نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ڈیموکریٹک لیڈرشپ (آئی آئی ڈی ایل) کے 8ویں بیچ کے طلبہ سے نائب صدر جمہوریہ کی بات چیت کا اردو متن
Posted On:
22 JAN 2025 3:38PM by PIB Delhi
تمام حاضرین کو صبح بخیر!
ہندوستان اپنی آزادی کے سو سال مکمل کرنے کے قریب پہنچ رہا ہے، 2047 میںیہ ہمارے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا، اور ہم صدی کے آخری حصے میں داخل ہو چکے ہیں۔ اگر ہم اپنی حالت پر نظر ڈالیں تو گزشتہ ایک دہائییا اس سے زائد عرصے میں اقتصادی ترقی، انفراسٹرکچر کی غیر معمولی نمو، اور آخری کنارے کےعام آدمی تک خدمات کی فراہمی – جیسے بیت الخلاء، نل سے جل، گیس کنکشن، بجلی کنکشن، سڑکوں کا رابطہ، انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی، صحت اور تعلیم کے مراکز – ان سب چیزوں سے جمہوریت کی ترقی کے لیےزبردست چیلنج پیدا ہوا ہے، کیونکہ ایک طرف کوئی بھی ملک اتنی تیز رفتاری سے پچھلی دہائی میں آگے نہیں بڑھا جتنا کہ ہندوستان بڑھا ہے اور دوسری طرف فی الحال کوئی ملک ہندوستان کی طرح اتنا متاثر کن نہیں ہے۔
ہمارے پاس ایسا ڈیموگرافک اثاثہ ہے جو دنیا بھر کے لیے حسد کا باعث ہے، اور اگر ہم کچھ معیارات کے لحاظ سے دیکھیں تو ہماری 65 فیصد آبادی 35 سال سے کم عمر کی ہے، اور 50 فیصد آبادی 25 سال سے کم عمر کی ہے، سیاسی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسے انسانی وسائل موجودہیں جو کام کر سکتے ہیں، اور جب نوشتہ دیوار دیکھیں گے تو یہ حکومتی اداروں کے لیے ایک چیلنج ہوگا۔ آپ کو ان کے لیے کام تلاش کرنا ہوگا۔
نوجوانوں کو روزگار، ملازمت کی صلاحیت درکار ہے، اور اس لیے سیاسی شمولیت ضروری ہے۔ اگر ہمارے پاس سیاست کے بارے میں آگاہ لوگ نہیں ہوں گے، جو پالیسی سازی میں حصہ لینے کے خواہش مند ہوں، تو ملک کے پاس اس قسم کے روزگار نہیں ہوں گے جو ہمیں درکار ہیںیا ہم 2047 تک ’’وِکست بھارت‘‘ کا درجہ حاصل نہیں کر پائیں گے۔
یہاحساس کرنا اچھا لگتا ہے کہ ہمارے لیےیہ فخر کی بات ہے کہ ہم دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہیں اور ہم تیسری سب سے بڑی معیشت بننے جا رہے ہیں، مگر ایک ترقی یافتہ ملک بننے کے لیے، آپ صرف مطالعہ کریں گے۔ ترقی یافتہ ملک کا درجہ رسمی طور پر متعین نہیں کیا گیا ہے، لیکن آپ ترقی یافتہ ممالک کو دیکھ کر اس کے عناصر کو سمجھ سکتے ہیں۔ اس کے لیے بنیادی ضرورت یہ ہے کہ ہر ہندوستانی باشندے کی فی کس آمدنی آٹھ گنا بڑھنی چاہیے، اور اس لیے اس وقت ملک میں سیاسی بحران بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔
آئین ساز اسمبلی نے بلند معیارطے کیا تھا، سیاستدانوں کو ایک جگہ آنا چاہیے، مل کر کام کرنا چاہیے، اور مباحثے میں شریک ہونا چاہیے، نہ کہ خلفشار میں شامل ہونا چاہیے۔ ان کو باہمی اتفاق کے نقطہ نظر کو اپنانا چاہیے، نہ کہ تصادم کو، اور انہوں نے ہمیں اچھا آئین دینے میں تین سال سے بھی کم وقت میں کامیابی حاصل کی، 18 اجلاسوں میںچند سب سے زیادہ متنازع اور امتیازی مسائل پر گفتگو کی۔ اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے جمہوریت کے مندروں کی حالت پہلے سے زیادہ مفلوج ہو چکی ہے۔ وہاں بحث اور مکالمے کے بجائے کچھ اور ہی ہو رہا ہے۔ جو منظر ہم نے جمہوریت کے مندروں، پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں دیکھے ہیں وہ ملک کے کسی بھی فرد کے لیے حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ یہاں آپ کے زمرے کا کردار اہم ہے، نوجوانوں کا کردار اہم ہے۔
آپ طاقتور پریشر گروپ ہیں، سوشل میڈیا نے آپ کو طاقت دی ہے۔ آپ اس پوزیشن میں ہیں کہ پارلیمانی اداروں کا آڈٹ کریں، ان کی کارکردگی اور ارکان پارلیمنٹ کی کارکردگی کو جانچیں۔ آپ ان لوگوں کو آئین کے تحت اپنی مخصوص ذمہ داریوں کی بجائے وہ غیر معیاری سلوک سے روبرو کر سکتے ہیں، جو کوئی بھی والدین نہیں چاہے گا کہ ان کا بچہ یا بچی وہ منظر دیکھے۔ یہ صورتحال تبدیل ہونی چاہیے، اور یہ تب ہی بدل سکتی ہے جب لوگ پالیسی سازی میں شامل ہوں گے، سیاست کی باریکیوں کو جانیں گے، کیونکہ تبھی آپ سوالات پوچھ سکتے ہیں۔
جو ایوان کبھی ہمارا جمہوریت کا مندر تھا، اب وہ تماشہ کا میدان بن چکا ہے، اکھاڑہ بن گیا ہے، کشتی دنگل بن چکا ہے۔ کیا کچھ دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے! کیا کچھ سننے کو نہیں مل رہا ہے! اخلاق لفظ تک لوگ بھول چکے ہیں۔ جہاں تک عزت و وقار کا تعلق ہے، وہ اب کہیں نظر نہیں آتا ہے۔ دنیا کی ایک تہائی آبادی ہندوستان میں ہے۔ ہماری ثقافتی وراثت پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ ہم فخر محسوس کرتے ہیں، ہم جمہوریت کی ماں ہیں، ہم سب سے قدیم جمہوریت ہیں۔ لیکن کیا ہم اپنے اس دعوے کو درست ثابت کر رہے ہیں؟ اگر میں ارد گرد دیکھوں اور حالات پر غور کروں، تو میں حیران ہوجاتا ہوں۔
ملک میں سیاسی ماحول انتہائی تشویش کا باعث ہے، سیاسی پارٹیوں کے درمیان کوئی مؤثر مکالمہ نہیں ہو رہا ہے، وہ حب الوطنی، سکیورٹی یا ترقی کے مسائل پر بات چیت نہیں کر رہے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ ٹکراؤ کی پوزیشن مضبوط ہو رہی ہے، اور خلفشار کو سیاسی حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
ہر طرف سے جو زبان استعمال کی جا رہی ہے، دائیں، بائیں اور مرکز سے، وہ نہ صرف ہندوستانی ذہن کو کمزور کرتی ہے بلکہ ہماری تہذیب کے پاک نام کو بھی داغدار کرتی ہے۔ یہ نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے، اور خاص طور پر ان نوجوانوں کے ہاتھ میں جنہوں نے آپ کی طرح یہ عزم کیا ہے کہ سرنگ کے آخر میں امید کی کوئی کرن ہے۔
میں نوجوانوں کو ٹیلنٹ کے ذخیرے کے طور پر دیکھتا ہوں، وہ حکمرانی اور جمہوریت میں سب سے اہم اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ وہ 2047 میں’’وِکست بھارت‘‘ کا انجن بنیں گے۔ اور اسے وہی لوگ حاصل کر سکتے ہیںجو مسائل سے پوری طرح آگاہ ہوں۔
میں ملک کے نائب صدر جمہوریہ کے طور پر فکر مند ہوں کہ اظہار رائے اور مکالمہ، جو کہ کسی بھی جمہوری اقدار کے پھلنے پھولنے کے لیے بنیادی ستون ہیں، تیزی سے پس پشت جا رہے ہیں۔ کسی دوسرے کے نقطہ نظر کو سنے بغیر لوگ یہ فیصلہ کرلیتے ہیں، ان کے پاس درست رائے ہے، میں صحیح ہوں، باقی سب غلط ہیں۔
ہم نے مختلف موضوعات پر بات کی ہے اور ہم ایک سے دوسرے موضوع پر چلے جاتے ہیں، لیکن ہمیں جس چیز پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے، وہ یہ کہ میں یہ کہوں گا کہ ایک ایساترقیاتی ماڈل جو وسعت پسند ہو، ایسی ترقی جو ہمیں اطمینان دے، جو ہمیں عزت دے، جو ہمیں اپنے ملک پر فخر کرنے کا موقع دے۔ اب سوال اٹھتا ہے، ایک فرد کیا کر سکتا ہے؟ اور میں آپ کو بتاؤں، ہندوستان کو عظیم بنانے میں، ترقی یافتہ قوم کے طور پر وِشواگرو بنانے میں، کلیدی کردار آپ کا ہے۔ یہ ایک فرد کی کوشش ہے جو دور تک جا سکتی ہے۔
اب میں اس بات پر توجہ مبذول کروں گا، ہمیں عوامی نظم و ضبط کیخامی کو کیوں برداشت کرنا چاہیے؟ اگر کسی کو کسی قانونی اتھارٹی سے نوٹس ملتا ہے اور وہ سیاستدان ہیں، تو لوگ سڑکوں پر آ جاتے ہیں۔ یہ درندگی ہے، یہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔ یہ جمہوریت کے اصولوں کی توہین ہے اور یہ بڑے لوگ کر رہے ہیں۔ کیا اس کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ عوامی نظم و ضبط سے جمہوریت کی تعریفبیاں ہوتی ہے، لیکن جب عوامی نظم کیگڑبڑی، جو کہ سیاسی فوائد کے لیےیا کسی فرد کی طاقت بڑھانے کے لیے تیار کی جائے، اور ہاں، جب آپ ٹریفک کو روک سکتے ہیں، روزمرہ کی زندگی کو مفلوج کر سکتے ہیں، عوامی نظم کو تباہ کر کے، ہم ردعمل نہیں ظاہر کرتے، ہم اسے معمول کے طور پر لے لیتے ہیں۔
عوامی املاک کی تباہی، ٹرینوں پر پتھراؤ، سرکاری عمارتوں کو آگ لگانا، ہم کہاں جا رہے ہیں؟سماج کو ایک آواز میں ان لوگوں کا نام لے کر شرمندہ کرنا ہوگا۔ نظام کو اس طرح کام کرنا ہوگا کہ ان کو جوابدہ ٹھہرایا جائے اور مالی طور پر بھی ان پر جرمانہ عائد کیا جائے۔ ایک ملک کو نظم و ضبط سے منضبط کیا جانا چاہیے، ہر فرد اس میں کردار ادا کر سکتا ہے۔
میری جو تجویز ہے وہ یہ ہے کہ جب ہماری ترقی بہت تیز ہو رہی ہے، عالمی ادارے ہمیں نظرانداز کر رہے ہیں۔ ہمیں اس سے بہکنا نہیں چاہیے کیونکہ ہمارے سامنے کچھ مسائل ہیں جن کو حل کرنا ضروری ہے۔ کچھ چھوٹے مسائل ہیں جو حل کرنے ہیں، اگر ہم ایسا نہیں کرتے، تو جو نزاکت ہے وہ سامنے آ سکتی ہے۔ اس لیے ہمیں افراد کے طور پر انتہائی محتاط رہنا ہوگا۔
آپ نے ان دنوں معلومات اور گمراہی کی بھرمار دیکھی ہوگی۔ ٹیکنالوجی کی وجہ سے کہانیاں بن رہی ہیں، دنیا سکڑ چکی ہے، نہ جسمانی طور پر، بلکہ اس لحاظ سے کہ ہمارے مفادات کی مخالف قوتیں، جن کی حکمت عملی ہماری قوم پرستی کو تباہ کرنا ہے، وہ آسانی سے آپس میں جڑ سکتی ہیں۔ اس لیے ہر نوجوان کو اپنے فرائض ادا کرنے ہوں گے۔ ہمیں پالیسی سازی میں تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہے جو سیاست کو جانتے ہوں۔
حکومت کو جوابدہ ٹھہرانا آسان نہیں ہے، حکومت کو جوابدہ بنانے کا واحد طریقہ مقننہ کے پلیٹ فارم کے ذریعے ہے، اور یاد رکھیں، جب آپ حکومت کو جوابدہ ٹھہراتے ہیں، تو آپ حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔ کوئی بھی اپنی کارکردگی میں بہتری چاہے گا، مگر اس کو بتانا پڑتا ہے کہ یہ وہ شعبے ہیں جہاں آپ کو بہتری کی ضرورت ہے۔ یہایسا ہی ہے جیسے آپ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں، آپ کو لگتا ہے کہ آپ فٹ ہیں، لیکن ڈاکٹر آپ کو بتا سکتا ہے کہ آپ فٹ نہیں ہیں، آپ کو کچھ خاص چيزوں پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ اس لیے، ملک کے نوجوانوں سے میری یہ پُرجوش اپیل ہے، یہ آپ کا وقت ہے۔ آپ ہی وہ قوت ہیں جو تحریک دیتے ہیں، آپ بے چینی کی حالت میں ہیں، آپ کو راستہ تلاش کرنا ہوگا۔
خوش قسمتی سے، ہندوستان نوجوانوں کے لیے بہت سے مواقع فراہم کرتا ہے۔ حکومت نے آپ کی مدد کرنے کے لیے فعال پالیسیوں کے ذریعے اقدامات کیے ہیں۔ یہ سیاستدانوں اور ان افراد کا بنیادی کردار ہے جو سیاست میں ملوث ہیں، اور ان دونوں الفاظ سے عوام کے نمائندوں کو مراد نہ سمجھیں۔ آپ سیاست میں شامل ہو سکتے ہیں بغیر اس کے کہ آپ عوام کے نمائندے ہوں، لوگوں کو یہ آگاہ کرنے کے لیے کہ آپ اپنے حقوق سے بالا تر ہو کر اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ لوگوں کو یہ آگاہ کرنے کے لیے کہ آپ روزگار پیدا کر سکتے ہیں۔ اسٹارٹ اپس کی طرف دیکھیں، اسٹارٹ اپس کا ڈھانچہ، اب زیادہ تر اسٹارٹ اپس ٹیر-2 اور ٹیر-3 شہروں میں بن رہے ہیں، جو مقامی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔
جب ہندوستانی دماغ کی ذہانت عالمی سطح پر ناقابل تسخیر ہو، تو ہمیں ناکام نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے پاس ملک میں بنیادی حق ہے، اور وہ حق یہ ہے کہ ہم عدلیہ تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ بنیادی حق ہے، لیکن پچھلے چند دہائیوں میں عدلیہ تک رسائی کو ہتھیار بنا لیا گیا ہے۔ اسے اس سطح تک ہتھیار بنایا گیا ہے کہ یہ ہماری حکمرانی اور جمہوری اقدار کے لیے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔
روز بروز آپ دیکھیں گے کہ مشورے دیے جا رہے ہیں، انتظامی سرگرمیاں ان اداروں کے ذریعے انجام دی جارہی ہیں جن کے پاس ان کاموں کو انجام دینے کا نہ تو اختیار ہے اور نہ ہی صلاحیتہے۔ سادہ زبان میں کہا جائے تو، تحصیلدار کبھی بھی ایف آئی آر درج نہیں کر سکتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی حساس کیوں نہ ہو، کیونکہ ہمارے آئین کے تحت ادارے اپنے دائرہ کار میں کام کرنے کے پابند ہیں۔ کیا وہ کام کر رہے ہیں؟ میں آپ کے لیے جواب دیتا ہوں، نہیں۔
ادارے دوسرے اداروں کو موقع دے رہے ہیں، اور یہ سب عجلت یا مفاد کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ یہ آرام پسند طریقے قلیل مدتی فوائد کا باعث بن سکتے ہیں، لیکن طویل مدت میںیہ ناقابل تلافی نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ اس لیے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ کو سوچنا ہوگا۔ جب آپ سوچیں، تو لوگوں سے جڑیں۔ انہیں آگاہ کریں، کوئی ملک ہندوستان کی طرح انسانی وسائل سے اتنا مالا مال نہیں ہے، لیکن ہمیں خود کا حساب کتاب کرنا ہوگا۔ ہم سطحی کامیابیوں سے مطمئن نہيں ہو سکتے ہيں۔ ہمیں بنیادی چیزوں کی طرف واپس جانا ہوگا۔
خلائی معیشت میں ہماری خلائی تنظیم اسرو نے حیرت انگیز کام کیا ہے، لیکن دیکھیں ہماری خلائی معیشت میں حصہ کتنا ہے۔ یہ کم از کم ہماری ڈیموگرافک ساخت کے مطابق ہونا چاہیے۔ نیلی معیشت کے پیٹنٹس بھی اہم ہیں۔
پارلیمنٹ کی سیاست سے ہمارے ملک کی ترقی کی تعریف بیاں ہوتی ہے، یہ لوگوں کو تحقیق اور ترقی کے اگلے مرحلے تک پہنچنے کے لیے متحرک اور متاثر کرتی ہے۔ یہ کارپوریٹس کو قیادت فراہم کرتی ہے، اقتصادی حب الوطنی کو فروغ دیتی ہے، لیکن اس وقت میں جو کچھ کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ چونکہ میں راجیہ سبھا کا چیئرمین ہوں، میں ان تمام مسائل کو دیکھ رہا ہوں جو میرے سامنے ہیں، لیکن میرے سامنے ہنر مند لوگ نہیں ہیں۔
آپ کے ذہن میں کچھ سخت سوالات ہونے چاہیے، میں آپ کو تین سوالات دوں گا، باقی آپ خود سوچیں۔
پہلا سوال: وہپ کیوں ہونا چاہیے؟وہپ کا مطلب ہے آپ اظہار رائے کو محدود کر رہے ہیں۔ آپ آزادی کو محدود کر رہے ہیں، آپ کسی نمائندے کو غلامی میں مبتلا کر رہے ہیں۔ آپ اسے اپنے دماغ کا استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہيں۔ یہ جائزہ لیں کہ کیا امریکہ میںوہپ ہے یا نہیں۔ پچھلے دس برسوں میں یہ معلوم کریں کہ امریکی سنیٹ کے فیصلوں پر کس طرح غورکی بجائے قائل کرنے کی کوششوں کا اثر پڑا ہے، لیکن جب آپ وہپ جاری کرتے ہیں تو وہاں کوئی قائل کرنے کی کوشش نہیں ہوتی ہے۔
کس کو قائل کرنے کے لیے؟ افراتفری، فریب، رکاوٹ اور اس قسم کی سرگرمیاں ایوان میں ریموٹ کنٹرول سے چلائی جاتی ہیں۔ وہ جمہوری مندر میں اس عزم کے ساتھ قدم رکھتے ہیں کہ آج کا دن پارلیمانی اسمبلی میں کام نہ کرنے کا دن ہے، اس کا جائزہ لیں۔ سیاسی جماعتوں کا کام جمہوریت کو فروغ دینا ہے، لیکن کیا منتخب نمائندوں کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے؟ وہپ اس میں رکاوٹ بنتی ہے۔
دوسرا سوال: ایک لمحے کے لیے سوچیں، کوئی نمائندہ صدر جمہوریہ یا نائب صدر جمہوریہ کے انتخاب میں اپنا ووٹ رازدارانہ رکھ سکتا ہے، لیکن وہ ایوان کے رکن ہوتے ہوئے راجیہ سبھا کے ممبر کے انتخاب میں اپنا ووٹ رازدارانہ کیوں نہیں رکھ سکتا؟ کیوں؟ نامزد ممبران، جن کی تعداد بارہ ہے، نائب صدر جمہوریہ کے انتخاب میں ووٹ دے سکتے ہیں لیکن صدر جمہوریہ کے انتخاب میں نہیں دے سکتے ہيں، اور اس کی بنیاد غیر مضبوط ہے۔ صدر جمہوریہ انہیں مقرر کرتے ہيں، لیکن حالات میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ آئین کے تحت اب صدر جمہوریہ کو بالکل وہی منظور کرنا ہے جو کابینہ کے وزراء کرتے ہیں، تو یہ فرق کیا ہے؟ دوسرے ممالک میں کیاکیا جا رہا ہےاس کا جائزہ لیں، یہ بہت، بہت اہم بات ہے۔
بہت شکریہ۔
**********
UR-5499
(ش ح۔ م ش ع ۔ ش ہ ب)
(Release ID: 2095240)
Visitor Counter : 10