نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
سروس میں توسیع ان لوگوں کے لیے ایک صدمہ ہے جو قطار میں لگے ہیں؛ یہ توقع کے منطقی اصول کی نفی ہے- نائب صدر جمہوریہ
اگر پیپر لیک ہوتے رہے تو انتخاب کی جانبداری کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے گا: نائب صدر جمہوریہ
یہ بات ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتی کہ پبلک سروس کمیشن کا چیئرمین یا ایک رکن کسی مخصوص نظریے یا کسی فرد سے منسلک ہو: نائب صدر جمہوریہ
اداروں کا کمزور ہونا پورے ملک کے لیے نقصان دہ ہے : نائب صدر جمہوریہ
ملک جن مسائل کا سامنا کر رہا ہے انہیں پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا: نائب صدر جمہوریہ
اس وقت سیاست بہت زیادہ منقسم اور تفرقہ انگیز ہے؛ ہمیں سیاسی آنگ کو بجھانے والے آلات کی ضرورت ہے: نائب صدر جمہوریہ
دانشوران کا سیاسی صف بندیوں کی تبدیلی کے ساتھ اپنے مفادات کو پورا کرنا باعث تشویش ہے: نائب صدر جمہوریہ
سبکدوشی کے بعد بھرتی، مخصوص نامزدگیاں آئین کے معماروں کی تصوریت کے خلاف ہے: نائب صدر جمہوریہ
Posted On:
11 JAN 2025 2:25PM by PIB Delhi
نائب صدر جمہوریہ جناب جگدیپ دھنکڑ نے آج کہا کہ، ’’سروس میں کسی خاص عہدے کے لیے کسی بھی قسم کی توسیع ان لوگوں کے لیے صدمہ ہے جو قطار میں لگے ہیں۔ یہ توقع کے منطقی اصول کی نفی کرتی ہے۔ ہمارے یہاں توقع کا ایک اصول ہے۔ لوگ ایک مخصوص مقام پر برقرار رہنے کے لیے دہائیوں تک محنت کرتے ہیں۔توسیع سے اشارہ ملتا ہے کہ بعض افراد ناگزیر ہیں۔ لہٰذا، ناگزیریت ایک مفروضہ ہے۔ اس ملک میں صلاحیت کی بہتات ہے۔ کوئی بھی ناگزیر نہیں ہے۔ اس لیے یہ ریاستی اور مرکزی سطح پر پبلک سروس کمیشنوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے کہ جب ایسی صورتحال میں ان کا کردار ہو تو انہیں مضبوطی سے قائم رہنا چاہئے۔‘‘
آج کرناٹک کے بنگلورو میں کل ریاستی پبلک سروس کمیشن کے چیئرپرسن حضرات کی 25 ویں قومی کانفرنس میں افتتاحی خطاب کرتے ہوئے، انہوں نے زور دیا کہ، " انتہائی تحمل کے ساتھ میں ایک پہلو پر غور کر رہا ہوں۔ پبلک سروس کمیشن، تقرری سرپرستی، جانبداری سے نہیں ہو سکتی۔ کچھ ایسے رجحانات ہیں جو نظر آرہے ہیں۔ میں ان پر بات نہیں کرنا چاہتا، لیکن ان میں سے کچھ بہت تکلیف دہ ہیں۔ ہمیں اپنے ضمیر کے سامنے اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ ہمارے پاس پبلک سروس کمیشن کا ایسا چیئرمین یا ممبر نہیں ہو سکتا، جو کسی خاص نظریے یا فرد سے منسلک ہو۔ یہ آئین کے فریم ورک کے جوہر اور روح کو ختم کردے گا۔
سبکدوشی کے بعد نوکری کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے، جناب دھنکڑ نے کہا، "بعد از ریٹائرمنٹ بھرتی ایک مسئلہ ہے۔ کچھ ریاستوں میں اس کا ڈھانچہ بنایا گیا ہے۔ ملازمین کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، خاص طور پر وہ لوگ جو بڑی سروسز میں ہیں۔ انہیں مخصوص نام دیے جاتے ہیں۔ یہ اچھا نہیں ہے۔ ملک میں ہر ایک کو اس کا حق ملنا چاہئے اور اس حق کی وضاحت قانون کے ذریعہ کی جانی چاہئے۔ ……اس قسم کی کوئی بھی فیاضی اس کے خلاف ہے جس کا تصور آئین کے معماروں نے پیش کیا تھا۔
پیپر لیک ہونے پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، جناب دھنکڑ نے کہا، "یہ ایک خطرہ ہے۔ آپ کو اسے روکنا ہوگا۔ اگر پیپر لیک ہوتا ہے تو آپ کے انتخاب کا مبنی بر انصاف ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اور پیپر لیک ہونا ایک صنعت، تجارت بن چکا ہے۔ لوگ، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں امتحانات سے ڈرتے تھے۔ سوال کتنا مشکل ہو گا۔ ہم اسے کیسے حل کریں گے؟ اب انہیں دو خوف لاحق ہیں۔ ایک امتحان کا خوف۔ دوسرا، پیپر لیک ہونے کا خوف۔ چنانچہ جب وہ امتحان کی تیاری کے لیے کئی مہینوں اور ہفتوں تک خوب محنت کر رہے ہوتے ہیں، تو انھیں پیپر لیک ہونے کا دھچکا لگتا ہے۔
سیاست کی منقسم اور تفرقہ انگیز نوعیت کو اجاگر کرتے ہوئے نائب صدر نے کہا، "اس وقت ہماری سیاست بہت زیادہ منقسم اور تفرقہ انگیز ہے۔ سیاسی تنظیموں میں اعلیٰ سطح پر تعامل نہیں ہو رہا ہے۔ جب بات ملک کی ہو، اور ایسے وقت میں جب دنیا ایک تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہی ہے، یہ ہندوستان کی صدی ہے۔ اس صدی کو لوگوں کے فائدے کے لیے مکمل طور پر صرف اسی صورت میں کارآمد بنایا جا سکتا ہے جب ہمارے پاس پرسکون سیاسی ماحول ہو....ہمیں سیاسی آگ بجھانے والے آلات کی ضرورت ہے۔ ایک سیاسی تفرقہ بازی، ایک تباہ شدہ سیاسی آب و ہوا اس موسمیاتی تبدیلی سے کہیں زیادہ خطرناک ہے جس کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، "سیاست میں ہم آہنگی صرف خواہش مند سوچ نہیں ہے، ایک مطلوبہ پہلو ہے۔ ہم آہنگی ضروری ہے۔ اگر سیاست میں ہم آہنگی نہیں ہے، اگر سیاست تفرقہ انگیز ہے، تقسیم گہری ہے، مواصلاتی ذرائع کام نہیں کررہے ہیں، تصور کریں کہ آپ پرخطر دور میں ہیں، آپ کھو گئے ہیں اور آپ کا بیرونی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے، حالات آپ کے لیے خوفناک ہوں گے‘‘۔
مضبوط اداروں کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے، جناب دھنکڑ نے کہا کہ، " اداروں کا کمزور ہونا۔ کوئی بھی ادارہ کمزور ہو جائے تو نقصان پوری قوم کو ہوتا ہے۔ کسی ادارے کا کمزور ہونا جسم پر چبھن کے مترادف ہے۔ پورے جسم میں درد ہو گا۔ اس لیے میں کہوں گا کہ ہمیں اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے۔ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ انہیں ہم آہنگی کے موڈ میں ہونا چاہئے۔ جب قومی مفاد کی بات ہو تو انہیں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہیے۔
قوم کو درپیش مسائل کو نظر انداز کرنے کے بجائے مکاملے اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، جناب دھنکڑ نے کہا، "ہم ایک ایسا ملک ہیں جہاں مختلف نظریات کی حکمرانی یقینی ہے اور کیوں نہیں؟ یہ ہمارے معاشرے میں شمولیت کا جذبہ نظرآتا ہے۔ اس لیے میں اس پلیٹ فارم سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ تمام لوگ جو حکمرانی کی نشست پر ہیں، ہر سطح پر، انہیں مکالمے کو بڑھانا چاہیے، اتفاق رائے پر یقین رکھنا چاہیے، ہمیشہ غور و فکر کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ملک کو جن مسائل کا سامنا ہے انہیں پس پشت نہیں رکھا جانا چاہیے۔ ہم مسائل کو مزید ٹھنڈے بستے میں نہیں ڈال سکتے۔ نہیں، ان کو جلد از جلد حل کرنا ہو گا.... میں تمام سیاسی جماعتوں کی سینئر قیادت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ایک ایسا ایکو سسٹم اور ماحول تیار کریں جو بات چیت، بحث و مباحثے، رسمی و غیر رسمی،کو فروغ دے سکے۔ متفقہ نقطہ نظر، بحث ہماری تہذیبی اخلاقیات میں گہرائی سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ ایک پیغام ہے جو ہم دنیا کو دیتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے لیے اس پیغام پر عمل کریں۔
معاشرے میں دانشوروں کے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے، انہوں نے کہا، "دانشوروں کو ہماری رہنمائی کرنی چاہیے۔ دانشوروں کو آگ بجھانے والا ہونا چاہئے جب معاشرتی ناموافقت ہو، جب کوئی مسئلہ ہو۔ میں نے دیکھا ہے کہ دانشوروں کے گروپ بنتے ہیں۔ وہ ایسے معاہدوں پر دستخط کرتے ہیں جو انہوں نے نہیں پڑھے ہوں گے۔ ان کے خیال میں اگر کوئی خاص نظام اقتدار میں آتا ہے تو معاہدے پر دستخط کرنا ایک عہدہ حاصل کرنے کا پاس ورڈ ہے۔ اب دانشوروں، سابق نوکر شاہوں ، سابق سفارت کاروں کو ہی دیکھ لیں۔ آپ نے عوامی خدمت کا ایک درجہ حاصل کیا، جس کی دوسروں کو تقلید کرنی چاہیے۔ آپ کو نمائندگی میں بامقصد ہونا چاہئے۔ آپ سیاسی صف بندی کی تبدیلی کے ساتھ اپنے مفادات کے لیے کوئی گروپ نہیں بنا سکتے۔
کرناٹک کے عزت مآب گورنر جناب تھاور چند گہلوت، کرناٹک کے عزت مآب وزیر اعلیٰ جناب پریتی سدان، یو پی ایس سی کے چیئرمین جناب آلوک ورما، ہریانہ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین جناب شیو شنکر اپا، کرناٹک پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین ایس ساہوکار اور دیگر معززین بھی اس موقع پر موجود تھے۔
**********
(ش ح –ا ب ن)
U.No:5100
(Release ID: 2092085)
Visitor Counter : 30