک مرکزی وحدت کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ویدک پرارتھنائیں  دنیا کی فلاح و بہبود کے فلسفے کو مجسم کرتی ہیں، جو ایک ایسے وژن پر زور دیتی ہیں، جو وقتی حدود کے ماورا تک پھیلا ہوا  ہے۔  بھارت کے اثر و رسوخ پر غور کرتے وقت، خاص طور پر جنوب مشرقی ایشیاء میں، ہر شخص کو اس خطے اور اس سے باہر کے ثقافتی اثرات کو تسلیم کرنا چاہیے۔  جناب سونی نے زندگی کے مختلف پہلوؤں کے باہمی ربط کو اجاگر کرتے ہوئے، بھارت کی تاریخ اور فلسفے کو سمجھنے کے لیے ایک مربوط نقطہ نظر کی وکالت کی۔ مثال کے طور پر، انہوں  نے وضاحت کی کہ کس طرح تجارت الوہیت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، جو ایک عالمی نظریہ کی عکاسی کرتی ہے، جہاں تمام عناصر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں  نے مندر کے فن تعمیر کو اس انضمام کے تجسیم کے طور پر بیان کیا، یہ بتاتے ہوئے کہ یہ کس طرح علامتی طور پر انسانیت کی ابتدائی جبلتوں سے لے کر فن، جمالیات، روحانیت، اور بالآخر نرگون (بے  مثل مطلق) تک ارتقاء کی نمائندگی کرتا ہے ۔

انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا کہ بھارت کی تاریخی داستان میں گمشدہ روابط کا پتہ لگایا جانا چاہئے، کیونکہ وہ اس کے فلسفے کی گہرائی کو ظاہر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں  نے دلیل دی کہ یہ بھارت کی تاریخ نویسی کو ایک نئی جہت فراہم کرے گا۔ جناب سونی نے آبائی علاقوں کی شاعرانہ زبان کے تحفظ کی اہمیت پر بھی زور دیا، کیونکہ یہ ایک ثقافتی باز گشت کی تجسیم  کرتی ہے، جسے برقرار رکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کانفرنس صحیح سمت میں ایک قدم ہے، کیونکہ یہ بھارت کے گہرے ثقافتی اور فلسفیانہ ورثے کی کھوج اور تفہیم میں سہولت فراہم کرتی ہے۔

اختتامی سیشن کے دوران مقالات پیش کرنے والوں کو انعامات سے نوازا گیا۔ اعزازی تذکرہ ایوارڈ ڈاکٹر سہیلی چتراج کو ان کے مقالے کے لیے دیا گیا، جس کا عنوان تھا ’زینگ ہیز وائیجز ایکراس دی سیز : کنیکٹنگ ٹریڈ روٹس ان ایشیاء اینڈ افریقہ۔‘ بہترین پیپر پریزنٹیشن ایوارڈ کیرتھنا گریش کو ان کے مقالے کے لیے دیا گیا، جس کا عنوان ’ہارمونیز آف ہائبرڈ کلچرز : جنوب مشرقی ایشیاء کے ثقافتی  منظر ناموں  کی تشکیل میں  جنوبی  ہندوستان کی موسیقی کا کردار ‘ تھا۔ بہترین پیپر کا ایوارڈ جوہی ماتھر کو ان کے مقالے کے لیے پیش کیا گیا،جس کا عنوان تھا ’رمائن کے ڈراموں میں ماسکس کے جنوب مشرقی ایشیائی تاریخ میں کثیر  جہتی رامائن ۔‘ آخر میں پروجیکٹ موسم کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اجیت کمار نے شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے جنوب مشرقی ایشیاء میں بحری تجارت کے متنوع موضوع پر خیالات کے بصیرت انگیز تبادلے پر تبصرہ کیا،  اور ان ثقافتی اور اقتصادی رابطوں پر زور دیا،  جنہوں نے صدیوں سے اس خطے کی تشکیل کی ہے۔

https://pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2102534

******

U.No:7008

ش ح۔اک۔ق ر


(Release ID: 2103226) Visitor Counter : 20


Read this release in: Hindi , English