سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت
مقناطیسی قطب کی کناڈا سے سائبیریا کی جانب منتقلی فضائی اجسام کے زیادہ گہرائی تک دخول کی صلاحیت میں مانع
Posted On:
29 JAN 2025 5:33PM by PIB Delhi
ایک نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کناڈا سے سائبیریا کی طرف کرہ ارض کے شمالی مقناطیسی قطب کی منتقلی سے زمین کے مقناطیسی رقبے میں متوسط بالائی سطح میں چارج شدہ اجسام کا دخول متاثر ہوا ہے۔ شمالی کرنوں یا اورورا کے لئے ذمہ دار الیکٹران ، کوارک ، پروٹون ، اور آیون جیسے برقی چارج والے ان اجسام کی نقل و حرکت کو سمجھنے سے، خلائی موسم کی بہتر پیش گوئی کی جا سکتی ہے اور ہمارے سیٹلائٹ سسٹم کی حفاظت میں مدد مل سکتی ہے۔
کرہ ارض کی مرکزی سطح کے ذریعے بنائی گئی حفاظتی ڈھال کی حیثیت رکھنے والے زمین کا مقناطیسی رقبہ خاموشی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ یہ غیر مرئی قوت کا رقبہ، جو قطب نماؤں کی رہنمائی کرنے اور ہمیں نقصان دہ شمسی ہواؤں سے بچانے میں مدد کرتا ہے، گزشتہ ایک صدی سے زائد عرصے سے بتدریج منتقل ہو رہا ہے۔ سائنسدانوں نے محسوس کیا کہ شمالی مقناطیسی قطب ، جو 1990 تک کناڈا میں واقع تھا ، وہ آہستہ آہستہ لیکن مستقل طور پر سائبیریا کی طرف بڑھتا رہا ہے۔ سال 2020 تک یہ سالانہ تقریبا 50 کلومیٹر کی حیرت انگیز رفتار سے آگے بڑھتا رہا ہے۔ اگرچہ یہ ایک معمولی جغرافیائی پھیر بدل کی مانند لگ سکتا ہے، لیکن خلاء میں چارج شدہ اجسام کی نقل و حرکت کی تبدیلی کے لحاظ سے اس منتقلی کے اہم نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
تابکاری بیلٹ کہے جانے والے زمین کے مقناطیسی کرہ میں، پروٹون اور الیکٹران جیسے توانائی سے لبریز اجسام پائے جاتے ہیں۔ یہ اجسام، جو زمین کے مقناطیسی رقبےسے متاثر ہوتے ہیں ، کرہ ارض کے گرد گھومتے ، اچھلتے اور تیرتے رہتے ہیں ۔ لیکن یہ اجسام کہاں پہنچتے ہیں-اور وہ زمین کے کتنے قریب آتے ہیں-اس کا دار ومدارمقناطیسی رقبے کی طاقت اور شکل پر ہوتا ہے ۔ سائنس دان اس بات کی تحقیقات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ شمالی مقناطیسی قطب کی منتقلی ان اجسام کے راستوں کو کیسے بدلتی ہے ۔
محکمہ سائنس و ٹیکنالوجی (ڈی ایس ٹی) کے خود مختار ادارہ، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف جیو میگنیٹزم کے محققین نے حرکی ماڈلز کا استعمال کرکے ان اجسام کی رفتار کی نقالی کرنے کا فیصلہ کیا ۔ انہوں نے توانائی سے بھرپور پروٹونز کی اونچائی میں ہونے والی تبدیلیوں کی مقدار طے کرنے کے لیے آئی جی آر ایف-13 (انٹرنیشنل جیومیگنیٹک ریفرنس فیلڈ) کے ماڈل پر مبنی سہ رخی متعلقہ ٹیسٹ اجسام کی پیروی کی ۔
محترمہ آیوشی سریواستو ، ڈاکٹر بھارتی کاکڑ اور ڈاکٹر امر کاکڑ نے یہ دریافت کیا ہے کہ سال 1900 میں کناڈائی خطے کے قریب پائے جانے والے اجسام، جہاں مقناطیسی رقبہ زیادہ مضبوط تھا ، زیادہ اونچائی پر رہنے کا رجحان رکھتے تھے ۔ لیکن سال 2020 تک یہ رجحان بصورت دیگر تھا۔ قطب شمالی کے سائبیریا کی طرف منتقل ہونے کے ساتھ، کناڈا میں مرکوز مقناطیسی رقبہ کمزور ہوتا گیا، جبکہ سائبیریا میں یہ رقبہ مضبوط تر ہوتا گیا ۔
جریدہ ’ایڈوانسز ان اسپیس ریسرچ‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق، یہ منتقلی سائبیریائی طول البلد پر موجود اجسام کو کرہ ارض کے فضائی ماحول میں گہرائی تک اترنے میں مانع ثابت ہوئی ہے۔ بعض اجسام کے حوالےسے، سب سے کم اونچائی جہاں وہ پہنچ سکتے تھے (جسے دخول کی بلندی کہا جاتا ہے) سائبیریا کے اوپر 400 سے 1200 کلومیٹر تک بڑھ گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سائبیریا میں شمالی مقناطیسی رقبہ کی منتقلی سے پیدا ہونے والے مضبوط مقناطیسی میدان ایک محیط مقناطیسی میدان کے ساتھ تعامل کرتے ہیں اور قوت پیدا کرتے ہیں ، جو چارج شدہ اجسام کی رفتار کو بدل دیتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں، اجسام کا رخ باہر کی طرف موڑ دیا جاتا ہے ، جو مؤثر طریقے سے انہیں سائبیریا کے علاقے میں زمین کے زیادہ قریب آنے سے باز رکھتا ہے ۔
اجسام کی حرکیات سے متعلق جیومیگنیٹک فیلڈ میں ہونے والے تغیرات کے اس طرح کے اثرات ، حقیقی دنیا کے لیےمضمرات کے حامل ہوتے ہیں ۔ قطبی مداروں میں موجود سیٹلائٹس ، جو ان خطوں سے گزرتے ہیں ، کشش (اعلیٰ توانائی اور ماحولیاتی اجسام کے تصادم کی وجہ سے پیدا ہونے والی حرارت سے بننے والی ماحولیاتی کثافت میں تبدیلی کے سبب مزاحم قوت) کی مختلف سطحوں کا تجربہ کر سکتے ہیں، جو اس بات پر منحصر ہے کہ چارج شدہ اجسام فضائی مدار میں کس قدر داخل ہوتے ہیں ۔ ان اجسام میں ذخیرہ ہونے والی توانائی سے فضائی ماحول گرم بھی ہو سکتا ہے، اس کی کثافت تبدیل ہو سکتی ہے اور سیٹلائٹ کے راستوں میں خلل پڑ سکتا ہے۔

نقشہ1: 1900 سے 2020 تک شمالی مقناطیسی رقبے کی منتقلی کی نمائندگی۔ سفید نجمی نشانات اور نقاط متعلقہ نصف کرہ کے لیے متعلقہ سالوں میں زیادہ سے زیادہ مقناطیسی رقبے اور مقناطیسی قطب کے مقام کی نمائندگی کرتے ہیں ۔
*************
(ش ح ۔م ش ع۔ش ہ ب(
U. No. 5786
(Release ID: 2097414)
Visitor Counter : 43